ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

پاکستان کے سوئٹزر لینڈ کی سیر – بتول اگست ۲۰۲۱

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ابھی پاکستان پر دہشت گردی کے مہیب بادل نہیں چھائے تھے اور ہماری وادی سوات میں ہر طرف بہار تھی ، رونقیں تھیں امن و سکون تھا ۔ ہمارے خاندان کی چار فیملیز نے وادی کی سیر کا پروگرام بنایا۔ایک کوچ ہائر کی گئی اور ہم اس سفر پر روانہ ہو گئے ۔ ہمارے گروپ میں بچے بھی تھے بڑے بھی ۔ سب ہی اس سفر کے لیے نہایت پر جوش تھے۔
پشاور روڈ پہ کوچ روانہ ہوئی تو ٹیکسلا، واہ کینٹ ، حسن ابدال ، برہان سے گزرتے ہوئے کامرہ اور لارنس پور سے آگے جہانگیرہ آیا۔ اب ہم صوبہ پنجاب کراس کر کے صوبہ سرحد ( کے پی ) میں داخل ہو چکے تھے۔ وہاں سے پھر مشہور شہر نوشہرہ پہنچے۔
نوشہرہ میں ملکی وغیر ملکی کپڑوں کی بہت بڑی مارکیٹ تھی اس لیے خواتین نے تھوڑی دیر رُک کے اپنا شاپنگ کا شوق پورا کیا۔ نوشہرہ کے بعد رسالپور اور پھر رشہ کئی آیا ۔ یہاں بھی غیر ملکی کپڑے کی ایک مشہور مارکیٹ تھی جس میں شاپنگ کے لیے خواتین کا رش تھا ۔ ہمارے ساتھ کی خواتین بھی نہ رہ سکیں اورشاپنگ کا شوق پورا کیا ۔ رشہ کئی اترنے کا ایک فائدہ یہ ہؤا کہ کچھ کولڈ ڈرنکس بھی پی لیں اور وہاں مارکیٹ کے ساتھ ہی پٹھان دکانداروں کے گھر تھے انہوں نے کمال مہر بانی سے اپنی خواتین سے کہا کہ یہ مہمان ہیں ان کے لیے گھروں کے دروازے کھول دیں تو ہماری خواتین بے خوف ان گھروں میں چلی گئیں اور واش رومز کی سہولت سے استفادہ کیا۔
مردان بڑا شہر ہے ۔ ہماری کوچ شہر کے درمیان سے گزری، اس طرح کوچ میں بیٹھے بیٹھے ہی شہر کا نظارہ کرلیا ان دنوں ابھی لاہور پشاور موٹروے تعمیر نہیں ہوئی تھی اس لیے جی ٹی روڈ پر ہی سفر ہوتا تھا۔
نوشہرہ کے بعد ایک مشہور قصبہ ’’ تخت بھائی‘‘ آیا ۔ یہاں کے چپل کباب بہت مشہور ہیں ۔ دوپہر کا وقت ہو چلا تھا ، سب کو بھوک لگ رہی تھی اس لیے یہیں کھانے کا پروگرام بنا ۔چپل کباب واقعی بڑے لذیذ تھے ۔ کھانے کے بعد مزیدار پشاوری قہوہ بھی نوش کیا۔
سفر دوبارہ جاری ہؤا تو مالا کنڈ کا پہاڑی سلسلہ شروع ہو گیا ۔ یہ بڑا خوبصورت علاقہ ہے ۔ راستے میں در گئی کا مقام بھی آیا۔ایک جگہ سے سڑک ایک طرف ریاست دیر کی طرف جا رہی تھی دیر میں وادی سوات کا علاقہ شروع ہو گیا ۔ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ ، قدرتی حسن ہر سو پھیلا ہؤا تھا ۔ وادی سوات کے دارالحکومت سیدو شریف کے ساتھ ہی سوات کا مشہور شہر مینگورہ واقع ہے سیدو شریف بھی خوبصورت جگہ ہے اور یہاں مشہور ’’سفیدمحل‘‘ جو مرغزار کے علاقہ میں ہے ۔ سب سیاح سفید محل دیکھنے ضرور جاتے ہیں لیکن ہمارا پرو گرام یہ بنا کہ سفید محل کی سیر واپسی پر کی جائے اور ابھی آگے کا سفر جاری رکھا جائے ۔ کوئی پون گھنٹے کے سفر کے بعد ایک مشہور مقام مدائن آیا ۔ یہ ایک چھوٹا سا خوبصورت قصبہ ہے ۔ جو دریائے سوات کے کنارے پر آباد ہے ۔ چھوٹے چھوٹے خوبصورت گھر ہر طرف سبزہ ہی سبزہ پہاڑی چشمے اور نیچے جھاگ اڑاتا ہؤا دریائے سوات کا پر شور پانی دریائے سوات ساتھ ساتھ بہتا جا رہا تھا ۔ اب ہم بحرین پہنچ گئے جہاں ہمارا شب گزارنے کا پروگرام تھا۔
شام کا وقت ہو چکا تھا ہوٹل ’’ آبشار‘‘ میں ہمیں مناسب کمرے مناسب کرایہ پر مل گئے ۔ یہ ہوٹل بالکل دریا کے کنارے بلکہ دریا کے اوپر بنایا گیا ہے اس لحاظ سے اس کا نظارہ بڑا خوبصورت ہے ۔ سامان کمروں میں رکھا ، چائے پینے کے بعد کچھ تازہ دم ہوئے تو باہر بحرین کے بازار کی سیر کو نکلے۔

قریب ہی ایک خوبصورت منظر دیکھا۔ دو دریا بحرین میں آکر مل رہے تھے اور یہاں ان کے ملاپ سے ایک دریا دریائے سوات مکمل ہو رہا تھا ۔ اسی لیے اس جگہ کا نام بحرین ( دو دریائوں کے ملنے کی جگہ ) ہے۔ بازار میں خوب چہل پہل تھی ۔ ہر طرح کی دکانیں تھیں۔ہم ایک مناسب سے ریستوران میں بیٹھ گئے اور کڑاہی مرغ کا آرڈر دیا ساتھ ہی کچھ تکہ کباب اور دال ماش ،کھانا گرم اور مزیدار تھا خوب پیٹ بھر کے کھایا ۔ اس کے بعد مزیدار خوشبو دار پشاوری قہوہ پیا۔
دن بھر کے سفر سے تھکے ہوئے تھے اس لیے جلد کمروں میں سونے کے لیے چلے گئے دریائے سوات کے پانیوں کا شور مسلسل سنائی دے رہا تھا لیکن اس شور نے موسیقی کا کام انجام دیا اور جلد ہی گہری نیند آگئی۔
صبح آنکھ کھلی تو سب تازہ دم تھے ۔ فجر کی نماز ادا کی اور بحرین کی پر فضا سڑک جو کالام کو جاتی ہے سیر کے لیے نکل گئے ۔ صبح کی خوش ہوا، پہاڑوں کا خوبصورت منظر ، دونوں طرف اونچے سر سبز پہاڑ، سڑک کے ساتھ ساتھ دریائے سوات کا بہتا ہؤا شفاف پانی ، سیرکا لطف آگیا اور پھر بے اختیار دریا کے کنارے بڑے بڑے پتھروں پر بیٹھ گئے اور قدرتی نظاروں سے لطف اندوز ہونے لگے ۔ بحرین کی وادی کا یہ خوبصورت منظر دیکھ کے سب بے اختیار پکار اٹھے کہ بلا شبہ یہ جگہ خوبصورتی میں بے مثال ہے۔
جب ناشتے کی طلب ہوئی تو ہوٹل پہنچ گئے ۔ خوب بھوک چمک رہی تھی ۔ آرڈر دے دیا فرائی انڈے ، آملیٹ ، سلائس، چائے کے ساتھ ساتھ نان ، تندوری پراٹھے اور چنے تھے۔اس ناشتے کا مزہ آج تک یاد ہے ۔
