ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

اک آگ کا دریا تھا! آگ اور خون سے عبارت سچی داستانِ آزادی – بتول اگست ۲۰۲۲

ہماری نانی جان جنھیں ہم بڑی محبت اور دلار سے بڑی امی کہہ کر پکارتے تھے ، اسکول کی دو ماہ کی چھٹیاں گزارنے ان کے پاس سرگودھا رہنے جاتے۔
کبھی کبھی گھر کے کاموں میں بظاہر مصروف بڑی امی کی خوبصورت آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ۔ کبھی کسی خاص موسم کو دیکھ کر ، کسی خاص پکوان کو تیار کرتے ہوئے۔ اس کی خوشبو میں شاید کسی کی یادیں چٹکیاں لیتی تھی ۔کبھی بچوں کو ان کے اپنے بچپن کے تانبے اور پیتل کے برتنوں سے’’ آپا بوا‘‘کے کھیل میں منہمک دیکھ کر ان کے ضبط کے بندھن ٹوٹ جاتے ۔ان کے شوہر، بیٹیاں اور بیٹا جان جاتے کہ پریشانی کیا ہے۔موسم کے رنگوں،پکوان کی خوشبو ،مخصوص کھیل کے تانے بانے کہاں سے جا کر ملتے ہیں ۔وہ سب ان کی دلجوئی کی خاطر جمع ہو جاتے۔تسلیاں دیتے ،دل بہلاتے لیکن ان کی طبیعت کسی غم کے بوجھ تلے دبی سسکتی رہتی۔
کبھی بے کلی کے ان لمحات میں وہ اپنی ایک پرانی کتاب کا ورق کھول کر کافی دیر اسے دیکھتی رہتیں ۔اس میں جذب اور گم ہو جاتیں ۔ آنکھوں سے آنسو قطاراندر قطار بہتے چلے آتے ،پھر وہ اس میں سے ایک پیاری سی چھوٹی سے معصوم بچی کی بلیک اینڈ وائٹ تصویر نکالتیں اور….. میری بہن…..میری منیا…..میری پیاری منیا…..کی دبی دبی سسکیوں کے ساتھ تصویر کو چومتیں، سینے سے لگاتیں ،ان کی آنکھوں سے بہتے آنسو منیا کی تصویر میں عین آنکھوں میں جمع ہو جاتے اور تصویر کو سیدھا کرنے سے وہ آنسو تصویر کی آنکھوں سے بہتے ہوئے گالوں پر لڑھکتےمحسوس ہوتے ۔ گویا دونوں بہنیں جدائی کا غم ہلکا کر رہی ہوں!
یہ دراصل اس داستان آزادی پاکستان کی تمہید ہے ،جس کے لیے ہندوستان کے مسلمانوں نے جان مال اور بعض نے اپنے پورے خاندانوں کی قربانیاں دیں۔
تکمیل پاکستان کی جدوجہد میں آگ اور خون کے دریا پار کر نے کے الفاظ آج شاید محاورہ بن گئے ہوں لیکن بچپن سے ہمارے کانوں نے اپنے ننھیال اور دودھیال کے بزرگوں سے تحریکِ آزادی ، اعلانِ آزادی ،اور سفر آزادی کی جو مرحلہ وار داستانیں سنیں ہیں وہ ہماری نظروں کے سامنے کسی فلم کی مانند متحرک محسوس ہوتی ہیں،جس کا عنوان آگ اور خون سے عبارت ہے۔ مال ، جان اور اسباب زندگی کو جلاتی جھلساتی آگ اور اس آزادی کی جدوجہد میں رنگ بھرتا ہؤا خون جگر !
