ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

رواج کی شکست – بتول اپریل ۲۰۲۲

رائے علاول خان علاقے کے چالیس دیہات میں سب سے بڑے زمیندار تھے ۔ احمد خاں کھرل کی نسل سے بدیشی حکمرانوں نے ایک ایسے فرد کو دوست بنایا جو اپنی روایتی حریت پسندی سے دستبردار ہونے پر آمادہ ہو گیا تھا اور اس آمادگی کے صلہ میںانہیں کوئی پندرہ مربعے تقریباًتین سو پچھتر ایکڑ زرخیز اور ہموار زمین کی مختصر سی جاگیر عطا کی گئی اور پھر انہیں ایم ایل اے بھی بنا لیا گیا ۔
اپنے علاقے میں وہ لوگوں کے آقا شمار ہوتے تھے ۔ یوں تو وہاں پولیس اسٹیشن بنایا گیا تھا ، لیکن جس شخص کی سفارش علاول خاں کردیتے اس کے خلاف جرم کے تمام شواہد حرفِ غلط کی طرح مٹا دیے جاتے تھے ۔ علاول خان اپنے اس علاقے میں کبھی اپنے دوستوں بلکہ وفاداروں کی عزت افزائی کے لیے ان کے گائوں بھی چلے جاتے ۔
ایک دفعہ دھیرو کے گائوں میں ان کا جانا ہؤا یہاں ان کی میز بانی کا شرف ان کے دور کے ایک رشتہ دار فتح خان نے حاصل کیا ۔دوپہر کے کھانے کے لیے وہ علاول خان کو اپنے گھر لے گیا ۔
ایسے مہمان کی خدمت کے لیے سارے گھر والے مستعد ہوتے صاحب حیثیت لوگوں کے ہاں دیہات میں بھی ابھی ڈنرل ٹیبل کا تصور ناپید تھا پلنگ پرکھیس بچھا کر مہمان بٹھائے جاتے اور گھروںمیںہاتھ کے بنے ہوئے چھابے ، چنگیر میں ثقافتی طور پر رنگے ہوئے کھدر کے پونے (رومال) بچھا کرکھانا پیش کیا جاتا ۔
فتح خان کی بیٹی نے مہمان کے سامنے کھانے کے تھال اور چھابے رکھے۔ فتح خان نے اس بیٹی کو میٹرک تک تعلیم دلا دی تھی اور اس بیٹی کو اس نے ضلعی صدر مقام پر سکول میں بورڈنگ ہائوس میںداخل کرا کر پڑھوایا تھا ۔مقامی لڑکیوں کے برعکس یہ لڑکی اپنے لباس اور سج دھج میں ذرا مختلف تھی علاول خان نے اُسے آنکھیں پھاڑ کردیکھا اور اس کے دل و نگاہ کا عالم بدل گیا ۔
کھانا کھا کر اس نے فتح خان کی بیٹی کو بلایا ۔ اس کا نا م پوچھا۔
’’فرخندہ‘‘ لڑکی نے بتایا فتح خان نے بتایا ۔’’ رائے صاحب ! ہم نے اس کا نام صالحہ رکھا تھا ، لیکن اس کی استانی نے بدل کر یہ نام رکھا ۔ ہمیں تو یہ نام پکارنا بھی مشکل ہوتا ہے ۔ مہمان گرامی نے اپنے بٹوے سے سو روپے کا نوٹ نکال کر فرخندہ کو انعام دیا۔
واپس روانہ ہونے سے پہلے علاول خان نے اپنے میزبان کو بغل گیر ہو کر اس گائوں والوں کو جتلا دیا کہ اب میاں فتح خان سے بڑھ کر کوئی اسے معتبر نہیں لگتا ۔ پھر اس نے فتح خاں سے اس لڑکی کے لیے شادی کی بات کی ۔ یہ پیغام اسے حیران اور قدرے سراسیمہ کر گیا ۔ اسے جواب دینے کے لیے زبان ساتھ نہ دے رہی تھی ۔ کیونکہ علاول خان سولہ سترہ سال کی اس لڑکی سے پچیس تیس سال بڑا تھا ۔مال و دولت کی کثرت اور سماجی رعب و شوکت سے فتح خان مرغوب ہو گیا اور انکار نہ کر سکا لیکن اتنا کہہ پایا ۔
