ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

جنگی قیدی کی آپ بیتی -بتول اپریل ۲۰۲۱

( قسط ۲ شمارہ مارچ میں آخری پیراگراف سے پہلے ایک پورا صفحہ میری غلطی کی وجہ سے کمپوز ہونے سے رہ گیاتھا، جس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ مدیرہ صاحبہ نے اس کمی کو اپنی بہترین صلاحیت سے پُر بھی کردیاتھا مگر تشنگی باقی رہی لہٰذا اس کو آج کی قسط میں شامل کیاجارہا ہے۔ سید ابوالحسن)

میںان حالات میںبس ایک چیز کا منتظر تھا اور وہ تھی اللہ کی مدد، بار بار اس کی مدد مانگتا رہا۔ اتنے میں چند افراد میرے پاس آئے اور آکر بیٹھ گئے۔ ان میں سے ایک بنگالی بولنے والابھی تھا۔ مجھے ان سے مل کر بہت خوشی ہوئی اور یوں لگا کہ میری دعائیں قبول ہوگئی ہیں۔ انھوںنے اپنا تعارف کرایا اور بتایا کہ ہمیں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒنے آرمی کیمپ بھیجا تھا۔ وہاں سے اُن لوگوں نے اس مسجد میں آپ کی موجودگی کا ذکر کیا۔ ہم آپ کو لینے کے لیے آئے ہیں ۔ مسجد میں تین چار جیل کے اور ساتھی بھی تھے،انہوں نے ہمیں ساتھ چلنے کو کہا۔
سید مودودیؒ سے شرفِ ملاقات
چنانچہ ہم سب کو گاڑی میں بٹھا کر اچھرہ مولانا مودودیؒ کی رہائش گاہ کے قریب ۱۔ اے ذیلدار پارک لے جایا گیا۔ ہم نے جب ۱۔ اے ذیلدار پارک میں قدم رکھا تو یوں لگا جیسے زندگی کے سارے غم ، ساری پریشانیاں کہیں غائب ہوگئیں ۔ ایک پُرسکون ہواکا جھونکا تھاجس کے اثر کو محسوس ہی کیاجاسکتاتھا بیان نہیںکیاجاسکتا، جس میں لذت تھی،اپنائیت تھی ،محبت تھی ۔ صحن میںایک بہت بڑا بڑ کا درخت تھا جو ہمیشہ ہمیں اپنے سائے میں لیے رکھتا۔
ہم جب وہاں پہنچے تو دوپہر کے کھانے کا بندوبست ہوچکاتھا۔ وہاں موجود جمعیت کے بہت سارے ساتھی اس ضیافت میں شامل تھے۔ اس اپنائیت کے احساس کو اور کیفیت کو بیان نہیں کیاجاسکتا۔ کھانا ختم کرکے سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے ۔ کچھ دیر آرام کیا ۔ عصر کی نماز کے لیے ہمیں ۵۔ اے ذیلدار پارک جاناتھا۔ وہاں مولانا مودودیؒ سے شرفِ ملاقات حاصل ہونا تھا۔ مولاناؒ سے ملنے کے لیے ہم سب ۵۔ اے ذیلدار پارک ان کی محفل میں گئے ۔ نماز کے بعد ایک نشست ہؤا کرتی تھی، جس میں شامل ہونے کے لیے دور دراز سے لوگ آیا کرتے تھے۔مولانا مودودیؒ بہت دھیمے انداز میں بولتے ،مدلل گفتگو کرتے ، مختصر بولتے مگر اُن کی باتیں جیسے دل میں اُترتی چلی جاتی تھیں۔ لوگ عصرکی نماز کے بعد ان کی محفل کے منتظر رہتے ۔ہم بھی انہیں میں شامل ہوگئے اور ہماری کوشش ہوتی کہ مولانا کی عصر کے بعد والی نشست رہ نہ جائے۔
اس محفل سے سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ۔یہ نشست دل کی محرومیوں کو ختم کرتی تھی ۔ دل اور روح کو سکون ملتا اور ایمان کو تازگی نصیب ہوتی۔ دنیائے اسلام کے بڑے بڑے مفکر مولانا ؒ سے ملاقات کے لیے تشریف لاتے ہم مولانا ؒ کی اس محفل اور ان کے دیدار کو اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے تھے اور اس محفل سے استفادہ کرنے کی پوری کوشش کرتے تھے۔