اعلانِ آزادی کے ساتھ ہی ہندوؤں کے اکٹھ ہندوستان کے خواب چکنا چور ہوگئے تھے ، تقسیم کی خبر ان پر بجلی بن کر گری تو انھوں نے سکھوں کے ساتھ مل کر اندھا دھند انتقامی کارروائیوں میں مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے ، اس کی ایک جھلک بیان کرنے کے لیے بھی حوصلہ درکار ہے ،لیکن اس نسل کو یہ امانت قوم کے معماروں کے سپرد کرنی ہوگی ۔
ہماری نانی زبیدہ خاتون ، جنھوں نے طویل عمر پائی اور جو ہماری بڑی امی تھیں ،قیام پاکستان اور اپنی شادی سے قبل ایک بھرے پرے ہنستے بستے خاندان کی نورِ نظر تھیں۔ چار بہنیں اور چار بھائی تھے جن میں وہ سب سے بڑی تھیں۔حسب دستور کم عمری میں ہی ان کی شادی ہو گئی ۔ اور یہ گھر اب ان کا میکہ ٹھہرا۔ میکہ پہاڑ گنج دہلی میں تھاجب کہ سسرال جامع مسجد کے قریب تھا ، ایک بیٹی رضیہ جو ہماری امی ہیں ، پیدا ہوئیں ، جلدہی آنگن میں دو کلیاں اور کھل گئیں۔
ذمہ داریاں بڑھیں تو سب سے چھوٹی بہن منیا اکثر گھر رہنے آجا تی اور ننھی بھانجیوں سے کھیلتی اور کسی حد تک سنبھال بھی لیتی ، چار ماموؤں اور تین خالاؤں کے لاڈ پیار کے جھرمٹ میں پہلی پہلی بھانجیاں بہت خوش رہتیں ۔خصوصاً منیا کے کچھ دن گھر جانے سے بے چین ہو جاتیں ،اس لیے اب زیادہ تر وہ یہیں رہتی ،کمسن بھانجیوں کے اذہان ابھی صرف ان لمحات میں خوشی کا اظہار کرنے کے قابل تھے ابھی یادداشت میں محفوظ کرنے کی صلاحیت نہیں تھی، کہ وہ لمحہ آ گیا جب ہر طرف قیامِ پاکستان کے اعلان پر مبارک سلامت کا شور برپا تھا،آزادی کے پرچم لہرائے جارہے تھے ،ہندو مسلم علاقوں کی تقسیم نے ایک ہلچل سی پیدا کر دی تھی ،مسلمان قائد اعظم کی قیادت میں پاکستان کا مقدمہ جیتنے پر خوشی سے سرشار تھے ۔ نعرہ تکبیر اللہ اکبر سے فضائیں گونج رہی تھیں کہ یکدم ہندوؤں کی نفرت وحسد کی آگ بھڑک اٹھی اور انھوں نے سکھوں کو ساتھ ملا کر مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کی آخری اور حتمی کارروائیوں کا آغاز کر دیا،ہر طرف دھوئیں کے سیاہ بادل چھانے لگے،جگہ جگہ بستیوں میں مسلمانوں کی املاک کو مکینوں سمیت نذر آتش کیا جانے لگا ۔ گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے ماحول ہیبت ناک ہو گیا تھا، مسلمانوں کے محلے میں سکھ کرپانیں لہراتے دہشت ناک قہقہے لگاتے گھوم رہے تھے۔ ہندو بنیے تلواریں سونت کر میدان میں اتر آئے تھے ۔
ہماری نانی کا محلہ ابھی اس آفت سے محفوظ تھا، وہ لوگ مطمئن تھے کہ ابھی تک سب ٹھیک چل رہا تھا ۔عید کا دن نزدیک تھا اس لیے چھوٹی بہن کو بھائی لینے آگئے تھے کہ امی نے بلایا ہے ،تا کہ گھر سے نہا دھو کر تیار ہو کر واپس آجائے ، لیکن منیا کسی صورت جانے پر راضی نہ تھی۔ بمشکل اسے تیار کیا اور شام تک واپس چھوڑنے کا وعدہ کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔
آہ وہ شام جو پھر کبھی لوٹ کر نہ آئی !
