ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

عورت بے چاری! -بتول اپریل ۲۰۲۱

’’کچھ عرصہ پہلے جب میں بے انتہا مصروفیت کے گرداب میں پھنسی کچھ لکھنے کے لیے سخت محنت کر رہی تھی ،میری ایک کولیگ نے مجھے تجویز دی کہ میں بڑے بڑے نامور تخلیق کاروں کے روز مرہ کے شیڈول کے بارے میں پڑھوں تاکہ اس کے مطابق اپنے اوقات کو ترتیب دے سکوں۔لیکن اس مشورے پر عمل کے بعدخلاف توقع میں بہت ناامید ہوئی کیونکہ ان تمام مشہور اور نابغہ روزگار شخصیات کے،جن میں اکثریت مرد حضرات تھے ،روزو شب ان کی نصف بہتر خواتین کے مرہون منت تھے ‘‘۔
معزز قارئین !یہ اس بلاگ کا ابتدائی حصہ ہے جو ڈیڑھ سال پہلے دی گارجین میں شائع ہؤا تھا جسے بریگیٹ شاولٹ نامی ایوارڈ یافتہ فیمنسٹ صحافی نے تحریر کیا تھا ۔ وہ آگے لکھتی ہیں :
’’ان کی بیویاں ان کو مداخلت سے محفوظ رکھتی ہیں ۔خادمائیں ناشتہ کھانا میز پر پہنچادیتی ہیں ,وقت بے وقت ان کو چائے کافی مہیا کرتی ہیں ۔ان کو بچے کے بال کٹوانے جیسے معمولی معمولی کاموں سے دور رکھتی ہیں ۔سگمنڈ فرائیڈ کی بیوی مارتھا اس کے کپڑوں کا ہی خیال نہیں رکھتی بلکہ اس کے ٹوتھ برش پر پیسٹ تک لگاتی تھی ۔مارسل پروسٹ کی خادمہ نہ صرف اس کو کھانے پینے کے لوازمات ، خطوط اور اخبارات سلورٹرے میں سجا کر پیش کرتی تھی بلکہ جب وہ گفتگو کا طالب ہوتا اس سے گپ شپ کرکے اسے تازہ دم کرتی تھی جو اکثر گھنٹوں پر محیط ہو تا۔یہ تو وہ خواتین ہیں جن کا نام کتاب میں موجود ہے ورنہ بہت سی گمنام خواتین کا ذکر تک نہیں ہے جو اپنے مردوں کے کارناموں کے وقت انہیں سہولت فراہم کرتی تھیں جن میں کارل کارکس کی بیوی شامل ہے جو اس کے چھ میں سے تین زندہ بچ جانے والے بچوں کی دیکھ بھال کرتی تھی جب وہ برٹش میوزیم میں بیٹھا لکھ رہا ہوتا تھا ‘‘۔
گسٹاف مہلر نامی موسیقار کے بارے میں وہ مزید لکھتی ہے :
’’مہلر نے الما نامی نوجوان موسیقار سے شادی کے بعد اس پر یہ کہہ کر پابندی لگادی کہ گھر میں ایک ہی کافی ہے ۔ الما کو گھر کے کام مکمل کرنے کے بعد گھنٹوں خاموش بیٹھے رہنا پڑتا تھا کہ مہلر سکون سے دھنیں تیار کرسکے اور اس کے بعد وہ الما کولمبی اور خاموش سیر کو لے جاتا کہ اپنی تیار کردہ دھنیں سنواسکے! اس دوران الما گھاس یا کسی شاخ پر بیٹھی بلا توقف ان کو سننے پر مجبور ہوتی ۔’ مجھے اس وقت اپنے آپ کو ضبط کرنے میں شدید دشواری ہوتی ‘الما نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا‘‘ ۔
