ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

محشر خیال

پروفیسر خواجہ مسعود ۔ اسلام آباد
’’ چمن بتول‘‘ شمارہ اکتوبر2023ء زیرمطالعہ آیا۔ سب سے پیشتر سر ورق کے بارے میں کہناچاہوں گا کہ فوٹوگرافک سر ورق کی بجائے آرٹسٹ کا ہاتھوں سے ڈیزائن کردہ سر ورق زیادہ دیدہ زیب لگتا ہے ۔ آرٹسٹ کے بنائے رنگ برنگے پھولوں سے سجے سر ورق دل کو بھاتے ہیں اور ’’ چمن بتول ‘‘ کو سجاتے ہیں ۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ حالات حاضرہ پر ڈاکٹر صاحبہ کی کڑی نظر رہتی ہے ۔ اس لیے ہمیں آپ کے تند و تلخ سچے تبصرے پڑھنے کوملتے ہیں۔ اداریہ کے یہ جملے قابل غور و فکر ہیں ’’ حالات سنگین تر ہوگئے ہیںایسے میںحکمرانوں کی تفریحات اورعیاشیاں زخموں پرنمک چھڑک رہی ہیں ۔ بے حسی انتہا پر ہے مالِ مفت دل بے رحم ۔ قرض کی مَے ہے اور رنگ لائی ہوئی فاقہ مستی ‘‘ غالب کے شعر کا خوب استعمال کیا ہے ۔
’’ اللہ کی طرف بلانے والے رسولؐ ‘‘ ڈاکٹر میمونہ حمزہ کا بصیرت افروز مضمون اس مضمون میں واضح کیا گیا ہے کہ ہمارے پیارے رسول پاک ؐ نے دعوت حق لوگوںتک پہنچانے کا فریضہ بہترین طریقہ سے انجام دیا ہے اور اس سلسلہ میںکسی لالچ ،خوف یا مصیبت سے متزلزل نہیں ہوتے ۔ اس مضمون میںدعوت دین دینے کے بہترین اصول بھی بتائے گئے ہیں۔
’’ وہ نبیوںمیںرحمت لقب پانے والا ‘‘ (اسما معظم) ہمارے پیارے رسول پاکؐ دنیا میں رحمت اللعالمین بنا کربھیجے گئے ۔آپ کے اندر نرمی اور شفقت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ آپ کا اسوہ حسنہ ہم سب کے لیے مشعل راہ ہے ۔ اس مضمون میںسیرت نبوی ؐ کے دلکش انداز خوبصورتی سے بیان کیے گئے ہیں۔
’’ تنظیم اپنے مقاصد کیسے حاصل کر سکتی ہے ؟‘‘ ( خرم مراد) اپنے اس مضمون میں ایک ماہر تنظیم ساز کی طرح بڑے اچھے انداز میںتحریک اسلامی کے مقاصد کا نچوڑ پیش کیا ہے اور یہ کہ یہ فریضہ تنظیم اور اجتماعی زندگی کے بغیر ادا نہیں ہو سکتا اور اس کے لیے ایک مضبوط ڈھانچے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ تنظیمی اجتماعات بھی ضروری ہیں جو با مقصد ہونے چاہئیں ۔ تنظیم کا مقصد پھیلنا اور مسخّرکرنا ہونا چاہیے۔
حبیب الرحمٰن صاحب لمبی اورمشکل بحر میں آسانی سے غزل کہہ لیتے ہیں
آپ کی غزل سے ایک منتخب شعر :
کبھی نیم شب کی دعائوںمیںجوگرے خطا کی چتائوں میں
وہی چند اشک حبیبؔ سب میرے دل کی آگ بجھا گئے
’’ابھی یہ عمر باقی ہے ‘‘ اسما جلیل قریشی کی ایک طویل خوبصورت نظم ۔ شعروں میںندی کے بہتے پانیوں کی سی روانی ہے ، جھرنوں کی موسیقی ہے ۔ مصرعے ایسے جیسے موتی پرو دیے ہیں ۔ بلا شبہ اسے شاہکار نظموںمیںشمار کیا جا سکتا ہے ۔ اس میں حفیظ جالندھری کی مشہور نظم ’’ ابھی تو میں جوان ہوں ‘‘ کا رنگ بھی جھلکتا ہے ۔ ایک شیرینی ٹپکتی ہے ۔
