ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

محشر خیال -بتول اپریل ۲۰۲۱

افشاں نوید۔کراچی
مارچ کے پرمغز اداریے کے اختتام پر صائمہ کی اس معصوم خواہش نے قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا کہ رسالہ پڑھ کر چند جملوں کے ذریعے قارئین اپنا فیڈ بیک دیا کریں۔ یقیناً اس محنت شاقہ کا حق ہے قاری پر کہ فیڈ بیک دیا جائے۔مزید بہتری کی گنجائش ہر جگہ موجود رہتی ہے سو،اپنے رسالے کو اپنی رائے سے مزید بہتر بنایا جائے۔
عبدالمتین صاحب نے خوشگوار زندگی کے لیے عملی ٹپس دیے، یہ باتیں بار بار دہرائی جانی چاہئیں۔ میمونہ حمزہ کی علمیت و عملیت کا قائل ہونا پڑتا ہے،ہر موضوع کا ماشاءاللہ حق ادا کردیتی ہیں۔امانت کا ہر جہت سے مفہوم بیان کر دیا۔ شمارے کا ’’خاص مضمون‘‘ واقعی بہت خاص ہے۔ یہ تو کسی پی ایچ ڈی مقالے کے لیے بہترین لوازمہ فراہم کرسکتا ہے۔ دجالی فتنوں کے اس دور میں اصطلاحات کو جس طرح redefine کیا جا رہا ہے یہ مضمون اسی کو آشکارا کر رہا ہے ۔مضمون ایک سے زیادہ بار پڑھ کر سمجھنے سے دلیل کی قوت مہیا کرے گا۔ڈاکٹر آسیہ شبیر اور صائمہ آپ کا شکریہ۔
’’گیسوئے اردو کو شانہ ملا‘‘میں صائمہ اسمانے تحریر کیا کہ ان لفظوں کی جڑیں اور مادے عربی مبین سے ہیں جس سے ہمیں اپنے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو آتی ہے،حرم کعبہ سے تعلق جڑتا ہؤا محسوس ہوتا ہے۔ اردو زبان ہمیں اپنی امت سے مربوط رکھتی ہے۔یہ بھی لکھا کہ ہماری مادری زبان ہماری درسگاہوں اور علم و تحقیق کے حلقوں سے ختم ہو رہی ہے۔ اگر میں کہوں کہ سازش تو یہ ہے کہ اردو اعلیٰ تعلیمی درسگاہوں سے ختم کر دی گئی ہے تو شاید غلط نہ ہو۔پچھلے بیس برس سے میں نے اپنے بچوں کے بستے میں اردو زبان میں کوئی کتاب نہیں دیکھی۔ بچے انگلش میں پڑھتے ہیں،انگلش میں لکھتے ہیں، نیٹ پر انگلش میں لیکچر سنتے ہیں، دوست آپس میں انگلش میں گفتگو کرتے ہیں، سوچتی ہوں یہ نسل تو خواب بھی اردو میں نہیں دیکھ سکتی۔
’’سنہرے کھیت ‘‘حقیقت میں بہت بڑا افسانہ ہے،بلکہ افسانہ نہیں سچائی ہے۔ پڑھتے پڑھتے لگا کہ تحریر کے آخر میں مکھ منتری کی دردناک چیخیں، خون میں ڈوبا ہؤا آلہ قتل….. مگر شکرہے ایسا نہیں ہؤا ۔سلمان بخاری نے کمال مہارت سے، بہت آہستگی سے ایک مکمل پیغام کے ساتھ افسانے کا اختتام کیا۔مگر یہ صرف انڈیا کا نہیں یہ تو ہمارا بھی نوحہ ہے۔ہمارے’’شرما‘‘ بھی یونہی شرما حضوریوں میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہیں۔

