ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

نیا محلہ – بتول اپریل ۲۰۲۲

شہری آبادی سے ہٹ کر کچھ فاصلے پر موجود وسیع زمین کو پانچ،سات،دس مرلے اور ایک کنال تک کے پلاٹس میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔رفتہ رفتہ وہاں آبادی بڑھنے لگی۔زیادہ تر وہی لوگ اس جگہ کو آباد کر رہے تھے جن کو جوانی تیاگ کر اپنے پرکھوں سے بٹوارے کے بعد حصہ ملا تھا۔یا پھر ایسے سرکاری ملازمین جو ریٹائرڈ ہونے کے بعد اپنی جمع پونجی سے کسی ایسے ہی نسبتاً سستے علاقے میں جگہ خرید کر گھر بنا سکتے تھے۔لیکن سارے میں یہ علاقہ نیا محلہ کے نام سے مشہور تھا۔رکشے والے ہوں یا ٹیکسی والے سب نئے محلے کے نام سے ہی اس علاقے کو جانتے تھے۔کیونکہ ابھی بھی جگہ جگہ تعمیراتی کام جاری تھا۔
انہی گھروں میں ایک گھر تابندہ بیگم کا تھا۔گھر کیا تھا مانو ایک سرنگ سی ہو۔پلاٹ چوڑائی میں کم اور لمبائی میں زیادہ ہونے کی وجہ سے لمبا سا گھر سرنگ ہی لگتا۔آبائی مکان کے بٹوارے سے جو پیسہ ملا اس سے یہی پلاٹ خرید سکے تھے۔بیٹوں نے کمیٹیاں ڈال ڈال کر جیسے تیسے ڈھانچہ کھڑا اور پھر مکمل کیا تھا۔اس پہ بھی تابندہ بیگم کا نخرہ کمال تھا۔ارے بھئی دو قابل بیٹوں اور ایک پیاری سی بیٹی کی اماں تھیں۔اترائے نہ تھکتیں۔ایسے میں گھر جیسا بھی ہو اس کمر توڑ مہنگائی میں یہ کیا کم تھا کہ اپنا تو ہے۔انہیں لگتا اب تو سارے شہر کی قابل لڑکیوں کے رشتوں کی لائنیں ان کے گھر کے باہر لگ جائیں گی۔بڑی آپا اور میں جب پہلی دفعہ ان کے گھر گئے تو عجیب گھبراہٹ نے ہمیں گھیر لیا تھا۔ان کی نخوت بھری باتیں ہی جی متلانے کا سامان کر رہی تھیں۔
’’ارے میں تو آج تک کسی کا رشتہ مانگنے نہیں گئی۔لوگ خود پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ہاں بھئی لائق بیٹوں کی مائوں سے لوگوں کو سو طرح کے کام ہوتے ہیں۔بس ایک گھر نہیں تھا۔یہ کمی تھی اب تو شکر ہے وہ بھی نہیں رہی۔دیکھنا کیسے لوگ گریں گے اب نئے محلے کے اس آنگن میں ……ہاہاہاہا‘‘
ایک ہی سانس میں ایسی خودپسند اور متکبرانہ باتیں کر کے بات کے اختتام پہ بے ہنگم قہقہہ لگا کر ہمیں فاتحانہ نظروں سے دیکھتی تابندہ بیگم لمحے سے پیشتر میرے دل سے بری طرح اتری تھیں۔
’’آپا بہت دیر ہو گئی….. چلیں؟‘‘
میں نے جھٹ آپا سے کہا اور ساتھ ہی کھڑی ہو گئی تھی۔
آپا کے چہرے کے تاثرات بھی ان کی اندرونی ناگواری کو چھپانے میں ناکام ہو رہے تھے۔سو وہ فوراً ہی کھڑی ہو گئیں۔اور ہم اپنے گھر لوٹ آئے۔
تابندہ بیگم سے یہ ملاقات پہلی اور آخری ثابت ہوئی تھی کہ ہم پڑوس میں ہونے کے باوجود ان کے گھر دوبارہ نہ جا سکے۔