ہماری اگلی منزل کالام تھی ۔ سفرشروع ہو گیا اور ایک دفعہ پھر اس وادی کے حسین نظارے دیکھے ۔ مجھے یاد آگیا کہ کچھ سال پہلے میرے بھائی جان یونس صاحب انگلینڈ سے آئے تھے تو میں ان کے ساتھ سوات آیا تھا ، جب ہم بحرین پہنچے اور نظارے دیکھے تو میرے بھائی جان نے بے اختیار کہاکہ یہ تو سوئٹزر لینڈ سے خوبصورت وادی ہے ۔ احساس ہؤا کہ ہمارے پاس بھی کیسے خوبصورت علاقے ہیں بس دیکھنے والی نظر چاہیے۔ بحرین تک تو سڑک اچھی تھی مگر آگے کالام جانے والی سڑک کچھ تنگ اورقدرے خستہ حالت میں تھی۔ دو گھنٹے میں ہم کالام پہنچ گئے۔
مجھے کچھ سال پہلے کا زمانہ یاد آگیا جب میں کالام آیا تھا اس وقت یہاں کوئی ہوٹل نہ تھا ، بس دریا تھا اور ہر طرف پہاڑ تھے ، ہر وقت تیز ہوا چلتی رہتی تھی ۔ جب چائے اور کھانے کی ضرورت پڑی تو ایک چھپر ہوٹل نظر آیا جس میں لکڑیوں کی آگ دہک رہی تھی اور سارا کمرہ اندر سے دھوئیں کی وجہ سے کالا سیاہ ہو رہا تھا ۔ اس آگ پر چائے بنائی جا رہی تھی اور اُسی پر ایک سالن کا دیگچہ پڑا تھا ۔ سادہ سا کھانا تھاجو صبر شکر کر کے کھایا۔ اس کے بعد کڑک چائے پی جس میں دھوئیں کا ذائقہ بھی شامل تھا۔ کچھ سواتی غریبانہ لباس میں وہاں بیٹھے آگ تاپ رہے تھے ۔ بہرحال اس ماحول میں بھی مزہ آیا۔
آج کالام آئے تھے تو نقشہ ہی بدلا ہؤا تھا ۔ ہر طرف جدید ہوٹل پھیلے ہوئے تھے اور جگہ جگہ ریستوران کھلے تھے ۔ ہم نے رہائش کے لیے مناسب ہوٹل کی تلاش شروع کی ۔ آخر ’’ ہنی مون ہوٹل‘‘ میںآف سیزن ہونے کی وجہ سے ہمیں بہت سستے کمرے مل گئے یعنی صرف پانچ سو روپے یومیہ پہ اور ہر کمرہ اچھا کھلا اور صاف ستھرا تھا ۔ ایک کمرے میں آسانی سے ہم چار چار لوگ ٹھہر گئے حالانکہ جب ہماری ایک اور فیملی سیزن میں یہاں آئی تھی تو یہی کمرہ انہیں پانچ ہزار روپے میں ملا تھا ۔
تھکے ہوئے تھے اس لیے تھوڑا سا آرام کیا۔ کھانے کے بعد تھوڑی سی سیر کی ۔ عجیب منظر دیکھا کہ دریا کے اندر چار پائیاںرکھی تھیں ، پلاسٹک کی کرسیاں اور میز بھی تھے۔ لوگ مزے سے پانی کے اندر ٹانگیں لٹکا کے بیٹھے ہوئے تھے اور مختلف سنیک لے رہے تھے۔ ہم بھی دریا میں جا بیٹھے اور اپنی اپنی پسند کے سنیک لے لیے چھوٹے چھوٹے سواتی لڑکے بھاگ بھاگ کر لوگوں سے آرڈر لے رہے تھے ۔ یہ دیکھ کے ہماری ایک بھابی بے اختیار کہنے لگیں۔
’’ یہ تو دنیا میں ہی جنت کا ایک نظارہ ہے ۔ نہر بھی ہے ، خدمت کرنے والے غلامان بھی ہیں ۔ خوبصورت پہاڑ ہیں ، خوشگوار موسم ہے ۔

قسم قسم کے میوے اور مشروبات ہیں اور بڑے مزے سے سب بیٹھے ہیں۔جب دنیا میں ایسا نظارہ ہے تو اللہ کی اس جنت کا نظارہ کیسا ہوگا ؟ اس کا تو تصور کرنا ہی محال ہے ‘‘۔