’’ رائے صاحب میری حیثیت بہت معمولی ہے میں ایک معمولی کسان ہوں ۔ یہ رشتہ آپ کی شان کے مطابق نہیں ہے ‘‘۔
علاول خان اس لڑکی کے حسن و جمال پر فریفتہ ہو گیا تھا ۔ اس نے فتح خان کو کہا ۔
’’ اپنے علاقے میں آپ کو اتنا تعلیم یافتہ رشتہ نہیں ملے گا جو فرخندہ کو وہ سکھ راحت اور مقام دے سکے جو تعلیم کی وجہ سے اس کا حق ہے ۔ میں اُسے ملکہ بنا کررکھوں گا ‘‘۔
فتح خان اس مطالبے سے انکار کے نتائج سے دل میں دہل گیا تھا۔ اس نے دبی زبان سے ہاں میں جواب دیاتو علاول خان نے کہا ۔
’’ اگلے چاند کی پہلی جمعرات کو میں بارات لے کر آئوں گا ۔ میرے ہاں سے مجید نائی اور میرا ایک منشی لطیف اس سے چند دن پہلے آکر بارات کے لیے تواضع کے انتظام کریں گے ۔ آپ کچھ بھی فکر نہ کریں ۔ کل میرے گائوں سے مجید نائی کی بیوی آکر فرخندہ کے کپڑوں کے لیے ناپ لے جائے گی اور ایک کاغذ پر اس کے پائوں کا نقش لے جائے گی تاکہ اس کے پسند کے جوڑے لیے جائیں ۔ آپ کے گھر میں نیا سامان اور سب گھر والوں کے لیے نئے کپڑے بھی آجائیں گے تاکہ شادی کے دن آپ لوگ ملنے جلنے والوں کے سامنے معزز اور رعب دار زمیندار نظر آئیں ۔ آپ سارے گائوں والوں کو اپنے ہاں کھانے کی دعوت دیں ۔ گائوں کے تمام کمیوں ( دیہات میں زمیندار وں کے زرعی کام کرم کرنے والے لوگ) کو بھی بلا لیں ‘‘۔
فتح خان واپس گھرآیا تو اس نے دیکھا کہ فرخندہ اپنی ماںسے کہہ رہی تھی کہ وہ علاول خان کے دیے ہوئے سو روپے سے اپنے لیے کیسے کپڑے سلوائے گی ۔ اسے شہر میں اپنی چند سہیلیوں کے پہناوے یاد آ رہے تھے فتح خان کچھ اداس نظر آیا اور اس کا چہرہ اُترا ہؤا تھا ۔ اس کی بیوی نے اُسے دیکھا تو پوچھا۔
’’ کیا بات ہے ۔ آپ کچھ بیمار دکھائی دے رہے ہیں ‘‘۔ اس نے اسے علاول خان کے مطالبہ سے آگاہ کیا اور آگے کچھ نہ بول سکا ۔
دونوں ماں بیٹی نے یہ مطالبہ سن لیا تو اس کی بیوی نے اسے مبارک باد دی ۔ اس نے فرخندہ کی طرف دیکھا تو اسے وہ بھی مطمئن دکھائی دی ۔بیگم فتح خان کو صرف یہ اعتراض تھا کہ ہماری مالی حیثیت اتنے بڑے زمیندار کے سامنے رعایا کی طرح ہے جب فتح خان نے اسے بتایا کہ سارا انتظام علاول خان نے اپنے ذمہ لے لیا ہے تو وہ خاموش ہو گئی ۔ ماں کو چپ لگی دیکھ کر فرخندہ نے کہا ۔
’’ اماں … میں نے دسویں جماعت پاس کرنے کے بعد کتابیں پڑھی ہیں ۔ میں زمیندار کو ایسی لگام ڈالوں گی کہ وہ میرے نیچے مسکین گھوڑی بن کر رہے گا ‘‘۔