بریگیٹ مزید لکھتی ہیں’’اس کے مقابلے میں مرد اپنےتخلیقی کاموں کے لیے وقت لینا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں اور گھریلو امور سے فارغ رہتے ہیں یا مقابلتاً بہت کم وقت دیتے ہیں‘‘۔
اس کے بعد وہ کچھ خواتین کی مثالیں دیتی ہیں جن میں سے ایک بچپن سے ہی رات گئے نیند قربان کرکے تخلیقی کام کی عادی تھی جب اسے اپنی دادی کی دیکھ بھال کرنی پڑتی تھی۔کسی کو اپنے بچوں کی اسکول روانگی سے واپسی تک کا وقفہ اپنے تحریری شوق کے لیے ملتا تھا اور کچھ گھر داری اور بچوں سے بمشکل وقت نکال کر یہ کام کر سکیں ۔کسی نے اپنے آپ کوذمہ داریوں سے کھینچ کر ہوٹل کے نامانوس ماحول میں پناہ لی کہ وہاں بیٹھ کرکچھ سوچ بچار اور لکھ پڑھ سکے ۔بہت ہی دلچسپ مثال ایک مرد قلم کار انتھونی کی ہے جس کے بارےمیں مشہور ہے کہ صبح 8 بجے تک دوہزار الفاظ لکھ لیتا تھا او ر اسے یہ عادت اپنی ماں سے ورثے میں ملی تھی جس نے 53 سال کی عمر میں اپنے بیمار شوہر اور چھےبچوں کی کفالت کے لیے لکھنا شروع کیا تھا ۔وہ صبح 4 بجے اٹھ کر اپنے خاندان کے لیے ناشتہ تیار کرنے سے قبل یہ کام کرتی تھی !
بریگیٹ کے خیال میں اس نے سائنس، آرٹس، موسیقی ، فلسفہ جو کچھ سیکھا مردوں سے ہی سیکھا۔ یہاں پر وہ ایک پیش کارکے الفاظ لکھتی ہیں کہ عورتیں کبھی اچھا آرکسٹرا کر ہی نہیں سکتیں کیونکہ ان میں اتنی صلاحیت اور برداشت نہیں ہوتی۔ اس بلاگ میں بہت سی اور مثالیں دی گئی ہیں جہاں میاں بیوی دونوں تخلیق کار تھے مگر مرد زیادہ کامیاب اور مشہور ہوئے کیونکہ انہیں بچوں کوسنبھالنا نہیں پڑ تا تھا ۔ اگرچہ یہ خواتین کسی طرح کم صلاحیت نہیں رکھتی تھیں مگر صرف وقت کی تنگی کے باعث تخیل اور فنون کی دنیا میں اپنا لوہا نہ منواسکیں ۔خواتین کے ساتھ وقت کی قلت کا یہ مسئلہ ہمیشہ سے رہا ہے کہ وہ بچوں کی دیکھ بھال، رشتہ داروں کے تعلقات نبھانے اور گھر کے کبھی ختم نہ ہونے والے امور کی وجہ سے بھرپور توجہ نہیں دے پائیں ۔ایسا کبھی نہیں ہؤا کہ وہ اپنی تخلیقی سرگرمیوں کے لیے بہترین اور بلا تعطل وقت اور توجہ کی عیاشی کی توقع بھی کرسکیں ۔ اگر کہیں اور کبھی ملی بھی تو لعن طعن اور خود غرضی کے لیبل کے ساتھ!