شام کی سیر کونکلے تو کالام کی مشہور لکڑی کی بنی ہوئی جامع مسجد دیکھی یہ مسجد بہت پرانی ہے اور ساری کی ساری لکڑی کی بنی ہوئی ہے۔ مسجد کے ہال میںعین درمیان میں آگ جلانے کا بندو بست ہے ۔ سردیوں میں جب زیادہ ٹھنڈ ہوتی ہے تو مسجد میں ہر وقت آگ جلتی رہتی ہے ، اس طرح مسجد گرم رہتی ہے اور نمازیوں کے لیے آرام دہ بن جاتی ہے ۔ یہ واقعی ایک شاندار کارنامہ ہے کہ ساری مسجد کالام والوں نے کچی لکڑی سے بنائی تھی۔
اس ٹور سے کافی سال پہلے میں کالام آیا تھا تو مجھے یہاں میرے ٹریننگ کالج کا ایک سٹوڈنٹ مل گیا تھا ۔ اس نے مجھے یہاں کے جنگل کے علاقے کی سیر کرائی جہاں شاید ہم لوگ اکیلے نہیں جا سکتے ۔ وہ مجھے جنگل میں ایک مقامی سردار کے گھر لے گیا ۔ انہوں نے ہمیں بڑی عزت سے بیٹھک میں بٹھایا۔ میں نے دیکھا کہ دیوار پر ایک تلوار لٹکی ہوئی تھی، ایک شیر کی کھال بھی دیوار سے سجی تھی اور ان کا روایتی موسیقی کا آلہ رباب بھی پڑا تھا ۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ یہاںکے قدیمی باشندے ہیں اور اسی طرح ابھی تک جنگلوں میں رہتے ہیں۔
وہاں ہم نے دیکھا کہ بچوں اور خواتین کی آنکھیں نیلی، بال سنہرے اور رنگت سرخ و سفید جیسے سیب ہوتے ہیں ایک دفعہ کہیں پڑھا تھا کہ سکندر اعظم ( یونانی فاتح) کبھی سوات کے علاقے سے گزرا تھا تو اس وقت اس کے کچھ یونانی لوگ یہا ں آباد ہو گئے تھے جن کی نسل اب سوات میں پھیل گئی ہے ۔ ان میں حسن کی وہی یونانی جھلک اب بھی باقی ہے۔
اگلی صبح ناشتے کے لیے نکلے تو دیکھا سڑک کے ایک طرف ایک چھوٹا سا ہوٹل ہے ۔ ایک آدمی توے پر گرما گرم پراٹھے پکا رہا ہے ۔ہم سب نے فیصلہ کیا کہ آج یہیں ناشتہ کریں گے تو کرسیوں پہ بیٹھ گئے اور گرما گرم پراٹھے آتے گئے ۔ہمارا ہوٹل ’’ ہنی مون‘‘ دریا ئے سوات کے کنارے پہ تھا بلکہ ہمارے کمرے کی پشت دریا کی طرف کھلتی تھی ۔ پیچھے ایک بالکونی سی تھی جس میں ایک بڑا سا جھولا پڑا تھا ۔ اس پہ بیٹھ کے ساتھ ہی بہتے ہوئے دریا کا نظارہ عجیب منظر پیش کر رہا تھا ۔ ہم نے کالام کے پہاڑوں پہ جا کے دیہاتی لوگوں کے گھر اور ان کے کھیت بھی دیکھے ۔ ان دنوں آلو کی بڑی اچھی فصل وہاں لگی تھی اور کئی پھلدار درخت بھی تھے ۔ اچھے محنتی لوگ ہیں ۔
کالام سے اور بلندی پر جائیں تو اوشو، اتروڑ اور گھیرال کے علاقے ہیں۔ وہاں بلندی پر خوبصورت جھیل بھی ہے ، سر سبز میدان ہیں ادھر سے ہی دریائے سوات نکلتا ہے اور پھر نیچے وادیوں میں آجاتا ہے ۔ وہاں صرف جیپیں جاتی تھیں ذرا مشکل سفر تھا اس لیے ہم وہاںنہ جا سکے کیونکہ ہمارے ساتھ چھوٹے بچے بھی تھے ۔ دودن کالام میں قیام رہا خوب جی بھر کے سیر کی موسم بڑا پیارا تھا ۔