اپنے ہاں آنے والی مجید نائی کی بیوی کو اپنے کپڑوں کا ناپ دینے کے بعد کہا ’’ اماں جی … آپ شہامد مولوی کی بیوی کو ہمارے ہاں آنے کے لیے پیغام دیں‘‘۔ جب مولوی صاحب کی بیوی ان کے ہاں آئی تو اس نے فتح خان کی بیوی کوفرخندہ کا اتنے بلند خاندان بلکہ بڑے رائے صاحب سے رشتہ ہونے کی مبارک باد دی ۔ فرخندہ تعلیم حاصل کرکے اور اپنے مطالعہ کے سبب کچھ بے باک ہو گئی تھی ۔ اس لیے اس نے سنجیدگی سے اس خاتون سے کہا۔
’’ خالہ جان آپ مولوی صاحب کے کان میں ایک بات کہنا اور یہ تاکید کرنا کہ نکاح پڑھانے تک یہ بات کسی سے ہر گز نہ کہیں ‘‘۔
مولوی صاحب کی بیگم فرخندہ کی طرف متوجہ ہوئی تو اس نے مزید کہا۔ ’’ آپ مولوی صاحب سے کہیں کہ نکاح کے وقت میری رضا مندی لینے کے لیے خود اندر آکر مجھ سے پوچھیں ‘‘۔
اس کی ماں اور مولوی صاحب کی بیگم کے لیے یہ ایک انوکھی بات تھی ۔ آج تک نکاح کے وقت یا اس کے پہلے والدین نے کبھی کسی لڑکی سے رضائے نکاح سے متعلق باقاعدہ پوچھا نہ تھا ۔ لڑکی کا والد ہی اظہار و اقرار کر دیتا تھا ۔ اس زمانے میں عائلی قوانین نافذ نہیں ہوئے تھے ۔ محفل میں نکاح کا اعلان ہو جاتا تھا اور یہی روایت تھی۔
شادی کا سارا ہنگامہ شان و شوکت سے اختتام کوپہنچا علاول خان نے شہر کے بہترین درزی اور سنارے سے کپڑے اور زیورات تیار کروائے تھے ، ایسی خوب صورتی فرخندہ نے کبھی دیکھی نہ تھی اور جب نکاح کا وقت آیا تومولوی صاحب نے کہا ۔
’’ فتح خان میرے ساتھ اندر آئو میں لڑکی کے منہ سے اس نکاح پر رضا مند ہو کر اقرار کرنے کا لفظ سننا چاہتا ہوں کیونکہ شریعت کا یہی حکم ہے‘‘۔
علاول خان اور دیگر اہل محفل یکا یک کچھ پریشان ہوئے اورمولوی صاحب کی طرف گھور کر دیکھنے لگے ۔ مولوی صاحب نے بتایا کہ دلہن ایک تعلیم یافتہ لڑکی ہے ۔ اس سے اقرار کی شہادت دینے کے لیے رضا مندی لینے میں خیر ہے ۔
مولوی صاحب فتح خان کے ساتھ گھر کے اندر آئے جہاں فرخندہ دلہن بنی چندے آفتاب چندے ماہتاب بنی آسمان سے اُتری کوئی حُور نظر آتی تھی ۔ مولوی صاحب نے آکر فرخندہ سے نکاح پر اس کی آمادگی کا سوال کیا۔
’’ مولوی صاحب آپ نے حق مہر کتنا بتانا ہے ‘‘۔
مولوی صاحب نے کہا ’’ ہمارے علاقے میں وہی شرعی حق مہر پر سب لوگ نکاح کرتے ہیں ‘‘۔
فرخندہ نے کہا ’’ آپ وہاںاعلان کریںکہ علاول خان نے اپنی اراضی میں سے پانچ مربعے زمین حق مہر کے طور پردیے ہیں اور وہ اگلے چھے سات دنوں میں زمین کا یہ انتقال دلہن کے نام کردیں گے ‘‘۔
مولوی صاحب نے واپس مجلس میں جا کر اعلان کیا۔
’’ دلہن نکاح پر رضا مند ہے علاول خان صاحب پانچ مربعے زرعی اراضی بطور حق مہر اگلے سات آٹھ دنوں میںاس کے نام کردیں گے‘‘۔