نمازِ فجر اور سردی
ایک دفعہ مولانا کے قریبی ساتھی شیخ فقیر حسین صاحب نے ہمیں بلایا کہ خرابیٔ صحت کی بنا پر مولانا فجر کی نماز با جماعت ادا کرنے مسجد میں نہیں جا پا رہے۔ اگر آپ لوگ اُن کے ساتھ ان کی رہائش گاہ پر ہی فجرکی نمازبا جماعت ادا کریں تو یہ بہت بڑی سعادت ہوگی۔ ہم نے خوشی سے حامی بھرلی ۔چناں چہ نماز فجرمولانا کے ساتھ با جماعت ادا کرنے کے لیے ہم ۵۔اے ذیلدار پارک مولانا کی رہائش گاہ پر پہنچ جاتے ۔ ٹھیک وقت پر مولانا دروازہ کھولتے اور نیت کرکے خرابیِ صحت کی بنا پر کرسی پر بیٹھ جاتے ۔ ہم لوگوں نے آپس میں طے کرلیا کہ فجر کی نماز کے لیے مولانا کے بالکل ساتھ کون کون کھڑا ہو گا۔ حسب معمول ایک دن مولانا نے دروازہ کھولا ،اور اس دن نماز کے لیے میں اُن کے ساتھ کھڑا ہوا۔ سردی بہت تھی اور ہمارے پاس ابھی تک سردی سے بچنے کے لیے مناسب کپڑے نہیں تھے۔میں سردی سے کپکپا رہا تھا، کافی کوشش کے باوجود میں اپنے آپ کو کنٹرول نہ کرسکا اور میری کہنی اُن سے چھو گئی ۔
نماز فجر ختم ہوئی تو میں اس بات کا کسی سے ذکر نہ کر پایا ۔ میں عجیب شرمندگی محسوس کررہاتھا۔ خیر نماز سے فارغ ہو کر ہم اپنی رہائش گاہ واپس چلے گئے ۔ دن کے گیارہ بجے کے قریب ایک لمبا اور خوبصورت سا نوجوان بہت سے گرم سویٹر ،جرسیاں ،چادریں اور گرم کپڑے لے کر آیا۔ اس نے سب کو بلا کر وہ کپڑے سب میں تقسیم کیے اور چلا گیا۔ ہم ہکا بکااپنی جگہ پر کھڑے رہ گئے۔ یہ کیسی فیاضی تھی، یہ کیسا اللہ کی راہ میں دینا تھا! اللہ جن کو توفیق دے یہ صرف انہی کے حصے میں آسکتا ہے۔
ہم نے کسی سے ذکر نہ کیا تھا۔ ہمارے لیے یہ بات معمہ بنی رہی۔ بالآخر شیخ فقیر حسین صاحب نے بتایا کہ مولانا محترم نے اس لاپروائی پر جماعت کے ذمہ داران کی توجہ دلائی تھی اور ناراضی کا اظہار بھی کیاتھا اور پھر خود ہی کچھ مخیر حضرات سے بات کرکے یہ سب انتظامات کروا ئے تھے۔ اللہ تعالیٰ اُ ن کو جواررحمت میں جگہ دے ۔
پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل میں
میں نے ایف اے کا فارم پُر کیا تھا۔ مجھے اس کی بھی فکر تھی۔ ایسٹ پاکستان ہاؤس (۱۔ اے ذیلدا ر پارک جہاں ہم رہائش پذیر تھے) وہاں ہر وقت لوگوں کا تانتا بندھا رہتاتھا۔ اس لیے میری درخواست پر مجھے پڑھنے کے لیے پنجاب یونیورسٹی ہاسٹل میں شفٹ کردیاگیا۔
