ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

اللہ کا شکر – بتول اگست ۲۰۲۲

اللہ کا شکر ان خوبصورت اشیاء میں سے ہے جس کا صدور اچھے انسانوں سے ہوتاہے۔شکر تین حروف پر مشتمل مختصر سا لفظ ہے لیکن اس کے معنی بہت جامع اور بہت خوبصورت احساس لیے ہوئے ہیں۔اور کیوں نہ ہو کہ جب ہم ’’اللہ تیرا شکر‘‘ کے کلمات دل کے شعور اور احساس کے ساتھ ادا کرتے ہیں تو پورا انسانی وجود ہی نہیں، اس کی روح بھی مسکرا اٹھتی ہے۔
ہمارے بہت سے اعمال ایسے ہیں جن کا تعلق انسان کی اندرونی کیفیات سے ہوتا ہے، تو شکر کی پیدائش کا مقام بھی دل ہے۔مومن بندہ اپنے دل کی حفاظت کرتا ہے اور اس کی تربیت اس انداز میں کرتا ہے کہ وہ اللہ کا ’’شکر گزار بندہ‘‘ بن جائے۔
شکر کے لغوی معنی ’’عرفان الاحسان‘‘ کے ہیں۔ یعنی کسی کے احسان کو پہچاننا اور اس کا اظہار کرنا۔ شکر حقیقت میں ہر نرمی اور آسانی پر راضی اور خوش ہونا ہے۔ اصطلاح میں شکر نعمت کا سامنا معروف طریقے سے کرنا ہے خواہ شکر زبان سے کیا جائے یا ہاتھ سے یا دل سے۔ اس میں بندہ عطا کرنے والی ذات کا شکر ادا کرتا ہے۔یعنی بندے کی شکر گزاری یہ ہے کہ وہ اللہ کی نعمتوں کا ذکر کر کر کے اس کے احسان کا اظہار کرتا ہے۔ اور بندہ جب احسان کو قبول کرتا ہے تو اس رب کی اطاعت پر جم جاتا ہے۔
اللہ کی بخشی ہوئی حکمت و دانائی اور بصیرت اور فرزانگی کا اولین تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے رب کے مقابلے میں شکر گزاری و احسان مندی کا رویہ اختیار کرے نہ کہ کفرانِ نعمت اور نمک حرامی کا۔اور اس کا یہ شکر زبانی جمع خرچ ہی نہ ہو بلکہ فکر اور قول اور عمل تینوں صورتوں میں ہو۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی کہ اللہ کے شکر گزار بنو‘‘۔ (لقمان،۱۲)
لقمان کے قصّے کے ضمن میں اللہ تعالیٰ ہمیں یہ ہدایت دیتا ہے کہ اللہ کے شکر گزار بنو، اور یہ اطلاع دیتا ہے کہ شکر تو شکر کرنے والے کے لیے ایک ذخیرہ ہے۔ اور اس کے نتیجے میں خود شاکر کو ہی نفع ہوتا ہے۔کیوں کہ اللہ غنی بادشاہ ہے، کوئی شکر کرے یا نہ کرے اللہ کی بادشاہت پر کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ تو بذاتِ خود محمود اور قابلِ ستائش ہے۔(فی ظلال القرآن، تفسیر نفس الآیۃ)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’تم مجھے یاد رکھو، میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرو، کفرانِ نعمت نہ کرو‘‘۔ (ابقرۃ،۱۵۲)
یہ ہے وہ فضل و کرم جو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔اللہ کی یاد کیسے ہو؟ الفاظ ضروری نہیں ہیں، یہ تو دل کی توجہ ہے۔اور یاد ایک دلی شعور ہے اور انفعال ہے۔ اور اس کے ادنیٰ اثرات یہ ہیں کہ بندہ اللہ کی اطاعت پر آمادہ ہو جائے۔
سعید بن جبیرؒ کہتے ہیں:
تم مجھے اطاعت کے ساتھ یاد کرو، میں تمہیں مغفرت کے ساتھ یاد کروں گا۔
اللہ تعالیٰ نے بندوں کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے: شکر گزار اور کافر نعمت ۔
ارشاد الٰہی ہے:
’’ہم نے اسے (انسان کو) راستہ دکھا دیا ہے، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا‘‘۔ (الدھر،۳)
یعنی ہم نے انسان کی بھرپور رہنمائی کی ہے کہ شکر کا راستہ کون سا ہے اور کفر کا کون سا۔اس کے بعد جو راستہ بھی وہ اختیار کرے گا وہ اس کا ذمہ دار ہو گا۔
شکر کے درجات
شکر کے کئی درجے ہیں:
۔ بندہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کا اقرار کرے۔
۔ اس کی نافرمانی سے حیا کرے۔
۔ انسان پیکرِ شکر بن جائے، بدن کی ہر حرکت، زبان کا ہر لفظ، دل کی ہر دھڑکن اور دماغ کا ہر تصور نمونہء شکر ہو۔ یہ شکر کا آخری مقام ہے۔
شکر گزاری کے مقامات
بندے کے شکر کرنے کے کئی انداز ہیں:
۔ بعض لوگ شکر گزاری اسے کہتے ہیں کہ بندہ اس منعم حقیقی کے سامنے جھک جائے۔
۔ بعض کی رائے ہے کہ شکر گزاری محسن کے احسانات کا اچھا تذکرہ ہے۔
۔ کچھ لوگوں کی رائے میں اپنی طاقت کو اس رب کی طاعت میں گھلا دینے کا نام ہے۔یعنی شکر گزار بندہ اپنے آپ کو رب کی بندگی کرنے میں تھکا دے۔
۔ ایک قول کے مطابق: شاکر وہ ہے جو موجود نعمت پر رب کا شکر ادا کرتا ہے۔اور شکور وہ ہے جو کھو جانے والی چیزوں پر بھی شکر کرتا ہے۔ یعنی شاکر عطاء پر شکر کرتا ہے اور شکور بلاء اور آزمائش پر بھی شکر کا رویہ رکھتا ہے۔
شکر نصف دین ہے
شکر نصف دین ہے اور بقیہ آدھا دین صبر میں مضمر ہے۔پس صبر اور شکر دونوں ایمان سے ہیں۔آپؐ نے فرمایا: ’’مسلمان کا حال بھی عجیب ہے، جب اسے کوئی مصیبت پہنچی تو اس نے خود کو جانچا اور صبر کیا۔اور جب اسے کوئی خیر پہنچی تو اس نے الحمد للہ کہا اور شکر کیا۔ مسلمان کو ہر چیز میں اجر دیا جاتا ہے، حتیٰ کہ اس لقمے میں بھی جو وہ اپنے منہ میں ڈالتا ہے‘‘۔ (رواہ البیھقی،۹۴۷۷)
ایک اور جگہ فرمایا: ’’مومن کا معاملہ عجیب ہے، اس کے ہر کام میں خیر ہے؛ اور یہ معاملہ مومن کے سوا کسی اور کا نہیں ہے۔ جب اسے خوشحالی ملتی ہے تو وہ شکر کرتا ہے ، اور وہ اس کے لیے خیر ہے، اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے تو وہ بھی اس کے لیے خیر ہے‘‘۔ (رواہ مسلم،۲۹۹۹)
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شکرِ نعمت کرنے والے کے نفس میں نعمت کا ایک صحیح معیار جاگزیں ہے۔وہ احسان کا فطری صلہ شکر کو سمجھتا ہے۔اور ان نعمتوں کو اللہ کے راستے میں تصرف کرنا اس کا حق سمجھتا ہے۔ اس طرح یہ شخص سرکشی سے باز رہتا ہے، نعمت پانے کے بعد خود کو دوسروں پر برترنہیں سمجھتا۔ اس نعمت کو مخلوق ِ خدا کو اذیت دینے ، شر کرنے، معاشرے میں فساد پھیلانے اور خصوصاً گندگی پھیلانے کے لیے استعمال نہیں کرتا۔
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا کفر دو طرح کا ہوتا ہے۔ایک تو یہ کہ نعمتوں کا شکر ادا نہ کیا جائے، اور دوسرا یہ کہ اس بات کا انکار کر دے کہ ان نعمتوں کو عطا کرنے والا اللہ ہے۔
جب بندہ نعمت کا شعور رکھتا ہے تو اس کے اندر پاکی آ جاتی ہے۔وہ عمل صالح کے لیے آگے بڑھتا ہے۔اور ان نعمتوں کا اچھا تصرف کرتا ہے، اس سے اس کی نعمتوں میں ترقی ہوتی ہے اور برکت ملتی ہے۔اللہ تعالیٰ کا ایسے شخص سے وعدہ ہے:
’’اگر تم شکر کرو گے تو میں اور زیادہ دوں گا‘‘۔(ابراہیم،۷)
شکر گزار قلیل ہیں
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ہم نے تمہیں زمین میں اختیارات کے ساتھ بسایا اور تمہارے لیے سامانِ زیست فراہم کیا، مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو‘‘۔ (الاعراف،۱۰)
انسانوں کی اکثریت ناشکری ہے کیونکہ وہ اپنی جہالت اور جاہلیت میں گم گشتہ راہ ہے۔کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ان گنت نعمتوں سے استفادہ کرتے ہیں مگر منعم کا حق نہیں پہچانتے اور اس نعمت کو درست طریقے سے استعمال بھی نہیں کرتے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ نبی داؤدؑ کا تذکرہ کر کے ان کے شکر کی توصیف کی:
’’اے آل داؤد ! عمل کرو شکر کے طریقے پر، میرے بندوں میں کم ہی شکر گزار ہیں۔(سبا، ۱۳)
یعنی شکر گزار بندوں کی طرح عمل کرو۔
حضرت عمر بن خطابؓ نے ایک بدو کو دعا مانگتے سنا: ’’اے اللہ مجھے قلیل لوگوں میں شامل کر لے‘‘۔تو پوچھا: یہ کیا کہہ رہے ہو؟ اس نے جواب دیا: اے امیر المؤمنین، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو (نوح پر) ایمان لائے تھے‘‘۔(ھود،۴۰)
اور اللہ نے فرمایا: ’’اور میرے بندوں میں تھوڑے ہی شکر گزار ہیں‘‘۔ (سبا،۱۳)تو حضرت عمرؓ نے فرمایا: تو نے سچ کہا۔(المجالسہ وجواھر العلم،۵۔۲۳)
شکر گزاروں کا اجر
اللہ تعالیٰ کے ہاں شکر گزاروں کے لیے بہت بڑا اجر ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کا بار بار وعدہ کیا ہے کہ وہ شکر گزاروں کو بڑا اجر عطا فرمائے گا، ارشاد ہے:
’’اور شکر کرنے والوں کو ہم ان کی جزا ضرور عطا کریں گے‘‘۔ (آل عمران،۱۴۵)
شکر کرنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیںجو اللہ کی نعمت کے قدر شناس ہوں، اور دنیا میں اپنی سعی و جہد کا نتیجہ دیکھنے کے بجائے اپنی نگاہوں کو آخرت کے اجر پر لگا کر رکھیں۔ جب ابلیس ِ لعین کو شکر کے ایسے اجر کا علم ہوا تو اس نے بھرپور کوشش کی کہ اللہ کے بندوں کو ناشکرا بنا دے اور وہ اس کی عطا کردہ نعمتوں پر شکر ادا نہ کریں، اللہ تعالیٰ اس کے ارادوں کو قرآن میں بیان کرتے ہیں:
’’میں تیری سیدھی راہ پر ان انسانوں کی گھات میں لگا رہوں گا، اور انہیںآگے اور پیچھے، دائیں اور بائیں ہر طرف سے گھیروں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا‘‘۔ (الاعراف،۱۷)
شاکرین کون ہیں؟
اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح ؑ کی تعریف فرمائی:
’’نوحؑ ایک شکر گزار بندہ تھا‘‘۔ (اسراء،۳)
حضرت موسٰی ؑکو بھی اللہ نے شکر گزاری کا حکم دیا: ’’اے موسٰی! میں نے تمام لوگوں پر ترجیح دے کر تجھے منتخب کیا کہ میری پیغمبری کرے اور مجھ سے ہم کلام ہو۔ پس جو کچھ تجھے دوں اسے لے اور شکر بجا لا‘‘۔ (الاعراف،۱۱۴)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے بعد والدین کی شکر گزاری کی تلقین کی:
’’ہم نے اسے(انسان کو)نصیحت کی کہ میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا‘‘۔ (لقمان،۱۴)
اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ ابراہیم ؑ میرا شاکر بندہ ہے:
’’واقعہ یہ ہے کہ ابراہیم ؑاپنی ذات میں ایک پوری امت تھا ۔اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا تھا‘‘۔ (النحل،۱۲۰۔۱۲۱)
حکیم لقمان نے اپنے بیٹے کو اللہ کا تعارف یوں کروایا: ’’ اگر تم کفر کرو تو اللہ تم سے بے نیازہے، لیکن وہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا، اور اگر تم شکر کروتو وہ اسے تمھارے لیے پسند کرتا ہے‘‘۔ (الزمر،۷)
اللہ تعالیٰ کی صفتِ شکر
اللہ تعالیٰ کے اسماء میں ’’الشکور‘‘ بھی ہے۔اور اس نے اپنے آپ کو’’ شاکر‘‘ بھی کہا ہے۔
فرمایا: ’’اللہ بڑا قدر دان ہے‘‘۔ (النساء،۱۴۷)
اللہ تعالیٰ اس سورۃ میں اپنے عذاب کا ذکر کرنے کے بعد اپنے شاکر ہونے کا تذکرہ فرماتا ہے۔یعنی اللہ تعالیٰ ایمان اور شکرِ الٰہی کے ذریعے لوگوں کی اصلاح چاہتا ہے، تاکہ ایمان اور شکر انہیں محبوب ہو۔وہ فرماتا ہے کہ اگر تم ایمان لاؤ اور شکر کرو تو یہ اللہ کے ہاں موجبِ مغفرت اور رضا مندی ہے۔ اور اللہ کی جانب سے بندوں کا شکریہ ہے۔اللہ کی جانب سے شکر کے معنی ہیںکہ اللہ بندے سے راضی ہے۔ (فی ظلال القرآن، تفسیر نفس الآیۃ)
ارشاد ِ الٰہی ہے:
’’اگر تم اللہ کو قرض دو تو وہ تمہیں کئی گناہ بڑھا کر دے گا اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا۔ اللہ بڑا قدردان اور بردبار ہے‘‘۔ (التغابن،۱۷)
اللہ بہت ہی برکت والا اور عظیم ہے۔ وہ بندے کو پیدا کرتا ہے رزق دیتا ہے پھر اس سے قرضہ مانگتا ہے، قرضِ حسن۔ پھر صرف قرض ہی نہیں لوٹاتا بلکہ اسے کئی گنا بڑھا کر دیتا ہے۔ پھر اپنے بندے کا شکریہ ادا کرتا ہے اور اس کے ساتھ نہایت حلم سے معاملہ کرتا ہے۔ اللہ اور اپنے غلام کا شکر، یا اللہ یہ تیرا ہی کام ہے! اور ایک عظیم انعام ہے! (فی ظلال القرآن)
اللہ کے شکر (قدردانی) کے انداز
۔نیکی کی توفیق؛ اللہ کی قدر دانی کا انداز ہے کہ وہ بندے کو نیکی توفیق عطا کرتا ہے، اور اس پر انہیں ثابت قدمی عطا کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ چھوٹے عمل کو بھی قبول کرتا ہے اور اس کی جزا اور ثواب کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے، کہ وہ قدردان رب ہے۔
۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے نیک اعمال اور شکر گزار رویے کا اتنا قدر دان ہے کہ وہ ان بندوں کا ذکر ملاء الاعلی میں کرتا ہے۔وہ فرشتوں میں ان کا تذکرہ کرتا ہے۔اور بندوں میں بھی اس کی اچھی یاد چھوڑتا ہے۔ اور بندہ اللہ کی خاطر کسی چیز کو ترک کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس سے بہتر اور افضل شے عطا کرتا ہے۔اور جب بندہ اللہ کی راہ میں اپنی کوئی چیز یا مال خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر لوٹاتا ہے۔ جب صحابہ کرامؓ نے اللہ کی خاطر اپنے گھر بار چھوڑے اور اس کی راہ میں ہجرت کی تو اس نے انہیں دنیا کی سلطنت عطا کر دی۔اور روم اور ایران جیسی مملکتیں انہیں عطا کر دیں۔اور جب یوسف علیہ السلام نے قید خانے کی تنگی میں اس کا شکر ادا کیا تو اس نے انہیں اس سرزمین پر ایسا اختیار دیا کہ وہ جہاں چاہتے اپنا حکم نافذ کرتے۔ اور جب شہداء نے اپنی جانیں اور مال اللہ کی راہ میں قربان کیے تو اللہ نے جنت میں ان کی روحوں کو سبز پرندوں کی مانند بنا دیا۔