علاول خان یہ بات سن کر ششدر رہ گیا لیکن اپنا بھرم رکھنے کے لیے اقرار میں سر ہلا کر ساری محفل میںرضا مندی ظاہر کردی اور مولوی صاحب نے اپنے گائوں کے دیگر معززین میں سے رائے صادق حسین اور رائے منیر محمد کا نام لے کر بطور گواہ اس حق مہر کا اعلان کر دیا ۔ خطبہ نکاح پڑھ کرمولوی صاحب کو پانچ سو روپے نذرانہ پیش کیا اور اس پر ساری محفل بھی حیران رہ گئی ۔ دیہات میں اس زمانے میں مولوی صاحب کو عام طور پر ایک اٹھنی (50پیسے) دی جاتی تھی ۔ کوئی بڑا چودھری ہوتا تو وہ ایک روپیہ دیا کرتا تھا ۔
محفل نکاح ختم ہوئی ۔ اس دن اس گا ئوں میںفتح خان کی طرف سے اتنا لذیذ کھانا پیش کیا گیا تھا کہ اس کھانے کی کثرت اور لطف سے سب لوگ عش عش کر اٹھے۔ علاول خان نے گائوںکے چودھریوںکواوردیگرکامیوںکوکپڑے دیے اور لاگ دینے میں بھی بڑی فراخ دلی اور کشادہ دستی کامظاہرہ کیا ۔ دلہن لے جانے کے لیے علاول خان نے شہر سے ایک موٹر منگوائی ہوئی تھی جس میں دلہن کے علاوہ اس کی سہیلیوں کوبھی بٹھایا گیا۔تاکہ وہ اگلے روز رائے علاول خان کی طرف سے دعوت ولیمہ میں فرخندہ کی دلجوئی کا سامان کرتی رہیں۔
علاول خان با اثر تھا اور سرکار دربار میںاس کی رسائی تھی ، اس کی پہلی بیوی ایک خوش حال اوربا ثروت خاندان کی خاتون تھی ۔ ابتدامیں اگرچہ انہوں نے اس نئی شادی پر ناراضی کااظہار کیا لیکن چند دیگر زمینداروں کے سمجھانے پرانہوں نے علاول خان سے کھلے اختلاف یارنج کوفراموش کردیا ۔ اس نئے گھر میں آکرفرخندہ نے گائوں والوں سے مروت اور نیک برتائو کو وطیرہ بنایا ۔ ساتھ ہی اس نے علاول خان کو اپنی چاہت اور شگفتگی سے فریفتہ کرلیا ۔ اپنی مشوہ طرازی اور ناز و ادا سے علاوہ خان کو ایسا لبھائو دیا کہ وہ بس اُسی کا ہو رہا ۔ اگرچہ فرخندہ نے اپنی سوت کوعزت و احترام اورحسنِ سلوک سے یقین دلایاکہ وہ اس کے بلندمرتبہ پر یقین رکھتی ہے ، کبھی اسے بھی نئے فیشن کے لباس سلوا کر پیش کیے اوربننے سنورنے ،بال بنانے ، خوشبوئوں کے استعمال پرمائل کرنے اور ماڈرن بنانے کی کوشش کی لیکن اس کامذاق زندگی میں بھی تبدیل ہونے پر آمادہ نہ کر سکا بلکہ وہ اپنی نوکرانیوں کے سامنے فرخندہ کے مطابق کبھی ناپسندیدگی کااظہار بھی کرتی۔