ابھی تو شام کی رعنائیاںبھی بات کرتی ہیں
ابھی یہ جلترنگی بارشیں دل پر برستی ہیں
ابھی کوئل چہکتی ہے ابھی ڈالی مہکتی ہے
ابھی پائل چھنکتی ہے ابھی چوڑی کھنکتی ہے
اسما صدیقہ کی حسرت و یاس میں ڈوبی اورموجودہ حالات کی عکاسی کرتی ایک نظم:
کہ مرگِ جذب و چاہ میں ہے زندگی بکھر گئی
ٹٹولتا ہے ہر کوئی کہ روشنی کدھر گئی
وہ جو قافلے سے بچھڑ گئے ( آسیہ راشد ) جیل میں قید خواتین سے ملاقات اوران سے بات چیت کا زبردست احوال۔ آپ کا یہ تجربہ بہت جرأت مندانہ اور انوکھا رہا ۔ یہ جملے دل پہ اثر کرتے ہیں ’’ آہوں، سسکیوں،اشکوں ، دھاڑوں کا ایک سیل رواںتھا یوں لگ رہاتھا درو دیوار بھی اشک باری میں ان کا ساتھ دے رہے ہیں ۔ ان کی سسکیوں میں ندامت کے تمام چراغ جل رہے تھے ‘‘۔آسیہ راشد صاحبہ سے التماس ہے کہ اس روداد کی اگلی قسط ضرور تحریر کریں۔
’’ کبھی ہم خوبصورت تھے‘‘ ( فاطمہ طیبہ ) بہن بھائی کی محبت میں ڈوبی ایک دلوںکو چھوتی ہوئی کہانی! پڑھ کے آنکھیں اشکبار ہو گئیں ۔ یہ جملے دل پہ اثر کرتے ہیں’’صبا کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا بھائی تم کیسے میرے ہاتھوں سے پھسل گئے ۔ابھی تو تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ میںتھا ۔ بھائی تم اکیلے ہی پریوں کے دیس میںچلے گئے ۔ اتنی جلدی کیوںکی، مجھے بھی ساتھ لے جاتے ‘‘۔
’’ بے شکن ‘‘ (فرح ناز) ایک معاشرتی کہانی ۔ اکثر ایسی ٹریجڈ ی ہو جاتی ہے کہ مجبوری کی شادیاںہو جاتی ہیںجنہیں لڑکیوں کو زندگی بھر برداشت کرنا پڑتا ہے ۔
’’ پونچھ لو اشک ذرا دیدہ تر سےپہلے ‘‘ (طیبہ سلیم) دلوںمیں جذبہ ہمدردی جگاتی ایک کہانی ۔’’ نئی صبحیں‘‘( زینب جلال) یہ مختصر کہانی ہمیں سمجھاتی ہے کہ اگر دلوںمیں جذبہ اصلاح ہو تو سارے کام سنور سکتے ہیں ، ہم ایک منظم قوم بن سکتے ہیں۔
’’ امی‘‘صبیحہ نبوت خان صاحبہ کا پیاری امی کی یادوںمیں گندھا ہؤا ایک خوبصورت مضمون۔ ماںبیٹی میںاتنی چاہت تھی کہ ہر وقت یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہاںکہیںآس پاس ہی ہیں ۔ واقعی ماںبیٹی کا رشتہ بڑا انمول ہوتا ہے ۔
’’ اک ستارہ تھی میں ‘‘ ابھی پون ہوسٹل لائف گزار رہی ہے ۔ اس کی ایک سہیلی سعدیہ بھی ہوسٹل میںآجاتی ہے ۔ پون ڈرتی ہے کہ وہ اس کے گھر والوںکواس کی خبر نہ کر دے ۔ اب پون محکمہ تعلیم میں ایجو کیٹر کی پوسٹ کے لیے درخواست دیتی ہے ۔ کہانی آگے بڑھ رہی ہے ۔
