ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

اماں حشمت – بتول جون ۲۰۲۳

اماں سچ بتائو تم کہیں جن تو نہیں؟ ایک انوکھی ہستی کا تذکرہ، مرحومہ طیبہ یاسمین کے چٹکیاں لیتے طرزِ تحریر میں جو انہی کے ساتھ خاص تھا۔

اگرچہ اماں حشمت کو اس دنیائے فانی سے کوچ کیے ہوئے تین برس ہو چکے ہیں مگر اپنی عظیم اور عجیب و غریب شخصیت اور گوناں گوں خصوصیات کی بنا پر آج بھی ہمارے دلوں اورذہنوں میں زندہ و جاوید ہے۔ دن میں کئی بار مختلف مواقع پر سب افراد خانہ کو اپنی یاد اور کمی کا احساس دلاتی ہے ۔
آپ بھی سوچیں گے کہ آخر اماں کون تھی اور اس میں ایسی کون سی خاص بات تھی کہ وہ ہمیں اتنا یاد آتی ہے تو جناب یوں تو اماں مدد گار کی حیثیت سے ہمارے گھریلو کاموں کے لیے آئی تھی مگر پھر گھر بھر پر یوں چھا گئی کہ ہم سب پس منظر میں چلے گئے اور اماں کی کار کردگیاں سارے گھر پر یوں چھاگئیں کہ :
جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے
کے مصداق ہر طرف اماں ہی کے کارنامے اور اس کے جلوے نظر آنے لگے اور اگر اس کے کارناموں کو بیان کرنے لگوں تو نہ جانے کتنا وقت اور کتنے الفاظ اس کی نذر ہو جائیں کہ اس کی کون کون سی باتیں آپ کو بتائوں اور کون سی بھول جائوں کہ:
خدا بخشے بہت سی خوبیاںتھیںمرنے والی میں
جب اماں کا نزول ہمارے گھر ہؤا تب وہ بقول اس کے کوئی اسّی برس کے پیٹے میں تھی اور اگر تاریخی واقعات سے حساب لگاتے تو نوے برس ۔ جب برصغیر پاک و ہند میں کسی طاعون کی وبا پھیلی تو فرشتہ اجل اماں کے سارے خاندان کو اپنی لپیٹ میں لے گیا مگر دس بارہ برس کی حشمت کے جاہ و جلال سے شاید گھبرا گیا اور اسے اس دنیا میں تنہاچھوڑ گیا ۔ قدرت کی اس بے انصافی کو حشمت نے ساری عمر معاف نہ کیا اور اس کا بدلہ ہر بات کا تاریک پہلو لے کر کبھی ساس، کبھی شوہر، کبھی بہو اورکبھی ہم جیسوں سے لیا اور پھر ساری عمر اپنی مرضی اور اپنی من مانی کی یہاں تک کہ مجھے یقین ہونے لگتا کہ مخاطب خواہ سر پٹخ کر مربھی جائے تب بھی اماں پر اثر نہ ہوگا اور وہ اپنی مرضی کے خلاف کچھ نہ ہونے دے گی ۔ انسانی زندگی کے نازک احساسات سے وہ آشنا نہ تھی ۔ اپنی زندگی کی وقعت اور قیمت اماں کے نزدیک پر کاہ کی بھی حیثیت نہ رکھتے تھے کہ بجلی کی چیزوں کوگیلے ہاتھ لگاتی اور میرے منع کرنے پر کہ مر جائو گی بڑی بے نیازی سے کہتی ’’پھر کیا ہے ؟‘‘بے چاری ساری عمر بیٹے ، بہو اور بیٹی کے ہوتے ہوئے بھی محنت اور مشقت سے زندگی گزارتی رہی کہ اس کے نزدیک محنت میں صحت، عزت اور وقار تھا جو کچھ کماتی سب اپنے بچوں کو دے ڈالتی۔ کبھی ایک پیسہ بھی نہ خرچتی اور زندگی کے آخری آٹھ برس میری مدد کر کے ہمارے دلوںمیںلازوال مقام پیدا کر گئی۔
