ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

لڑکی اور لڑکے کی تربیت میں فرق ؟شخصیت کی تعمیر کن بنیادوں پر ہونی چاہیے – بتول اگست ۲۰۲۲

بات بچوں کی تربیت کی ہو رہی تھی اور چلی مرد کی مردانگی پر گئی۔ کچھ کے خیال میں گھر کے کام صرف عورتوں سے منسلک ہیں لہٰذا مردوں سے جوڑنا مناسب نہیں چاہے وہ بچے ہی کیوں نہ ہوں۔ لڑکوں کے تربیتی مراحل میں ایسا کوئی حصہ نہیں ہونا چاہیے جس کا تعلق گھر کے کاموں کچن وغیرہ سےہو کہ اس سے ان کی مردانگی پر حرف آئے گا۔ ایک صاحبہ کا کہنا تھا گھر کے کام سکھا کر انھیں ہیجڑا نہ بنائیں مردوں سے مردانہ کام ہی کروائیں۔
اس بحث کے تناظر میں بچوں کی تربیت کے حوالے سے کاموں کو علیحدہ کرنے کا سوچا تو کئی الجھنیں در آئیں ۔کچھ بنیادی سوالات بھی تھے ۔ نفسیات کی ایک پروفیسر سے ملاقات میں کچھ الجھنیں کہہ ڈالیں۔
گویا ہو ئیں ایک بچے کی کامیابی کا سفر اس بات سے شروع ہوتا ہے کہ وہ مختلف کاموں کا خود تجربہ کرےکسی بھی کام کو غیر اہم اور چھوٹا نہ سمجھےخود سےسوچے غور کرے اپنے عمل کی راہ نکالے۔
یہی چیز انسان کی فطرت میں بھی ہے۔ بچہ ابتدا میں ہر کام کی نقل کی کوشش کرتا ہے اسے ہر کام ہی اہم لگتا ہے۔آہستہ آہستہ وہ اپنا دائرہ کار سمجھ کر اپنا الگ انداز اختیار کرنے لگ جاتا ہے۔ وہ ابتدا میں جہاں ماں کی طرح برتنوں میں ہاتھ ڈالتا ، آٹا گوندھنا چاہتا ہے تو دوسری طرف بیگ لے کر آفس جانے کے انداز میں دروازے پر بھی جاتا ہے۔ لہٰذا عمومی طور پرایک ماں کو بغیر کسی تفریق کے بچوں کو اپنے سب کاموں میں شریک کرنا چاہیے۔ وہ سب سکھانا اور کرنے دینا چاہیے جو وہ کرنا چاہتے ہیں۔ماں کی گود کو خاص حکمت کے تحت لڑکیوں ہی نہیں لڑکوں کی بھی تربیت گاہ کہا گیا ۔ورنہ صرف والد کے کندھے ہی لڑکوں کی تربیت کے لیے متعین کیے جاتے۔گھر پہلا تعلیمی ادارہ ہونے کی حیثیت میں ہر کام میں ماں کی معاونت، دسترخوان لگانا ،سمیٹنا ، برتن دھونا ، جھاڑو لگانا، ناشتہ بنانا،کپڑے دھونا ،استری کرنا جیسے کام بغیر تفریق بچوں کو سکھائے جانےچاہئیں۔ابتدائی دور کے بعد لڑکے اور لڑکیوں کی تربیت ان کے خاص دائرہ کار کے حوالے سے بھی ہونی چاہیے۔ ایسے کام ایک لڑکا اپنے والد کی معیت میں رویے سے لے کر،خرید و فروخت، سودا سلف لانے ، تعلقات ،ذمہ داریاں محسوس کرنے ،گھر کو منظم کرنے میں ساتھ رکھنے سے سیکھتا ہے۔جبکہ بچیاں ماں کے ساتھ پکانے ، سینے پرونے جیسی مہارتوں کے ساتھ رشتوں کی نزاکتیں، باریکیاں سمجھتی اور سیکھتی ہیں ۔تعلیمی اداروں میں تعلیم کا مخصوص بنیادی حصہ لڑکے اور لڑکیوں کا اپنے اپنے دائرہ کار کے حوالے سے الگ الگ ہونا چاہیے ۔
