ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

اسلام میں امانت کا تصور – بتول مئی ۲۰۲۳

بلند کردار اور اعلیٰ صفات کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان صفات اور خوبیوں کا تعلق کسی خاص فرد، قوم و مذہب سے نہیں بلکہ یہ انسانیت کا خاصہ ہیں۔ خود قرآن میں ان افراد کی بھی اچھی خوبیوں کی تعریف کی گئی ہے جن کا تعلق مسلمانوں سے نہیں بلکہ ایک اور قوم سے تھا۔
’’اہل کتاب میں کوئی تو ایسا ہے کہ اگر تم اس کے اعتماد پر مال و دولت کا ایک ڈھیر بھی دے دو تو وہ تمہارا مال تمہیں ادا کر دے گا اور کسی کا حال یہ ہے کہ اگر تم ایک دینار کے معاملے میں بھی اس پر بھروسہ کرو تو وہ ادا نہ کرے گا الا یہ کہ تم اس کے سر پر سوار ہو جائو۔‘‘ آل عمران ۷۵
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں جس خوبی کی تعریف فرمائی ہے وہ امانت ہے اور جس کی مذمت فرمائی ہے وہ خیانت ہے۔ امانت ایسی صفت ہے جس سے اعلیٰ اخلاق کی صفات خود بخود پیدا ہوتی ہیں اور خیانت وہ برائی ہے جس سے کئی برائیاں وابستہ ہیں۔
امانت، معنی و مفہوم
’’امانت‘‘ عربی زبان میں کسی معاملہ میں کسی پر اعتماد کرنے کو کہتے ہیں۔ لہٰذا ہر وہ کام، چیز یا کوئی بات جو کسی پر اعتماد کر کے اس کے سپرد کی جائے، امانت ہے۔ جس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے وہ امین کہلاتا ہے، اگر امین نے اس امانت کی حفاظت کی اور بوقت مطالبہ اس کو صحیح حالت میں واپس کیا تو یہ دیانت ہے۔ لیکن جس کے پاس امانت رکھی گئی تھی وہ اس کی حفاظت سے لاپروائی کر کے اسے نقصان پہنچائے، اس سے ناجائز فائدہ اٹھائے یا اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے تو یہ خیانت ہے اور وہ شخص خائن ہے۔
امانت کی چند مثالیں
۱۔ کسی نے کوئی چیز، رقم وغیرہ کسی کو سپرد کی تو وہ اس کی حفاظت کرے۔
۲۔ کسی نے کوئی راز کی بات کسی محفل یا انفرادی طور پر کسی سے کہی تو وہ اس کو پوشیدہ رکھے۔
۳۔ کسی کو کوئی عہدہ یا اختیار ملا، تو وہ اپنی حیثیت اور اختیار کا جائز استعمال کرے۔
۴۔ کسی اہل علم، تجربہ کار یا ہنر مند فرد کو کوئی کام سونپا گیا، تو وہ اپنی صلاحیت کے مطابق اسے بہتر طریقہ سے انجام دے۔
امانت، قرآن حکیم کی روشنی میں
۱۔ امانت داری کامیاب مومن کی نشانی ہے۔
ترجمہ: ’’وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد و پیمان کا پاس رکھتے ہیں۔‘‘( المئومنون ۸)
’’امانت کا لفظ جامع ہے، ان تمام امانتوں کیلئے جو خداوند کریم یا معاشرے نے یا افراد نے کسی شخص کے سپرد کی ہوں اور عہد و پیمان میں وہ سارے معاہدے داخل ہیں، جو انسان اور خدا کے درمیان یا انسان اور انسان کے درمیان یا قوم اور قوم کے درمیان استوار کئے گئے ہوں۔ مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ کبھی امانت میں خیانت نہ کرے گا اور کبھی اپنے قول و اقرار سے نہ پھرے گا۔‘‘ المومنون۔ تفہیم القرآن جلد۳، ص ۲۶۷
۲۔ امانت کی واپسی اللہ کا حکم ہے
ترجمہ: ’’اگر تم میں سے کوئی شخص دوسرے پر بھروسہ کر کے اس کے ساتھ کوئی معاملہ کرے تو جس پر بھروسہ کیا گیا ہے اسے چاہیے کہ امانت ادا کرے اور اپنے رب سے ڈرے۔‘‘( البقرہ ۲۸۳)