اماں پر جوبھی پہلی نظر ڈالتا اس کے حسن و جمال ، وجاہت اور رعب و دبدبے سے متاثر ہوئے بغیرنہ رہتا ۔ سرخ و سپید رنگت، مہندی سے رنگے سرخ بال اور جھریوں بھرا چہرہ ۔ جب صاف ستھرے کپڑے پہنتی تو کسی اعلیٰ خاندان کا فرد نظر آتی ۔ عمارت کے کھنڈر اس کی خوبصورتی کا منہ بولتاثبوت تھے ۔ وہ اسم بامسمیٰ تھی ۔ کسی کی نہ مانتی ، کسی سے نہ دبتی، مگر بے حد جفا کش ، کام سے عشق ،انتھک ، پر خلوص ، وفا دار ، ایماندار اور بے لوث ہونے میں بے مثال تھی۔ چاہے بیمار ہو، ہاتھ زخمی ہوں، سردرد سے پھٹا جا رہا ہو تکلیف کی شدت سے جان نکل رہی ہو۔ دیکھنے والے اماں کے آگے ہاتھ جوڑ رہے ہوںکہ اماں آرام سے لیٹ جائو ۔ کام نہ کرو، برتن نہ مانجھو، مگر اماں اپنے کام میں مگن ہے ۔ کام کام اور کام وہ

شاید قائد اعظم کی سچی پیرو کار تھی ۔اس کی یہ کیفیت دیکھ کر دل ودماغ پریشان بھی ہوجاتے،کبھی خیال آتا کہ اگر ہر پاکستانی اماں کی طرح محنتی، کام سے محبت کرنے والا اور دیانتدارہو جائے تو چند ہی دنوں میں پاکستان کی کایا پلٹ جائے ۔ مگر دوسری جانب اس کی انتہا پسندی کے نتیجہ میںافرا تفری اور بے سکونی دیکھ کر یہ خیال بھی آتا تھا کہ واقعی اعتدال کتنا ضروری ہے ۔ ہر خاصیت کا حسن اس کے معتدل اور متوازن ہونے ہی میں ہے ۔ کائنات کے میدان کا حسن بھی توازن ہی میں ہے ۔
آپ بھی شاید حیران ہوں کہ آخر میں اماں کے کام کرنے سے اتنی عاجز کیوںآگئی تھی کہ اسے کام نہ کرنے کی تلقین کرتی تھی ۔ یہاں تک کہ اسے کبھی بیماری کی حالت میں ڈاکٹر کے پاس لے جاتی تواسے بھی چپکے سے یہی کہتی کہ اسے آرام کرنے کی نصیحت کریں ۔ کام کم کیا کرے ۔ در اصل ہمارے گھر میں افراد خانہ کم ہونے کی وجہ سے کام کم اور اماں کی لگن زیادہ ہونے کا مسئلہ تھا ۔ جب کام ختم ہوجاتا تو اماںآرام سے بیٹھنے کی بجائے گھر کی چیزوں کو الٹ پلٹ کرتی رہتی ۔ دھوئے ہوئے برتنوں اورکپڑوں کودھونے لگ جاتی ۔ بلا وجہ لہسن ، پیاز چھیلتی رہتی ۔ آٹا گوندھنے لگتی ۔ یہاںتک کہ فریج میں رکھا ٹھنڈا دودھ گرمیوںمیں جوش دے کر رکھ دیتی اور جب بچے ٹھنڈا دودھ پینا چاہتے تو انہیں گرما گرم دودھ ملتا ۔ شام کی چائے گرمیوں کی دوپہر میںتین بجے جب ہم سو رہے ہوتے تو جگا کر پلاتی ۔ کسی بھی چیز کو کسی برتن میں دیکھ کر پھینک کر دھو دیتی ۔ یہاں تک کہ اگر کوئی فرد کھانا کھاتے کھاتے کسی ضرورت سے میز پر اسے اٹھ کر گیا ہے تو اسے واپسی پر دھلے ہوئے برتن ہی ملتے ۔ روٹی کوئوںکی نذر ہو جاتی، سالن بوٹی جو کچھ بھی ہو وہ کوڑے کے ڈبہ میں ۔