جس طرح پتیاں پھول سے بچھڑ کر واپس نہیں آتیں اسی طرح وہ سرمئی رنگت والی شام بھی رخصت ہونے لگی تھی ۔ بار بار باہر جھانکتی بڑی امی تشویش میں مبتلا تھیں کہ منیا کو بھائی ابھی تک لے کرآخر لوٹے کیوں نہیں ہیں۔ شام کو رخصت کرنے رات کے لمبے سائے بھی پھیلنے لگے تھے اور منیا ابھی تک واپس نہ لوٹی تھی ۔آس کے سارے دیپ بجھنے لگے تو کسی کو میکے کی طرف بھیج کر حالات معلوم کروانے کی کوششیں شروع ہوئیں۔ اس خبر نے پریشان کر دیا کہ محلے کی طرف جانے والے راستوں پر ہندوؤں اور سکھوں کا پہرا ہے ،نہ کوئی اندر سے باہر آ سکتا ہے اور نہ کوئی باہر سے اندر جا سکتا ہے ۔
اب بڑی امی کو اپنے گھر والوں کی شدید فکر لاحق ہو گئی خصوصاً رہ رہ کر منیا کو امی کے گھر بھیجنے پر سخت پچھتاوا ہورہا تھا ۔وہ اپنی سب سے چھوٹی بہن کو اپنے بچوں کی طرح عزیز رکھتی تھیں۔
کاش میں اس کی نہ جانے کی ضد پر اسے گھر جانے کا نہ کہتی اور اسے روک لیتی…..نہ جانے وہ سب کس حال میں ہوں گے!
جائے نماز بچھا کر وہ بار بار سربسجود ہو جاتیں۔ایسے میں ان کے شوہر (ہمارے نانا)پریشانی کے عالم میں گھر میں داخل ہوئے اور خاموشی سے بیٹھ گئے ۔بڑی امی تیزی سے لپکیں کہ معاملہ کیا ہے ۔لیکن ان کی زبان گنگ تھی ،بمشکل اتنا زبان سے نکلا کہ ان کے والدین کے محلے کو آگ اور دھوئیں نے لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔سنگدل ہندو بنیے اور سکھ شیطان بنے ہوئے ہیں اور مدد کے لیے کسی کو قریب پھٹکنے نہیں دے رہے۔
یہ خبر بڑی امی کے حواسوں پر بجلی بن کر گری اور ان کی حالت غیر ہو گئی۔پھر اسی پر بس نہیں،پورے تین دن اور تین راتیں یہ لوگ اذیت کی سولی پر لٹکے رہےکہ کہیں سے گھر والوں کی خیر خبر کی اطلاع مل جائے۔پیاروں کے غم میں چولھے ٹھنڈے پڑے تھے،حلق سے پانی کا ایک گھونٹ نیچے نہیں اتر رہا تھا۔منیا کے عید کے کپڑے جوں کے توں گوٹا کناری کے کام سے سجے ٹرنک پر دھرے تھے ۔اس کے پیتل اور تانبے کے آپا بوا والے کھلونے اس کے منتظر تھے ۔بچیوں نے بھی آنکھ اٹھا کر کسی کھلونےکی طرف نہیں دیکھا ۔انھیں منیا ہی ان کھلونوں سے کھیل کر بہلاتی تھی۔کچھ دن پہلے ہی کھینچی گئی منیا کی فوٹو نکال کر وہ بے تحاشا اسے آنکھوں سے لگا کر روتی رہتیں ۔
ان پریشان کن لمحات میں ہر اچھی خبر واہمہ اور ہر بری خبر عین الیقین لگتی ۔امید وبیم میں ڈوبی ایک خبر آئی کہ بستی میں ٹرک داخل ہو رہے ہیں ، شاید کچھ مدد آگئی ہے ۔ٹرکوں کے آتے ہی ہندو سکھ جے شری رام کے نعرے لگاتے سکھ کرپانیں لہراتے فتح مندی سے اودھم مچاتے بھاگ کھڑےہوئے ۔ٹرک زندگی کی گہماگہمی سے بے نیاز اس قبرستان نما بستی میں داخل ہوئے تو کوئی مدد کے لیے پکارنے والا نہ تھا ۔گھروں کے کواڑ باہر سے بند تھے ۔لکڑیوں کے بڑے بڑے تختے ٹھونک کر انھیں بلوائیوں نے سیل کر دیا تھا تا کہ اندر موجود لوگ باہر نہ نکل پائیں اور تڑپ تڑپ کر شہید ہو جائیں۔ہندو ذہنیت ظلم وجور کی انتہا کو چھو رہی تھی ،آس پاس کی بستیوں سے مسلمان یہاں مدد کے لیے پہنچ رہے تھے ۔