فرخندہ نے چند ہفتوں میں اپنے حق مہر کی زمین کاچکر لگانا شروع کیا۔ اس نے علاول خان سے کہہ کر اپنامنشی یا کاردارالگ سے تعینات کروا لیا اسے وہ عزت و احترام دیتی ، لیکن فصل اور زمین پر دوسری کاشت کاحساب لیتی ۔بلکہ اس نے اسے ایک طرح اپنی ذمہ داری کو بخوبی پورا کرنے کی ٹریننگ بھی دی اور علاول خان کی پالیسی کے برعکس فصل کی برداشت پر جنس کی شکل میں حق الخدمت دینے کی بجائے ماہوار تنخواہ کا طریقہ اپنایا جس سے اس کے منشی روشن دین نے اپنے لیے اعزاز سمجھا اوروہ زیادہ دیانت اور محنت سے کام کرتا ، بیج ، کھاد، مالیہ مزدوری اور اُجرت وغیرہ کا حساب بتانے لگا ۔ وہ ان پڑھ توتھا لیکن دیانت داری سے روز کاحساب فرخندہ کوبتا دیتا جسے وہ لکھ لیتی ۔
چند ماہ کے بعد اس نے اسے گائوں میں سکول کے استاد سے پڑھنے پر آمادہ کیا ۔ استاد مرزا رحمت علی کے لیے اعزاز کی بات تھی کہ زمیندارنی کے کارندے کوپڑھانے لگا ۔ اس زمانے میںفرخندہ اسے دس روپے ماہوار روشن دین کوپڑھانے کی ٹیوشن دیتی ، اس زمانے میں پرائمری سکولوں میں ایک ہی استاد لگایا جاتا تھا جوپرائمری سکول کی چاروں جماعتوں کوپڑھاتا ۔ مشکل سے کوئی مڈل پاس شخص محکمہ کو ملتا تھا جسے غیر تربیت یافتہ ہونے کے باوجود تعینات کردیا جاتاتھا ۔
روشن دین نے چھے ماہ ہی میں روز مرہ کے حساب کتاب رکھنے کی صلاحیت حاصل کرلی ۔ لیکن فرخندے نے استاد کی بھینسیں اپنے باڑے میں رکھ لی جہاں اس کے چارے کا مفت میں اہتمام ہوتا اوران کا ملازم دودھ استادرحمت علی کے گھر پہنچا دیتا ۔ فرخندہ نے اپنی تعلیم کو اپنی عملی زندگی کی روشنی بنا لیا تھا اور اپنی نگرانی کے عمل سے اپنی پیداوار اور اخراجات میں ایسا توازن قائم کیا کہ دوسال میںہی اس کے پانچ مربعوں کی آمدن علاول خان کے دوسرے دس مربعوں کے برابر ہوگئی ۔ جب کہ وہ اپنے ملازموں کو تنخواہیں دے کر اور پیداوار کوسلیقے سے سنبھال کر زاید از ضرورت اناج کی فروخت کر کے گائوں میں کامیوں کومعمول سے زیادہ معاوضہ دیتی تھی اوروہ سب اس کے گن گاتے تھے۔
چند سال بعد جب اللہ تعالیٰ نے اسے دو بیٹوں سے نوازا تو اس نے شہر میں ایک کوٹھی تعمیر کرائی اور چاہا کہ بچوں کی تعلیم کا انتظام کرے ۔ علاول خان پر اپنی خدمت اوردانش مندی سے اس نے اعتماد اور اعتبار جمایا ہؤا تھا اور اگرچہ علاول خان کو بچوں کی تعلیم کا زیادہ شوق نہ تھا لیکن فرخندہ کی ایما پر اس نے اپنی پہلی بیوی کی اولاد کو بھی زیور علم سے آراستہ کرنے کا ارادہ کرلیا اور انہیں بھی شہر بھجوایا جہاںاس کا ایک مکان موجود تھا۔
وقت گزرتے صدیاں بھی لمحوں کی گرد بن جاتی ہیں ۔ اگلے بیس پچیس سالوں میں علاول خان کی ساری اولاد نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرلی ۔ فرخندہ کے دونوں بیٹوں نے اگرچہ معیار تعلیم میں اپنے بڑے بھائیوں کو مات دی اور اپنی گزر اوقات صرف زرعی آمدنی پر منحصر نہ رکھی ۔ فرخندہ کا ایک بیٹا نامور وکیل بنا۔ دوسرا ایم اے کے بعد مقابلے کے امتحان میں کامیاب ہو کر ایک اعلیٰ انتظامی عہدے پرفائز ہؤا اور جب یہ جاگیرباپ کے بعد دو بیویوں کی اولاد کی میراث بنی تو اب اسے ان میں تقسیم ہونا تھا۔