۳۔ امانت میں خیانت سے بچنا
ترجمہ: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جانتے بوجھتے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اور اپنی امانتوں میں خیانت کے مرتکب نہ ہو۔‘‘( انفال ۲۷)

۴۔ امانت صحیح لوگوں کے سپرد کیا کرو
ان اللہ یأ مر کم ان تؤ دوا الامنت الی اھلھا۔( النساء ۵۸)
امانت کا لفظ یہاں نہایت وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ تمام حقوق و فرائض، خواہ حقوق اللہ سے تعلق رکھتے ہوں یا حقوق العباد، انفرادی نوعیت کے ہوں یا اجتماعی نوعیت کے، اپنوں سے متعلق ہوں یا بے گانوں سے، مالی معاملات کی قسم سے ہوں یا سیاسی معاہدات کی قسم سے، صلح و امن کے دور کے ہوں یا جنگ کے، غرض جس نوعیت اور جس درجے کے حقوق و فرائض ہوں وہ سب امانت کے مفہوم میں داخل ہیں اور مسلمانوں کو شریعت اور اقتدار کی امانت سپرد کرنے کے بعد اجتماعی حیثیت سے سب سے پہلے جو ہدایت ہوئی وہ یہ ہے کہ تم جن حقوق و فرائض کے ذمہ دار بنائے جا رہے ہو ان کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنا۔
اس ہدایت کے اندر یہ تلمیح بھی مضمر ہے کہ یہ امانت جن (بنی اسرائیل) سے چھین کر تمہیں دی جا رہی ہے انہوں نے اس کا حق ادا نہیں کیا۔ جس منصب شہادت پر ان کو مامور کیا گیا اس کو انہوں نے چھپایا۔ جو کتاب ان کی تحویل میں دی گئی اس میں انہوں نے تحریف کی، جس شریعت کا ان کو حامل بنایا گیا اس میں انہوں نے اختلاف پیدا کیا، جن حقوق کے وہ امین بنائے گئے ان میں انہوں نے خیانت کی۔ جوفرائض ان کے سپرد ہوئے ان میں وہ چور ثابت ہوئے، جو عہد انہوں نے باندھے وہ سب توڑ ڈالے۔ اس وجہ سے تمہاری اولین ذمہ داری ہے کہ اس عظیم امانت کی صورت میں جن حقوق و فرائض کے اب تم حامل بنائے جا رہے ہو ان کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنا۔
حقوق و فرائض کے لئے امانت کا لفظ ایک تو یہ تصور پیدا کرتا ہے کہ یہ سب خدا کی سپرد کردہ امانتیں ہیں، اس لئے کہ ان کا عائد کرنے والا خدا ہی ہے۔ دوسرا یہ کہ ان ساری امانتوں سے متعلق ایک دن لازماً امانت سونپنے والے کی طرف سے پرسش ہونی ہے، اگر ان میں کوئی خیانت ہو گی تو کوئی نہیں ہے جو خدا کی پکڑ سے بچا سکے۔ تدبر القرآن جلد ۲
۵۔ اللہ کے احکام پر عمل کی ذمہ داری امانت ہے
ترجمہ: ’’بے شک ہم نے امانت پیش فرمائی، آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اسے ڈر گئے اور آدمی نے اٹھا لی۔ بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔‘‘( الاحزاب ۷۲)
اس جگہ امانت سے مراد وہی خلافت ہے جو قرآن مجید کی رو سے انسان کو زمین میں عطا کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کو طاعت و معصیت کی جو آزادی بخشی ہے اور اس آزادی کو استعمال کرنے کیلئے اسے اپنی بے شمار مخلوقات پر تصرف کے جو اختیارات عطا کئے ہیں، ان کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان خود اپنے اختیاری اعمال کا ذمہ دار قرار پائے اور اپنے صحیح طرز عمل پر اجر کا اور غلط طرز عمل پر وہ اللہ کے سامنے جوابدہ ہے۔ اس لئے قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر ان کو خلافت کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہاں اسی کے لئے امانت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