’’کون ایسی نرگسیت بھری باتیں سنے……توبہ‘‘۔
ان کا خیال آتے ہی میں سوچتی تھی۔اوائل سرما کے دن شروع ہو چکے تھے۔شام کو ہلکی ہلکی خنکی بھی ٹھنڈک پیدا کر دیتی۔کمبل نکال کر دھوپ لگوانے چھت پر رکھے تھے۔وہی اتارنے شام کو اوپر گئی تو پڑوس سے چہکوں پہکوں رونے کی آواز نے توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی۔بلا ارادہ ہی میرے قدم پڑوس کی سانجھی دیوار کی طرف اٹھ گئے کہ اللہ خیر کرے۔
’’ارے تم نے اس میں دیکھا کیا ہے جو اسی پہ اڑ گئے ہو؟نہ شکل نہ صورت،نہ ماس نہ بوٹی،نہ کام کاج کی،اس کی ڈگریاں پکا کر کھائو گے؟‘‘
تابندہ بیگم روتے روتے اپنے بڑے بیٹے سے مخاطب تھیں۔میں خاموشی سے کمبل اٹھا کر نیچے چلی آئی۔کسی سے ذکر کرنا بےکار لگا سو چپ رہی۔چند دن بعد پڑوس سے پرچ میں چار ٹکڑے مٹھائی کے رکھے آئے تو پتہ چلا تابندہ بیگم کا بڑا بیٹا پسند کی شادی کر کے اپنے دولتمند سسرال کے ہاں مستقل شفٹ ہو گیا ہے۔جی عرف عام میں آپ گھر داماد کہہ لیجیے۔یہ تابندہ بیگم کے غرور سے تنے وجود میں پہلی دراڑ تھی۔ہمیں لگا اب وہ تائب ہو کر پرائی بچیوں کو حقارت سے دیکھ کر مسترد کرنا چھوڑ دیں گی۔اور دلجمعی سے چھوٹے بیٹے کے لیے رشتے تلاش کریں گی۔ہونا تو یہی چاہیے تھا لیکن……
دروازے کی اطلاعی گھنٹی بجی تو منی باہر کو بھاگی۔دروازہ کھولا تو سامنے تابندہ بیگم کھڑی تھیں۔اندر آئیں تو رسمی سلام دعا کے بعد چائے کے لوازمات ان کے سامنے سجا کر میں اور آپا منظر سے غائب ہو گئے۔
’’امی جان خود ہی نبٹیں۔‘‘
ہماری مسکراتی نگاہوں نے ایک دوسرے سے ایک ہی بات کہی تھی۔
جب وہ واپس گئیں تو امی جان کے چہرے پہ چھائی گھمبیرتا نے ماحول بوجھل سا کر دیا۔
’’کیا ہؤا امی جان؟کیا کہہ رہی تھیں تابندہ بیگم؟‘‘
یہ آپا تھیں جنہوں نے پریشان ہو کر پوچھا تھا۔
’’کچھ نہیں بیٹے بس کچھ لوگوں کے نصیب میں شاید ہدایت نہیں ہوتی۔تابندہ بیگم ایک بیٹا تو اپنی انا اور تکبر کی بھینٹ چڑھا چکی ہیں۔لگتا ہے دوسرے کو بھی گنوا دیں گی اور آخری عمر میں اکلاپے کا عذاب کاٹیں گی‘‘۔
امی جان نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا تو ہم بھی افسردہ ہو گئے۔تاہم ابھی بات ادھوری تھی۔
’’بتا رہی تھیں کہ کسی نے چھوٹے بیٹے کے لیے رشتہ بتایا ہے۔ لیکن لڑکی ناٹے قد کی ہے۔پیاری بھی نہیں،جبکہ میرا بیٹا تو شہزادہ لگتا ہے۔اب اس کی عمدہ عادات یا سگھڑاپے کا کیا فائدہ جب ساتھ کھڑی ہی نہ سجے؟‘‘
امی نے بات مکمل کی تو بتایا کہ میں نے اسے بہت سمجھایا کہ !