متبادل راستہ (خالدہ حسین) ایک فلسفیانہ گتھیوں میں الجھی کہانی جو در اصل ہمیں یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہے کہ ہمارا ملک ابھی تک انواع و اقسام کے مسائل کا شکار ہے ۔ مخلصانہ کاوشوں کا فقدان ، بے ترتیبی ہے۔
’’ یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے ‘‘ نیر بانو صاحبہ کی ادبی خدمات اورجماعت کے حلقہ خواتین کے لیے کوششیںقابل قدر ہیں ۔ خاص طور پہ منصورہ میں خواتین کے لیے ایک الگ مرکز کا قیام ان کاایک یاد گار کارنامہ ہے ۔ ثریا اسما صاحبہ نے احترام میںڈوبے لہجے میں ان کے بارے میںیہ بصیرت افروز مضمون لکھا ہے ایسی ہستیاںخال خال جنم لیتی ہیں۔
’’ آئو فلاح کی طرف ‘‘ (نعیمہ ندیم ) آپ نے اپنے اس مضمون میں اپنے والد صاحب کا ذکرنہایت عقیدت کے ساتھ کیا ہے وہ آخری وقت بھی نماز سے غافل نہیںرہے ۔ اللہ کے نیک بندے تھے ۔
’’ آذر بائجان کی سیر ‘‘( مہ جبیں) آذر بائجان کی سیر کا نہایت دلچسپ احوال یہ جملے دلچسپ ہیں ’’ گاڑی کو کچھ دور پارک کرنا پڑا کیونکہ تنگ گلیوں میں اوراونچےنیچے راستوںسے گزرنے کاجگرا تو صرف شاہی سواری یعنی ٹانگوں میںہی ہوتا ہے ‘‘۔ اگلی قسط کاانتظار رہے گا ۔
’’ میرا حج‘‘(قانتہ رابعہ صاحبہ ) آپ نے بڑے عقیدت بھر ے انداز میں اپنے حج کا فریضہ ادا کرنے کے بارے میں لکھا ہے اللہ جسے نصیب کرے۔
بتول میگزین’’ مضبوط جڑیں‘‘( شازیہ نعمان) آپ نے خوب لکھا ہے کہ اچھی مائیں اپنی بیٹیوں کو ان کی شادی کے وقت اچھی نصیحتیں کرتی ہیں کہ حوصلے سے کام لینا ، سسرال میں نباہ کرنا بہت مشکلیں آسان ہوں گی ’’کاپی پیسٹ‘‘( بنت سحر) اس مختصر مضمون میں آپ نے واضح کیا ہے کہ کس طرح بعض لوگ خواہ مخواہ دوسروں کی ٹوہ میں رہتے ہیں ، غیبت کرتے ہیں ۔ اللہ اس لعنت سے ہم سب کو بچائے ۔
’’ ماں کا دودھ قدرت کا انمول تحفہ‘‘( ڈاکٹر ناعمہ شیرازی) بتایا گیا ہے کہ نوزائیدہ بچے کے لیے ماں کا دودھ ایک انمول تحفہ ہے ۔ماںکا دودھ پینے والے بچے کم بیمار ہوتے ہیں ۔ اور اپنے بچوں کو دودھ پلانا ماں کے لیے بھی نہایت سود مند ہوتا ہے ۔
’’ دیارِ غیر کی ہجرت‘‘ مصر کے ایک مشہور شیخ علی طنطاوی کی پوتی مومنہ العظام کے دل خراش انکشافات کہ جو مسلمان گھرانے یورپ اورامریکہ کے شوق میں وہاں جا بستے ہیں اکثر ان کی اولادیں مذہب اسلام سے دور ہو جاتی ہیں ۔
گوشہِ تسنیم ’’ قصور وار کون ؟‘‘ (ڈاکٹر بشریٰ تسنیم) ڈاکٹر صاحبہ نے سمجھایا ہے کہ اگر ہم خاندان، معاشرے ، عدالتوں اور ملک میں انصاف کا ترازو متوازن رکھیں گے تو حالات سنور سکتے ہیںان شاء اللہ۔
٭ ٭ ٭