یہ امانت کتنی اہم اور گراں بار ہے، اس کا تصور لانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ آسمان و زمین اپنی ساری عظمت کے باوجود اور پہاڑ اپنی زبردست جسامت و متانت کے باوجود اس کے اٹھانے کی طاقت اور ہمت نہ رکھتے تھے، مگر انسان ضعیف البنیان نے اپنی ذرا سی جان پر یہ بھاری بوجھ اٹھا لیا ہے۔ تفہیم القرآن جلد ۴
۶۔ ہماری جان و مال جنت کے بدلے اللہ کی امانت ہے
ترجمہ: ’’بے شک اللہ نے مومنین سے ان کے جان و مال جنت کے بدلے خرید لئے ہیں۔‘‘( التوبہ ۱۱۱)
ایمان دراصل خریدوفروخت کا معاہدہ ہے۔ عموماً امانت داری کا لفظ بولتے ہیں تو دنیا میں لین دین کا تصور ہمارے سامنے آتا ہے کہ آدمی خرید و فروخت کرے۔ اللہ نے کہا کہ ایمان تو خریدوفروخت کا معاملہ ہے۔ اللہ کے بندے نے اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں اس کے ہاتھ بیچ دیا۔ جو آدمی امانت دار نہیں وہ ایمان کو پورا نہیں کر سکتا۔ (امانت داری، خرم مراد)
امانت احادیث کی روشنی میں
۱۔ امانت کی اہمیت
’’حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا خطبہ کم دیا ہے جس میں یہ نہ فرمایا ہو کہ جس شخص میں امانت نہیں اس کا

ایمان بھی کچھ نہیں اور جس میں ایفائے عہد نہیں اس کا دین بھی کچھ نہیں‘‘(شعب الایمان)۔
تشریح: امانت و دیانت اور ایفاء عہد وہ اعلیٰ اوصاف ہیں جن کا ہر مسلمان و مومن میں ہونا ضروری ہے، ان اوصاف کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے ہوتا ہے کہ نبی اکرمؐ جب بھی وعظ و نصیحت فرمایا کرتے یا خطبہ دیا کرتے تو امانت و دیانت اور ایفائے عہد کے بارے میں ضرور تاکید فرمایا کرتے تھے اس لئے کہ مومن کی فطرت ہی امانت و دیانت کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہوتی ہے۔ ان کے اندر ان اوصاف کے جو ہر فطری طور پر ہوتے ہیں جو زندگی کے ہر موڑ پر نیکی و بھلائی کی طرف راہنمائی کرتے ہیں اس طرح ایفائے عہد بھی فطرت سلیم اور ایمان کا خاصہ ہے۔ اسی لئے فرمایا گیا کہ جس شخص کے اندر یہ اوصاف نہیں ہوں گے وہ دین و ایمان کی حقیقی لذت سے بھی لطف اندوز نہیں ہو سکے گا۔ تاہم اس حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس کا ایمان بالکل ہی ختم ہو جائے گا بلکہ ان اوصاف کی اہمیت و عظمت کی بنا پر مبالغہ سے کام لیا گیا اور تاکیداً اس طرح فرمایا گیا تاکہ اس کی اہمیت دلوں میں بیٹھ جائے۔ (مظاہر حق جدید، ایمان کے ابواب)
۲۔ امانت میں خیانت، منافق کی نشانی
اور حضرت ابوہریرہؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالمؐ نے فرمایا! منافق کی تین علامتیں ہیں۔ اس کے بعد مسلمؒ نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا ’’اگرچہ وہ نماز پڑھے اور روزہ رکھے اور مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی کرے‘‘ اس کے بعد بخاریؒ اور مسلمؒ دونوں متفق ہیں کہ (وہ تین علامتیں یہ ہیں) جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو اسکے خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔‘‘(متفق علیہ)