میرے پاس کوئی سند تو نہیں تھی کہ میں میٹرک پاس ہوں۔ بورڈ کے صاحب نے اللہ کے حکم سے میرے ساتھ نرمی برتی تھی ۔ مجھے اب میٹرک کی سند کی اشد ضرورت تھی۔ بنگلہ دیش بن چکاتھا۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان خط و کتابت کا سلسلہ ابھی شروع نہیں ہؤاتھا۔ اس سلسلے میں یوکے اسلامک مشن ( پروفیسر خورشید احمد صاحب کے دفتر)نے گراںقدر خدمات انجام دی تھیں ۔ ایسے طالب علم جو مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان منتقل ہوئے، اُن کو اپنے گھر والوں سے بنگلہ دیش میں رابطہ کروایا ۔ میں نے بھی اپنے امی ابوکو خط لکھاکہ میری میٹرک کی سندکی کاپی یوکے اسلامک مشن بھیج دیں ،وہ لوگ مجھے یہ سند لاہور (پاکستان ) بھیج دیں گے۔ پروفیسر خورشید احمد صاحب مولانا کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیںاور اعلیٰ تعلیم یافتہ اور انتظامی اور دیگر امور میں ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ میں نے یہ خط لکھ کر اپنے آپ کو فارغ کرلیا اور باقی ساری ذمہ داری اسلامک مشن پر ڈال دی۔
ایف اے کی تیاری کی خاطر میرے پنجاب یونیورسٹی ہاسٹل شفٹ ہونے کی درخواست مان لی گئی۔ مجھے حیرانی ہوتی تھی کہ جمعیت کے ساتھی اور ذمہ داران ہمہ وقت طلبہ کی خدمت اور بہبود میں لگے رہتے ہیں۔ تعاون کی ہر بات میں ان کی طرف سے ہاں ہی ہوتی تھی۔ آخر ان کو اس خیر کے کام میں کون ایندھن فراہم کرتا ہے۔ کون ہے جو اُن کو نیکی کے اس کام میں جوڑ دیتاہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن اور صحبت صالح سے جڑنے کا نتیجہ ہے ۔ قرآن کے مطالعے اور اس پر عمل کرنے کانتیجہ ہے۔ سنت نبویؐ کو اپنانے کانتیجہ ہے۔ کنتم خیرامۃ اخرجت للناس کا شعور ہے۔دنیا میں مسلمانوں کے علاوہ ایسی کوئی مثال نہیں ہے جو اس طرح ایثار اور قربانی کا مظاہرہ کرتے ہوں ۔ اسی طرح اخوان المسلمین کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ تحریک اسلامی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ یہ لوگ تن من دھن ہر چیز صرف اور صرف اللہ کی رضا کی خاطر قربان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
دراصل تحریکِ اسلامی کے کارکنوںکو یوں تیار کرنا، بیدارکرنا، ہمارے دین کی بنیاد ہے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒنے اسی اعلیٰ تربیتی نظام کو اپنایا ، عمل دیا ،تحریک دی ،اُن کی دوراندیشی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے کارکن معاشرے میں اعلیٰ عزت و وقار کا پیکر رہے ۔ پوری دنیا میں تحریک کے کارکن کی ایک ہی پہچان تھی کہ یہ ایک دوسرے بے غرض ہو کر جڑے رہتے تھے۔
گھر والوں سے پہلا رابطہ
میںپنجاب یونیورسٹی ہاسٹل شفٹ ہؤا ۔ ایک شاندار ہاسٹل تھا، کھلا ماحول ،عجیب سکون اور طمانیت کا احساس تھا۔ مجھے تیسری منزل میں ایک کمرہ دیاگیا جہاں جا کر میں اپنی پڑھائی کی جستجو میں لگ گیا۔مگرپڑھائی میں دل نہیں لگ رہاتھا ۔ یہ بھی خیال آیا کہ اسلامک مشن کی معرفت جو گھر والوں کو خط لکھا ہے وہ انہیں ملا ہے یانہیں۔