میں ایک بار چائے پی رہی تھی کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی ۔ اماںاس وقت نزدیک نہ تھی ۔ میں پیالی میز پر رکھ کر فون سننے گئی ۔ رانگ نمبر تھا واپس آئی تو پیالی چائے سمیت غائب ۔ پتہ نہیں اماںکہاںتاک میں بیٹھی تھی میرے اٹھتے ہی پیالی اٹھائی اور چائے گرا کر دھو دی ۔ ٹیپو کہا کرتا کہ اماں جھوٹے برتنوں کو دیکھ کر یوں خوش ہوتی ہے جیسے کوئی بڑی نعمت مل گئی ہو ۔ ایک مرتبہ میں کپڑے استری کر کے غسل خانے میں نہانے کے لیے گئی ۔ کپڑے غسل خانے سے باہر رکھے اور صابن لینے دوبارہ گئی اتنے میں واپس آئی توکپڑے غائب ۔ سخت حیران کہ گھر میں تو کوئی بھی نہیں پھاٹک بند ہے آخرکپڑوں کو زمین کھا گئی یا آسمان ؟ڈھونڈتے ڈھونڈتے اماں کا خیال آیا ۔ پوچھا ’’ اماں میرے کپڑے تونہیں دیکھے ؟‘‘
کمال بے نیازی سے بولی۔’’ وہ تو میں نے دھو کر ڈال بھی دیے۔اپنا ہی سر پیٹ لینے کے سوا چارہ بھی کیا تھا کہ اماں تو بڑے اطمینان سے کہہ دیتی ۔’’ مجھے کیا پتہ تھا ؟‘‘
کئی مرتبہ کہا ’’ اماں پتہ نہیں ہوتا تو پوچھ ہی لیا کرو‘‘۔ مگر وہ اماں حشمت ہی کیا جو کسی کی بات مانے یا اسے اہمیت دے ۔ اسی طرح امرودوں کی چاٹ بنا کر رکھی۔کھانے کے لیے ڈھونڈی تو پتہ چلا کہ اماں نے چھلکے سمجھ کر پھینک دی کہ نظر کم آتا ہے ۔ پیاز تل کر رکھی ذرا نظر بچی اور اماں کی بھینٹ چڑھ گئی ۔ یخنی بنا کر رکھی اسے پانی سمجھ کر گرادیا ۔ ایک بار ایک ہمسائی نے میری فرمائش پر تھوڑا سا پنیر بھیجا ۔ اماں دوپٹہ تانے سو رہی تھی ۔ میںنے غنیمت جان کر پنیر کو پلیٹ میں باورچی خانہ میںرکھا اور برتن واپس کرنے پھاٹک تک گئی ۔ اتنی سی دیر میں ہی واپس آکر دیکھا تو اماں پنیر پھینک کر پلیٹ دھو کر رکھ بھی چکی تھی ۔ میرے شوق کو مد نظر رکھتے ہوئے اس حرکت پر میری کیفیت کا اندازہ لگانا کچھ مشکل امر نہ ہوگا مگر اماں پر کوئی اثر ہی نہ تھا ۔ مہمان کھانا کھا رہے ہوتے یا چائے پی رہے ہوتے تو اماں سے صبر نہ ہوتا ۔ سرہانے آکرکھڑی ہو جاتی اور بار بار پوچھتی ’’ کھا چکے ہو؟ برتن اٹھا لوں؟‘‘ بہتیرا کہتے کہ اماں ذرا صبر کرو مگر سب بے فائدہ ۔ وہ تو شکر ہے کہ ہمارے ملک میں ابھی بزرگوں کا احترام باقی ہے اس لیے مہمان بھی اماں کی اس حرکت سے محظوظ ہی ہوتے۔