اور حضرت عبداللہ بن عمروؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ جس شخص میں چار باتیں ہوں گی وہ پورا منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی بات پائی جائے گی (تو سمجھ لو کہ) اس میں نفاق کی ایک خصلت پیدا ہو گئی ہے تاوقتیکہ وہ اس کو چھوڑ نہ دے۔ (اور یہ چار باتیں یہ ہیں) جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب قول و اقرار کرے تو اس کیخلاف کرے اور جب جھگڑے تو گالیاں بکے۔ (بخاریؒ و مسلمؒ)
۳۔ مجلس میں کہی گئی بات امانت ہے
المجالس بالامانۃ۔ (مجلسیں امانت ہیں)
چند آدمیوں کے درمیان کوئی بات ہوئی، کسی نے کوئی راز کی بات کہہ دی، کسی سے مشورہ کیا گیا، آپس میں کوئی گفتگو ہوئی۔ ایسی باتوں کو بے وجہ دوسروں کو بتانا امانت میں خیانت ہے۔
۴۔ امانت کی برکت اور خیانت کا نقصان
نبی اکرم ﷺنے فرمایا: امانت رزق کو کھینچتی ہے اور خیانت فقرو فاقہ کو کھینچتی ہے۔ (کنز الایمان جلد ۳، حدیث ۵۴۹۳)
۵۔ روزِ قیامت امانت کی طلب
اللہ کی راہ میں شہید کی جانب سے تمام گناہوں کا کفارہ ہے لیکن امانت کا کفارہ نہیں۔ ایک بندے کو قیامت کے روز لایا جائے گا جو شہید ہوا ہو گا اور کہا جائے گا کہ تم امانت ادا کرو۔ وہ کہے گا اے اللہ! اب میں کہاں سے لائوں، اب تو دنیا ختم ہو چکی ہے۔ کہا جائے گا کہ اس کو جہنم کے طبقہ ھاویہ میں لے جائو۔ وہاں امانت والی چیز مثال بن کر اصل حالت میں اس کے سامنے آئے گی تو وہ اسے دیکھ کر پہچان لے گا اور اس کے پکڑنے کے لئے اس کے پیچھے گرے گا۔ یہاں تک کہ اسے پکڑ لے گا۔ وہ اسے پکڑ کر اپنے کندھوں پر لاد کر چلے گا لیکن جب جہنم سے نکلنے کی کوشش کرے گا تو وہ بوجھ اس کے کندھے سے گر پڑے گا اور وہ اس کے پیچھے ہمیشہ گرتا چلا جائے گا۔ اس کے بعد آپ نے وضو، نماز، ناپ تول اور دیگر بہت سی چیزیں شمار فرمائیں اور ان میں سب سے زیادہ سخت معاملہ امانت کی چیزوں کا ہے۔
۶۔ امانت میں خیانت کا بوجھ
سعد بن عبادہؓ کی طویل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’ایسا نہ ہو کہ بلبلاتے ہوئے اونٹ کو اٹھائے ہوئے آئے جسے تونے خیانت میں لیا تھا۔‘‘ میں نے کہا پھر تو میں اس طرح کا عہدہ

لینے سے دستبردار ہوتا ہوں۔ پھر آپ نے مجھے اس عہدہ پر متعین فرمانے پر اصرار نہیں فرمایا۔ سورۃ آل عمران آیت نمبر ۱۶۱ تفسیر ابن کثیر
۷۔ امانت میں خیانت کی سزا
ایک روز رسول اللہ ﷺ جنت البقیع میں سے گزر رہے تھے کہ ایک قبر والے کے بارے میں فرمایا کہ تم پر افسوس ہے، پھر اس کی وضاحت فرمائی کہ اس قبر والے کو ایک مرتبہ عامل مقرر کیا گیا تھا۔ اس نے اس میں سے ایک چادر خیانت کے طور پر لے لی۔ اب وہ چادر اس کے اوپر آگ بن کر بھڑک رہی ہے۔ (صحیح بخاری جلد اول، صفحہ ۴۲۲)
۸ امانت کی عظمت
میری امت اس وقت تک فطری صلاحیت پر قائم رہے گی جب تک وہ امانت کو مال غنیمت اور زکوٰۃ کو جرمانہ نہ سمجھے۔ (کنزالعمال جلد نمبر ۳، صفحہ۶۲، حدیث نمبر۵۴۰۴)
۹۔ امانت میں خیانت کا انجام