میں نے دوبارہ اپنے گھر والوں کو خط لکھا۔ سب کو الگ الگ خط تحریر کیا ۔ تقریباً ڈھائی سال بعد اب ماں باپ اوربہن بھائیوں سے براہ راست رابطہ کرنے کاموقع ملا تھا۔ ہؤا یوں کہ ۲۲ فروری ۱۹۷۴ء سے لے کر ۲۴فروری ۱۹۷۴ء تک لاہور اسلامک سمٹ ہونا قرار پائی تھی ۔ اس سمٹ کی وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے صدارت کی ۔ شیخ مجیب الرحمن بھی اس کانفرنس میں شامل ہوئے تھے۔ مسلم دنیا کی حکومتوں کے سربراہان اور دوسرے جیّد عمائدین اس میں شامل ہوئے تھے۔ اس سلسلے میں خیر سگالی کے طور پر بنگلہ دیش اور پاکستان میں خط و کتابت کا سلسلہ شروع کردیاگیاتھا۔ میں نے بھی خط لکھ دیا تھااور ان کو میرایہ خط مل گیاتھا۔ میرے زندہ بچ جانے پر میرے والدین کو گویا زندگی ملی تھی۔ گھر والوں کی طرف سے اور رشتہ داروں کی طرف سے خطوط کا انبار لگ گیا۔ اُن میں سے جو ایک خط میں نے کھولا تو وہ میری امی کا خط تھا۔ انہوںنے مختصر سا خط لکھاتھا، باہر کا ایڈریس بھی انھوں نے اپنے ہاتھوں سے لکھاتھا۔ پڑھا دل میں سکون اُترا ۔ ماں کے خط کو کافی دیر سینے سے لگا کر بیٹھا رہا، اللہ کا شکر ادا کیا۔
میں نے تعلیم پر توجہ دینے کی ٹھان لی اورفیصلہ کیاکہ خط و کتابت کے سلسلے کو جاری نہیں رکھنا ، یہ میری تعلیم کو متاثر کرسکتا ہے۔ مجھے خدشہ تھاکہ اگر میں امتحان میں اچھے نمبرلے کر پاس نہ ہؤا تو میرا تعلیمی کیریئر ختم ہوسکتاہے۔ میرے باپ کا خواب جو انھوںنے بچپن سے میرے لیے دیکھاتھا، وہ پورا نہیں ہوسکے گا۔ مجھے مزدور بن کر زندگی گزارنا پڑے گی ۔ بہت سارے خدشات اور شیطان کے وسوسے مجھے گھیرنے لگے۔ خیر میں نے اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکاراتو اللہ پاک نے میری مدد کی اور میں وسوسوں اور خوف سے نکل آیا۔
سند مل گئی
مشرقی پاکستان کے سیاسی حالات، جنگ کے حالات اور پھر دو سالہ بھارتی قید نے میرے اوپر بہت منفی اثرات ڈالے تھے۔ میں نے بہت مشکل سے خدا کی رحمت کے سہارے ان مشکلات کو عبور کیا ۔میں دس سے بارہ گھنٹے مسلسل پڑھنے کی کوشش کرتا، ایک ہی چیز کو بار بار پڑھتا مگر یاد نہیں ہوتاتھا۔ سجدے میں گر کر اللہ سے دعا کرتاکہ کیا میری قسمت میں تعلیم نہیںہے۔ بعض اوقات جائے نماز پر روتے روتے سو جاتا تھا۔رو رو کر آنکھوں میں جلن شروع ہوجاتی لیکن میں آگے نہیں بڑھ پا رہاتھا ۔ آخر کار میرے رب نے میری دعا سن لی ۔ جس نے مجھے پیدا کیااس کی مدد پہنچی، مجھے یقین تھاکہ میرا رب ہی سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔
ہاسٹل میں رہائش کے دوران میں میرے ساتھی نے میرا بہت خیال رکھا۔ میری پڑھائی کے خیال سے کمرہ میرے حوالے کرکے کسی دوسرے کے کمرے میں جا کر سوجاتا ۔ میرے کھانے اور آرام کا بہت خیال رکھتا۔میں ہاسٹل کے کمرے میں اکیلا ہوتاتھا مگر تنہانہیں ہوتاتھا۔ کتاب ہمیشہ میری ساتھی رہی۔ اب وہ کتابیں مجھ سے باتیں کرنے لگیں۔ میں نے بھی خوب محنت کی ۔ امتحان شروع ہوئے، ختم ہوئے اور میں واپس ایسٹ پاکستان ہائوس1۔اے ذیلدار پارک شفٹ ہوگیا۔