موجودہ دور میں تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل بچوں کی اکثریت اپنے عملی میدان سے یکسر نابلد بلکہ کسی حد تک باغی ہے۔ایسے میں گھر کے اندربچوں کے لیے کچھ کاموں کو مردانگی کے خلاف گرداننا تربیت کے عمل کی بنیادی غلطی ہے ۔ جس کے خطرناک نتائج آنے والے دور میں ان سے متعلقہ رشتوں کو بھگتنے پڑسکتے ہیں ۔
انھوں نے ایک تاجر برادری کی روایات بھی بتائیں۔ کہنے لگیں ان کے ہاں بچوں کو گھر کے اندر کے ہر کام جھاڑ پونچھ ،کھانا بنانا،دھلائی میں شریک رکھا جاتا ہے ۔ کھیل کود ،ورزش ، تیراکی تمام بچوں کے معمولات کا حصہ ہوتی ہیں ۔
پرائمری کے بعد ان کے الگ الگ دائرہ کار کی تربیت شروع ہوجاتی ہے۔لڑکوں کو بزنس لائن کی ابتدائی تربیت کے لیے چھٹی کلاس سے ہی ہفتہ وار اور سالانہ چھٹیوں میں کسی دکان پر بٹھایا جاتا ہے اس دوران ان سے جھاڑو لگوانا، چائے بنوانا، گاڑی صاف کرنا ، وقت پر آکر دکان کھول کر سیٹنگ کرنا جیسے کام لیے جاتے ہیں تاکہ ان کے دلوں میں کام کی عظمت پیدا ہو جائے،کسی کام کے چھوٹا بڑا ہونے کا تصور ختم ہو جائے ۔ پھر بتدریج ان سے سامان اٹھوانا،اور دیگر مزدور وں کے ساتھ رات گئے تک کام لیے جاتے ہیں۔ایسے میں بچوں کے رونے دھونے واویلا مچانے کی ذراپروا نہیں کی جا تی ۔ امیر کبیر والدین دل پر پتھر رکھ کر اس بھٹی میں بچوں کو جلاتے کندن بناتے ان کی بنیادوں میں احساس کا مادہ پیدا کرتے ہیں۔ دوسری طرف لڑکیوں کے لیے ابتدا ہی میں سینا پرونا ، گھرداری کی بنیادی روایات سیکھنا لازم ہے ۔ اس سلسلے میں بالکل ڈھیل نہیں دی جاتی۔
بقول شاعر:
تو خاک میں مل اور آگ میں جل،جب خشت بنے تب کام چلے
ان خام دلوں کے عنصر پر بنیاد نہ رکھ تعمیر نہ کر
جہاں مستقبل کے تاجر ،سیٹھ اسی بھٹی سے کندن بن کر نکلتے ہیں ۔ وہیں ہر فن میں طاق مضبوط مائیں میسر آتی ہیں ۔پہلے سبق میں خاک میں ملنا ، آگ میں جلنا ان کے قدم جما ئےدیتا ہے۔بچےمحنت اور مشقت کے عادی ہو جائیں تو زندگی کے گویا بڑے مراحل کی پیش قدمی کی راہ ہموار ہوتی ہے ۔
لہٰذا بات گھر میں کاموں کی تفریق کی نہیں محدود ذہنیت اورتوازن سے ہٹنے کی ہے۔گزشتہ دور میں اسی رویے نےایک طرف مردوں کو نام نہاد مردانگی کے زعم میں مبتلا کر کے ناکارہ کیاہےتو دوسری طرف عورت پر حد درجہ سختی نے اسے دہرے بوجھ میں مبتلا کیاہے۔
اس کا منفی ردعمل موجودہ دور میں دیکھا جا سکتا ہے۔جب ایک طرف مردوں کی غیر ذمہ داری بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف عورتیں اپنے کاموں اور ذمہ داریوں سے باغی ہونے کی روش پر ہیں کہ انھیں لگتا ہے ان کی قربانیوں کی قدردانی ماضی میں نہیں ہوئی، مردوں نے ان کی خدمت کو اپنا ازلی حق سمجھ کر وصول کیا ہے تو دوسری طرف مردوں کی طرف سے اپنی معاونت کی راہ میں ان کی مردانگی کو ہمیشہ حائل پایا ہے۔