اب واپسی کا سفر شروع ہؤا صبح کالام سے چلے اور دریائے سوات اور وادی سوات کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بحرین پہنچے اور پھر مدائن ۔
میں نے دل میں سوچا کہ اگلی دفعہ ادھر اکیلا آئوں گا تو یہاں مدائن میں کوئی چھوٹا سا گھر ذاتی طور پر خرید لوں گا کہ کبھی کبھی آکے یہاں رہا کریں گے ۔ لیکن حادثات زمانہ کہ اگلے سال ہی دہشت گردی کے سائے وادی سوات پر منڈلانے لگے اور کئی سال تک یہ حسین وادی سیاحوں کے لیے بلکہ وہاں کے باشندوں کے لیے بھی علاقہ ممنوعہ بن گئی ۔ مینگورہ کے چوک میں فسادات کے آثار نظر آنے لگے بازار ، ہوٹل سب سنسان ہو گئے ۔ کئی سال یہی عالم رہا ۔ خدا کا شکر ہے کہ ہماری بہادر افواج نے پھر اس علاقے میں امن و امان بحال کر دیا ، مقامی باشندے واپس لوٹے اور اس حسین وادی کی رونقیں لوٹ آئیں۔
منگورہ سے آپ مالم جبہ کی سیر کو بھی جا سکتے ہیں ۔ دس ہزار فٹ سے زیادہ کی بلندی پر واقع ہے ۔ میں ایک دفعہ اکیلا وہاں گیا تھا ۔ منگورہ سے جونہی بلندی کی طرف ویگن روانہ ہوئی سڑک کے کنارے کنارے گھنے درخت نظر آنے لگے اور ہر درخت پر ہزاروں سرخ رنگ کے پھل

تھے میں نے مقامی لوگوں سے پوچھا تو انہوںنے بتایا کہ یہ یہاں کا جاپانی پھل ہے ۔ قدرت نے نہایت فیاضی سے ان لوگوں کو یہ نعمت عطا کی ہے ۔ دو گھنٹے کی بلندی کے سفر میں ہر طرف یہ درخت بہار دکھا رہے تھے ۔ مالم جبہ میں ایک سرکاری ہوٹل وائٹ کے نام سے تھا، بڑا آرام دہ ،جب دہشت گردوں نے وہاں قبضہ کیا تو اسے بھی تباہ کر دیا ۔ مالم جبہ سر دیوں میں برف سے ڈھکا ہوتا ہے اور یہاں سکیٹنگ کرنے کثرت سے لوگ آتے ہیں۔
میں ایک رات وہاں ٹھہرا تھا ۔وہاں چیئر لفٹ پہ سیر کی جو ایک پہاڑی چوٹی سے دوسری پہاڑی چوٹی تک جاتی ہے اور نیچے وادی کا حسن نظر آتا ہے ۔ پھر میاندم دیکھنے کا بھی شوق تھا ، وہاں بھی اکیلا ہی گیا تھا ۔ منگورہ سے ہی ویگن پہ سوار ہوئے ۔ میاندم ذرا قریب ہے اور غالباً سات ہزار فٹ کی بلندی پرہے ۔ ایک گھنٹے میں وہاں پہنچ گئے ۔ ہوٹل میں کمرہ مناسب ریٹ پر مل گیا تھا۔اکیلا تھا اس لیے خوب گھوم پھر کے سیر کی ۔
واپسی کے اس سفر میں سب لوگوں کو سیدو شریف کا سفید محل دیکھنے کا شوق تھا یہ سیدو شریف کے خوبصورت علاقے مرغزار میں واقع ہے ۔ بلندی پر واقع یہ شاندار محل کبھی والی ِسوات کی رہائش گاہ ہؤا کرتا تھا لیکن اب حکومت نے اسے ایک سیر گاہ کے طور پر محفوظ کر لیا ہے۔ پچاس روپے فی کس ٹکٹ اندر جانے کے لیے ہے لیکن اگر آپ اندر چلے جائیں ، چائے وغیرہ پئیں یا کچھ اور کھائیں تو یہ پچاس روپے اس میں ایڈجسٹ کر دئیے جاتے ہیں ۔ محل بہت خوبصورت ہے سفید سنگ مرمر سے بنا یہ محل اندر سے دیکھنے کے لائق ہے ۔ بے شمار صاف ستھرے کمرے ، ایک وسیع ہال جس میں بیٹھ کے چائے پینے کا لطف آیا ۔