واپس پہنچا تو بذریعہ لندن میری میٹرک کی سند آچکی تھی۔ یہ ایسی ذمہ داری تھی جو جماعت اسلامی کے ذمہ داران نے ادا کی ۔ جماعت اسلامی میں ایسے راہنمائوں کی کمی نہیں ہے جو لوگوں کے لیے مشعل راہ ، تعاون کے پیکر تھے ،خیر کے منبع تھے۔
مولاناؒ کے گھر ۵۔ اے ذیلدار پارک سے لے کر اچھرہ بازار تک کا پورا علاقہ ہمارا اپنا علاقہ تھا۔ پورے علاقے کے لوگ ہم سے محبت کرتے تھے۔ یہ سب مولانا ؒ کی سیاسی اور دینی بصیرت کانتیجہ تھا۔ اچھرہ ہمارا اپنا گھر تھا، ایسٹ پاکستان ہائوس ہمارا تھا،ساتھ ہی جمعیت کامرکزی دفتر تھا۔ پس ایک رونق تھی جوہر وقت لگی رہتی ،کارکنوں کاآنا جانا لگا رہتا۔ مولانا ۵۔ اے ذیلد ار پارک سے سب پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ ہر چیز اُن کے علم میں ہوتی ،جہاں ضرورت پڑتی تو مداخلت کرتے اور راہنمائی فرماتے۔ ایف اے کا رزلٹ آیااور میں بہت اچھے نمبروں سے پاس ہؤا۔ سب نے مجھے مبارک باد دی اور یوں اس رزلٹ کی بنیاد پر میرٹ پر میرا ایف سی کالج میں بی اے میں داخلہ ہوگیا ، الحمدللہ ۔
ایف سی کالج میں
ایف سی کالج کو پنجاب کی ایک تاریخی درسگاہ کامقام حاصل ہے۔ یہاں لاہور کے اچھے اچھے سکولوں سے فارغ التحصیل بچوں کو داخلے ملتے تھے اور پورے پنجاب کی ایلیٹ کلاس کے بچے بھی آتے تھے۔ یہ پنجاب کاایک معتبر پرائیویٹ کالج رہاہے۔ اس کے پرنسپل انور ایم برکت ایک کرسچن تھے۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور انتظامی امور کے ماہر تھے ، بے حد نظم و ضبط کی وجہ سے ان کے نام سے کالج صرف چلتا ہی نہیں تھا بلکہ کانپتاتھا۔
کالج کے طلبہ میں نوابزادوں اور جاگیرداروں کی اولاد کی نمایاں چھاپ تھی۔ وہ ہاسٹل میں خدمت گزاروں سمیت رہتے تھے۔ ان کااٹھنابیٹھنا غرض یہ کہ ہر چیز ہی نرالی تھی۔ہاسٹل سے نکل کر کالج میں یوں تشریف لاتے جیسے کالج پر بہت بڑا احسان کررہے ہوں۔ اللہ نے مجھے ان تمام کی مرعوبیت سے دور رکھا۔ وہاں کے طالب علموں کی کوئی علت اللہ نے میرے پاس پھٹکنے بھی نہیںدی ۔میرے لیے یہی کافی تھاکہ میں ایف سی کالج کا طالب علم تھا اور مجھے صرف تعلیم حاصل کرناتھی۔ میں نے دو سال سے زیادہ عرصہ ایف سی کالج میں گزارا لیکن کالج کی کنٹین کا مجھے علم نہ تھا۔ کسی ہاسٹل فیلو کے ساتھ میس میں جا کر کھانا نہیں کھایا۔ اچھرہ میں ایسٹ پاکستان ہاؤس کے کھانے کی جو چاشنی تھی، وہ اور کہاں نصیب ، مزے سے کھاتے تھے۔
مولانا کی صحبت میں
اچھرہ کے ذیلدار پارک کی گلی میں ہمارے لیے ایسی اپنائیت تھی جیسے ہم یہاں ہی پیداہوئے ہوں۔ دن اسی علاقے میںگزرتا، پھر عصر کی نماز کے بعد مولانا ؒ کی نشست لوگوں کی توجہ اور شرکت کا باعث بنتی تھی۔ ہم زیادہ سے زیادہ وقت مولانا کے لان میں گزارتے۔ عجیب سی تسکین کا احساس ہوتا ۔ ایسٹ پاکستان ہائوس میں نیند نہ آنے کی صورت میں ہم مولانا کے لان میں جا کر مزے سے سوتے ،کوئی تکیہ نہ ہوتا ،چٹائی بچھاتے، بازو کا تکیہ بناتے اور ہم سب ایک قطار میں سو جاتے ۔اسی طرح ایک دن پنجاب یونیورسٹی کے چند طلبہ بھی آئے اور مولانا ؒ کے لان میں سونے کے لیے لیٹ گئے ۔ مجھے کہاکہ پنکھا اُن کی طرف کردیں۔ مولانا کے لان میں ایک بہت بڑا اور پرانا دیوہیکل پنکھا ہؤاکرتاتھا۔ جیسے ہی اس کو گھمانے کے لیے میں نے ہلایا، میری ایک انگلی اس میں آکر کٹ گئی۔