فرخندہ اوراس کی سوکن نے ساری عمر باہم خوشگوار تعلقات سے گزاری ۔ فرخندہ کی جٹھانی نے ایک دن اس سے کہا۔
’’اب ہمارے بیٹوں کے نام زرعی رقبے کا انتقال ہونا چاہیے اورمیرا خیال ہے کہ ہم سب پندرہ مربعوںکواپنے چھ بیٹوں میں یکساں تقسیم کر دیں ‘‘۔
فرخندہ نے کہا ۔’’ میں ادب سے کہوں گی کہ اس وقت مرحوم رائے صاحب کا ترکہ دس مربعے ہے جو پانچ مربعے کارقبہ انہوں نے مجھے حق مہر میں دیا اس کامیرے نام وہ خود انتقال کراچکے تھے ۔ آپ جانتی ہیں کہ اتنے سالوں سے اس رقبہ پر میری ملکیت میں سب کاشت ہوتی آئی ہے ۔ اس کی گرد اوری میرے نام پر ہے ۔ اس کا سرکاری مالیہ الگ سے میرے نام پر جمع ہوتا رہاہے اور میں اس کی مکمل مالک کے طور پر زندہ ہوں۔ آپ اسے رائے صاحب مرحوم کاترکہ نہ سمجھیں ۔ البتہ جو دس مربعے آخر تک رائے صاحب مرحوم کے نام پررہے ۔ وہ ان کے میرے اورآپ کے تمام چھ بیٹوںمیںیکساںتقسیم ہوگا اوراس میں رائے صاحب کی بیویاں بھی وہ حصہ لیں گی جوشریعت کے قانون میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرما دیا ہے ‘‘۔
بڑی بیگم نے فرخندہ کا موقف سن کرایک طرح بھناہٹ کا اظہار کیا اورکہا ۔
’’ ترکہ کی تقسیم تو اسی طرح ہوگی جیسے میں نے کہا ہے ‘‘۔
فرخندہ بولی۔ آپ میری بزرگ بہن ہیں ہم نے ساری عمر مہرو مرمت سے زندگی بسر کی ہے ۔ میری خواہش ہے کہ ہم دونوںاور ہماری اولاد اپس میں محبت اور سلوک سے رہیں،ہمارے اندر بگاڑ نہیں ہونا چاہیے ۔’’ میری رائے ہے کہ آپ اپنے بڑے بیٹے رائے عبدالصمد سے کہیں کہ کسی عالم دین سے اس مسئلے میں فتویٰ حاصل کرلیں ‘‘۔
رائے عبد الصمد افضل المدارس کے مفتی صاحب کے پاس گئے انہیں بلاکر کم و کاست ساری رو داد سنائی اور ان سے فتویٰ طلب کیا ۔ انہوں نے کہا۔
’’ رائے صاحب ! آپ اپنی بات لکھ کر مجھے دیں ، تاکہ میں بھی آپ کو لکھ کر فتویٰ دوں ‘‘۔
چنانچہ اگلے روز عبد الصمد نے ساری کہانی قلم بند کی اور یہ تحریر اس نے اپنی سوتیلی ماں فرخندہ کو دکھائی ۔ اس نے کہا۔
’’ آپ اس پر میرے دستخط لیں ۔ اپنی امی کا نشان انگوٹھا لگوائیں اور سب چھ بھائی بھی اس پر دستخط کریں ۔ جس سے یہ ظاہر ہو گاکہ ہمارے خاندان کے ہر فرد کو اس سے اتفاق ہے اس بارے میں آپ منیر احمد اور شبیر احمد سے بھی دستخط کروا لیں ‘‘۔
یہ دونوں فرخندہ کے بیٹے تھے اورگائوںمیں نہیں رہتے تھے ۔ منیر احمد تو قریبی ضلعی صدر مقام پروکالت کرتے تھے لیکن شبیر احمد جس ضلع میںڈپٹی کمشنر تھے وہاںآنے جانے میں ایک دن لگ جاتا تھا ۔