’’چمن بتول‘‘ شمارہ نومبر2023ء سامنے ہے اس پر کچھ اظہار خیال۔ مدیرہ محترمہ نے فلسطین کی حالت زار پر گہرے دکھ اوررنج کااظہار کیا ہے۔ آپ کے یہ جملے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں’’ اس اندھا دھند بمباری میں نہ مساجد اور ہسپتالوں کوچھوڑا نہ ہی پریس اورامدادی عملے کو۔ اسرائیل کی سفاکیت سے ہزاروں مرد، خواتین اور بچے شہید ہوچکے ہیں ۔ اسرائیل نے درندگی اورشیطانیت کا ایسا کھیل رچایا ہے کہ دنیا چیخ اٹھی ہے ۔دنیا بھر میںاسرائیل کی مذمت میں مظاہرے جاری ہیں ‘‘۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کے ہاتھ توڑ دے ( آمین)۔
’’ سیرت نبویؐ کا سیاسی پہلو‘‘ (شہنازاخترشانی) ہمارے پیار ے رسولؐ پاک نے ہمیں سیاست کے سنہرے اصول سکھائے ۔ آپ نے ریا ست مدینہ میںبہترین سیاسی، معاشرتی اور معاشی نظام قائم کر کے دکھایا ۔ اور واضح کیا کہ کوئی بھی قانون احکاماتِ خدا وندی اورفرمانِ رسولؐ پاک کے خلاف نہیں بن سکتا ۔ حکومتی سطح پر سارے فیصلےمجلس شوریٰ کے مشوروں سے ہوں گے ۔رسول پاکؐ نے بہترین آداب حکومت اورآداب معاشرت ہمیںسکھائے۔
’’ اخوت‘‘( ڈاکٹر میمونہ حمزہ) ڈاکٹر صاحبہ نے واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کوایک مضبوط رشتے میںجوڑ دیا ہے ۔تمام عالم اسلام کے مسلمان محبت ،اخوت، ہمدردی اور خلوص کے رشتے میں بندھے ہوتے ہیں۔
’’جل رہے ہیں گلاب غزہ میں ‘‘ فلسطین کی حالت زار پر ڈاکٹر عزیزہ انجم کی ایک رلا دینے والی نظم ۔
جل رہے ہیں گلاب غزہ میں
بجھ گئے ماہتاب غزہ میں
خوں میں ڈوبے ہیں پھول سے بچے
جیسے تازہ گلاب غزہ میں
’’ مسئلہ فلسطین تاریخی تناظر میں ‘‘ مسئلہ فلسطین کے تناظر میں مولانا مودودیؒ کا یہ ایک تفصیلی مضمون ہے نہایت معلوماتی اور تحقیقی ۔ اسے پڑھ کےاسرائیل کے قیام کی سازش کے سارے تانے بانے سمجھ میں آجاتے ہیں کہ کس طرح امریکہ، فرانس، برطانیہ اوردیگر یورپی طاقتوں کی مدد سے یہودی فلسطین کی سر زمین پر غاصبانہ قبضہ جمانے میںکامیاب ہوئے لیکن مولانا نے جس آئندہ کے خطرے سے خبر دارکیا ہے کہ یہودیوں کا بڑا مقصد اسرائیل کو مزید مدینہ منورہ تک وسعت دینا اورمسجداقصیٰ کوگرا کر وہاں ہیکل سلیمانی قائم کرنا ہے ،اس سازش کو روکنے کے لیے مسلمان ممالک کو مضبوط اور متحد ہونا ہوگا تاکہ یہودیوں کے عزائم کو روکا جا سکے ۔
حبیب الرحمٰن صاحب کے منتخب اشعار:
سر کی یہ آگ پیروں تک آنی ہے اور بس
اتنی سی شمع تیری کہانی ہے اور بس
کُل زندگی بڑھاپا اوربچپن کے درمیاں
اک مختصر سا دورِ جوانی ہے اور بس
زبر دست خیال آرائی اورنکتہ آرائی ہے ۔
’’سنہرے گنبد سے اپنا رشتہ ‘‘ اسما صدیقہ صاحبہ کی فلسطین کی حالت زار پر ایک دل گداز نظم :
ندائے اقصیٰ میں سن سکو تو
لہو نہاتی ہزار آہیں جو مرتعش ہیں
تجلیوںسے جو لا ا لہٰ کی منعکس ہیں
جو زخمی کلیوں کی آہ و زاری میںملتمس ہیں