کپڑے دھو کر تار پر ڈالتی تو انہیں بھی آرام سے سوکھنے نہ دیتی ۔ الٹتی پلٹتی رہتی ۔ یہاںتک کہ میںکہتی ’’ اماں یہ کپڑے اللہ میاں سے فریاد کریں گے کہ تم انہیں آرام سے سوکھنے بھی نہ دیتی تھیں‘‘ اور پھر تھوڑے سیلے سیلے کپڑے اتار کر تہہ کر کے کمرے میںرکھ بھی دیتی جنہیں دوبارہ مجھے تار پر اچھی طرح سوکھنے کے لیے ڈالنا پڑتا ۔ ذرا سے بادل آجاتے صحن میں پڑی ہر چیز کی شامت آجاتی کہ بارش آ رہی ہے اندررکھ دو ں۔

اگر کبھی بھولے سے کوئی چیز بازار سے لانے کا ذکر کر دیتی تو پھر کہنے والا تو بھول جاتا مگر اماں اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتی جب تک وہ چیز آنہ جائے۔ گرمی ہو یا سردی اماں کئی کئی میل پیدل چلتی اور تانگہ میں بیٹھنے والوںکو بڑی حقارت سے دیکھتی ۔ یہ اور اسی قسم کی بے شمار باتیں تھیں کہ اس کی بے شمار خوبیوں کے باوجود اماںکی ہر وقت کی افرا تفری سے ہم پریشان رہتے کہ چیزوں کو کہاں رکھیں کہ اماں کی دسترس سے بچی رہیں اور جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکی ہوں اماں کے لیے کہنا نہ کہنا سب برابر تھا ۔ وہ کرتی ہی اپنی مرضی تھی یوں لگتا تھا جیسے ہم اماں کے گھر میں رہنے کے لیے آئے ہوئے ہیں۔
اماں کبھی کسی بات کی تعریف نہ کرتی تھی ۔ سائنس کی ترقی اورنئی نئی آرام کی چیزوں سے اماں کو بڑی چڑ تھی ۔ کوئی بجلی کی مدھانی سے دہی بلو رہا ہو اماں اس پر اعتراض کرتی۔ گیس کے چولہے، بجلی ، مشین کا پسا آٹا ، یہاں تک کہ الگ الگ پلیٹوں میں سالن ڈال کر کھانا اور ہر دوسرے دن کپڑے بدلنا بھی اماں کو بہت نا گوار اور قابل اعتراض لگتا تھا ۔ ایک ہی کپڑا ایک ہی جوتا اتنا پہنتی کہ ہم چپکے سے اسے پھینک دیتے تب اس کی جان چھوٹتی ۔ حالانکہ اس کے پاس بے شمار نئے کپڑے تھے ۔ آخر کار چور ایک روز اس کے نئے کپڑوں کا ٹین چرا کر لے گیا ۔ آخر وہ کپڑے کسی کے کام تو آنے ہی تھے ۔اماںکو آخر دم تک چور پر غضہ رہا اور اسے کوسنے دیتی رہی ۔
اماںکو کوئی چیز پسند بھی نہ آتی تھی۔ سردیاں ہیں تو وہ بری ، گرمیاں بھی بری ،اور برسات اس سے بھی بری ۔ پھل کھانے کودیں تو کہتی ۔’’ یہ بھی کوئی کھانے کی چیز ہے ؟‘‘ ہم ڈھونڈڈھونڈ کر بات نکالتے کہ اماں تعریف کردے مگر وہ ہمارے قابو نہ آتی ۔ ایک روزصبح بڑی گرم ہوا چل رہی تھی ۔ دوپہر تک بادل آگئے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چلنے لگی ہم نے سوچااب تواماں قابو آگئی۔ اب ٹھنڈی ہوا کوکیسے برا کہے گی ؟ چنانچہ ہم بڑے اعتماد سے اماں کے پاس گئے اور کہا ۔’’ اماں کیسی اچھی ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے نا !‘‘ مگراماں کے جواب نے ہماری امیدوں پر پانی پھیر دیا کہنے لگی ۔’’ صبح تو گرم چل رہی تھی نا !‘‘