بیگیٹ کے مطابق آج بھی پوری دنیا میں خواتین کے لیے بلاتعطل فارغ وقت کی ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جہاں وہ گھر ، بچوں اور دیگر فکروں سے آزاد زندگی گزار سکیں ۔ لاس اینجلس کے 32 گھرانوں کے سروے سےیہ بات سامنے آئی کہ کھینچ تان کر بھی کسی خاتون کو 10 منٹ سے زیادہ کا فارغ وقت نہیں مل پاتا! تعلیمی سرگرمیوں کا بھی یہ ہی حال ہے کہ اگرچہ مرد و خواتین یکساں وقت اپنے پیشے کو دیتے ہیں مگر خواتین کو اپنی گھریلو اور سماجی ذمہ داریوں کے باعث مداخلت کاسامنا رہتا ہے جبکہ مردوں کو سوچنے، لکھنے پڑھنے، نئے اوراچھوتے خیالات رقم کرنے کا بے تحاشا وقت ملتا ہے کہ دنیا کے سامنے شہرت اور نام حاصل کرسکیں ۔ یہاں ایک تحقیق نگار کے حوالے سے بطور مذاق کہا گیا ہے کہ ایک عورت جو بہترین اور بے مثال تخلیقی کام کے لیےذمہ داریوں سے آزاد ہوکوئی راہبہ ہی ہو سکتی ہے ! عورتوں پر تحقیق کرنے والوں کا کہنا ہے عورت کا بلا تعطل وقت کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکتا الا یہ کہ وہ خود اس کا اہتمام کرے،جیساکہ میلنڈا گیٹس نے بھی اپنی کتاب میں لکھا ہے ۔یہاں پر بریگیٹ نے اپنی مثال دی ہے کہ اس مضمون کی تیاری 4 ماہ سے کر رہی ہوں مگر کوئی نہ کوئی ہنگامی فون یا ای میل کبھی شوہر تو کبھی میری ماں کبھی کسی بچے کی طرف سے موصول ہوتی ہے جنہیں میری فوری توجہ درکار ہوتی ہے اور یوں یہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پاتا۔
بقول ایک نفسیات دان کے خیالات کے بہاؤ میں وقت کا اندازہ نہیں ہوتا اور خواہ مرد ہو یا عورت اس حالت میں ایک نہایت قوی اور قیمتی خیال تخلیق کرسکتا ہے اس لمحے میں دوسری طرف توجہ خواہ معمولی ہی کیوں نہ ہو اس خیال کو بہا کر لے جاتی ہے ۔ اس نے ایک عورت کی مثال دی جو ایسے ہی کسی لمحے اپنے ایک قیمتی خیال سے ہاتھ دھو بیٹھی محض اس وجہ سے کہ اسے اپنے شوہر کی شرٹ استری کرنی تھی ۔
یہاں ایک شاعرہ ایلیٹ کی مثال دی گئی ہے جو اپنے ایوارڈیافتہ ناول نگار شوہر کے سایہ میں تاعمر رہی ۔ اس کا کہنا ہے کہ کئی دفعہ اپنے اوپر نزول ہوتی نظموں کو یہ کہہ کر دھتکارا کہ اس کے پاس وقت نہیں ہے۔ مگر اس شاعرہ نے 1997 ء میں ایک انٹرویو میں اعتراف کیا کہ یہ محض وقت کی کمی کے باعث نہیں بلکہ اس کا ایک سبب کاہلی ہے ،اگر آپ لکھنا چاہیں تو لکھ سکتے ہیں اگر گھر کو رگڑنے اور چمکانے جیسے دوسرے کام نہ کریں ، مجھے بہت سی نظموں کے قتل کا افسوس ہے جو ایک چمکتے گھر کے بدلے میں حاصل ہوسکتی تھیں۔یہاں مصنفہ ایسی کتنی ہی ان کہی کہانیاں منظر عام پر نہ آسکیں ۔یہ درد بڑا تکلیف دہ ہے ! (ہم میں سے کتنے اس درد سے گزرتے ہیں ؟ )
