ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

زمانے بھر کے غم اور اک ترا غم! – بتول جون ۲۰۲۳

کام والیوں کے قصے سننا اور سنانا خواتین کے پسندیدہ مشاغل میں سے ایک ہے۔ ہمارے گھروں کا نظام کچھ اس طرح ان گھریلو ملازمین پر منحصر ہے کہ ان کے بغیر گھر چلانے کا تصور بھی بہت مشکل لگتا ہے۔ ان کام والیوں کی کئی قسمیں ہیں۔ کچھ گشتی ماسیاں ہیں کہ محلے بھر کے پھیرے لگا کر’کھلا‘ کام کرتی ہیں۔ اگر آپ کو بھاگتے چور کی لنگوٹی پکڑنے کا کچھ تجربہ ہے تو آپ ان سے اچھا کام کروا سکتی ہیں۔ کچھ ’بندھا‘ کام کرتی ہیں یعنی سارا دن آپ کے گھر میں ہی ہوتی ہیں اور جو کام گشتی ماسیاں چند منٹوں میں کر کے چلتی بنتی ہیں یہ وہی کام صبح سے شام تک کرتی رہتی ہیں۔
پہلے زمانے میں محلے کی سنسنی خیز خبریں ادھر سے ادھر کرنے کا فریضہ بھی یہی کام والیاں انجام دیا کرتی تھیں۔ ہماری کام والی کو واٹس ایپ ایجاد کرنے والے پہ کافی غصہ ہے کہ اب سب باجیوں نے بھی مل کے ’’کام والی گروپ‘‘ بنا لیا ہے۔ مثال کے طور پہ ایک گروپ شہناز ماسی کے نام پہ بنا لیا اور اس میں وہ سب خواتین شامل ہیں جن کے گھر شہناز ماسی کام کرتی ہے۔ ایک گروپ اماں پریزینٹ/ ایبسنٹ کے نام سے بنا لیاکہ اب اماں کس وقت کس کے گھر کام کر رہی ہیں ،سب گروپ پر لائیو براڈکاسٹ ہوتا رہے گا۔ پہلے اماں آنے جانے کا سو روپے کرایہ کسی سے بھی لے لیتی تھیں ۔ اب جناب جو باجی کرایہ دیں وہ گروپ پہ پوسٹ کر دیں گی اور اماں حیران کہ باجیوں کو ایسی معلومات کہاں سے مل رہی ہیں۔ اماں ہمیں پسند ہیں اس لیے بھی کہ وہ کام بہت صاف ستھرا کرتی ہیں اور اس لیے بھی کہ وہ غصہ کسی اور زبان میں کرتی ہیں جو سمجھ ہی نہیں آتی تو زیادہ دکھ بھی نہیں ہوتا۔
ہمارے ہاں ایک کام والی نے کافی فصیح و بلیغ خطبہ دیا اور اجرت کے کم ہو نے کی شکایت کی۔ کچھ باجیوں کے ظلم کی دکھ بھری داستانیں بھی سنائیں، کچھ ہم بھی رقیق القلب واقع ہوئی ۓ ہیں،سو ہم نے انہیں تین ہزار روپے ماہوار پہ برتن دھونے کے کام پہ لگا لیا جب کہ دوسرے گھروں میں وہ دو ہزار روپے لے رہی تھیں۔ اتفاق سے صبح جب وہ آتیں تو ہم اپنے لیے چائے بنا رہے ہوتے تھے تو ان سے بھی پوچھ لیتے چائے پیو گی؟ چائے پینے کے دوران وہ اپنے دکھڑے بھی روتی جاتیں اور ہم سن کے بہت متاثر ہوتے لیکن باجیوں کی کہانیاں سننے سے ہم نے سختی سے انکار کر دیا تھا جس پر ان کو کافی تشویش تھی۔
چند دن بعد ہم شدید بیمار پڑ گئے ۔وائرل بخار جان نہیں چھوڑ رہا تھا۔ پہلے ہی ڈینگی اور کرونا کے مارے ہوئے تھے قوت مدافعت جواب دے چکی تھی، بستر سے لگ گئے۔ اب جناب محلے کی چٹ پٹی آنٹیوں کے فون آنے شروع ہو گئے صبح صبح ہماری خیریت پوچھنے کے لیے۔ کچھ مہربان تو خیریت بھی ایسے پوچھتے کہ موت سامنے نظر آنے لگتی اور کچھ ٹوٹکے ایسے بتاتے کہ مر جانے کو جی چاہتا۔ ایک دن ہمت کر کے اٹھے کہ محترمہ سے پوچھیں تو کہ کیا خبریں پھیلا رہی ہیں، تو ہمیں دیکھتے ہی بولیں،