اماں سخت گرمی ہو یا سردی سحری کے وقت اٹھتی سخت سردی میں بھی سحری کے وقت نہاتی اور اپنے کپڑے دھوتی ۔ بہادر اتنی تھی کہ بقول اس کے ایک دفعہ اس نے ایک بھونکتے ہوئے کتے کے منہ میں غصہ سے ہاتھ دے کر اسے چیر ڈالا کہ اور بھونکو مجھ پر ۔ ہم جب کہیں شہر سے باہر جاتے تو اماں رات بھر گھر کی رکھوالی اٹھ اٹھ کر کرتی ۔ ایک بار میں نے فکر سے پوچھا کہ اماں تم گھر پر اکیلی ڈرتی تونہیں ؟ بڑی بے نیازی سے بولی ۔ ’’ واہ میں تو کبھی چیتوں اور بگھیاڑوں سے نہ ڈری تو انسانوں سے کیا ڈروں گی !‘‘ اماں کی ہمت اور طاقت دیکھ کر میں کبھی کبھی مذاق میں کہتی اماں سچ بتائوتم کہیں جن تو نہیں ؟‘‘تو مسکرا کر چپ ہو جاتی ۔ بوڑھی جان میں بھی اتنا زور تھا کہ جو ڈھکن کسی سے نہ کھلے اماں آرام سے کھول لیتی۔ کسی بچے کا بازو پکڑ لیتی تو وہ چھڑانہ سکتا ۔ خوراک بھی اماں کی بس دودھ اور روٹی تھی ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ اتنی طاقت کہاں سے لیتی تھی۔ وٹا من اور غذائی اصولوں کو اس نے غلط ثابت کر دکھایا تھا ۔
اماں اتنی ایماندار سچی اور اچھی تھی مگرکسی طرح نماز پڑھنے پر آمادہ نہ ہوتی تھی ۔جب نماز پڑھنے کوکہتے ٹال جاتی ۔ زندگی کے آخری دو سال وہ نماز پڑھنے لگ گئی اور پھر وہ نماز بھی اسی اہتمام ، انہماک اور اپنی مرضی سے پڑھتی تھی جو اس کی فطرت کا خاصہ تھا ۔ مغرب کی نماز سورج غروب ہونے سے پہلے پڑھ لیتی کہ کام ختم ہو ۔ مغرب کے تین فرض کی بجائے چار رکتیں پڑھتی میرے منع کرنے پر کہنے لگی ۔’’ پھر کیا ہؤا زیادہ ہی پڑھی ہے کم تو نہیں‘‘ ۔ اب آپ ہی بتائیے اس کا کیا جواب ہے ؟
ہم لوگوں سے بہت محبت کرتی تھی اور ہمیں بھی وہ اپنی افراتفری سمیت بڑی پیاری تھی ۔ کبھی اس کے ہر وقت کے کام او ربے سکونی سے گھبرا کرکہتی کہ ’’ اماں تم اپنے بیٹے کے پاس چلی جائو ‘‘ تو کہتی ’’ میں تو تمہارے پاس ہی مروں گی ‘‘ اور میں دہل جاتی ۔ پھر اس معاملہ میں بھی اپنی ہی مرضی کی اور بڑی ہمت، بہادری اور حوصلہ سے موت کو لبیک کہا۔ کبھی کبھی بچے کہتے ’’ اماں اللہ میاں کے پاس آرام سے کیسے بیٹھتی ہو گی ۔ ہر وقت کام کام کی دہائی مچاتی اور برتنوں ، کپڑوں کودھونے کی فرمائش کرتی ہو گی۔ مگر میں سوچتی ہوںکہ اتنی وفا دار ، ایماندار، محنتی اور بے شمار خوبیوںوالی خاتون کے تونہ جانے اپنے کتنے خدمت گار ہوں گے جو اس کی ساری عمر کی دیانت ، محنت و مشقت کے بدلہ میں اسے انعام کے طور

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x