۔ کافر کو اس کے اچھے عمل کا بدلہ دنیا ہی میں دے دینا؛ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے کہ وہ شکور ہے، وہ دشمن کو بھی اس کے اچھے عمل کا بدلہ دیتا ہے۔البتہ وہ کافر کو دنیا ہی میں بدلہ دے دیتا ہے۔اور یہ بدلہ صحت، مال، اولاد، اور متاعِ دنیا کی صورت میں ہوتا ہے۔
اور وہ اتنا قدردان ہے کہ راستے سے کانٹے دار شاخ کو ہٹا دینے والے کو بھی اجر سے نوازتا ہے۔اور پیاسے کتے کو پانی پلانے والے کو بھی بخش دیتا ہے۔ (صحیح بخاری)
اللہ تعالیٰ کیسا شاکر رب ہے کہ وہ کسی بندے کو بھی اس کے جرم کے بغیر سزا نہیں دیتا۔اور دنیا میں کسی انسان کی بھی سعی و جہد کو باطل نہیںکرتا، وہ فرماتا ہے:
’’یہ ہے تمہاری جزا، اور تمہاری کارگزاری قابلِ قدر ٹھہری‘‘۔ (الدھر،۲۲)
یعنی تمہاری سعی مشکور ہوئی۔ سعی سے مراد پورا کارنامہء حیات ہے جو بندے نے دنیا میں انجام دیا۔
ذرہ برابر ایمان کی قدر افزائی
اللہ بندوں کے نیک اعمال کا کتنا قدر دان ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیے، کہ جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان بھی ہو گا وہ اسے آگ سے نجات دے دے گا اور اس ذرے کی بھی ناقدری نہ کرے گا۔یہ کافر نہ ہونے کی جزا ہے۔ کیونکہ کفار جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ مومن بندے کا اتنا قدردان ہے کہ وہ ایک مومن جس نے بھرے دربار میں فرعون کو مخاطب کیا اور موسٰی ؑکے حق میں بات کی اللہ تعالیٰ نے اس کا تذکرہ قرآن میں کیا اور اس سورت کو ’’مؤمن‘‘ کا نام دیا۔اور جابر سلطان کے سامنے کلمہء حق کہنے والے مومن بندے کی تعریف کی۔
اسی طرح وہ مومن بندہ جس نے تین انبیاء ؑ کا انکار کرنے والی بستی کو حق کی طرف بلایااور بستی والوں نے اسے مار دیا ، سورۃ یٰسین میں اس بندے کا ذکر کیا اور اس کے مقام کی بلندی کا بھی۔اور بتایا کہ اس بستی کو انبیائؑ کا پیغام مان لینے اور ایمان لانے کی دعوت دینے پر اللہ نے اسے کیسا اجر عطا کیا کہ اسے کہہ دیا گیا: ’’داخل ہو جا جنت میں‘‘۔ا س نے کہا:’’کاش میری قوم کو معلوم ہوتا کہ میرے رب نے کس چیز کی بدولت میری مغفرت فرما دی اور مجھے باعزت لوگوں میں داخل فرمایا‘‘۔ (یس،۲۶۔۲۷)
شکر گزار بندہ کیسے بنے؟
بندہ اللہ تعالیٰ کا مشکور کیسے بنے؟ اگرچہ وہ شکر کا حق ادا نہیں کرسکتا مگر شکر کے مدارج درج ذیل طریقوں سے طے کر سکتا ہے:
۔عبادت؛ اللہ تعالیٰ کی بندگی پورے اخلاص کے ساتھ کہ وہی ہمارا ربِ حقیقی ہے۔
۔دعا؛ کسی بھی بلند درجے پر پہنچنے کے لیے دعا مومن کا ہتھیار ہے۔اور جہاں بندہ اپنے عمل سے نہیں پہنچ سکتا وہاں رب کی عنایت سے پہنچ جاتا ہے۔اس لیے بندہ اللہ سے دعا کرتا رہے:
رب سے مدد کی درخواست، اس سے علم، عملِ صالح، برکت اور رحمت کی دعائیں، اسی سے شکر کی توفیق مانگنا۔
۔ ہر نماز کے بعد ’’اللھم اعنی علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک‘‘، مانگنا۔
۔ اللہ تعالیٰ سے شکر گزاری مانگنا جیسے کہ حضرت سلیمانؑ نے مانگی:
’’رب اوزعنی ان اشکر نعمتک التی انعمت علی وعلی والدی ۔۔‘‘ (النمل،۱۹)
شکر نعمتوں کی حفاظت کرتا اور انہیں دوام بخشتا ہے
یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ شکر بذاتِ خود نعمتوں کی حفاظت کرتا اور انہیں دوام عطا کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’ اگر تم شکر گزار بنو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا‘‘ (ابراہیم،۷)
یعنی ہماری نعمتوں کا حق پہچان کر ان کا صحیح استعمال کرو گے اور ہمارے احکام کے مقابلے میں سرکشی و استکبار نہ کرو گے۔اور ہمارے مطیع و فرمان رہو گے۔یہ حقیقت ہے کہ شکر سے نعمت میں اضافہ ہوتا ہے اور کفران ِ نعمت سے انسان اللہ کی پکڑ میں آ جاتا ہے۔اسی لیے شکر کو ’’حافظ‘‘ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ موجود نعمت کی حفاظت کرتا ہے اور مفقود نعمت کو کھینچ لاتا ہے۔
حضرت عمر بن عبد العزیزؓ کا قول ہے: ’’اللہ کی نعمتوں کو شکر سے قید کر لو‘‘۔ (الشکر لابن الدنیا،۱۳)
مطرف بن عبد اللہ کا قول ہے: ’’میں شکر ہی کے ذریعے معاف کر دیا جاؤں یہ مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ آزمایا جاؤں اورپھر صبر کروں‘‘۔ (حلیۃ الاولیاء،۲:۲۰۰)
وہ چیزیں جو بندے کو شکور کے درجے تک پہنچاتی ہیں ان میں ایک’’ تحدیث ِ نعمت‘‘ یعنی نعمت کا ذکر کرنا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور اپنے رب کی نعمت کا اظہار کرو‘‘۔ (الضحیٰ، ۱۱)
یعنی رسول کریم ؐ سے بھی کہا گیا کہ ’’اے نبی ؐ! ہر نعمت جو اللہ نے تم کو دی ہے اس کا ذکر اور اظہار کرو‘‘۔
نعمتوں کے اظہار کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں:
۔ایک یہ کہ زبان سے اللہ کا شکر ادا کیا جائے کہ یہ سب اللہ کا فضل و احسان ہے۔اور اس میں میرا ذاتی کمال نہیں ہے۔
۔ ہدایت کی نعمت کا اظہار اس طرح کیا جائے کہ اس کی سب سے بڑھ کر پیروی کی جائے اور دوسروں کو راہِ ہدایت کی جانب رہنمائی کی جائے۔
۔ نعمتِ قرآن کے اظہار کی صورت یہ ہے کہ اسے اپنے لیے امام اور رہنما بنایا جائے، اور اس کی تلاوت صبح شام کی جائے، اور خود عمل کرنے کے ساتھ لوگوں میں زیادہ زیادہ لوگوں میں اس کی اشاعت کی جائے۔اور اس کی تعلیمات لوگوں کے ذہن نشین کی جائیں۔
یہ ایک جامع ہدایت ہے جو ہر نعمت کے شکر کی جانب ابھارتی ہے۔
تحدیث ِ نعمت کے یہ معنی بھی ہیں کہ اللہ کی نعمت کا اثر بندے پر نظر آئے۔ایک شخص سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب اللہ اپنے بندے کو کسی نعمت سے نوازتا ہے تو وہ پسند کرتا ہے کہ اس کا اثر اس کے بندے پر نظر آئے۔کھاؤ اور پیو اور اسراف اور تکبر کے بغیر صدقہ کرو۔اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اپنی نعمت کا اثر اپنے بندے پر دیکھے‘‘۔ (رواہ النسائی، ۹۴۸۵)