مولانا محترم سونے کے لیے گھر کے اندر تشریف لے جا چکے تھے۔ چیخیں سن کر مولانا نے دوروازہ کھولا، میری خیریت دریافت کی ایک گھر چھوڑ کر وہاں ایک ڈاکٹر رہتاتھا۔ اسے فون کرکے بلایا ۔ اس نے مجھے آکر فرسٹ ایڈ دی ۔ مولانا دوبارہ اندر چلے گئے ۔ اگلے دن صبح نو بجے کے قریب میری حیرانی کی انتہا نہ رہی کہ میرے لیے گاڑی کا بندوبست تھا اور گاڑی میں مجھے انور ریاض قدیر صاحب کے کلینک سمن آباد جاناتھا۔ ریاض قدیر صاحب کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے پرنسپل تھے اور بہت بڑے سرجن تھے۔ مولانا محترم نے ڈاکٹر صاحب سے بات کرلی تھی ۔ ڈاکٹر صاحب نے میرا بہت اچھا علاج کیا اور میری انگلی بالکل ٹھیک ہوگئی۔ مولانا محترم کے شفیق اور مدبرانہ کردار کو میں کیسے اپنی زندگی میں بھلا سکتاہوں۔ اسی طرح تحریک کے بے شمار کارکن مولانا کے اس رویے سے اُن پر فدا تھے۔
شیخ مجیب کے قتل کی خبر
میں ایف سی کالج کا طالب علم تھااور بنگلہ دیش کے متعلق خبروں پر میری دلچسپی رہتی تھی۔ یہ ۱۵اگست ۱۹۷۵ء کی بات تھی میں بڑکے درخت کے نیچے صحن میں چار پائی بچھا کر چھوٹا سا ریڈیو لے کر بیٹھا اس میں بنگلہ دیش کی خبریں سن رہاتھا۔ اس وقت ڈھاکہ سے انگریزی خبریں نشر ہو رہی تھیں ۔ دن کے دس بجے تھے کہ اچانک بریکنگ نیوز پر میں چونکا۔ خبر یہ تھی کہ مجیب کو گولی مار دی گئی ہے اور وہ وفات پا چکے ہیں۔ مجھے یقین نہ آیا اناؤنسر نے خبر دوبارہ دہرائی ۔ میرا جسم کانپنے لگا۔ میں دوڑتاہؤا مولانا کی رہائش گاہ پہنچا۔ مولانا کے کمرے کے باہر ایک ملحقہ چھوٹاسا کمرہ ہوا کرتاتھاجہاں مولانا سلطان احمد صاحب بیٹھا کرتے تھے اور مولانا کی سہولیات کا خیال رکھنے کے ساتھ مولانا سے ملاقاتیں بھی شیڈول کروایا کرتے تھے۔ انھوں نے میری طرف دیکھا اورکچھ نہ کہا ، سوچا ہوگایہاں کا لڑکا ہے کسی وجہ سے ملنا چا ہ رہاہوگا۔
میں مولانا کے کمرے کے جالی والے دروازے کھول کر اندر داخل ہؤا ۔ اس وقت مولانا انتہائی نفیس سفید رنگ کی قمیض پہنے ہوئے تھے ۔ دائیں ہاتھ میں ایک پنسل پکڑی ہوئی تھی۔ بازو سے قمیض کی آستین ہٹی ہوئی تھی۔یہ دیکھ کر میری حیرانی کی انتہا نہ رہی کہ مولانا کی کہنی سے لے کر کلائی تک کا حصہ نیچے سے بالکل سیاہی مائل تھا۔ پتہ چلا کہ مولانا ؒ کے بازو کا یہ حصہ ہر وقت میز پررکھ کر لکھتے رہنے سے سیاہی مائل ہوگیاتھا۔
بہرحال مولانا نے میری طرف حیرانی سے دیکھا ، انہیں اندازہ تو ہوگیاتھا کہ یہ کوئی عام بات نہیں ہے۔ میرا جسم اس وقت بھی جوش سے ہلکا ہلکا کانپ رہاتھا۔ میں نے مولانا ؒ کو بتایا کہ شیخ مجیب الرحمن کو آج صبح نماز فجر کے وقت گولی مار دی گئی ہے اور ان کاانتقال ہوگیا ہے۔