’’ یہاں کیا رکھا ہے ‘‘ (شہلا اسلام) کہانی دل نشین انداز میں بتا رہی ہے کہ ہمیں سنہرے خوابوں کی تعبیر کی تلاش میں اپنے ملک کو چھوڑ نہیں دینا چاہیے ۔ اگر ہم محنت کریں تو اپنے پیارے ملک میں سب کچھ ہے ۔
’’ بارش کا گیت ‘‘ شاہدہ اکرام سحر کی خوبصورت نظم ، ایک منتخب شعر :
رم جھم ہے بوندوں کی دل پر بھی گرتی ہیں
آنکھوں میں بھی گویا اک ابر سا چھایا ہے
’’ درد وچھوڑے دا ‘‘ ( رضیہ سلطانہ) خواجہ سرائوں کی قابل رحم زندگی اور حالت زار پر روشنی ڈالتی ہوئی کہانی واقعی معاشرے کا یہ طبقہ مظلوم ہے ۔’’ ویہڑہ‘‘ ( ثانیہ رحمان) ہمارے معاشرے کی عکاس کہانی چند عورتوںکی لگائی بجھائی اور کٹیلی باتوں سے متاثر ہو کر بیوی روٹھ کر میکے چلی گئی ۔نوزائیدہ بچہ بھی مر گیا ، پھر اس نے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کردیا ۔ ایک ہنستا بستا گھر اجڑ کے رہ گیا۔
’’ انکاری‘‘( عائشہ ناصر) یہ کہانی بتاتی ہے کہ جیل سے واپس آنے والےتائب بھی ہو جائیں تو معاشرہ انہیں قبول نہیں کرتا ، دھتکار دیتا ہے ۔’’ بندمٹھی ‘‘ ( آمنہ آفاق) درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو یہ سبق سکھاتی ایک خوبصورت کہانی ۔
’’ سیماں‘‘( رفعت محبوب) ایک دیانتدار ماسی کی کہانی جو ان کے گھر میں بیٹیوں کی طرح رہی اور ایک دن ایک حادثے میں اس کی ناگہانی موت ہو گئی ۔ واقعی ایسے اچھے کردار یاد رہتے ہیں ۔
’’معصوم کلیاں‘‘ محترمہ آسیہ راشد صاحبہ کا مضمون ۔ جیل میں قید خواتین کی بے بسی کا احوال خوب لکھا ہے ۔جیل میںصحت مندماحول نہیں ملتا۔ آپ نے یہ جملے زبردست لکھے ہیں ’’ خالدہ صاحبہ کی آوازنے مجھے چونکا دیا ، آپ ان بچیوں سے کچھ پوچھنا چاہتی تھیں ؟ نہیںمجھے ان سے کچھ نہیںپوچھنا بلکہ مجھے اپنے ارباب اختیار، ان کے والدین اور معا شر ے کے بے حس لوگوںسے پوچھنا ہے کہ ان بچیوںکو اس گناہ کی دلدل میںکس نے دھکیلا ، ان کامجرم کون ہے ؟‘‘
’’ اک ستارہ تھی میں ‘‘ ( اسما اشرف منہاس) اس قسط میں پون کو بے گناہ قرار دے کرجیل سےرہا کر دیا جاتا ہے ۔ زرک اُس سے اپنی زیادتیوں کی معافی مانگتاہے لیکن پون خاموش رہتی ہے ۔ دیکھیں اب آگے کیا ہوتا ہے ۔
’’ میری والدہ محترمہ‘‘( ڈاکٹر فلزہ آفاق) ایک انتہائی شفیق اور قابل والدہ کااحوال ۔ایسی اچھی مائیں نصیب والوں کو ملتی ہیں ۔ یہ جملے زبردست ہیں’’ ترقی، عمل ، تواضع خوشی اور غم میںہمیشہ پر وقار اورپر سکو ن ۔ دل میں طوفان بھی اٹھے ہوںتوضبط کا دامن نہ چھوڑا ۔ خواتین کے حقوق کی پر زورداعی ۔ خدمت خلق میںپیش پیش، پھول کی طرح ہرمحفل میںخوشبو بکھیرتی رہیں ، محبت بانٹتی رہیں‘‘۔ جہلم میںآپ کا مشہور کلینک ’’مرزا ہسپتال ‘ کے نام سے ہے ۔