بعض سلف کا کہنا ہے: ’’دنیا تمہارے لیے ضرر رساں نہیں ہے اگر تم شکر کرتے رہو‘‘۔ اسی طرح ناشکری اللہ کو پسند نہیں ہے۔وہ فرماتا ہے:
’’یقیناً انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے‘‘۔
حسن بصریؒ فرماتے ہیں: ’’ناشکرا پن یہ ہے کہ آدمی مصائب کی گنتی کرتا رہے اور نعمتوں کو بھول جائے۔جب وہ محفل میں بیٹھتا ہے تو مصائب اور تنگی ہی کا ذکر کرتا رہتا ہے۔اور اللہ کی نعمتوں کا ذکر کرتا ہے نہ ان کا اظہار کرتا ہے۔یہ اللہ کی نعمتوں کو چھپانے والا شخص ہے۔جس کی زبان سے کبھی نہیں نکلتا کہ اللہ کا شکر اس نے مجھے فلاں اور فلاں نعمت دی۔جیسا کہ حدیث میں عورتوں کی ناشکری کو ان کے جنہم میں داخلے کا سبب قرار دیا ہے، آپؐ نے فرمایا:
’’اگر تم میں سے کوئی شخص اس سے زمانہ بھر بھی نیک سلوک کرتا رہے، اور وہ اس میں کچھ (ناپسندیدہ) دیکھے تو وہ کہتی ہے: مجھے تجھ سے کبھی بھلائی نہیں ملی‘‘۔(رواہ البخاری،۲۹) اور وہ شوہر کی ناشکری کی وجہ سے جہنم میں داخل کر دی جاتی ہے تو پھر اللہ کی ناشکری کرنے کی سزا یقیناً اس سے بڑی ہو گی جب کہ وہ منعم حقیقی ہے۔
ہمارے سامنے حضرت ابراہیمؑ کی مثال بھی ہے، جو لمبا سفر کر کے اپنے بیٹے اسماعیل ؑکے گھر آئے، وہاں زوجہ اسماعیلؑ سے ملاقات کی جنہوں نے گھر کی عسرت اور تنگی کا ذکر کیا اور حضرت ابراہیمؑ جاتے وقت بیٹے کو اسے طلاق دینے کا پیغام دے گئے، کیونکہ نبی اللہ کے حرم میں شکر گزار بیوی ہی مناسب تھی۔ اور دوبارہ آئے تو ایک مومنہ و شاکرہ بہو سے ملاقات ہوئی تو انہیں آباد رکھنے کا مشورہ دے گئے۔
نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:
’’نعمت کا بیان کرنا شکر ہے اور اسے ترک کرنا کفر ہے۔جو تھوڑے کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا، اور جو بندوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا‘‘۔ (مختارات من الکتب، ۸۲)
بکر بن عبد اللہ المزنی نے ایک مزدور کو دیکھا جو سر پر بوجھ اٹھائے مسلسل ’’الحمد للہ اور استغفر اللہ‘‘ کہہ رہا تھا۔ وہ انتظار کرتے رہے، یہاں تک کہ جب اس نے بوجھ اتار دیا تو اس سے پوچھا کہ صرف یہی دو کلمات کیوں دہرا رہے ہو، کیا اس سے بہتر کوئی کلمات نہیں؟
مزدور نے کہا: کیوں نہیں۔ اس سے بہتر قرآن کریم کی تلاوت ہے۔اور بندہ اللہ کی نعمت اور ذم کے درمیان ہوتا ہے۔تو میں اس کی نعمتتوں پر اس کی حمد بیان کرتا ہوں اور اپنے گناہوں پر استغفار کرتا ہوں۔
بکر نے کہا: مزدور مجھ سے زیادہ سمجھ دار ہے۔(عدۃ الصابرین،۲۰)
نعمت کا بیان اور حسد اور نظر سے بچاؤ
بعض لوگ نعمت پانے کے بعد اس کے چھن جانے سے اس قدر خوف زدہ ہوتے ہیں کہ نعمت کا ذکر کرنا ہی پسند نہیں کرتے۔اور بعض لوگ اس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ جب ہم نعمتوں کا تذکرہ کرتے ہیں تو حاسدین ہمارے پیچھے پڑ جاتے ہیں یا ہم بری نظر کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ث اگر آپ ایسے شخص کے سامنے ہیں جس کا حسد معروف ہے یا جس سے نظرِ بد کا خطرہ ہے تو اس کے سامنے اس خاص نعمت کا تذکرہ نہ کریں اور عمومی انداز میں اللہ کا شکر ادا کرتے رہیں۔
