ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ابتدا تیرے نام سے – بتول فروری ۲۰۲۱

قارئینِ کرام!
پانچ فروری کو ملک گیر سطح پر یوم کشمیر منایا جاتا ہے۔ غاصب بھارتی فوج کے ظلم و ستم سہتے پون صدی ہونے کو آئی، ہمارے جسم کا یہ حصہ ابھی تک تکلیف میں ہے۔ ہم نامکمل ہیں جب تک ہمارے کشمیر ی ہم وطن آزاد فضا میں سانس نہیں لیتے۔ یہ تکمیلِ پاکستان کا نامکمل ایجنڈا ہے، اللہ کرے ہم اس قابل ہو ں کہ کشمیر کی آزادی کے لیے مؤثر عملی اقدامات اٹھا سکیں۔
براڈ شیٹ سکینڈل ملکی دولت کے اربوں روپے لوٹنے کے انتہائی لرزا دینے والے حقائق پر مشتمل ہے۔اگر یہ سب سچ ہے تو ہم واقعی ایک بدنصیب قوم ہیں جس پر ڈاکو حکمران رہے۔اور اب ان ڈاکوؤں کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے لیے کچھ اور ڈاکو اپنا حصہ وصول کرنا چاہتے ہیں۔پاکستانی حکومت نے پہلے ایک بین الاقوامی تحقیقاتی کمپنی سے اس لوٹ کھسوٹ کا پتہ لگانے کے لیے معاہدہ کیا اور پھرپتہ لگ جانے کے بعد ڈاکوؤں سے صلح کرلی۔اب وہ کمپنی اپنی فیس وصول کرنے کا تقاضا کررہی ہے جو ہر سال ضرب کھا کر کئی گنا ہو چکی ہے اور ملک کا بچہ بچہ اس کمپنی کا مقروض ہوگیا ہے۔ عجیب کہانی ہے! ہم صبح آنکھ کھولتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ آج ہم پر سوئے سوئے ایک نیا قرضہ چڑھ گیا ہے۔۔۔اپنے حکمرانوں کی بداعمالیوں کے باعث۔۔۔شاید سوئے رہنے کا یہی شاخسانہ ہوتا ہے کیونکہ جاگتی ہوئی قوم کو توکوئی اس طرح الو بنا کر غائب نہیں ہو سکتا کجا یہ کہ اگلے انتخابات میں ووٹ مانگنے کی جرأت بھی کرے۔ ہوس، بددیانتی اور لوٹ کھسوٹ کی ان چکرا دینے والی داستانوں کو دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ ہم اکیسویں صدی کی ہوش مند دنیا کا حصہ ہیں جہاںبیشتر ممالک میں حکمران قومی دولت کی ایک ایک پائی کا حساب دینے کے پابند ہوتے ہیں۔موجودہ حکومت اگر احتساب میں مخلص ہے تو یہ لوٹی ہوئی رقم ملک میں واپس لائے ، حکومت کا جرمانہ مجرموں کی جائیدادیں بیچ کر ادا کرے ، اور پھر اپنی صفوں میں موجود غداروں سمیت سب ڈاکوؤں کو نشانِ عبرت بنائے۔قانون مذاق بن جاتا ہے جب چھوٹے چور پکڑے جائیں اور بڑے چور معزز کہلائیں اور ان کو صلح نامے دے کر سیاسی طور پہ زندہ رکھنے کا بندوبست کیا جائے۔جبکہ قانون کی عملداری کا پہلے ہی وہ حال ہے کہ بقول عقیل عباس جعفری:

ہم سب ایسے شہر ناپرساں کے باسی ہیں
جس کا نظم و نسق چلائیں نامعلوم افراد
ان کا کوئی نام نہ مسلک اور نہ کوئی نسل
کام سے بس پہچانے جائیں نامعلوم افراد
شہر میں جس جانب بھی جائیں ایک ہی منظر ہے
آگے پیچھے دائیں بائیں نامعلوم افراد