مجھے پھر اپنا گزشتہ ٹرپ یاد آیا جب کئی سال بیشتر میں نے اپنے کالج کے سٹوڈنٹس کے ساتھ ( جب میں بھی سٹوڈنٹ تھا ) ادھر آیا تھا اور ہم جہاں زیب کالج سیدو شریف میں ٹھہرے تھے ۔سفید محل کی سیر اور ساتھ ہی مرغزار کی سیر کرنے صبح گئے تو پتہ چلا کہ تھوڑی دیر میں والی سوات(جو بہت بزرگ تھے ، غالباً نوے سال کے قریب عمر تھی )تشریف لائے ۔ لوگ دونوں طرف قطار میں کھڑے تھے ۔ انہوں نے سب کے ساتھ ہاتھ ملایا ، ہم نے بھی ان سے مصافحہ کیا ۔پھر ولی ِسوات باہر لان میں ایک کرسی پر بیٹھ گئے ۔ ان کے آگے ایک میز رکھا تھا ۔ پھرانہوں نے قرآن پاک کھولا اور اس کی تلاوت میں مصروف ہو گئے ۔ میں حیران ہو رہا تھا کہ اس عمر میں بھی وہ بغیر عینک کے قرآن پاک پڑھ رہے تھے۔ بالکل سفید داڑھی تھی بہت بزرگ لگ رہے تھے ۔ بہر حال والی ِسوات سے یہ ملاقات یاد گار تھی ۔
سفید محل اور مرغزار کی سیر کے بعد فضا گھٹ کی سیر بھی کی ۔ دریائے سوات کے کنارے منگورہ کے پاس یہ ایک سیر گاہ ہے ۔ گوایک پارک سا ہے ۔ واپسی کا سفر شروع ہؤا تو جلد ہی سیب کے باغات نظر آنے شروع ہوگئے ۔ سب کو شوق تھا اس لیے کوچ کو روکا گیا اور ہم سب سیبوں کے باغات میں گئے ۔ وہاں تازہ سیب اتارے اور پیٹیوں میں پیک کئے جا رہے تھے ۔ تازہ مزے دار سیب تھے ۔ ہم نے بھی اس باغ سے سیبوں کی دو پیٹیاں خرید لیں۔
واپسی کا سفر اکثر اداس کر دیتا ہے ۔ اس حسین وادی سے رخصت ہونے کا افسوس بھی ہو رہا تھا اور اس کی خوشگوار یادیں بھی ہمارے ساتھ سفر کر رہی تھیں۔
جوں جوں ہم وادیِ سوات سے دور ہو رہے تھے موسم کی تبدیلی نظر آ رہی تھی ۔ مالا کنڈ کے بعد در گئی کا مقام آیا ۔ یہاں بجلی کا جنریشن پلانٹ لگا ہؤا ہے یعنی در گئی پاور پراجیکٹ۔ یہ صدر ایوب خان کے زمانے میں لگا تھا ۔ در گئی سے آگے نکلے تو پھر تخت بھائی کا قصبہ آگیا جہاں چپل کبابوں کی سوندھی سوندھی خوشبو آ رہی تھی اور سب کے شور مچانے پر کوچ کو روکنا پڑا ۔تخت بھائی یا پھر قصہ خوانی بازار پشاور کے چپل کباب مزے کے ہوتے ہیں۔
مردان کے بعد رسالپور اور رشہ کئی سے ہوتے ہوئے نو شہرہ سے گزرے اور مغرب کی اذانیں ہو رہی تھیں جب ہم روالپنڈی پہنچ گئے۔ اس خوبصورت وادی کی خوشگوار یادیں لیے جو آج تک ہمارے ساتھ ہیں اب تو لاہور پشاور موٹروے سے سوات موٹروے تعمیر کردی گئی اور منگورہ تک سفر میں بہت آسانی ہو گئی ہے ۔

٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x