’’ ارے باجی دیکھیں آپ تو سوتی رہتی ہیں اور میں خود ہی ایمان داری سے سارا کام کر کے چلی جاتی ہوں‘‘۔
ہم نے کمزور سی آواز میں کہا ’’اور وہ جو تم کبھی کوئی بگونہ کبھی چائے کا تھرماس چھوڑ کے چلی جاتی ہو وہ ؟‘‘
زور دار جواب آیا ،’’یا اللہ باجی اب آپ کو یہ وہم ہو گیا کہ میں جھوٹے برتن چھوڑ کے چلی جاتی ہوں لیکن خیر بیماری میں ایسا ہو جاتا ہے میں نے سنا ہے یہ مؤا وائرس دماغ پہ بھی اثر کر دیتا ہے‘‘۔
دل تو چاہا بتائیں کہ ہم نے اپنی گناہ گار آنکھوں سے خود برتن پڑے دیکھے ہیں مگر خیال آیا کہ ہماری آنکھوں کے بارے میں بھی مشہور کر دیں گی کہ وائرس کا اثر ہو گیا ہے۔
اب ہم نے حفظ ما تقدم کے طور پہ صبح لائونج میں صوفے پہ بیٹھنا شروع کر دیا تاکہ ان پہ نظر بھی رہے اور ہماری بیماری کا زیادہ ڈھول نہ پیٹیں۔

لیکن کبھی محترمہ گھر کی صفائی اور سلیقے پہ لیکچر دینے لگتیں کبھی دوسری باجیوں کے سلیقے کی تعریفیں کر کے ہمیں موٹیویٹ کرنے کی ناکام کوشش کرتیں، کبھی ہماری بیماری کی وجوہات پر تبصرے کرتیں لیکن زبان بہرحال بغیر کامہ،فل سٹاپ چلتی رہتی تھی۔ ایک دن کہنے لگیں باجی یہ میتھی ویتھی خریدو تو پتے توڑ کے سکھا لیا کرو، ضائع نہ کیا کرو۔ ہم نے کہا اگر ہم پتے توڑنے کے قابل ہوتے تو سکھانے کے بجائے پکا ہی لیتے ۔اور ہم کیا خریدیں گے یہ ہمارے میاں جی کے شوق ہیں۔ سبزیاں کھانے کا جتنا شوق ہے اس سے کہیں زیادہ خریدنے کا شوق ہے ان کو…. ایک دم چمکیں…. اے باجی یہ بھائی دو مہینے سے کراچی میں کیوں ہیں؟ ہم نے کہا ،ان کاپراجیکٹ سیکیورٹی اور ملک کے حالات کی وجہ سے بند ہے۔ اب جناب محلے میں تعزیتی جلوس نکلنے شروع ہو گئے کہ رمیصاء باجی کے تو میاں کی نوکری چھوٹ گئی ہے۔
ایک دن کہنے لگیں باجی میری بہو کو بھی کہیں کام دلا دو۔ ہم نے اپنی امی کے گھر سارا دن کے کام کے لیے ان کی بہو کو بھیج دیا۔ اب ایک نیا نیوز چینل کھل گیا۔ روزانہ ہمیں اپنی بھابیوں کو سیدھا کرنے کے گر سکھائے جاتے اور بتایا جاتا کہ ہماری امی کو بھی بہوؤں کو قابو کرنے کی تربیت لینے کی ضرورت ہے۔ ایک دن ہم نے جھلا کے پوچھا کہ تمہیں مسئلہ کیا ہے؟ تو ارشاد ہؤا باجی تم سمجھ ہی نہیں رہی ہو مسئلہ یہ ہے کہ تمہاری امی کی بہو تو کوئی کام ہی نہیں کرتی گھر کا سارا کام میری بہو پہ ڈالا ہوا ہے۔ امی سے بات ہوئی تو پتہ چلا محترمہ دوپہر میں گیسٹ روم کا دروازہ لاک کرکے لمبی تان کے سو جاتی تھیں۔ دروازہ لاک کرنے سے منع کیا تو چند دن تو خیر گزری پھر کوئی نئی سرگرمی شروع ہوئی کہ امی کے پکارنے پر جواب ندارد۔ کافی دیر بعد آئیں اور کہنے لگیں کہ میں وظیفہ پڑھ رہی تھی۔ امی نے کہا وظیفہ اپنے گھر جا کے پڑھا کرو ،تو بولیں گھر میں وقت نہیں ملتا۔
