ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

سعودی عرب میں رہنے کا تجربہ – بتول اگست ۲۰۲۱

انسانوں کے معاشرے خامیوں اور خوبیوں دونوں سے مزین ہوتے ہیں۔مزین اس لیے کہ اگر خامیاں نہ ہوں تو خوبیاں چمک اور نکھر کر سامنے نہ آئیں۔
سعودی معاشرہ بھی یقیناً اس سے پاک نہیں ہے لیکن اب بھی خیر شر پر غالب ہے۔ وطن عزیز اور ہمسایہ ممالک سے جانے والے تو اس مملکت کو جنت محسوس کرتے ہی ہیں، مغرب کے ترقی یافتہ ممالک سے آنے والے بھی کچھ ایسے ہی جذبات رکھتے ہیں۔ بچے من کے سچے ہوتے ہیں ۔ کچھ دن پہلے ایک دعوت میں شرکت کی جہاں زیادہ تر افراد مغرب سے آئے ہوئے تھے۔ بچوں بلکہ بچیوں سے بات چیت ہوتی رہی۔ ایک بچی لاہور سے آئی ہوئی تھیں، اپنے بابا کے ساتھ چھٹیاں گزارنے کے لیے۔ ان سے پوچھا کہ آپ کو کہاں رہنا زیادہ اچھا لگتا ہے۔ انہوں نے جھٹ سے کہا، ریاض میں۔ اسی طرح کچھ بچیاں لندن اور دیگر شہروں سے اب یہاں منتقل ہو چکی ہیں اپنے خاندان کے ساتھ۔ انہوں نے بھی اپنی فوری پسندیدگی ریاض کے لیے ظاہر کی۔ کچھ عرصہ پہلے ہمارے ہاں کچھ دوست جو لندن سے منتقل ہوئے تھے، کھانے پر تشریف لائے۔ ان کی بچیوں نے بھی یہی کہا کہ ہمارا یہاں پر زیادہ دل لگتا ہے۔
اتنی ساری گواہیاں سننے کے بعد ہم نے سوچا کہ اس کی وجہ بھی پوچھنی چاہیے۔ اپنے بارے میں تو ہمیں علم ہے کہ ہم کن وجوہات کی بنا پر یہاں اچھا محسوس کرتے ہیں۔ جس دن ہم پہلی بار سعودی عرب آ رہے تھے اور گھر ہمیں رخصت کرنے والوں سے بھرا ہؤا تھا، اس سے ایک دن پہلے خوب بارش برسی اور اس کے عمومی نتیجے میں ہماری بجلی چلی گئی۔ وجہ بنا ہمارا ٹرانسفارمر جو جل گیا تھا۔ چوبیس گھنٹے گزرنے پر بھی جب بجلی نہیں آئی تو پانی بھی ختم ہو گیا۔ سعودی عرب آ کر جب ہم گھر کی یاد میں بے قرار ہوتے تھے ، یا کہیں کوئی سختی آتی تھی تو اسی بجلی کے جانے اور پانی کے ختم ہونے کو یاد کر کے دل کو تسلی دے لیتے تھے۔ ایسا ہی ایک موقع ہمیں یاد ہے، جب ہماری سب سے چھوٹی صاحبزادی پیدا ہوئیں۔ ہمارے گھر مہمانوں کا تانتا بندھا تھا اور بجلی اور پانی دونوں غائب۔ ایک اور واقعہ ہمارے حج پر روانگی سے پہلے کا ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ 2011 دسمبر میں حج پر لے کر گئے تھے۔ اس وقت لوڈ شیڈنگ جیسی آفت کو شروع ہوئے ابھی کچھ ہی عرصہ ہؤا تھا اور ہمارے پاس اس کا کوئی متبادل انتظام نہیں تھا۔ ہمارا یہ سفر مبارک اچانک ہی طے ہؤا تھا۔ سب لوگ ملنے آ رہے رہےتھے۔ رات کے بارہ بجے کے بعد تک یہ سلسلہ جاری رہا، اور لوڈشیڈنگ کی بدولت ہم اندھیرے میں ہی ایک دوسرے سے ملاقات کرتے رہے۔
