ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

اے کاش میں ….. ہوتی! – بتول دسمبر ۲۰۲۰

حریم ادب جدہ کی جانب سے جب سے طبع آزمائی کے لیے مختلف موضوعات ملے تھے مستقل ہی ذہن سوچ بچار میں مصروف تھا کہ بھلا کس موضوع پہ ہاتھ صاف کیا جائے۔
چونکہ لکھاری نہیں لہٰذا باقاعدہ کسی موضوع پہ لکھنے کے لیے ذہن کو تھکانا اور سوچ کے گھوڑوں کو دوڑانا پڑتا ہے۔
اب صورتحال یہ تھی کہ ہاتھ مختلف کاموں میں مصروف اور دل و دماغ مسلسل اس سوچ میں کہ ’’اے کاش میں……ہوتی‘‘۔خاتونِ خانہ کا زیادہ تر وقت تو چونکہ باورچی خانے میں ہی گزرتا ہے(اس کی وجہ شاید دونوں میں ’’خانہ‘‘ کا مشترک ہونا ہے) تو برتن دھوتے دھوتے ذہنی رَو انواع و اقسام کے برتنوں کے گردا گرد گھومتی رہی کہ ’’اے کاش میں چمچہ ہوتی‘‘(برتنوں والا چمچہ آپ کہیں دوسرا ’’چمچہ‘‘ نہ سمجھ بیٹھیں)۔
اے کاش میں پلیٹ ہوتی!
اے کاش میں بڑا والا دیگچہ ہوتی۔کیونکہ اب کی ہاتھ دیگچہ رگڑنے میں مصروف تھے،ویسے آپس کی بات ہے دیگچے اور خود میں حجم و وزن کی کافی مماثلت محسوس ہوئی پر اس احساس کے وارد ہوتے ہی دل نے گہرائیوں سے لاحول و لا قوۃ کی صدا بلند کرتے ہوئے ذہن کو تنبیہہ کی کہ ایسی بھی کیا اپنائیت کہ ان چیزوں کے ہونے کی خواہش کی جائے۔ویسے بھی برتن دھل دھلا کے تمام ہو چکے تھے لہٰذا باورچی خانے سے نکلنے کی سوچی کہ شاید ماحول بدلے تو خیالات کی تبدیلی بھی واقع ہو جائے۔باہر آتے ہوئے یہ بھی طے کیا کہ اب بے جان اشیا کی جانب توجہ نہیں کی جائے گی۔
لیجیے جناب باورچی خانے سے باہر نکلتے ہی ٹاکرا چھوٹی بٹیا سے ہؤا تو خیال آیا کہ’’اے کاش میں ایک چھوٹی بچی ہوتی‘‘ تو دل نے فوری تردید کر ڈالی۔ اتنے مراحل جو زندگی کے اب تک طے پا گئے ہیں اللہ کی مہربانی سے وہ دوبارہ گزارنے پڑیں گے کیونکہ وقت تو رکنے والاہے نہیں لہٰذا اس سے بھی تائب ہوئی۔
ذہن کی رو پرواز کرتے کرتے شاید کچھ اسلامی پہلو سے فرشتوں تک جا پہنچی۔ایک خیال آیا فرشتہ یعنی کہ’’اےکاش میں فرشتہ ہوتی!‘‘
اوں ہوں نہیں بھئی نہیں یہ مناسب نہیں پھر جنت تو میرے لیے نہ ہوتی،نجانے دل یا دماغ کس نے قطعی نفی کر ڈالی۔یکدم ’’جن‘‘ ہونے کا خیال آیا،اوہ’’جن‘‘ تو نہیں پھر ’’جننی‘‘ہوا جا سکتا ہے یعنی کہ’’اے کاش میں جنیا ہوتی!‘‘ استغفراللہ جو شکل و صورت اور ہیولہ ذہن میں آیا وہ اتنا بھیانک تھا کہ روح تک کانپ گئی لہٰذا فوری توجہ کہیں اور مرکوز کرنی پڑی۔
عجب پریشانی میں مبتلا تھی کہ آخر میں جو ہوں وہ نہ ہوتی تو ’’اے کاش میں کیا ہوتی‘‘ بھلا؟
دل نے چپکے سے سرگوشی کی کہ جو تم ہو اس کے ہونے میں بھلا کیا قباحت ہے جو سوچ سوچ کر بیچارے دماغ کی چولیں ہلا ڈالی ہیں؟
پھر اچانک اب تک کی گزری زندگی ایک فلم کی مانند نگاہوں میں گھوم گئی۔بچپن سے لڑکپن،لڑکپن سے جوانی،شادی شدہ زندگی کی ابتدا اور اب ڈھلتی عمر کے اس حصے تک پہنچنے کے کتنے ہی مناظر،اللہ کی رحمتوں سے لبریز لمحات و مواقع،انتہائی محبت کرنے والے رشتے،بن مانگے مل جانے والی بے شمار نعمتیں،تحریک،تحریک سے جڑے قیمتی افراد،اولاد اور ناختم ہونے والی ایک طویل فہرست جو مجھے’’جو میں ہوں‘‘ کی صورت میں رب کائنات نے عطا کیں،شکر مندی کے احساس نے پور پور کو ڈھانپ لیا۔
دماغ جو کچھ چل پڑا تھا ہار ماننے پہ تیار نہ ہؤا اور فوری کہا کہ نہیں میں بننا چاہتی ہوں۔
میں چاہتی ہوں کہ اے کاش میں اپنی فلاں بہن کی طرح دوسروں کے لیے حساس ہوتی،اس بہن جیسی خلق کی خدمت کر پاتی،حلیم ہوتی،بردبار ہوتی،صاحب ایمان ہوتی،نرم و شفیق ہوتی،خوب خوب نیکیاں سمیٹتی اور….. اور اور…..
دل نے نرمی سے کہا تو یہ خصوصیات اپنانا ناممکن تو نہیں بس اخلاص،محنت و لگن،مسلسل دعاؤں کی ضرورت ہے۔
آخر کار دل و دماغ ایک اختتامی نکتے تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے کہ:
یا ربی!میں تیری انتہائی ناکارہ،گنہگار بندی تیرے تمام احسا نا ت کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہوں،آپ گواہ رہیےگا کہ میں اپنی تمام کمیوں،کمزوریوں کے باوجود آپ کی بندی ہونے اور جیسا آپ نے بنایا،زندگی میں جو مقام عطا کیا،جن رشتوں کو نبھانے کا ذمہ دیا،آپ نے میرے لیے جو منتخب کیا بس ہر حال میں آپ سے راضی ہوں،میرے پاس پیش کرنے کے لیے کچھ نہیں بس کاش میں ویسی ہو جاؤں جیسی آپ کو مطلوب ہوں،جس سے آپ راضی ہو جائیں۔آمین ثم آمین۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x