’’دیکھو آج کل اگر لڑکیوں کے اچھے بر ملنا بہت مشکل ہو چکا ہے۔تو دوسری طرف اچھی لڑکی ڈھونڈنا بھی آسان نہیں رہا۔تم کفران نعمت مت کرو۔اس سے پہلے کہ یہ بھی بڑے بھائی کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے کسی سے بھی پسند کا بیاہ کر لائے تم خود اچھی جگہ رشتہ کر دو۔رشتوں میں بے جا دیر کرنا بھی اولاد کو بغاوت پہ اکسانے کا باعث ہے‘‘۔
لیکن اس نے ناک پہ سے مکھی اڑاتے ہوئے جواب دیا!
’’آپ دیکھیے گا کیسی چاند سی بہو لائوں گی۔اور آنکھیں مٹکاتی یہ جا وہ جا‘‘۔
تاسف سے ہاتھ ملتے ہوئے امی جان نے بات مکمل کی اور بنا کسی تبصرے کے سب اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو گئے۔ بعض باتوں پہ خاموشی ہی تبصرہ کہلاتی ہے۔
سردیاں ختم ہوئیں اور بہار کے خوشگوار موسم نے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔بند کلیاں کھلنے لگیں،شگوفے آنکھوں کی تراوٹ کا باعث بننے لگے،اور چہار سو پھیلی سبزے کی بھینی بھینی مہک قوت شامہ کے لیے بہترین رزق ثابت ہونے لگی۔طبیعت ہلکی پھلکی اور خوشگوار محسوس ہونے لگتی تو چہرے پہ بلاوجہ ہی مسکراہٹ بسیرا کر لیتی۔ایسے میں پڑوس میں پھر شادی کا شور بلند ہؤا۔اب کی بار نئے محلے میں شادی کے کارڈ بھی بٹے،تابندہ بیگم کی بیٹی کی شادی تھی۔بڑے بھائی اور بھاوج نے مہمانوں کی طرح شرکت کی تھی۔موہنی سی رملہ ڈھیروں دعائوں تلے پیا دیس سدھاری تھی۔تابندہ بیگم کے مزاج سے یکسر مختلف رملہ اپنے دھیمے مزاج کی وجہ سے شروع سے اچھی لگی تھی۔شادی کے ہنگامے سرد پڑے تو نئے محلے والے اپنی سابقہ روٹین پہ واپس آ گئے۔
آپا کی منگنی ہو چکی تھی اور وہ آج کل بیر بہوٹی بنی گھومتی تھیں میں منی اور گڑیا انہیں خوب چھیڑتے۔اور امی جان کی تنبیہی نظروں پہ ہنسی روکتے دائیں بائیں ہو جاتے۔وہ ایسی ہی کوئی خوشگوار شام تھی۔بادل گھر گھر کر آ رہے تھے۔ٹھنڈی ہوائیں چہرے کے بوسے لے رہی تھیں۔سدا کی چٹوری منی پکوڑوں کی فرمائش لیے میرے آگے پیچھے پھر رہی تھی اور میں مصنوعی انکار کرتے ہوئے اس کے مسکوں سے محظوظ ہو رہی تھی۔کہ دروازے کی اطلاعی گھنٹی بجی۔دروازہ کھولا تو تابندہ بیگم ہاتھ میں ڈھکی ہوئی پلیٹ اور پہلو میں ایک موٹی اور پکی عمر کی لڑکی کے ساتھ کھڑی تھیں۔
اندر آئیں تو پھیکی سی ہنسی ہنس کر بولیں:
’’یہ میری چھوٹی بہو ہے۔بیٹے کی لو میرج ہے۔یہ نوکری کرتی ہے تو دوسرے شہر میں الگ رہیں گے۔میں نے سوچا ملوا لائوں اور منہ بھی میٹھا کروا دوں‘‘۔
ہم نے اس ڈھلتی جوانی اور نہایت عام سی شکل و صورت والی دلہن کو دیکھا اور نئے محلے کے اس آنگن کو دکھ سے دیکھنے لگے جہاں شہر کی لڑکیوں کے رشتوں کی لائنیں لگنی تھیں۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x