ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

سیرت نبیﷺ کے حیرت انگیز واقعات – آخری حصہ- بتول مئی ۲۰۲۳

کٹا ہؤا بازو
خبیب بن اسافؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی قوم کے ایک اور آدمی کے ساتھ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہؤا۔ آپؐ کسی جنگ میں جا رہے تھے۔ ہم نے آپؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم بھی آپؐ کے ساتھ جنگ میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔ آپؐ نے پوچھا: ’’کیا آپ مسلمان ہو گئے ہیں؟‘‘ ہم نے نفی میں جواب دیا تو آپؐ نے فرمایا:’’ہم مشرکین کے مقابلے پر مشرکین کی مدد نہیں چاہتے۔‘‘
اس پر ہم نے کہا کہ ہم اسلام قبول کرتے ہیں۔ چنانچہ آپؐ نے ہمیں جنگ میں شرکت کی اجازت دے دی۔ لڑائی کے دوران دشمن کے ایک جنگجو نے میرے کندھے پر وار کیا۔ میرا بازو کٹ گیا۔
میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہؤا۔ آپؐ نے میرے بریدہ بازو میں لعاب لگایا اور اسے سی دیا۔ میرا بازو جڑ گیا اور میں بالکل ٹھیک ہو گیا۔ پھر میں نے اس دشمن کو قتل کیا جس نے میرے اوپر وار کرکے مجھے زخمی کیا تھا۔
کھجور کے درخت کی آہ و بکا
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے حوالے سے بیان کیا کہ ایک انصاری صحابیہؓ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اس کے پاس ایک کاریگر غلام ہے جو لکڑی کا نہایت نفیس کام کر سکتا ہے۔ لہٰذا اگر آپ اجازت دیں تو اس سے ایک منبر بنوا دے، جس پر آپؐ تقاریر کے دوران بیٹھ جایا کریں۔ آپؐ نے فرمایا:’’جیسے تم چاہو۔‘‘
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ اس خاتون نے منبر بنوا کر بھجوا دیا۔ جب جمعہ کا دن ہؤا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس منبر پر بیٹھ گئے۔ اس موقع پر کھجور کا وہ تنا جس کے پاس کھڑے ہو کر آپؐ خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے، رونے لگا۔ اس کی چیخ و پکار اتنی دردناک تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ فرطِ غم سے پھٹ جائے گا۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترآئے اور اس تنے کو پکڑ لیا۔ پھر اسے اپنے ساتھ چمٹا لیا۔ وہ چپ ہو گیا مگر اس طرح اس کی ہچکی بندھی ہوئی تھی جس طرح روتا ہؤا بچہ چپ کرنے سے پہلے ہچکیاں لیتا ہے۔
رسولؐ پاک کی با خبری
امام بخاریؒ، عبداللہ بن یوسف، مالک ، ابی الزناد، اعرج اور حضرت ابوہریرہؓ کے واسطوں سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا:’’کیا تم یہاں میرا قبلہ رو ہونا دیکھتے ہو۔ خدا کی قسم مجھ سے تمھارا خشوع و خضوع اور رکوع و سجود ہرگز مخفی نہیں ہوتا۔ اپنے پیچھے بھی دیکھ سکتا ہوں۔‘‘
امام بخاری نے یحییٰ بن صالح سے ، انھوں نے فلیح بن سلیمان سے، انھوں نے ہلال بن علی سے اور انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی اور پھر آپؐ منبر پر چڑھے اور فرمایا:
’’جس طرح میں تمھیں اپنے سامنے دیکھتا ہوں۔ اسی طرح میں تمھیں نماز اور رکوع میں اپنے پیچھے بھی دیکھتا ہوں۔‘‘
خوبصورت عمروؓ
ابن عبدالبر بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرو بن اخطبؓ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کئی جنگوں میں حصہ لیا۔ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور خوبصورتی و جمال کے لیے دعافرمائی۔
حضرت عمروؓ نے سو سال سے زیادہ عمر پائی اور وہ آخر وقت تک بہت حسین و جمیل رہے۔ ان کے سر اور ڈاڑھی میں گنتی کے چند ایک بال سفید ہوئے، باقی بالکل سیاہ تھے۔
جابرؓ کے والد کا قرضہ
صحیح بخاری میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عبدان، جریر، مغیرہ، شعبی اور حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے واسطوں سے یہ روایت نقل کی ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ’’میرے والد حضرت عبداللہؓ بن عمرو بن حرام جنگ احد میں شہید ہو گئے اور ان کے ذمے کچھ قرض تھا۔ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ وہ میرے والد کے قرض خواہوں سے قرض معاف کرا دیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بات کی مگر وہ قرض معاف کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:’’جائو اور اپنی کھجوروں کو مختلف اقسام کے لحاظ سے الگ الگ کرکے ڈھیر لگا دو۔ اس کے بعد مجھے بلا لینا۔‘‘
میں نے آپؐ کے حکم کے مطابق کھجوروں کی درجہ وار ڈھیریاں لگا دیں اور آپؐ کو اطلاع کر دی۔ آپؐ تشریف لے آئے اور کھجوروں کے درمیان بیٹھ گئے۔ پھر آپؐ نے کہا:’’قرض خواہوں کو تول کر دینا شروع کر دو۔‘‘