عبد الصمدنے ان سے مل کر ان کے دستخط بھی لے لیے ، منیر احمد نے عبد الصمد سے کہا ۔
’’ بھائی جان ! آپ یہ تحریر مولوی صاحب کے پاس لے جانے سے پہلے اس کی فوٹوکاپیاں کرا کے سب کو ایک ایک نقل دے دیں ‘‘۔ اور عبد الصمد نے یہ بات مان لی ۔
مفتی صاحب نے قرآن پاک میں درج احکاماتِ شریعت کی روشنی میں تقسیم وراثت کے مسئلہ کی وضاحت درج کر دی کہ جو رقبہ مرحوم نے اپنی دوسری بیوی کو بطور حق مہر دیا تھا اب وہ ان کے ترکہ میںشامل نہیں ۔ آپ باقی دس مربعے تقسیم کر سکتے ہیں ۔
عبدالصمد نے تین بار اس فتویٰ کو پڑھا لیکن اس کا اطمینان نہ ہؤا۔ وہ پانچ مربعے کی قیمتی اراضی سوتیلی ماںکے ہاتھ میں جاتے نہیں دیکھ سکتا تھا وہ شہر گیا اوراپنے وکیل بھائی سے ملے بغیر ایک دوسرے سینئر وکیل سے کہا کہ آپ عدالت میں ہماری طرف سے تقسیم جائیداد کا مقدمہ دائر کر کے فیصلہ لیں۔
انہوں نے اس خاندان کا متفقہ تحریری بیان اورشرعی فتویٰ دیکھ کر کہا ’’ میں نہیںسمجھتا کہ عدالت اس فتویٰ سے مختلف کوئی بات کرے گی۔
عبد الصمد نے کہا’’ وکیل تو بہت سے راستے نکال کر سائل کی مدد کیاکرتے ہیں آپ اپنی مرضی کی فیس لیں اور قانونی دائو پیچ استعمال کرکے ہماری داد رسی کرائیں۔
وکیل صاحب نے کہا’’ اچھا ! کوشش کر لیتے ہیں ‘‘۔
سول عدالت میں عبد الصمد کونا کامی ہوئی اور شرعی احکامات کے خلاف فیصلہ نہ ہو سکا ۔ اس کے اصرار پریہی مقدمہ ڈسٹرکٹ جج کے پاس لے جایا گیا یہاں وکیل صاحب نے اسے باور کرایا کہ ہرعدالت میں نیامقدمہ دائر ہوگا اور ہر عدالت میں پیش ہونے کی علیحدہ فیس دینا ہوگی ۔ عبد الصمد نے کہا ’’ ہم آپ کو منہ مانگی فیس دیں گے اور آخر تک یہ کیس چلائیں گے ۔ یہاں وکیل صاحب نے اس خاندان کا متفقہ تحریری بیان اورفتویٰ مثل مقدمہ کے ساتھ لگائے بغیردوسرے انداز میں مقدمہ لکھا۔ یہاں سیشن جج صاحب نے ماتحت عدالت سے پرانی فائل بھی منگوا لی ۔ جس میں سب افراد خاندان کی اپنی تحریر اورفتویٰ بھی موجود تھا۔
اسے دیکھ کرجج صاحب نے وکیل صاحب سے برہمی کا اظہار کیا ’’ آپ نے یہ حقائق جان بوجھ کرچھپائے ہیں اور چاہتے ہیں کہ میں مسلمان ہوکر بھی اسلامی شریعت کے خلاف فیصلہ کروں ۔ آپ اپنا مقدمہ واپس لے لیں ورنہ تحریری فیصلہ کے نتائج آپ اورآپ کے موکل کے لیے تکلیف دہ ہو سکتے ہیں ‘‘۔
وکیل صاحب تو دل سے پہلے ہی سمجھتے تھے انہوں نے عبد الصمد کے اصرار پر اپنی فیس کے لیے مقدمہ بنایاتھا انہوںنے درخواست مقدمہ واپس لے لی ۔