٭ ٭ ٭

پروفیسر خواجہ مسعود۔ راولپنڈی
مارچ کا نکھرا نکھرا ٹائٹل دیکھ کے ایک تازگی اور فرحت کا احساس ہؤا ۔ موسم بہار کی نوید سناتے رنگ برنگے پھولوں سے مزین ٹائٹل دیدہ زیب ہے ۔ اللہ کرے ’’ چمن بتول‘‘ کادامن ہمیشہ ایسے حسین پھولوں سے سجا رہے (آمین)
اداریہ میں حساس مسئلہ کشمیراور خواتین مارچ پر سیر حاصل تبصرہ کیا گیا ہے ۔
’’ خوشگوار ازدواجی زندگی کے رہنما اصول‘‘( عبد المتین )مختصر مگر جامع مضمون ہے یہ جملہ بڑا قیمتی ہے ’’ بیوی عزت چاہتی ہے ، اپنی ، اپنے بچوں ، اپنے والدین اور خاندان کی ۔ اگر یہ عزت اسے مل جائے تو جان کھپا کر بھی فخر کے جذبات رکھتی ہے ‘‘۔
’’ امانت کا مفہوم اور اہمیت‘‘ ڈاکٹرمیمونہ حمزہ صاحبہ نے اس مضمون میں امانت کا وسیع تر مفہوم بہت تفصیل کے ساتھ سمجھایا ہے ۔
’’ مسلم فیمینسٹ خواتین اور قرآنی احکام کی تعمیر نو ‘‘ اہم موضوع سے متعلق ہے ۔ ترقی پسند اور لبرل خواتین قرآن و حدیث اوراسلام کی تشریح اپنی مرضی کے مطابق کرنا چاہتی ہیں اور اس کوشش میں وہ مستشرقین سے زیادہ متاثر ہیں ۔بلاشبہ اسلام خواتین کو تمام اعلیٰ اور جائز حقوق دیتا ہے لیکن جس طرح کی آزادیاں مغرب میں رائج ہیں ان کے نتائج تباہ کن نکل رہے ہیں ۔
’’ گیسوئے اردو کو شانہ ملا مگر …‘‘ محترمہ صائمہ اسما نے نہایت درد ِدل کے ساتھ یہ مقالہ تحریر کیا ہے ۔ آپ نے بجا طور پر کہا ہے کہ ہماری قومی زبان اردو کو ابھی تک ہمارے ملک پاکستان میں اس کا جائز حق اور مقام نہیں دیا گیا ۔ حالانکہ اردوایک واحد زبان ہے جو پاکستان کے مختلف خطوںمیں رہنے والے لوگوں کے درمیان ایک مضبوط رابطے کا ذریعہ اور ملک میں یکجہتی کا جذبہ پیدا کرنے میں مدد گار ہے ۔یہ اعزاز بات ہے کہ آپ نے یہ مقالہ ہائیکورٹ کی وکلاء کنونشن میں پڑھا۔
شعرو شاعری کا حصہ اس دفعہ بہت مختصر ہے خاص طور پہ محترم عزیزہ انجم اور محترمہ نجمہ یاسمین یوسف صاحبہ کی کمی محسوس ہوئی۔ حبیب الرحمن کی غزل کا ایک منتخب شعر قابل غور ہے۔
اک دیا بھی نہ لہو دے کے جلانے والو
ظلمتِ شب کا بھی الزام سحر پر رکھ دو
اسامہ ضیا ء بسمل کی غزل کے منتخب اشعار :
ہجر سے جاں بہ لب ہیں دیوانے
آہ کرتے ہی کب ہیں دیوانے
تیری آمد ہے کیا چھپائیں اب
ہم نہیں اب ، تو کب ہیں دیوانے
’’ سنہرے کھیت‘‘(سلمان بخاری ) جب غریب کسان جاگ جائیں تو پھر ان کا استحصال کرنے والے امراء کو بھی گھٹنے ٹیکنے پڑتے ہیں۔ سرحد پار کے تازہ حالات پر اچھی کہانی ہے۔
’’ہم کو دیو پردیس رے‘‘ (اسماء صدیقہ) یہ ہمارے ملک میں اکثر گھروں کی کہانی ہے کہ بیٹیوں کو ماں باپ کی جائیداد میں سے حصہ نہیں دیا جاتا ۔ بہنوں کو بھائیوں پر بڑا مان ہوتا ہے ۔ بھائیوں کو بھی چاہیے کہ بہنوں کا یہ مان قائم رکھیں ۔
’’ پانی اتر گیا ‘‘(شہلا خضر) ایک سبق آموز کہانی ۔ بھابھی اور نند کی رقابت تو گھروں میں عام ہوتی ہے لیکن اس کہانی میں ایک سمجھدار بھابی نے اپنے حسن سلوک سے اپنی نک چڑھی نند کا دل جیت لیا ۔ واقعی اخلاق اور حسن سلوک جادو کا اثر رکھتے ہیں۔
’’ حاتم طائی‘‘ ( نصرت یوسف) اس مختصر کہانی میں یہ سبق ہے کہ غریب آدمی بھی محنت کر کے عظمت حاصل کر سکتے ہیں اور پھر وہ دوسروں میںمہر بانیاں ایسے بانٹتے ہیںجیسے کہ حاتم طائی ۔ اللہ جسے نصیب کرے۔