اسی طرح ہم رات کو جب کلینک سے واپس گھر آتے تھے تو سڑکیں گھپ اندھیرے میں ڈوبی ملتی تھیں۔ سارے راستے دعا کرتے آتے تھے کہ جب گھر پہنچیں تو لوڈ شیڈنگ نہ ہو۔ اس وقت رات کو بجلی ایک گھنٹہ جاتی تھی اور ایک گھنٹہ آتی تھی۔ دل چاہتا تھا کہ ہم جب گھر پہنچیں تو بھی ہو تاکہ ہم روشنی میں کھانا کھائیں۔ ساتھ ہی اس سے بھی دل دکھتا تھا کہ کھانا کھاتے اور نماز پڑھتے پڑھتے پھر بجلی چلی جائے گی۔ ہر دو صورتیں ہی اچھی نہیں لگتی تھیں لوڈ شیڈنگ کی، اور ہم کم برائی اور زیادہ برائی ہی میں الجھے رہتے تھے۔ کہنے کو یہ معمولی چیزیں ہیں، لیکن ان سے سماجی رویوں پر بھی اثرات آتے ہیں۔ گرمیوں میں لوڈ شیڈنگ، یو پی ایس، جنریٹر کے ساتھ ساتھ بل کی فکر۔ یہاں ہم خوب بجلی استعمال کرتے ہیں لیکن پھر بھی بل بوجھ نہیں لگتا۔ وطن عزیز میں کچھ مہمان بھی آ جاتے تھے تو ہمیں اضافی مدد کی ضرورت پڑتی تھی۔ یہاں ہم نے پچاس لوگوں کی دعوت بھی اکیلے کی ہے، جس میں کھانا بنانے سے لے کر دعوت کے بعد کی

صفائی بھی شامل ہے، لیکن کسی اضافی مدد کی ضرورت نہیں پڑی۔ اس لیے ہم جیسوں کا مملکت کو پسند کرنا تو سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن ترقی یافتہ ممالک سے آنے والوں سے پوچھنا بڑا ضروری تھا۔
اس کا بھی ہمیں کچھ موقع ملا، اور کچھ باتیں پھر کبھی پوچھ لیں گے ان شا اللہ۔ ایک تو سعودی عرب میں زندگی بہت پر سکون ہے۔ آپ کا کام کا وقت ختم ہو گیا ہے، تو آپ آرام سے گھر آئیں گے اور آپ کو کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اپنے وقت سے زیادہ کام کی جگہ پر رکیں۔ آپ کی ڈیوٹی ختم ہو گئی ہے اور آپ کال پر نہیں ہیں تو کوئی آپ کو گھر پر فون نہیں کرے گا یا واپس کام پر آنے کے لیے نہیں کہے گا۔ مقررہ وقت سے زیادہ کام کی ڈیوٹی لگے گی تو اس کا معاوضہ دیا جائے گا۔ ۔ ملازم بہت اچھے اور سستے ہیں مغرب کی نسبت۔ اچھی تنخواہ کے ساتھ دو ملازم رکھنا مشکل نہیں ہے۔ ہمارے ساتھ کام کرنے والی تقریباً سب ڈاکٹروں کے پاس ایک کل وقتی ملازمہ اور ایک کل وقتی یا جز وقتی ڈرائیور ضرور ہے۔ یہاں پر مختلف ایجنسیاں ملازمہ فراہم کرتی ہیں۔ وہ ان کی باقاعدہ ٹریننگ کراتی ہیں، اور ان کی صحت کا خیال رکھتی ہیں۔ پاکستانی افراد کو ایک ڈرائیور اور ایک خادمہ پاکستان سے لانے کی اجازت ہوتی ہے۔ پاکستانی خادمہ سوائے پاکستانی خاندان کے کسی اور قومیت کے ساتھ کام نہیں کر سکتی۔ یہ پابندی جنرل ضیاالحق کے دور میں حکومت پاکستان نے لگائی تھی۔
بھارت سے آنے والے مسلمان بھی سعودی عرب کو بہت پسند کرتے ہیں۔ انہیں جو سکون اور اطمینان یہاں ملتا ہے، اس کی وجہ سے وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کا قیام یہاں پر طویل ہو۔ وقت اور حالات میں بہت سی تبدیلیوں کے باوجود ابھی بھی سعوی عرب میں رہ کر بچت کرنا بہت آسان ہے۔ مغرب کی نسبت یہاں سے گھر رقم بھیجنا اور گھر بنانا نسبتاً آسان ہے۔ لیکن اس وقت بہت افسوس ہوتا ہے، جب یہاں سے بھیجی گئی رقوم غلط طریقے سے خرچ ہو کر ضائع ہو جاتی ہیں۔محنت سے کمائی گئی رقم بعض اوقات بھیجنے والے کی سادگی کی وجہ سے درست ہاتھوں تک نہیں پہنچتی اور جو اس رقم کو استعمال کر رہے ہوتے ہیں، چاہے وہ اپنے سگے ہی کیوں نہ ہوں، وہ اس محنت کو نہیں سمجھتے جس سے یہ کمائی آتی ہے۔ اس لیےیا تو ایسے مصارف پر خرچ کر دی جاتی ہے جن کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا یا اگر کاروبار میں لگائی جاتی ہے تو اس دردمندی سے کاروبار نہیں کیے جاتے جو کاروبار چلانے کا تقاضا ہے۔ یا پھر کاروبار کرنے والا شخص اس کی اونچ نیچ سے ناواقف ہوتا ہے۔ سعودی عرب اور خلیج آنے والے ہمارے بہت سے بھائی اتنے پڑھے لکھے نہیں ہوتے اور یہی معاملہ ان کے گھر والوں کا بھی ہوتا ہے۔ اس وجہ سے بھی درست جگہ پر سرمایہ کاری نہیں کی جا سکتی۔ کئی بار باہر سےبھیجی گئی ان رقوم سے پراپرٹی خریدی جاتی ہے، لیکن وہ بھی فراڈ کی نذر ہو جاتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ان کی پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ ساتھ اس معاملے میں بھی رہنمائی کی جائےتاکہ وطن واپس آنے کے بعد بھی وہ خوش حالی کی زندگی گزار سکیں۔
کام کا بوجھ بھی مملکت میں مغربی ممالک کی نسبت کافی کم ہے۔ زندگی میں پاکستان اور مغرب والی دوڑ بھی نہیں ہے۔ کام کرنے کی جگہیں بےحد صاف اور سہولتوں سے آراستہ ہیں۔ اگر ہسپتالوں کا ہی ذکر کریں تو پاکستان میں شاید ایسا ایک بھی ہسپتال نہ ہو جیسے سعودی عرب میں ہیں۔ چھوٹی جگہیں بھی قابل رہائش ہیں۔ مزدور بھائی بھی مل جل کر صاف ستھرے کمرے اور اپارٹمنٹ لے لیتے ہیں۔ کھانا پینا بہت اچھا اور خالص ہے۔ ریاض میں بہت پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور ہیں۔ اسی طرح مزدوری کرنے والوں میں بھی بہت پاکستانی ہیں، ڈاکٹر بھی ،سڑک اور عمارتی کاموں کے مزدوربھی۔ ڈاکٹر بھی مزدور ہے کیونکہ ہاتھ سے کام کرتا ہے اور معاشرے کا خدمت گزار ہے۔
اقامہ ایک بڑا کام ہے جو بعض اوقات ہمارے مزدور بھائیوں کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ اقامہ سعودی عرب میں رہائش کا اجازت نامہ ہے۔ کئی بار بوجوہ اقامہ کی تجدید میں تاخیر ہو جاتی ہے۔ ان حالات میں آپ نے کوئی غلط کام نہ کیا ہو تو اکثر پولیس صرف نظر کر جاتی ہے۔ اسی طرح بلاوجہ کبھی سڑک پر آپ کو نہیں روکا جائے گا۔ خواتین سے عموماً اقامہ نہیں مانگا جاتا۔ اگر کسی وجہ سے روکا بھی ہے تو کاغذات دیکھ کر جانے دیتے ہیں۔ ایک بار میں نے کسی سے پوچھا کہ اگر کسی کے پاس اقامہ نہ ہو تو اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ پتہ چلا کہ پولیس ان کو کچھ دن جیل میں

مہمان رکھتی ہے، اور پھر انہیں جہاز پر بٹھا کر ان کے وطن واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ جب کسی نے واپس جانا ہو اور پیسے نہ ہوں تو لوگ یہ ترکیب بھی استعمال کر لیتے ہیں۔
امن وامان کی صورتحال مثالی ہے۔ جب ہم پہلی بار مملکت میں آئے تھے، انہی دنوں ایک بھارتی شہری نے ایک پاکستانی کو قتل کر دیا، اور قتل کے بعد فرار ہونے کے لیے ائیر پورٹ پہنچ گیا۔ پولیس نے اسے ائیر پورٹ سے گرفتار کر لیا اور چند دنوں کے اندر اسے سزا سنا دی گئی۔