مولاناؒ نے خبر کو دہرانے کو کہا تومیں نے تعمیل کی۔ انھوںنے پوچھا یہ خبر آپ نے خود سنی ہے؟ میں نے ہاں میں جواب دیا۔ انھوںنے پوچھا کہاں سے؟ میں نے بتایا کہ ڈھاکہ ریڈیو سے دس بجے کی انگریزی خبروں میں۔ انھوںنے فوراً تصدیق کی کہ ہاں دس بجے کی انگریزی خبریں کبھی کبھی میں بھی سنتاہوں۔ تھوڑا سا وقفہ دے کر فرمانے لگے، آپ اتنے خوش کیوں ہیں ؟ میں نے کہا ،یہ شخص مسلمانوں کا قاتل، مسلمانوں کی بربادیوں کا ذمہ دار تھا۔ مولانا ؒ نے پُر اعتماد لہجے میں کہاکہ نہیں ایسا نہیں ہوناچاہیے تھا۔ بنگلہ دیش تحریک اسلامی اس کاشکار ہوسکتی ہے، عوامی لیگ کے انتقام کی آگ کسی طرف بھی مڑ سکتی ہے۔ میں ہکا بکا رہ گیا۔ مولانا ؒ قوم کو آنے والے خطرات سے آگاہ کررہے تھے۔
ایک اور سنگ میل طے ہؤا
خیر وقت گزرتا گیا۔ مولانا محترم کے پیار اور شفقت سے روزانہ استفادہ کرنے کاموقع ملتاتھا۔ میرے پاس مولانا ؒ کی نشست کو چھوڑنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ میری گھر میںتربیت تو نہ ہوسکی تھی، مولانا ؒکی نشست سے سیکھنے کا میرے لیے سنہر ی موقع تھا۔ مولانا کی محفل علمی بلند ی کی دعوت دیتی تھی ۔ میری چھوٹی بڑی ہر بات کی تربیت کرتی تھی ، اگرچہ زبان کا مسئلہ ابھی تک تھا اور میں کئی باتوں کو سمجھنے میں مشکل کا سامنا کرتا تھا۔
پھر وہ وقت آیا کہ میں بی اے کے امتحانات میںبھی اچھے نمبروں سے پاس ہوگیا اور مجھے ایم اے میں داخلے کا راستہ مل گیا ۔ ایک تجویز یہ بھی آئی کہ اب میں گریجویٹ ہوگیاہوں تو مجھے کوئی ملازمت کرلینی چاہیے لیکن میری دردمندانہ اپیل پر مجھے ایم اے کرنے کا موقع دے دیاگیا۔
میرے تعلیمی کیریئر میں میرے زندگی گزارنے کے طور طریقے ، پڑھائی کی طرف میرے رجحان اور باقاعدگی کی عادت نے مجھے فائدہ دیا ۔ میں شام کے بعد باقاعدگی سے بیٹھ کر پڑھتاتھا۔ میرے پاس زیادہ ہنسنے بولنے، خوش ہونے کی کوئی وجہ موجود نہ تھی ۔اگرچہ اللہ کی مہربانی میرے شاملِ حال تھی، جمعیت کے دوستوں کی محبت میرے حصے میں تھی اوروہی میرا سہارا تھی۔ سہارے کی زندگی گزارنے والوں کے اندر سے ہنسی نہیں پھوٹ سکتی تھی۔ میرے ماں باپ کی نصیحت کام آئی کہ مغرب کے بعد گھر آجایا کرو، اپنی رہائش پر جم کر رہا کرو،غیر ضروری باہر نہ پھرو خاص طور پر رات کو بالکل نہیں۔
(جاری ہے )

٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
5 2 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
1 Comment
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
میمونہ حمزہ
میمونہ حمزہ
3 years ago

بہت زبردست!! آخر تک تحریر نے جکڑے رکھا۔ کتنی مخلص تھی ہماری قیادت، اور کیسے تھے ہمارے مرشد مودوی صاحب رح۔ 5 اے زیلدار پارک کی نشستیں تو ہمیشہ ہی دل کھینچ لیتی ہیں۔

1
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x