ایک قلم کار کا حوالہ دیتے ہوئے جن کا کہنا تھا کہ مجھے کوئی عورت اپنے مقابل نظر نہیں آتی کہ وہ جذباتی اورتنگ نظر ہوتی ہیں جبکہ مردوں کے اندر انسانی تجربات قدرتی طور پر پائے جاتے ہیں جنہیں وہ بخوبی بیان کرسکتے ہیں ،بریگیٹ سوال اٹھاتی ہے کہ ایک عورت جو 6 والیم پر مبنی اپنی زندگی کے تجربات لکھتی ہے کیا اتنی شہرت اور قبولیت پاسکتی ہے جیساکہ کسی مرد نے لکھی ہو ؟
بیسویں صدی کی مشہور ناول نگار ورجینیا وولف نے ایک دلچسپ موازنہ کیا ہے کہ فرض کریں شیکسپیئر عورت ہوتی یا پھر اس کی کوئی بہن اتنی ہی صلاحیتوں کی حامل ہوتی ( یہاں ایک نامور شاعر کی مثال دی گئی ہے جس نے اپنی بہن کی ابتدائی نظموں کو خوبصورت کہا تھا مگر بعد میں اس بہن کا کہیں نام و نشان نہ ملا اور ناپسندیدہ فرد سے شادی کے بعد اپنی ان کہی نظموں کے ساتھ کہیں نظر نہ آئی ) تو کیا خاتون شیکسپیئر کو اپنی صلاحیتوں کو جلا بخشنے اور عبقری بننے کا موقع ملتا یا پھر وہ بھی اسکول سے محروم رہتی، اس کو اپنا دماغ بند کرنا پڑتا ، کم عمری میں شادی کرنی پڑتی اور ایسانہ کرنے پر مار پیٹ سہتی ۔ورجینیاکے مطابق وہ اپنی خداداد خوبیوں کے باوجود ہونق سی زندگی گزارتی ،کسی کاٹیج میں قید زندگی کے دن کاٹتی یا پھر چڑیل بنی لوگوں کے مذاق کانشانہ بنتی ۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی ۔ورجینیا تصور کرتی ہے کہ ایک وقت ہوگا جب ایک عبقری عورت کو اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا موقع ملے گا ،اس سے وابستہ توقعات پوری ہوں گی ،اس کی بصیرت کو تسلیم کیا جائے گا،وہ اپنے اظہار کو معنی پہنا سکے گی اور جیسا تخلیق کرنا چاہے کرسکے گی…..اگر کرنا چاہے!
معزز قارئین ! ظاہر ہے یہ بیسویں صدی میں تحریک نسواں کے ایجنڈے کے نکات ہیں جن کا تسلسل بریگیٹ کے ان الفاظ سے ہوتا ہے۔
’’مجھے اپنے عبقری ہونے کا دعویٰ تو نہیں ہے مگر میں تصور کرتی ہوں کہ میں اپنے ایک منفرد انداز میں دھندلے سے باورچی خانے کی میز پر بیٹھی چائے کی چسکیاں لے رہی ہوں ، لامتناہی وقت اپنے ساتھ گزار رہی ہوں اور بلا کسی تعطل خیال کے گھوڑے دوڑا رہی ہوں…..کوئی کہانی ان کہی نہ رہے۔ میں اس خواب کو توڑنا نہیں چاہتی اور یہ بھی کہ ہم ایسی دنیا تخلیق کر سکیں جہاں شیکسپیئر یا موزارٹ کی بہن یا پھر کوئی بھی خاتون کام کرسکے ۔کیا ہوگا اگر خواتین کو اپنے دھندلے کچن میں چائے پیتے ہوئے کہانیاں تخلیق کرنے کا موقع مل سکے ؟ اپنے ساتھ وقت گزارسکیں بغیر کسی تعطل یا کام کے ؟ کیا ایسا ہوگا ؟‘‘
عزیز قارئین !