حدیث: اللہ جب کسی بندے کو ہلاک کرنا چاہتا ہے تو اس سے حیا کو نکال دیتا ہے۔ جب اس سے حیا نکل جاتی ہے تو اللہ کا غصہ پاتا ہے۔ جب اللہ اس کو غصہ کرتا ہے تو اس کے دل سے امانت نکل جاتی ہے تو تو اسے ہمیشہ خائن پاتا ہے اور جب خائن ہوتا ہے تو اس سے رحمت نکل جاتی ہے۔ جب اس سے رحمت نکل جاتی ہے تو تو اس کو ملعون پائے گا۔ جب ہر وقت ملعون ہوتا ہے تو اس کی گردن سے اسلام کی رسی نکل جاتی ہے۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب ذہاب الامانۃ۔ حدیث نمبر ۴۰۵۴)
۱۰۔امانت اور قربِ قیامت
جب امانت ضائع کر دی جائے گی تو قیامت کا انتظار کرو۔ (الترغیب والترھیب)
ایک آدمی نے پوچھا، حضورؐ امانت ضائع ہونے کے کیا معنی ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: امانت کا ضائع ہونا یہ ہے کہ معاملات کو ان لوگوں کے سپرد کر دیا جائے جو اس کے اہل نہیں۔
یعنی دولت ان کے پاس ہو جو اس کے برتنے کے اہل نہیں۔ علم ان کے پاس ہو جو علم کے مطابق کام کرنے کے اہل نہیں۔ سیاست ان کے پاس ہو، جو اس کے مطابق حکومت کرنے کے اہل نہ ہوں۔ معاملات ان کے ہاتھ میں ہوں جو معاملات کو چلانے کے اہل نہیں۔ تعلیم کا معاملہ ان کے ہاتھ میں ہو، جو تعلیم کا حق ادا کرنے کے اہل نہ ہوں۔ جب معاملاتِ دین اور دنیا ان کے سپرد کئے جائیں جو اس کے اہل نہ ہوں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ امانت ضائع ہو گئی۔ جب امانت ضائع ہو جائے تو سمجھو کہ قیامت قریب ہے۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ جب قیامت کے روز سب لوگ جمع ہو جائیں گے تو مختلف پیغمبروں کے پاس جا کر شفاعت کی درخواست کریں گے۔ پھر رسولؐ اللہ کے پاس آئیں گے۔ حضور اکرمؐ کو اجازت دی جائے گی کہ آپ کھڑے ہو کر بات کریں۔ جب حضورؐ کھڑے ہو جائیں گے تو جنت کے راستے پر دو چیزیں کھڑی ہو جائیں گی۔ ایک رحم اور دوسری امانت داری۔ رحم کے معنی قرابت داری کو نبھانا ہے۔ اس کے بعد کوئی بجلی کی تیزی سے اور کوئی ہوا کی تیزی سے گزر جائے گا۔ کوئی چلتا ہوا جائے گا اور کوئی لڑکھڑاتا ہوا جائے گا۔ اب سب کو جو چیزیں روکنے والی ہوں گی، وہ امانت اور صلہ رحمی ہو گی۔ بعض لوگوں کو ان کے اعمال عاجز کر دیں گے، وہ چل نہیں سکیں گے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیز جنت کے راستے پر سب سے زیادہ معاون بھی ہو گی اور رکاوٹ بھی بن سکتی ہے۔
آپؐ نے فرمایا: ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ صرف نماز رہ جائے گی، امانت رخصت ہو جائے گی، یہ میری امت کی گراوٹ اور زوال کا وقت ہو گا۔ اصل چیز تو امانت داری ہے۔ اللہ نے جو جسم دیا ہے، جو صلاحیت دی ہے، اس کو اللہ کے حکم کے مطابق استعمال کرنا، حقوق اللہ اور حقوق العباد پورے کرنا۔
حضورؐ کی نبوت کی ایک ہی سب سے بڑی سند ہے اور وہ یہ کہ آپؐ امین تھے۔ جبرائیلؑ نے قرآن کو بالکل ویسا ہی اللہ کے حکم کے مطابق اتارا تو اللہ نے امین کا لفظ استعمال کیا رسول امین (امانت دار لانے والے تھے، امانت دار پہنچانے والے تھے) امانت کے بغیر تو قومی زندگی، خاندانی زندگی کوئی بھی صحیح طور پر قائم نہیں ہو سکتی۔ (امانت داری۔ خرم مراد)