عبد الصمد کو اب بھی سمجھ نہ آئی ۔ اسے وکیل صاحب نے بتایا کہ اب توہائیکورٹ میں اپیل کیے بغیر داد رسی کا کوئی چانس نہیں رہ گیا ۔ ہائی کورٹ میں جانے کے لیے وکیل صاحب نے عبد الصمد سے بھاری فیس لے کر اپیل تیار کی اور اسے دائر کردیا لیکن یہاں جج صاحب نے پوچھا۔
وکیل صاحب ! آپ نے ماتحت عدالتوںمیں یہ مقدمہ کیوں نہیںدائرکیا؟‘‘
وکیل صاحب نے اعتراف کیا کہ نیچے دونوںعدالتوںمیںسائل کی درخواستیں مسترد ہوچکی ہیں ۔جج صاحب ناراض ہوئے اورو کیل صاحب کو ڈانٹا کہ انہوںنے اپیل کے ساتھ پہلے فیصلوں کا ریکار ڈ کیوںلف نہیں کیا اورانہیں ایک ماہ کی مہلت دے دی۔
عبد الصمد سے وکیل صاحب نے سابقہ مقدمہ جات کی فائل کی نقلیں لینے کے لیے رقم لے کر اپنے منشی کو بھیجا ۔ دو چار دنوں میںانہوںنے اپنے پہلے مقدمہ جات کی نقول حاصل کرکے اگلی پیشی سے پہلے ہی شامل مثل مقدمہ کروادیں۔ اگلی پیشی پر جج صاحب نے وکیل صاحب کو بحث کرنے کی اجازت دی۔ وکیل صاحب نے انگریزی معاشرے کی رسم یعنی اولادِ اکبر کے حق وراثت کے تحت چاہا کہ مسائل کو شریعت اسلامیہ کے احکامات کے برعکس انگریزی قانون کے مطابق ’’انصاف ‘‘ دیا جائے ۔
جج صاحب نے کہا’’ افسوس ہے میں نے بطورجج اسلامی قانون کے مطابق فیصلے کرنے کا حلف اٹھایا ہے ۔ میں شریعت کے مطابق فیصلہ کروںگا لیکن وکیل صاحب آپ بتائیں ، جب آپ نے قانون کی ڈگری لی تھی تو اس وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی پاس داری کا حلف اٹھایا تھا اور آج آپ انگریزی قانون کے مطابق حکم چاہتے ہیں؟‘‘
وکیل صاحب کھسیانے ہو گئے اور کچھ گھبرا بھی گئے ۔ جج صاحب نے ان کی اپیل مسترد کردی ۔
عبد الصمد یہ ساری کارروائی دیکھ رہا تھا ۔ اس نے بھی گردن جھکا دی ، اب وکیل صاحب نے تحریر ی فیصلے کا انتظار کر کے تصدیق شدہ نقل فیصلہ کی درخواست بھی کردی۔
جج صاحب نے فتویٰ کے مطابق فیصلہ لکھنے کے ساتھ ہی وکیل صاحب کے لیے سخت تنقیدی جملہStricture بھی لکھا ۔ بس وکیل صاحب کا لائسنس مقدمہ بازی ضبط ہوتے ہوتے رہ گیا ۔ شاید جج صاحب نے انہیں تو بہ کرنے کا موقع دیا ہو۔ عبد الصمد اور اس کے خاندان میں یوں شرعی لحاظ سے تقسیم میراث ہوئی ۔ جو رقبہ فرخندہ کو بطور حق مہر دیا گیا تھا ، رائے علاول خان کے اس فیصلے کو تسلیم کیا گیا اوردو بیویوں اور چھ بھائیوں میںدو سو پچاس ایکڑ رقبہ حصہ داران میں تقسیم ہو کرانتقال درج ہو گیا ۔
جائیداد اور زمین کا لالچ کیسے انسانوںکوراہ راست سے بھٹکا دیتا ہے اور رشتوں میں داراڑیں ڈالنے پر آمادہ کر دیتا ہے ، یہ واقعہ اس بات کی عبرت انگیزمثال ہے۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x