گھروں کے بند کواڑ تو ڑے گئے تو اندرونی منظر دل دہلا دینے والا تھا ۔مسلمانوں کی تین دن تک جلتی اور سلگتی ہوئی سوختہ لاشیں ہر گھر میں ادھر ادھر بکھری ہوئی اور ایک دوسرے کو بچانے کی خاطر ایک دوسرے سے لپٹی ہوئی بربادی کا نوحہ سنا رہی تھیں ،ان میں سے دھواں کسی تھکے ہوئے فریادی کے منہ سے نکلی ہوئی آہوں کی مانند آسمان کی جانب دھیرے دھیرےبلند ہورہا تھا ۔
والدین ،چار جوان بھائیوں اور تین بہنوں کے ساتھ پڑوس میں دو پھوپھیوں کے خاندان بھی رہائش پذیر تھے ۔یہ سب شہادت کے عظیم درجے پر فائز ہو چکے تھے۔نہ کسی کو شناخت کا موقع دیا گیا ،بس ٹرک آتے گئے اور کواڑ توڑ کر لاشیں ٹرکوں میں رکھ کر نامعلوم منزل کی جانب روانہ ہو جاتے ۔ ایسے ہی ایک ٹرک میں زخموں سے چور نحیف و نزار وجود میں معمولی سی جنبش محسوس ہوئی کہ لاشیں رکھنے والا ایک شخص چلا اٹھا ۔
یہ زندہ ہے…..یہ زندہ ہے۔
لاشوں کے انبار میں دبے ہوئے اس گھائل وجود کو باہر نکالا گیا تو یہ ایک عورت تھی جو نیم بیہوش تھی ۔اسے فوراً ایمبولینس کے ذریعے ہسپتال روانہ کر دیا گیا۔
یہاں سے اس سچی داستان آزادی میں دو کہانیاں جنم لیتی ہیں ۔ ایک اس بچ جانے والی عورت کی لرزہ خیز داستانِ کرب اور دوسرا ہماری نانی یعنی بڑی امی کے گھر کے ایک اور بچ جانے والے مکین، ان کے والد صاحب، جن کی بینائی بھی متاثر تھی ۔ حملے کے اس ہنگامے میں جب ہندو بلوائی راستہ بند کر رہے تھے ،عین اس وقت مسجدوں کے میناروں سے مؤذن کی درد میں ڈوبی رقت آمیز اذان مغرب کی تکبیرات بلند ہوئیں تو ان سے رہا نہ گیا اور مسجد جانے کی تیاری کرنے لگے۔ گھر والوں نے روکا تو کہنے لگے، موت اور زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے ،سب کو فکر مند چھوڑ کر اپنی طرف سے تسلیاں دے کر مسجد روانہ ہو گئے ۔انھیں کیا معلوم تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مسجد کو ان کی جائے امان بنایا ہے اس لیے وہ جلاؤ گھیراؤ کے بیچ میں سے بچ بچا کر مسجد پہنچے ۔ مسجد کی زمین ان کے پیروں کو لگی ہوئی تھی اس لیے دھندلا نظر آنے کے باوجود وہ پہنچ گئے ۔
مسجد میں داخل ہونے کے بعد انھیں احساس ہؤا کہ باہر کے حالات تیزی سے خراب ہو رہے ہیں ۔ہر طرف چیخ و پکار عورتوں اور بچوں کی آہ و بکا ،لوگوں کے دوڑنے کی آوازیں …..ست سری اکال …..اور جی شری رام کے نعرے ماحول میں دہشت کے سارے رنگ بھر رہے تھے ۔حالات کی نزاکت دیکھ کر مسجد انتظامیہ نے مسجد کے دروازے اندر سے بند کر دیے اور کسی کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی۔اتنے میں باہر ہندو اور سکھ جمع ہو کر نعرے لگانے لگے۔ہماری نانی یعنی بڑی امی کے والد دیگر نمازیوں کے ساتھ اپنی کمزور آنکھوں سے مسجد کے صحن کے اس پار اپنی ہنستی بستی کائنات کو لحظہ لحظہ آگ اور شعلوں کی نذر ہوتا دیکھ رہے تھے۔جنھیں چند ساعتوں پہلے تسلی دے کر آئے تھے وہ سب محصور ہو چکے تھے۔مسجد میں قید نمازی دیوانہ وار یہاں سے اپنے گھروں کی طرف جانے کی کوشش کر رہے تھے ۔لیکن مسجد کے بند دروازوں کے پیچھے بے بس پنچھیوں کی طرح تڑپ رہے تھے۔باہر سخت پہرا لگا تھا۔