رمضان کی آمد قریب تھی تو روزانہ صدقے خیرات کی ترغیب دینے لگیں اور خاص کر گھریلو ملازمین کو دینے کی فضیلت زور و شور سے بیان کرتیں۔ ہم سے باتوں باتوں میں اندازہ لگانے لگیں کہ ہم راشن کتنا دیں گے، جوڑے نئے کتنے اور پرانے کتنے دے سکیں گے اور ساتھ میں کیش کتنا ہو گا۔ ہم نے گھبرا کے اپنی ایک سمجھدار پڑوسن کو فون کیا جن سے ہم اکثر کام والیوں کو قابو کرنے کی تربیت لیتے ہیں۔ ان سے معلوم ہؤا کہ جن پانچ گھروں میں یہ محترمہ کام کرتی ہیں سب ہی پریشان ہیں۔ سب نے مل جل کر حل یہ نکالا کہ ایک باجی راشن دے دیں ایک کیش دے دیں باقی جوڑے دیں ۔لیکن جناب باجیوں کی ایسوسی ایشن کا یہ فیصلہ انہیں ایک آنکھ نہ بھایا۔ سارا رمضان جلال میں رہیں اور عین عید پرغائب ۔ شدید غصے میں تھیں کہ باجیاں ہماری جاسوسی کرتی ہیں۔ عید پہ ہم نے بڑی لجاجت سے ان کو سمجھانے کی کوشش کی کہ دیکھو ہماری بیٹی کے رشتے کی بات چل رہی ہے لڑکے والے ملنے آئیں گے اور ہمارے بہنوئی کا گردے کا آپریشن بھی ہے ،اس وقت ہمیں مدد کی ضرورت ہے ۔ فوراً بولیں ،ہاں باجی ایسی کیا بات ہے میرا گردہ لے لو۔ ہم نے کہا نہیں نہیں….گردہ نہیں چاہیے تمہارا….بس تم چھٹی نہ کرو….اچانک بالکل مصطفی قریشی کے انداز میں گرجیں’’ یہ نہیں ہو سکتا باجی‘‘۔
ایک باجی سے ہماری کنجوسی کی شکایت کی تو انہوں نے کہا تم تو بتا رہی تھیں کہ رمیصاء باجی کے میاں کی نوکری چھوٹ گئی ہے۔جھٹ بولیں، باجی ان کے میاں کی تو سرکاری نوکری ہے، بھلے گھر بیٹھے ہوں تنخواہ ملتی رہتی ہے انہیں۔ اس اطلاع کے بعد ہم نے ان سے جان چھڑانے کی ترکیبیں سوچنی شروع کر دیں۔ اور جان کیسے چھڑائی اس کے لیے آپ اگلی قسط کا انتظار کریں۔
گھریلو ملازمین ہر مہینے جتنا کماتے ہیں وہ گاؤں جانے میں خرچ کر دیتے ہیں کبھی شادی میں کبھی میت میں کبھی کسی اور سلسلے میں جانا ہے۔ بیمار ہو جائیں تو شفابھی گاؤں کے ڈاکٹر یا مولوی صاحب کی جھاڑ پھونک سے ہی ہوتی ہے۔ خدانخواستہ مر جائیں تو تدفین بھی آبائی قبرستان ہی میں ہو گی۔ ہمارا ڈرائیور بونیر کا رہنے والا تھا اپنے کسی عزیز کی میت گاؤں لے جا نے کے لیے ہفتے بھر کی چھٹی درکار تھی ۔اسے ہم نے تجویز دی کہ کراچی میں ہی سپرد خاک کر دو تو اس نے جناب کراچی کے قبرستانوں سے مردے چوری ہونے کے ایسے ایسے روح فرسا واقعات سنائے کہ پہلے تو ہمارے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور آخر میں بونیر میں دفن ہونے کی خواہش ہمارے بھی دل میں انگڑائی لینے لگی کہ وہاں کم از کم ہماری میت

غیرت مند پٹھان چوکیداروں کی حفاظت میں تو رہے گی!