گزشتہ دنوں ایک کزن کے گھر میں جانا ہؤا۔ ان کی دیورانی صاحبہ غم و الم کی تصویر دکھائی دیتی تھیں۔ گھنٹہ بھر کی گفتگو کا نچوڑ یہ تھا کہ ماں نے کام کو ہاتھ نہ لگانے دیا کہ انھوں نے خود ایک سخت زندگی گزاری تھی۔ کچن تک جانا ،چار لوگوں کے لیے پکانا ان صاحبہ کے لیے دنیا کا مشکل ترین کام ہی نہیں عذاب بن چکا ہے ۔اسی کیفیت میں وہ روز جیتی روز مرتی ہیں ۔
قابل عمل بات یہ ہے کہ آپ آسائشات کے ڈھیر پر بھی بیٹھے ہوں زندگی کی حقیقت کو نظر انداز نہ کریں۔ زندگی کبھی بھی ہموار راستہ نہیں رہی اونچ نیچ کا مجموعہ ہے۔بچوں کو اس کی حقیقت بتاکر کارآمد بنانا انتہائی اہم ہے۔ انھیں ہمیشہ آپ کے محلات اور جمع کردہ سہولیات میں نہیں رہنا ۔ جلد اپنا الگ جہاں بنانا ،نئی دنیا آباد کرنی ہے ۔انھیں توازن اور خود داری سے زندگی کی گاڑی چلانا ،ہر طرح کی محتاجی سے بچا کراپنے زور بازو پر بھروسہ کرنا ،آزادانہ فیصلہ کرنا سکھائیں ۔انھیں تربیت دیں کہ گھر باہم تعاون ،محبت اور خیال رکھنے سے گھر بنتے ہیں ورنہ تو وہ اینٹ گارے کے مکان ہوتے ہیں۔گھر ،گھر اسی سے ہے کہ ایک کمزور ہؤا دوسرے نے تھام لیا،ایک گرنے لگا دوسرے نے کندھا پیش کردیا۔ ایک بھلائی کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھا تو دوسرے نے حوصلہ بڑھایا ۔ ایک تنگ نظر تھا تو دوسرے کی وسعت نظری نے بلند ی پر اٹھا لیا۔
آج کا معاشرہ افراط و تفریط کا شکار غیر متوازن سوچ کا حامل معاشرہ ہے ۔صرف فکری زاویے کی درستی کی ہی ضرورت نہیں عملی نمونوں کی بھی اشد ضرورت ہے ۔
کپڑوں میں پیوند لگانا ،جوتے گانٹھ لینا ، برتنوں کی کرچیاں نرمی سے جمع کرنا اپنے کام خود اپنے ہاتھ سے کرنا ،شریک حیات سے دلجوئی اور محبت کا معاملہ ،بڑوں کا بوجھ لے لینا ،کمزوروں کی معاونت ہمارے ہی اسلاف کا شیوہ ہے ۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہر جگہ یہ نقوش چھائے ہیں ۔
اسی بحث میں ایک سوال بھی تھا۔
بچوں کی مربیہ ماں کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟ وہ حساس،خوددار، قدردان نسل کیسے تیار کرے ؟
حاصل بحث تھا۔ ماں پہلے دل پھر دماغ سے تعمیر کا عمل مکمل کرتی ہے۔ احساس ، اچھے برے کی تمیز ، دوسروں پراپنا آپ بخوشی وار دینے کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔یہ عمل ماں جیسی بے غرض ہستی ہی سکھانے کے لائق ہے۔ توازن فکر و عمل میں باپ کا خصوصی حصہ ہوتا ہے۔جہاں ماں کمزور پڑ جائے باپ ڈٹ جاتا ہے۔
دفعتاً محلے کے ایک بچے کے دو واقعات یاد آئے ہیں۔ ایک واقعہ بارہ سال پہلے کا ہے ایک خاتون سے باتیں کر رہی تھی کہ اس کا بچہ دوڑتا ہؤا آیا۔ اس کے ہاتھ میں پاپڑ کا پیکٹ تھا جسے بے ہنگم انداز میں کھاتا جا رہا تھا ،ساتھ ہی بتا رہا تھا کہ میں فلاں لڑکے سے چھین کر لایا ہوں ۔ میرے لیے حیرت کی بات یہ تھی کہ ماں نے کوئی ردعمل نہ دیا۔ بلکہ مسکراتی ہوئی بتانے لگی، یہ ایسے ہی کرتا ہے کسی کے پاس کچھ نہیں چھوڑتا چھین کر کھا جاتا ہے۔