’’ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں‘‘ لیکن عام فرد کی زندگی مجموعی طور پر خوشگوار ہے۔ سعودی اپنے ملک کو جنت سے کم نہیں سمجھتے۔ اس وقت سعودی عرب میں سعودی لوگوں کو ملازمت پر راغب کرنے کے لیے بہت سے قانون بنائے گئے ہیں۔ شرح خواندگی چونکہ چھیانوے فی صد سے زیادہ ہے، جو عمان کے بعد خلیج میں دوسرے نمبر پر ہے، اس لیے لڑکوں کی ساتھ ساتھ لڑکیوں کی بڑی تعداد بھی ملازمت کر رہی ہے۔ انتظامیہ، ہیومن ریسورس اور کمپیوٹر میں سعودی ہی ملازمت حاصل کرتے ہیں۔ مالز میں بھی اب تقریباً سب دکانوں پر سعودی ہی سیلز مین کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ لڑکیاں عبایا اور نقاب کے ساتھ اپنی ملازمت کرتی ہیں۔
جس طرح وطن عزیز میں چھٹیوں میں نانی اور دادی کے گھر جانے کا رواج ہے، اسی سے ملتا جلتا حال سعودی عرب میں بھی ہے۔ چھٹیاں شروع ہوتے ہی قافلے والدین اور رشتہ داروں سے ملنے کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح عیدیں بھی اکٹھی منانے کا رواج ہےاورعید کے موقع پر بھی یہی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہاں پر بھی ساس بہو الگ رہنا ہی پسند کرتی ہیں اور ہمارے جیسی کھٹی میٹھی تکرار ان میں بھی چلتی رہتی ہےجو زبانی کم اور اشاروں کنایوں میں زیادہ ہوتی ہے۔ گرمیوں اور سردیوں کی چھٹیوں میں سعودیوں کی اکثریت سیر کے لیے مملکت سے باہر جانا پسند کرتی ہے۔ پچھلے سال سے وبا کی وجہ سے مملکت کے اندر سیاحت کے رحجان میں اضافہ ہؤا ہے۔
خاندان کا ادارہ یہاں پر بے حد مضبوط ہےجس میں والدین کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ بیٹا اپنے والدین کی ذمہ داری اپنی بیوی پر نہیں ڈالتا بلکہ خود اٹھاتا ہے۔ ہمارے پاس عموماً مریض خود ہی آتے ہیں اور عمل جراحی بھی ہو تو عورت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ شوہر ساتھ آ جاتا ہے۔ لیکن جب والدہ آپریشن کے لیے آتی ہیں تو سارا خاندان اکٹھا ہو کر آ جاتا ہے۔ کلینک میں بھی بیٹے، پوتے، بیٹیاں، اور دیگر رشتے دار عموماً ساتھ آتے ہیں اور سوالات کی ایک لمبی فہرست پوچھتے ہیں۔ آپریشن کے بعد بھی عیادت کرنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ ملاقات کے اوقات میں ان کے کمرے میں جانا ایک مشکل امر ہوتا ہے، کیونکہ خواتین و حضرات کی ایک بڑی تعداد کمرے میں موجود ہوتی ہے۔ سب بیٹوں کا حاضر ہونا بھی ہمیں تو ایسا لگا کہ ضروری ہوتا ہے۔
ایک اور بات جو ہم نے دیکھی کہ خواتین کے طبیعی مسائل جیسے ماہانہ نظام، حمل، ازدواجی تعلقات کا ذکر اس طرح شجر ممنوعہ نہیں ہے جیسا ہمارے ہاں سمجھا جاتا ہے۔ ان معاملات پر بالکل نارمل انداز میں بات کی جاتی ہے اور بوقت ضرورت بھائی یا والد بھی مریضہ کے ساتھ آ کر ضروری تفصیلات حاصل کرتے ہیں، خصوصاً جب عمل جراحی کا معاملہ درپیش ہو ۔
(جاری ہے)
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x