امانت، اسوہ حسنہؐ اور حیات صحابہ کی روشنی میں
۱۔ حضرت ابولبابہؓ کو بخشش کی نوید
جب حضورؐ کی فوجوں نے بنو قریظہ کے قبیلے کو مدینہ کے پاس محاصرے میں لے لیا۔ اس وقت یہ محاصرہ قریب ۲۱ دنوں تک دشمنوں کے اوپر مسلط رہا۔ اس وقت دشمنوں کے رسد کا سارا سامان ختم ہو گیا۔ تب اس قبیلے کے لوگوں نے حضورؐ سے ملک شام جانے کی اجازت مانگی۔ حضورؐ نے یہ کہہ کر یہ یہودی قبیلہ شام جا کر بھی اسلام کے خلاف فتنہ و فساد پھیلائے گا، ان لوگوں کو ملکِ شام جانے کی اجازت نہ دی اور یہ شرط رکھی کہ اہل قبیلہ بنو قریظہ کو سعد بن معاذؓ کو ثالث کی حیثیت سے قبول کرنا ہو گا، مگر یہودیوں نے سعد بن معاذؓ کی جگہ ابولبابہؓ کو بحیثیت ثالث کے ترجیح دی۔ کیونکہ ابو لبابہؓ کا خاندان اور ان کا اثاثہ یہودیوں کی بستی سے لگا ہوا تھا۔ اس لئے ان کو ابولبابہؓ سے زیادہ ہمدردی کی امید تھی۔ حضورؐ نے ان کی یہ درخواست قبول کر لی لیکن جب ابولبابہؓ اس یہودی قبیلے کے پاس پہنچے تو ان لوگوں نے ابولبابہؓ سے پوچھا کہ اگر ہم محاصرہ توڑ کر قلعہ سے باہر آنے کی کوشش کریں تو ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟ ابولبابہؓ نے انگلی اپنے گلے پر پھیرتے ہوئے کہا کہ تمہاری گردنیں اڑا دی جائیں گی۔ دراصل یہ بات حضورؐ اور ابولبابہؓ کے درمیان ایک راز کی بات تھی۔ جیسے ہی ابولبابہؓ یہودی قبیلے سے مل کر واپس آئے تو انہیں اپنی غلطی کا بری طرح احساس ہوا اور نتیجہ کے طور پر انہوں نے اپنے آپ کو مسجد نبوی میں ایک ستون سے باندھ لیا۔
یہ سلسلہ سات دن اور سات راتوں تک جاری رہا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے آپ کو اس وقت تک آزاد نہیں کریں گے جب تک ان کی توبہ قبول نہ ہو جائے، جب حضورؐ کو اس بارے میں معلوم ہوا تو آپؐ نے فرمایا کہ اگر ابولبابہؓ سیدھے میرے پاس آ جاتے تو میں اللہ سے دعا کرتا کہ اللہ ان کی غلطی معاف فرما دے۔ اب میں یہ معاملہ اللہ کے حوالے کرتا ہوں۔ انہیں چاہیے کہ اس وقت کا انتظار کریں جب تک کہ ان کے احساس ندامت کو اللہ تعالیٰ خود قبول نہ کر لیں۔
سات دن کے بعد اللہ تعالیٰ نے ابولبابہؓ کی غلطی کو معاف فرما دیا اور وہ اس بندش سے آزاد ہوئے۔ اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ صحابہ کرامؓ کے نزدیک وعدہ خلافی اور راز کو افشاء کرنا امانت میں خیانت اور ایک سنگین جرم سمجھا جاتا تھا جس کے سرزد ہونے پر حضرت ابولبابہؓ نے خود اپنے آپ کو ایسی شدید اور تکلیف دہ سزا دی۔
ہم آج بھی مسجد نبوی کے اندر روضۃ من ریاض الجنۃ میں یہ ستون دیکھ سکتے ہیں جو ستون ابولبابہؓ کے نام سے موسوم ہے۔ یہ ستون ٹھیک اس پیڑ کی جگہ بنا ہوا ہے جس پیڑ سے ابولبابہؓ نے اپنے آپ کو باندھ لیا تھا۔ بہت سے افراد (حاجی صاحبان) اس ستون کے قریب جا کر نفل ادا کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی مغفرت کیلئے دعائیں کرتے ہیں۔
علماء اور محققین کے مطابق اس واقعہ کی طرف سورۃ الانفال آیت نمبر ۲۷ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ یا ایھا الذین آمنو لاتخونوا…
۲۔ خانہ کعبہ کی چابیاں