جب ہم نےبریگیٹ کا مضمون پڑھنا شروع کیا تھا تواس مضمون کے آغاز میں یوں محسوس ہؤا گویا قلم کی سستی کو رواں کرنے کی کوئی رہنمائی ملے گی مگر یہ تو فیمنزم کا بیانیہ ثابت ہؤا۔ بہر حال ہر چیز سے کچھ نہ کچھ سیکھنے اور اپنے لیے نکتہ نکالنے کی گنجائش ہوتی ہے تو اس حوالے سے اس کی بھی اہمیت بن گئی ہے۔ ہرمعاشرےکی جداگانہ حیثیت اور روایات ہوتی ہیں جن کا مقابلہ فضول ہوتا ہے مگر کچھ چیزیں عالمگیر ہوتی ہیں جیسے:
’’ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے‘‘۔
یہ ایک عالمی بیانیہ ہے مگر اب اس کا مثبت تاثر تبدیل کرنے کی کوشش ہے اور یہ مضمون بھی اسی کا تسلسل ہے۔اس مضمون کابنیادی مقصد یہ ہے کہ عورت مظلوم ہے اس کو اپنے لیے وقت نہیں ملتا،یکسوئی دستیاب نہیں، مفت کی خدمت گار ہے بلکہ بیگار ہے، کوئی پرسان حال نہیں کہیں شنوائی نہیں…..اس سلسلے میں ہمارا نقطہ نظر کیا ہے ؟ اور کیا ہونا چاہیے ؟ گھر داری میں خاک ہونے والی عورت کی جنتی ہونے کی خوشخبری کیا معمولی ایوارڈہے ؟ کسی بھی مصنف کی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں اس نے کتاب کا انتساب ماں یا بیوی کے نام ہی لکھا ہوتا ہے ( کیونکہ یہ ہی دو رشتے سب سے زیادہ قربانیاں دیتے ہیں ! ) کیا معمولی اعزاز ہے ؟
اس مضمون پر اپنا تبصرہ فروری 2020 ء میں لکھنا شروع کیا ۔ اس حوالے سے جوکچھ لکھا میرے موبائل میں محفوظ تھا مگر ترجیح اول نہ بن سکا ۔ اگرچہ کرونا کے باعث مصروفیات کا گراف صفر پر تھا۔ یعنی یہ بات تو غلط ثابت ہوئی کہ تخلیقی مشاغل سو فیصد فراغت سے مشروط ہیں، اور پھر موبائل تبدیل کرنے سے وہ سارے نکات ضائع ہوگئے جو اس مضمون کا ترجمہ اور تلخیص کرتے وقت شامل کرنے تھے اور حالات کے بہاؤ میں ذہن سے بھی محو ہو گئے ،بہرحال بہت کچھ اس مضمون کے بین السطور میں موجود ہے ۔یعنی اصل بات ترجیحات کی ہے جس کے لیے وقت ’’نکالا‘‘ جاتا ہے !
کچھ عرصہ پہلے ایک فیس بک پوسٹ بہت اشتراک ہوئی تھی جس میں ایک خاتون نے اپنے دن بھر کے شیڈول کا ذکر کیا تھا کہ بھوکی پیاسی گھر بھر کے کام نبٹاتی رہی شام کو شوہر کو کھانا دیا تو اس نے برسبیل تذکرہ پوچھ لیا کہ تم نے کھا لیا تو اس کے آنسو نکل پڑے یہ سوچ کر کہ وہ صبح سے بھوکی ہے ! اس پوسٹ پر خواتین کی طرف سے بڑے دلگیر تبصرے ہوئے ۔ صرف ایک تبصرہ جس نے خود ترحمی کے غبارے سے ہوا نکال دی ۔
’’پیاری بیٹی ! اس تحریر کو لکھنے میں کم از کم 20/25 منٹ لگے ہوں گے ،کیا اس دوران تم اپنے لیے ایک روٹی پکا کر نہیں کھا سکتی تھیں ؟‘‘
یہاں پر قابل غور بات یہ ہے کہ اس مضمون میں ساری مثالیں اور مشاہدات بیسویں صدی کے اوائل تک کی ہیں ۔ اگر آج کے مغربی اور حقوق نسواں کے علمبردار سماج کا جائزہ لیا جائے جہاں سنگل پیرنٹ سسٹم ہے ،عورت کی مشغولیات کیا ہیں ؟ اس کا دائرہ کار کیا ہے ؟ کیا اس کی تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف کر کے نمایاں کیا جا تا ہے یا محض ایک خوبصورت بناوٹی نمائشی فرد سمجھا جاتا ہے ؟ اس کے علاوہ بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں جن کے جوابات اگلے کسی مضمون میں تلاش کیے جاسکیں گے۔
(اس تحریر پر قارئین کو اظہار خیال کی دعوت دی جارہی ہے۔ تحریر موضوع پر اور مدلل ہونی چاہیے۔مدیرہ)

٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x