’’علامہ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ ‘‘(ڈاکٹر محمد سلیم)علامہ اقبالؒ اور مولانا مودودی ؒ دونوں ہی عظیم شخصیات ہیں۔دونوں کا آپس میں گہرا دلی لگائو اور عقیدت کارشتہ تھا دونوں ایک دوسرے کے فکری خیالات سے متاثر تھے ۔ دونوں کی خدمات مسلمانوں کے لیے قابل قدر ہیں۔ علامہ اقبال کی دعوت پر ہی مولانا شمالی ہند میںآگئے تھے ۔
’’ آذر بائجان کی سیر ‘‘(مہ جبیں) آذر بائجان کی سیر کا خوبصور ت احوال ۔ وہاں کو ہ قاف( قفقاد) کی سیر واقعی آذر بائجان خوبصورت قدرتی مناظر اور خوبصورت پہاڑوں اوروادیوں سے مزین سر زمین ہے ۔
’’ میاں بیوی ‘‘( نبیلہ شہزاد) میاں بیوی کے پر خلوص رشتے کے بارے میں ایک دلچسپ مضمون ۔گہرا رشتہ ایک دوسرے کے دکھ سکھ بانٹنا ، دونوں گاڑی کے دو پہیوںکی طرح ہوتے ہیںکہ دونوںکےتوازن سے خاندان کی گاڑی چلتی ہے ۔
’’غزہ کے پھول‘‘ ( ام محمد عبداللہ ) غزہ کی حالت زار کے بارے میں ایک طویل مگر خوبصورت نظم ۔ایک ماںنے اپنے بیٹے کے لیے جن جذبات کااظہار کیا ہے ، پڑھ کے آنکھوںمیںآنسو آجاتے ہیں۔
’’ اے طائر لاہوتی‘‘یہ میرا تحریر کردہ مضمون ہے بس اس کا لب لباب یہ ہے کہ ہمیں سوائے خدا کے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا چاہیے ۔
’’ دوران حمل باقاعدہ طبی معائنے کی اہمیت ’’ ڈاکٹر ناعمہ شیرازی صاحبہ نے اپنے مضمون میںخواتین کو بہترین طبی مشورے دیے ہیںجن پر عمل کرنا بچہ اورزچہ دونوںکے لیے مفید ہے
گوشہِ تسنیم’’ احسان کی حقیقت‘‘ ڈاکٹر بشریٰ تسنیم صاحبہ نے احسان کے بارے میںبڑی وضاحت کے ساتھ سمجھایا ہے کہ احسان عدل سے بھی بڑھ کے ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ہم پر عظیم احسان ہے کہ ہمیںمسلمان گھرانے میںپیدا کیا ۔ اللہ تعالیٰ کے احسانات کا ہم شمار نہیں کر سکتے ۔ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والا ہے اور چاہتا ہے کہ ہم بھی ایک دو سر ے پر احسان کریں۔
٭٭٭
روزینہ خورشید۔ کراچی
میں حریم ادب کراچی کی ممبر ہوں ۔پچھلے بیس سالوں سے بتول پڑھ رہی ہوں۔اس رسالے کے دو سلسلے مجھے بہت متاثر کرتے ہیں، ایک تو سفرحج و عمرہ کی روداد اور دوسری اپنے پیاروں کی یاد میں لکھی گئی تحریر۔ در حقیقت بتول کی وجہ سے ہی میرے اندر لکھنے کی تحریک پیدا ہوئی اور والدہ کی یاد میں لکھی گئی تحریر کو بتول میں جگہ دے کر آپ نے مجھ ناچیز پر احسان کیا ہے۔میں نے سقوط ڈھاکہ کے حوالےسے ایک تحریر لکھی ہے۔ بتول میں جگہ دے کر ذرہ نوازی کر دیجیے گا ۔
*روزینہ! آپ کے پسندیدہ رسالے میں آپ کی تحریر شامل ہے۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x