مختلف سروے اوراخباری رپورٹیں ظاہر کرتی ہیں کہ ملک میں طلاق اور خلع کے اعدادوشمار تشویش ناک حد تک بڑھ گئے ہیں بلکہ ایک رپورٹ کے مطابق صرف سندھ کی عدالتوں میں خلع کے مقدمات میں سات سو فیصد سے بھی زیادہ اضافہ سامنے آیا ہے۔ یہ ایک ایسی خطرے کی گھنٹی ہے جس پر نہ صرف ارباب اختیار کو تشویش لاحق ہونی چاہئے بلکہ والدین، اساتذہ کرام،سماجی تنظیموں، علمائے دین اور اصلاح معاشرہ کے لیے کام کرنے والے حلقوں کو بھی فوری طور پر سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس صورتحال کے تدارک کے لیے اپنا اپنا لائحہ عمل تشکیل دے سکیں۔
مضبوط خاندانی نظام ہمیشہ سے مشرقی معاشروں کی بڑی قوت اور ان کے معاشرتی استحکام کی علامت رہاہے۔ خصوصاًپاکستان جیسے مسلم معاشروں میں جہاں دین کی تعلیمات کا اثر ہے، لوگ بہت سے ایسے مسائل سے محفوظ ہیں جن کا سامنا جدید دنیا میں رہنے والے افراد کرتے ہیں۔اس وقت جبکہ خاندان کو درپیش خطرات پر دنیا بھر میں تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے اور خاندان کے ادارے کی تحفظ کی کوششیں اس وقت ایک عالمگیر مہم کی شکل اختیار کر چکی ہیں،یہ فکر مندی کا مقام ہے کہ ایک مسلم معاشرہ ہونے کے باوجودہمارے ہاں بھی خاندان کا یہ مستحکم ادارہ ٹوٹ پھوٹ کاسامنا کر رہا ہے۔ہمارے نزدیک اس زوال کے کئی اسباب ہیں جن میں سرفہرست افرادِ خاندان کا دینی تعلیمات سے بے خبر یا غافل ہونا ہے۔ اسلام گھر کے ہر فرد کو اس کی ذمہ داریوں اور فرائض کا شعور دیتا ہے جن کو ادا کیا جائے تو گھروں میں اختلافات اور جھگڑے پیدا ہونے کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں۔ اور اختلافات ہوں بھی تو ان کی نوعیت ایسی شدید نہیں ہوگی کہ گھر ٹوٹنے کی نوبت آجائے۔گھر کے ڈھانچے کا برقرار رہنا اس میں موجودہر شخص کے مؤثر کردار کے ساتھ مشروط ہے، جس میں کوتاہی گھر کو کمزور کردیتی ہے۔یہ احساسِ ذمہ داری صر ف خدا کے آگے جواب دہی کا شعور پیدا کر سکتا ہے جس کو اجاگر کرنے کے لیے ہمارے ہاں گھروں اور تعلیم گاہوں میں خاطر خواہ بندوبست موجود نہیں ہے۔زوجین اپنے فرائض سے غفلت برتتے ہیں۔ہماری کثیر آبادی غربت کا شکار ہے جس میں جہالت اور بے روزگاری کے باعث مردوں کا گھر کے اخراجات پورے نہ کرناگھروں کے ٹوٹنے کی بڑی وجہ بنتا ہے۔دین سے دوری اورمیڈیا کے منفی اثرات کے باعث معاشرے میں بدچلنی اور آوارگی رواج پارہی ہے جس کی بنا پر شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے ساتھ وفادار نہیں رہتے اور نتیجہ گھر ٹوٹنے کی شکل میں سامنے آتا ہے۔کمرشل بنیادوں پرویلنٹائن ڈے جیسے تہواروں کو رواج دینا بھی اس ضمن میں آتا ہے۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں آوارگی کی طرف مائل ہوتے ہیں جس کے غلط نتائج ان کی زندگیوں کو متأثر کرتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ملک میں مغربی سوچ سے متاثر بعض حلقوں نے یہاں عورت کے حقوق کے نام پر ایسے نعروں کو رواج دینے کی کوشش کی ہے جوخواتین کے حقیقی مسائل کے حل کی بجائے انہیں بغاوت پر اکسانے ، گھر کی ذمہ داریوں کو خیر باد کہنے اور اصناف کے مابین دشمنی پیدا کرنے والے ہیں۔نوجوان لڑکیوں کو حقوق، آزادی، ظلم سے نجات اور معاشی خود مختاری کے نام پر گھر کی تنظیم کو مسترد کرنے کی سوچ دی جارہی ہے۔ مردوں کو قوامیت کا شعور دینے کی بجائے عورتوں کی معاشی آزادی پر مطمئن کیا جارہا ہے۔ایسی سوچ نوجوان لڑکے لڑکیوں کو گمراہ کررہی ہے جس کا نتیجہ گھروں میں انتشار کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔عورت کے حقوق کا نعرہ لگانے کے نتیجے میں اگرعورت ہی کو گھر کے سکون سے محروم کردیا جائے تو یہ اس کی بہت بڑی حق تلفی ہے۔
یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے ہمارے الیکٹرانک میڈیا پر چلنے والے ڈرامے واضح طور پہ خاندانی زندگی سے متنفر کرنے والے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب ان کا نتیجہ معاشرے میں نظر آنے لگا ہے۔ گھرجو سکون، محبت اور خیر خواہی کی جگہ ہے اور جہاں ایک نومولود کی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے، اسے نفرت، فریب، بے وفائی، سازش اور چالبازی کا گڑھ بنا کر پیش کیا جارہا ہے، ایک ایسی جگہ جہاں ہر رشتہ دوسرے رشتے کی جاسوسی کرنے، اسے دھوکہ دینے اور نقصان پہنچانے میں مصروف ہے۔مسلسل اور کثیر عوامی احتجاج کے باوجود ان ڈراموں پر پابندی نہیں لگائی جارہی۔
پاکستانی معاشرے کو زوال کا شکار کرنے والے عوامل کی نشاندہی بھی ضروری ہے اور ان عوامل کے خلاف جدوجہد بھی۔اس سلسلے میں عوامی آگاہی کی ایسی مہمات فائدہ مند ہو سکتی ہیں جن کے تحت معاشرے میں خاندان کو تقویت دینے والے سماجی عوامل، فکرو نظریات کا شعورعام کیا جائے۔حکومت اور سماجی تنظیموں کی سطح پر دنیا بھر میں خاندان کی بقا اور تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور اداروں کے ساتھ اظہارِ یک جہتی بھی ہونا چاہئے تاکہ ایک متبادل عالمی رائے عامہ تعمیر ہو۔
اگلے ماہ تک اجازت دیجیے بشرطِ زندگی، دعاگو

صائمہ اسما

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x