فتح مکہ سے پہلے خانہ کعبہ کی چابیاں حضرت عثمانؓ بن طلحہ کی تحویل میں رہتی تھیں۔ فتح مکہ کے موقع پر اللہ کے رسولﷺ نے عثمانؓ بن طلحہ سے خانہ کعبہ کی چابیاں طلب فرمائیں۔ عثمانؓ بن طلحہ نے قدرے پس و پیش کے ساتھ یہ کہہ کر چابیاں حضورؐ کے حوالے کیں کہ میں یہ چابیاں آپؐ کو بطور امانت دے رہا ہوں۔
اللہ کے رسولؐ نے کعبۃ اللہ کا دروازہ کھولا اور اندر سے تمام بتوں کو نکال کر نیست و نابود کر دیا۔ حضرت عمرؓ کے مطابق اللہ کے رسول جب کعبۃ اللہ سے باہر تشریف لائے تو آپ نے سورۃ النساء کی آیت نمبر ۵۸ کی تلاوت فرمائی۔ ان اللہ یأمرکم ان تودو الامانۃ الی اھلھا…
اب آپ نے چابیاں دوبارہ حضرت عثمانؓ بن طلحہ کو واپس کرنا چاہیں تو حضرت عباسؓ اور حضرت علیؓ نے یہ کہہ کر حضورؐ کو چابیاں لوٹانے سے روکنا چاہا کہ اب آج سے یہ چابیاں آپ اپنی تحویل میں رکھیں۔ اللہ کے رسولؐ نے ان کی یہ بات رد کرتے ہوئے فرمایا یہ چابیاں مجھے امانت کے طور پر دی گئی تھیں اور امانت میں خیانت کرنا اسلامی قانون کے خلاف ہے۔ حضرت عثمان بن طلحہؓ نے خوشی خوشی چابیاں واپس لے لیں اور آپؐ کے بلند کردار سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔

۳۔ امانت کی عظیم ترین مثال
حضرت محمدﷺ نے جب مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کی تو اس وقت حضرت علیؓ کو اپنی جگہ بستر پر سلا کر یہ ہدایت دی کہ صبح ہوتے ہی جس شخص کی جو بھی امانت میرے پاس موجود ہے۔ اسے ان کے ورثاء کے حوالے کر دیا جائے۔ یہ وہ وقت تھا جب تمام قبیلوں نے ایک ساتھ مل کر حضرت محمدؐ کے گھر کو گھیر لیا تھا تاکہ نعوذ باللہ انہیں قتل کیا جا سکے اور دوسری طرف کردار کی یہ عظمت کہ آپ نے اس حال میں بھی اپنے ان تمام بدترین دشمنوں کو امانتیں واپس کرنے کا حکم دیا اور یہ کام حضرت علیؓ کے ذمہ لگایا۔ سبحان اللہ
امانت کی ادائیگی… ہماری ذمہ داری
۱۔ اللہ تعالیٰ کا دین ہمارے پاس ایک عظیم نعمت اور امانت ہے، اس پر عمل کرنا اور اس کی دعوت دینا ہماری ذمہ داری ہے۔
۲۔ ہماری جان و مال، علم و عقل، حیثیت اور صلاحیت اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہر ایک نعمت اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق استعمال کرنا امانت ہے۔
۳۔ ہماری اولاد، اہل و عیال، ہماری نگرانی میں کام کرنے والے زیراثر افراد سب کی تربیت، راہنمائی اور ان کے جائز حقوق کی ادائیگی ہمارا فرض ہے۔
۴۔ ہماری زندگی اور ہمارے پاس وقت کا ہر لمحہ امانت ہے، اس کو ضائع کرنا امانت میں خیانت ہے۔
۵۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی امانت ہے۔
۶۔ ہمیں جو ڈیوٹی دی گئی ہے، جو عہدہ اور اختیارات ملے ہوں، وہ قوم کی امانت ہے۔
۷۔ کسی کا راز، وعدہ، مشورہ، باہمی لین دین امانت ہے۔
۸۔ کسی کے بارے میں رائے دینا، ووٹ دینا، کسی کو کوئی ذمہ داری دینا امانت ہے۔
امانت، ڈاکٹرز اور شعبہ طب سے متعلق دیگر افراد کیلئے
۱۔ علم اور تجربہ امانت ہے
کسی مریض کا علاج محض دولت کمانے کا ذریعہ نہ سمجھا جائے۔ اسے اللہ کی رضا کے حصول کا ذریعہ اور جذبہ خدمت خلق (حقوق العباد) سے کیا جائے۔ مال و دولت جو قسمت میں ہے وہ تو ویسے بھی ملے گا۔ ذاتی مفاد کی خاطر مریض کو کسی خاص کمپنی کی دوائی لکھنا، یا کمیشن کی خاطر کسی خاص لیبارٹری وغیرہ سے ٹیسٹ کروانا جبکہ اس سے کم قیمت پر وہی کوالٹی دستیاب ہو، امانت میں خیانت ہے۔