جیسے بھی ہیں بہر حال یہ گھریلو ملازمین بھی اللہ کی رحمت ہیں کہ ان کے ذریعے ہمارے کام آسان ہو جاتے ہیں۔
ایک دفعہ ہماری کھانا پکانے والی اچانک کام چھوڑ کے گاؤں چلی گئی۔ محلے والوں سے مدد کی درخواست کی تو انہوں نے ایک محترمہ کو بھیجا جن کا نورانی چہرہ دیکھ کے ایسا لگا جیسے سیدھی بیوٹی پارلر سے آرہی ہیں۔ ہلکا ہلکا میک اپ، بھینی بھینی خوشبو، دھیمی دھیمی مسکان….. کہیں سے بھی کام والی نہ لگتی تھیں۔ ڈرتے ڈرتے نام پوچھا تو وہی تھا جو پڑوسن نے بتایا تھا۔ اب یقین کرنے کے سوا چارا نہ تھا۔ محلے کی ماسیوں کی ایک لیڈر بھی ان کے ساتھ آئی تھی جس کے بارے میں کہنے لگیں کہ وہ آپ کے چوکیدار سے باتیں کررہی ہے لیکن میں ایسے راہ چلتے مردوں سے باتیں نہیں کرتی۔ کام کی تفصیل بتانے کی کوشش کی تو ہاتھ کے اشارے سے ہمیں روک دیا۔
کھانا تو اچھا پکاتی تھیں، خیر سے ہمارا بھی کام چل رہا تھا کہ شہر کے حالات خراب ہوئے ۓ اور چھٹیاں ہو گئیں۔ اب جو گھر پہ ہوتے ہوئےان کی عجیب و غریب حرکات و سکنات کا قریبی مشاہدہ کیا تو ہمارا ماتھا ٹھنکا۔ کچن میں کھانا پکاتے ہوئے اوڑھنی ایسے لپیٹے رکھتیں جیسے نماز کے لیے باندھتے ہیں اور ہولے ہولے کچھ بڑبڑا تی پائی جاتیں۔ پہلے پہل توہم عقیدت مند ہو گئے کہ ہو نہ ہو کوئی وظیفہ پڑھ رہی ہیں لیکن پھر ہم نے کہا بہن اس شدت کی گرمی میں چادر بھلے اتار دو ہم کوئی مختصر مفید دوپٹہ دے دیتے ہیں ویسے بھی ہمارے میاں جی تو شہر سے باہر ہی ہوتے ہیں۔ کہنے لگیں نہیں باجی جی ہمیں تو عادت ہے۔
ہم کچن میں جائیں تو زیر لب دبی دبی شرمیلی سی مسکراہٹ….. ہم کبھی اپنے منہ پہ ہاتھ پھیرتے کہ کچھ لگا ہؤا تو نہیں کبھی کپڑے درست کرتے….. واپس کمرے میں آتے تو پھر لگتا کہ کچن سے میٹھے سروں میں باتوں کی اور کھنکھناتی ہنسی کی آواز آ رہی ہے…..دوبارہ جاتے پھر گہری خاموشی اور وہ کچن میں اکیلی ہی نظر آتیں۔ ایسے ہی ایک دن خیال آیا کہ یہ تو ہمیں کوئی سٹوری ہی نہیں سناتیں چلو خود ہی کچھ خیر سگالی کے لیے پوچھ لیتے ہیں۔ ہم نے پوچھا’’اور سناو…..تمہارے بچے کیسے ہیں؟‘‘ کہنے لگیں’’فریج میں رکھے ہیں باجی کل ان کا بھرتہ بنا دوں گی‘‘۔ ہمیں تو کرنٹ لگ گیا ۔ابھی کل ہی چائنیز لوگوں کے بچہ کھانے پہ خطرناک وڈیو کسی نے شیئر کی تھی۔ ہم نے اپنے حواس بحال رکھتے ہوئے اونچی آواز میں سوال دہرایا کہ بچوں کی خیریت پوچھ رہے ہیں تمہارے، تو کچھ شرمندہ ہو کے بولیں میں سمجھیں آپ بینگنوں کے بارے میں پوچھ رہی ہیں۔
ایک دن جب ہماری برداشت جواب دے گئی ، ہم ایجنٹ زیرو زیرو سیون کی طرح کچن سے ایسے نکلے جیسے اپنے کمرے میں جا رہے ہوں لیکن گھوم کے ریفریجریٹر کی اوٹ میں کھڑے ہو گئے۔ چند منٹ کی گفتگو سن کے ہمارے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ محترمہ اپنے کسی پرانے عاشق سے گفتگو میں محو تھیں….. اب جو ہمیں کچن میں داخل ہوتے دیکھا تو تھوڑا سا گھبرائیں پھر بولیں ،میں اپنی دوست سے بات کر رہی ہوں۔ اس نماز کی اوڑھنی کے اندر سے ہینڈز فری کا تارانہوں نے کانوں میں لگایا ہؤا تھا اور فون گریبان میں لٹکا ہوا تھا۔ ہم نے کہا دوست سے بات کوئی اس طرح چوری چھپے نہیں کرتا۔ کہنے لگیں چلیں اچھا اگر آپ کو برا لگتا ہے تو میں کل سے فون نہیں لاؤں گی اپنا۔ ہم نے اپنے تئیں ان کو شوہر سے وفادار رہنے کی نصیحت کی اور ایسے کاموں کے برے انجام سے ڈرایا لیکن کوئی اثر ہوتا دکھائی نہ دیا تو انہیں فارغ کر دیا۔
٭ ٭ ٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x