ث حاسد اور بری نظر والے کو دیکھیں تو اللہ کی حمد کو بڑھا دیں اور شکر کے احساس کو بھی۔کیونکہ شکر کا احساس نعمت کو محفوظ بناتا ہے۔
ث معوذات پڑھنا معمول بنا لیں۔ رسول اللہؐ نے حسد اور نظر بد سے بچنے کے لیے مسنون دعائیں سکھائی ہیں، اور صبح و شام کے اذکار کو معمول بنا لیں۔
ث اسی طرح جب آپ کسی کام کا عزم کریں تو اس کی تکمیل سے پہلے اس کے اعلانات سے بچیں۔آپؐ نے فرمایا: ’’کامیابی کے لیے اپنے حوائج کو چھپانے کا اہتمام کرو، کیوں کہ ہر صاحب ِ نعمت سے حسد کیا جاتا ہے‘‘۔ (رواہ الطبرانی فی الصغیر، ۱۱۸۶)
ث دنیا کی نعمتوں میں اپنے سے نیچے والوں کو دیکھیں اور دین کے معاملے میں اپنے سے اوپر والوں کو۔ یہ رویہ بھی انسان میں شکر گزاری کہ بڑھاتا ہے۔
ث اپنی نعمتوں کا لوگوں میں اس طرح تذکرہ نہ کریں جو ان کی حسرت کو بڑھانے والا ہو۔ اگر آپ اپنے بچے کے لیے کھلونا یا گھر میں پھل لائے ہیں تو اس کو ہمسایہ کے بچوں اور گھر والوں کے سامنے نہ لائیں کہ وہ دل مسوس کر رہ جائیں، بلکہ پھلوں کے چھلکے بھی چھپا کر پھینکیں۔ گھر کے ملازمین کے سامنے پرتعیش کھانے نہ کھائیں بلکہ ان نعمتوں میں انہیں بھی شریک کر لیں، یہ بھی شکر گزاری ہی کا انداز ہے۔
شکر گزار بندہ بننے کے لیے ضروری ہے کہ بندہ زبان سے دل سے اور تمام اعضاء وجوارح سے اللہ کا شکر ادا کرے۔صرف زبان سے الحمد للہ کہہ دینا کافی نہیں ہے۔اور جب اسے کوئی نئی نعمت ملے وہ اس کے سامنے سر بسجود ہو جائے۔کہتے ہیں حضرت ابوبکر صدیقؓ کو مسیلمہ کذاب کے قتل ہونے کی خبر ملی تو آپ فوراً سجدے میں گر گئے۔سجدہء شکر بھی الحمدللہ ہی کی تعبیر ہے۔
ابن القیمؒ کہتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ کے بندوں پر جو حقوق ہیں ان کا قیام بھی شکر ہی کی صورت ہے۔ان میں امر و نھی اور حلال و حرام بھی ہیں۔پس جس چیز کا حکم دیا ہے اسے بجا لائیں اور جس سے منع کیا ہے اس سے رک جائیں۔(عدۃ الصابرین وذخیرۃ الشاکرین،۱۴۷)
ث اللہ کی جانب سے نعمت ملنے پر اس کی نافرمانی کا صدور بھی ناشکری ہی ہے۔بعض لوگ نعمت ملنے کے بعد تالیاں پیٹتے، چیختے چلاتے اور تکبر کے کلمات بولتے ہیں، یا نعمتوں کے اظہار میں ایسی پارٹیاں اور دعوتیں رکھی جاتی ہیں جن میں ناچ گانا اور اللہ کی نافرمانی کے کام کیے جاتے ہیں تو یہ شکر گزاری نہیں بلکہ ناشکری ہے۔
اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری اختیار کرنا اتنا اہم ہے کہ قرآن کریم میں ۱۷۰ مقامات پر شکر کا ذکر آیا ہے۔اس سے پتا چلتا ہے کہ ہمیں شکر کرنے میں کمی نہیں کرنی چاہیے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا ذکر کرنے والا اور شکر کرنے والا بنا دے، کہ شاکرین ہی اس کے بہترین بندے ہیں۔ آمین
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x