دو راتوں کے بعد تیسرے دن کا سورج طلوع ہؤا تو ٹرکوں کی آمد کے ساتھ بلوائیوں نے اپنی جگہیں چھوڑیں اور یہ سب مسجد سے نکل کر گھروں کی جانب دوڑے ۔
گھر کیا تھے !راکھ کے جلے ہوئے شہتیروں کے ڈھیر تھے جن میں نہ گھروں کی پہچان تھی اور نہ اپنے پیاروں کی ۔
ایسے موقع پر آنسو بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں ۔بیوی ،چار بیٹے تین بیٹیاں اور برابر والے گھروں میں دو بہنوں کے گھر تھے جو اپنے خاندانوں سمیت رہائش پذیر تھیں لیکن تین دن کی قیامت نے سب کچھ ختم کر دیا تھا۔شہدا ءکو ٹرکوں میں لاد کر نامعلوم منزل کی جانب روانہ بھی کر دیا گیا تھا ۔اس لیے انھیں کچھ نہیں پتہ چل رہا تھا کہ کون بچا اور کون جام شہادت نوش کر گیا ۔صدمے سے وہ خود بھی خستہ حال ہو چکے تھے ۔ ڈار سے بچھڑی ہوئی کونج کی طرح وہ تنہا رہ گئے تھے۔جلد ہی امدادی کیمپ روانہ کر دئیے گئے۔زندگی میں بس ایک ہی امید رہ گئی تھی کہ اپنا سب کچھ لٹا کر اس خونی بستی سے نکل جائیں ۔اب ان کی منزل پاکستان ٹھہری تھی جس سے انھیں مدینہ کی طرح کی ٹھنڈی ہوا آرہی تھی ۔یہ حافظ قرآن تھے اور مسجد و قرآن سے رشتہ بڑا مضبوط تھا ،بس اس تعلق نے انھیں تھامے رکھا۔
وہ پاکستان جس کی خاطر ان کی طرح کے ہزاروں خاندان جام شہادت نوش کر چکے تھے…..ہزاروں عصمتیں لٹ چکی تھیں…..دودھ پیتے بچے نیزے کی انیوں پر اچھالے جا چکے تھے…..کیمپ سے انہیں جلد ہی وہاں روانہ کر دیا گیا۔ان کے اندر اپنی بیٹی زبیدہ (بڑی امی)کے پاس پہنچنے کی سکت بھی باقی نہ رہی تھی ۔انھیں ان کی طرف سے تشویش تھی لیکن وہ کیا خبر سناتے!
دوسری طرف نانی کو جب صورتحال کا علم ہو چکا تو گھر والوں نے فورا ًرختِ سفر باندھنے کا ارادہ کر لیا ۔اور ہماری نانی بڑی امی اس عظیم صدمے کو ساری عمر کا روگ بنائے پاکستان ہجرت کے لیے تیار ہو گئیں۔ان کے دونوں دیور فوج میں تھے جو اب تقسیم کے معاہدے کے تحت پاک فوج کا حصہ بن چکے تھے ۔ان کے انتظام کے ذریعے فوجی طیارے میں وہ سب پاکستان آگئے ۔ان کا نیا شہر سرگودھا تھاجو بعد میں شاہینوں کا شہر کہلایا ۔
بڑی امی کے نیم نابینا والد تن تنہا کیمپ سے پاکستان کیسے پہنچے؟ وہ عورت کون تھی جو لاشوں کے ڈھیر میں زندہ رہ گئی تھی؟
ایک دن ریڈیو پاکستان سے ایک اعلان ہؤا ،جس سے نانی میں زندگی کی لہر دوڑ گئی ۔وہ اعلان ان کے خاندان کے ایک فرد کے بارے میں تھا۔وہ اعلان کیا تھا ؟اس خبر کے پیچھے وہ لوگ کتنا پریشان ہوئے ۔ نانی کو یقین تھا چھوٹی بہن منیا زندہ ہے ۔کیا وہ اعلان منیا کے بارے میں تھا؟
(جاری ہے)
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x