’’ جنگی قیدی کی آپ بیتی ‘‘ ( سید ابو الحسن ) یہ حیرت انگیز آپ بیتی جا رہی ہے ۔ مصنف کے بقول واقعی یہ ایک افسوس ناک راز ہے کہ کیوں ہمارے نوے ہزارجانباز فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے پڑے ۔ ہماری تاریخ کا یہ ایک درد ناک باپ ہے پاکستان پہنچ کر ان کی نئی جدوجہد شروع ہوئی لیکن آپ صحیح جگہ ( اچھرہ ) پہنچ گئے او اس طرح ایک نئی زندگی کا آغاز ہؤا۔
’’ خیال و خواب کے جھروکوں سے ‘‘ میں حبیب الرحمن صاحب نے اپنی زندگی میں پیش ہونے والے نہایت مخیر العقول واقعات بیان کیے ہیں ۔ یہ حیران کر دینے والے بھی ہیں اور ڈرانے والے بھی ۔ ان سے آپ کی مضبوط قوت ارادی اوراعصابی قوت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ سب کو حادثات سے محفوظ رکھے ۔(آمین)
’’ صحرا سے وطن بار بار کون جائے گا‘‘( نیّر کاشف) آ پ نے شروع میں لکھا ہے کہ میں کوئی منجھی ہوئی سیاحت نگار نہیں ہوں ۔ لیکن آپ نے تو یہ سفرنامہ بڑا دلچسپ لکھا ہے ۔ آپ نے صحرا کو بھی ہمیں گلزار بنا کے دکھا دیا ہے ۔اور یہ شعر بھی زبردست تحریر کیا ہے
دیکھنا ہے تجھے صحرا تو پریشاں کیوں ہے
کچھ دنوں کے لیے مجھ سے میری آنکھیں لے جا
زبردست سفر نامہ ہے ۔ انشاء اللہ دلچسپی برقرار رہے گی کیونکہ انداز بیان خوب ہے ۔
’’ ادب اور نسل نو‘‘( حسینہ معین )حسینہ معین اپنے دور کی ایک نامور ڈرامہ رائٹر ہیں ۔ ان کے دلچسپ ڈرامے جب پی ٹی وی پر نشر ہوتے تھے تو سب کا م چھوڑ کے سب گھر والے ٹی وی کے سامنے اکٹھےہوجاتے تھے ۔ آپ کی یہ مختصر تحریر و تقریر خاصی دلچسپ اور تعمیری ہے ۔
’’ عورت مارچ کو کون سی آزادی چاہیے ‘‘ ( ڈاکٹر حافظہ خولہ علوی) آپ نے اس مضمون میں خبر دار کیا ہے کہ عورت مارچ کے حوالے سے نکالے گئے جلوسوںمیں نازیبا نعرے درج ہوتے ہیں اور یہ مارچ ہماری اسلامی اور معاشرتی روایات کے خلاف ہی ہوتا ہے ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام تو نہایت فراخدلی کے ساتھ عورتوں کو ان کے حقوق عطا کرتا ہے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کرتا ہے ۔
’’ گھریلو باغیچہ…صحت کا دریچہ‘‘ ( فریدہ خالد ) کچن گارڈن لگانے کے لیے نہایت مفید مشورے دیے گئے ہیں ۔ یہ مضمون پڑھ کے محسوس ہوتا ہے کہ فریدہ خالد صاحبہ ایک ماہر باغبانی و زراعت ہیں ۔
’’ اولاد کی تمنا کیوں‘‘ ( افشاں نوید ) آپ نے اچھے طریقے سے واضح کیا ہے کہ اولاد کی خواہش ضرور کریں یہ ایک فطری جذبہ ہے لیکن نیک اولاد مانگیں جواللہ اور رسولؐ کے احکامات پرعمل کرنے والی ہو ۔ ماں باپ بزرگوںکی فرمانبردار ہو۔
’’ نا قابل بیان‘‘ ( فضہ ایمان ملک ) اچھا دلچسپ ہلکا پھلکا مضمون ہے بریک میں کالج کینٹین پر لڑکیوں کی بھیڑ اور کھانے پینے کا دلچسپ احوال لکھا ہے ۔ پڑھ کے کالج کا زمانہ بے اختیار یاد آنے لگتا ہے۔
گوشہِ تسنیم’’ حیا خیر لاتی ہے ‘‘ حیا کے موضوع پر ایک خوبصورت مضمون ہے خوبصورت جملے لکھے ہیں کہ ’’ حیا کے سنگ حیات خوبصورت ہے وہی فرد اور معاشرہ تازگی اورحسن کے ساتھ زندہ رہتا ہے جس میں حیا باقی رہے….حیا نہ رہے تو وفا بھی نہیں رہتی حسنِ اخلاق کے چمن کا ہر پھول حیا کے پانی سے سیراب ہو تو برے اخلاق کو پنپنے کا موقع نہیں ملتا‘‘۔
اس بار بھی ڈاکٹر فائقہ اویس صاحبہ کے ’’ سعودی عرب کے سیاحت نامے ‘‘ کی اور قانتہ رابعہ صاحبہ کے افسانے کی کمی محسوس ہوئی ہے۔ادارہ بتول اور قارئین کے لیے نیک خواہشات۔