کچھ دنوں پہلے اسی خاتون سے سالوں بعد ملاقات ہوئی ہے۔کمزور دبلا پتلا وجود پہچانی نہیں جا رہی ۔ کہہ رہی ہے بیٹے کے غم نے گھلا ڈالا ہے۔ وہ کبھی چوری کرتا کبھی ڈاکے ڈالتا ہے۔پولیس کے چکروں نے جینا محال کر ڈالا ہے ۔
اصل غلطی کہاں ہوئی تھی اسے آج بھی سمجھ نہ تھی۔
کل ہی کا واقعہ ہے بھلوال میں ایک چھوٹی سی بات پر ایک لڑکے نے محلے کے تین سگے بھائیوں کو کلاشنکوف سے قتل کر دیا ،دو شدید زخمی حالت میں اسپتال میں ہیں ۔ کوئی اتنا ظالم کیسے ہو سکتا ہے ؟
میری بات پر چچی بتانے لگیں کہ یہ سب ان کی ماں کی تربیت کا نتیجہ ہے کہ وہ بچوں کو کہا کرتی تھی کبھی کسی سے مار کھا کر نہ آنا ۔اگر کبھی بچہ کسی سے مار کھا کر آجاتا تو وہ خود اس کے ساتھ جا کر دوسرے بچے کی درگت بنا آتیں ۔بچوں کی اٹھان اسی ماحول میں ہوئی کہ ہر جھگڑے میں ماں کی مکمل معاونت ہوتی۔
ماں کو بیک وقت مضبوط اور حساس دل سے نوازنے والے رب نے اسے انسانی نمونہ بنانے کےمکمل ہتھیار دیے ہیں جہاں وہ اسے سخت ترین حالات کے لیے بھی بخوبی تیار کر سکتی ہے تودوسری طرف اسے غلط رویوں پہ ساتھ دے کر زندگی کی تلخیوں کے سپرد بھی کر سکتی ہے۔
ماں کی وسعت قلبی ایک بچے میں عبد الستار ایدھی کی روح ڈالتی ہے ۔معروف ہے وہ بچپن میں بیٹے کو دو آنے دیا کرتیں کہ ایک خود لینا دوسرا کسی اور پر خرچ کرنا ہے۔ دوسری طرف تنگ دلی ہے کہ آج کی ماں گھر میں بچوں کو بند کمرے میں کھلاتی ، اسکول لنچ دیتے کہتی ہے خود ختم کر کے آنا کسی اور کو کھلا کرنہ آجانا۔ماں دل کی امیر ہوتو غربت میں بھی شان سے کھڑا رہنا سکھاتی ہے۔ مثال سراج الحق صاحب کی ماں کی ہے۔جب بیٹے کو نئے جوتے نہیں دلا پاتی تو سر پر ٹوپی ٹیڑھی رکھتے کہتی ہے اب کسی کادھیان پھٹےجوتوں پر نہ جائے گا۔
خاندان کے لیے آرام و سکون تج دینے والی ماں کی زندگی میں بچے کے لیے بے مثال اسباق ہیں ۔
بچہ جہاں ماں سے احساس کی دولت لیتا ہےوہاں ماں کے دائرہ کار کے کاموں سے لاپروا نہیں ہوسکتا۔ ماں کے چولہے سے بھی تعلق ہوگا تو اس کی قربانیوں کاذائقہ بھی وہ چکھے گا۔ رشتوں کو جوڑنا ،مان رکھنا ،نزاکتو ں کو سمجھنا ، ماں تپتی دھوپ میں خوش رہے تو بچوں میں زندگی کاسلیقہ کیسے نہ آئے گا!
لہٰذا بچپن میں بچے کے ذہن میں مختلف بت بٹھانے کے بجائے انھیں ایک بہترین قدردان ،حساس انسان کے سانچے میں ڈھالنا اہم ہے ۔ رب کریم سمجھ عطا فرمائے ۔آمین ۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
1 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x