۲۔ مریضوں کے اوقات امانت ہیں
مقرر شدہ ڈیوٹی اور مریض کی تشخیص و علاج کیلئے مناسب وقت مختص کرنا امانت ہے۔ دیر سے آنا، جلدی جانا، دوران ملازمت دیانتداری سے کام نہ کرنا، غیر ضروری چھٹیاں کرنا خیانت ہے۔
مریض کے علاج کیلئے مناسب علم ضروری ہے، رسولؐ اللہ نے فرمایا:
ترجمہ: ’’جو شخص علم طب نہیں جانتا اور اس نے کسی کا علاج کیا تو وہ ذمہ دار ہے۔‘‘(ابودائود نسائی)
اس لئے اپنے شعبہ میں حسب استطاعت علم و تجربہ میں اضافہ و تحقیق ضروری ہے۔ ایک ڈاکٹر اگر کسی مریض کے علاج کیلئے مطلوبہ صلاحیت نہیں پاتا تو اسے دوسرے متعلقہ ڈاکٹر کے پاس بھیجا جائے۔
۳۔ خیر کی بات امانت ہے
موقع کی مناسبت سے مریض کو نیکی کی کوئی بات بتائی جا سکتی ہے۔ مثلاً کسی نشہ کرنے والے addict کو نشہ خوری سے منع کرنا، نماز نہ پڑھنے والے کو نماز کی نصیحت، قرآن سیکھنے کی نصیحت، مشکلات اور بیماری میں مایوسی کے بجائے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونے کی تلقین، بے پردہ خاتون کی پردہ کی ہدایت وغیرہ۔
ڈیوٹی کے دوران اگر ایمرجنسی نہیں تو نماز بروقت پڑھنا اور دوسروں کو نماز پڑھنے کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے، مریضوں اور ان کے تیمار داروں کیلئے انتظار گاہ میں کچھ مختصر تعمیری لٹریچر رکھنا ان کے وقت کا صحیح استعمال ہو گا۔
۴۔ طبی اخلاقیات (Ethics) امانت ہے
جھوٹا سرٹیفکیٹ، (MLC) میڈیکولیگل میں غلط بیانی، غیر اخلاقی

اسقاط حمل، بلاضرورت آپریشن اور سی سیکشن (C-Section) امانت میں خیانت ہیں۔ دوران معائنہ مریض کے پردہ کا خیال رکھا جائے، اس کی رازداری اور پوشیدہ مرض خفیہ رکھا جائے، الا یہ کہ اس کی تیمار داری اور علاج کی ضرورت کے پیش نظر کسی کو بتانے کی ضرورت پڑے، یا وہ کسی ادارہ میں ملازمت کے لیے unfit ہے تو ایسی بیماری کو متعلقہ ادارے سے نہ چھپایا جائے۔
اگر روزہ واقعی علاج میں رکاوٹ ہے تو مریض کو روزہ رکھنے سے منع کیا جا سکتا ہے لیکن معمولی تکلیف میں لوگوں کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت دینا بڑا گناہ ہے۔
ہم کیا کریں
ہمارے پاس جو کچھ ہے، اللہ تعالیٰ کی بخشش اور امانت ہے۔ ان کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق استعمال کرنا۔
۱۔ ایمان والوں کے پاس قرآن و سنت اور شریعت امانت ہے۔ اس پر خود عمل کرنا اور دوسروں تک حسب استطاعت پہنچانا۔
۲۔ ہمارا علم، تجربہ، عہدہ، اختیارات قوم کی امانت ہیں۔ دیانتداری سے ڈیوٹی کی ادائیگی اور حقوق العباد کا خیال رکھنا۔
۳۔ بحیثیت ڈاکٹر مریضوں کے علاج میں امانت داری سے کام لینا۔
اگر ہم سے ہر ایک امانت میں خیانت کا مرتکب نہ ہو تو زندگی آسان اور معاشرہ پرسکون بن جائے گا۔ آئیے ہم میں سے ہر ایک امانت داری کی ابتدا خود اپنے آپ سے کرے۔ اس سے ہمیں زندگی میں خوشحالی اور آخرت میں کامیابی نصیب ہو گی۔ انشاء اللہ۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x