٭ ٭ ٭

روبینہ اعجاز ۔ کراچی
مارچ کا شمارہ حسب معمول معیاری ادبی،معلوماتی کہانیوں، مضامین اورخوبصورت شاعری پر مشتمل ہے۔اداریہ میں مدیرہ صاحبہ نے کشمیر کی زبوں حالی اور عورت مارچ کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے گرانقدر مشورے دیےہیں۔ ان کی دوسری تحریر جو اردو زبان کے حوالے سے ہے قابل ستائش ہے۔اسماء صدیقہ کی کہانی ’’ہم کو دیو پر دیس ‘‘ میں خواتین کی وراثت کے حوالے سے اہم نکتہ اٹھایا گیاہے۔اسلامی مملکت ہونے کے باوجود یہاں کئی گھروں میں خواتین اس شرعی حق سے محروم رہتی ہیں۔نصرت یوسف کی کہانی ’’حاتم طائی ‘‘میں دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ ابھارا گیا ہے۔شہلاخضر کی کہانی’’ پانی اتر گیا ‘‘ گھر کے افراد کے لیے خلوص و محبت اور بے غرضی سے دلوں میں گھر بنانے کی ترغیب دی گئی ہے ۔جنگی قیدی کی آپ بیتی ایک دل گدازداستان ہے جسے پڑھ کر یقیناً نئی نسل میں پاکستان کی اہمیت ومحبت بڑھے گی۔ محترمہ نیر کاشف کے سفرنامہ میں صحرا کے حالات اور وہاں کے لوگوں کی بود و باش کو اتنی خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے کہ اپنے ملک اور اس کے لوگوں کے بارے میں جان کر ان سے محبت بڑھتی ہوئی محسوس ہورہی ہے۔افشاں نوید صاحبہ نے نئی نسل کو اسلامی تربیت دینے اور باعمل مسلمان بنانےکے حوالے سے قلم اٹھایا ہے ، ہمیشہ کی طرح ان کی تحریر اہم مقصد لیے ہوئے ہے۔ بشریٰ تسنیم صاحبہ کا حیا کے موضوع پر کالم بہت معلوماتی ہے ۔ حبیب الرحمن صاحب کی یادداشتیں دلچسپ ہیں۔ ہلکا پھلکا میں فضہ ایمان نے طالب علمی کا دور یاد دلا دیاہے۔
بلاشبہ بتول ایک اچھا معلوماتی اور مثبت طرز فکر دینے والا ماہنامہ ہے۔رسالے میں گاہے بگاہے مصنفین کے انٹرویو شامل کیے جائیں تو قارئین کیلئے دلچسپی کا باعث بنیں گے۔ ‏پچھلے دو ماہ سے قانتہ رابعہ صاحبہ کی تحاریر کی کمی بہت زیادہ محسوس ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس چمن کی تمام لکھاریوں کو اپنی امان میں رکھے اور یہ چمن یونہی خوشبوئیں بکھیرتا رہے آمین۔

٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x