حضرت جابرؓ مزید بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے جملہ قرض خواہوں کو تول کر کھجوریں دیں اور سب کا قرض اتار دیا مگر کھجوروں کے ڈھیر پھر بھی یوں سالم پڑے تھے گویا ان میں کوئی کمی ہوئی ہی نہ تھی۔
طعامِ سفر
امام بخاریؒ ابو نعمان سے ، وہ معتمر بن سلیمان سے ، وہ اپنے والد سے اور وہ ابوعثمان سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمن بن ابوبکرؓ نے انھیں یہ واقعہ سنایا کہ ہم ایک سو تیس صحابہؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر پر گئے۔ ایک جگہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے پوچھا کہ کیا ہم میں سے کسی کے پاس کوئی کھانے کی چیز ہے؟
ایک شخص کے پاس تقریباً ایک صاع آٹا تھا۔ چنانچہ آٹا گوندھا گیا۔ اسی وقت ایک لمبا تڑنگا پراگندہ حال مشرک اپنے ریوڑ کے ساتھ نمودار ہؤا۔ آپؐ نے اس سے پوچھا:’’یہ بکریاں فروخت کے لیے ہیں یا ہدیے کے لیے؟‘‘ اس نے کہا:’’فروخت کے لیے ہیں۔‘‘ آپؐ نے اس سے ایک بکری خرید لی۔ وہ ذبح کی گئی اور گوشت تیار ہو گیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بکری کا کلیجہ اور گردے بھونے جائیں۔ جب بھونے گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک کو اس میں سے گوشت کے ٹکڑے کاٹ کر دیے۔ جو لوگ موجود تھے انھیں ان کا حصہ دے دیا گیا اور جو غیر حاضر تھے ان کا حصہ ان کے لیے رکھ دیا گیا۔
باقی کا گوشٹ پکا کر پیالوں میں ڈالا گیا۔ دو پیالے ہم نے کھائے اور سب خوب سیر ہو گئے۔ دو پیالے بچ رہے جنھیں ہم نے اونٹ پر لاد لیا اور چل دیے۔
آپؐ کی دعا اور بارش کا نزول
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے کہ ان سے ابو عمیر نے، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے اور ان سے حضرت انس بن مالک ؓنے یہ حدیث بیان کی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں سخت قحط پڑا۔ ایک جمعہ کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر خطبہ دینے کے لیے چڑھے۔ آپؐ نے خطبہ شروع کیا تو ایک دیہاتی کھڑا ہو گیا۔ اس نے کہا:’’مال مویشی ہلاک ہو گئے ہیں اور اہل و عیال بھوک سے بدحال ہیں۔ یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے بارش کی دعا فرمائیے۔‘‘
حضرت انسؓ کہتے ہیں:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ آسمان پر دور دور تک کہیں بادل کے کسی ٹکڑے کا نام و نشان نہ تھا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، آپؐ نے ہاتھ نیچے نہیں کیے تھے کہ آسمان پر بڑے بڑے بادل چھا گئے۔ پھر آپؐ ابھی منبر سے نیچے نہیں اترے تھے کہ میں نے دیکھا، بارش برسنے لگی اور پانی آپؐ کی داڑھی سے قطروں کی صورت میں گرنے لگا۔ اس روز بھی بارش ہوئی اور اس کے بعد بھی اگلے کئی دنوں تک مسلسل بارش ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ اگلا جمعہ آگیا۔
اس جمعہ کو وہی اعرابی یا شاید کوئی دوسرا دیہاتی کھڑا ہؤا اور اس نے کہا:’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر ، مکان گر گئے ہیں اور مال مویشی غرق ہو رہے ہیں۔ آپؐ ہمارے لیے دعا فرمائیں۔‘‘
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے اور یہ دعا مانگی:اللھم حوالینا ولا علینا۔ اے مولا ! ان بارشوں کو آس پاس کے خشک علاقوں پر برسا اور ہمارے اوپر نہ برسا۔
پھر آپؐ نے بادلوں کی طرف جس جانب بھی اشارہ کیا وہ چھٹتے چلے گئے۔ مدینہ تالاب بن گیا تھا اور وادی میں مہینہ بھر پانی بہتا رہا۔ کسی بھی جانب سے کوئی آتا تو موسلادھار بارش کی خبر دیتا۔
چٹکی لینے والا
قیس بن ابی حازم نے یزید بن ابی شیبہ سے روایت بیان کی ہے کہ وہ (یزیدؓ) کہتے تھے:’’میں مدینہ کی ایک تنگ گلی میں سے گزر رہا تھا۔ میرے پاس سے ایک عورت گزری۔ میں نے اس کا دامن پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا اور اس کے پہلو میں چٹکی لی ۔‘‘ اگلے دن حضور اکرمؐ لوگوں سے اسلام کی بیعت لینے لگے۔ میں بھی بیعت کے لیے حاضر ہؤا۔ جب میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو حضوؐر نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور فرمایا: ’’کیا تو وہی نہیں جس نے کل چٹکی لی تھی۔‘‘ میں نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری بیعت قبول فرما لیجیے۔‘‘
’’خدا کی قسم میں آئندہ کبھی ایسی حرکت نہیں کروں گا۔‘‘
یہ سن کر آپؐ نے مجھے بیعت کا شرف بخشا۔
سمندر کا سفر کرنے والی
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ عبداللہ بن یوسف سے، وہ مالک سے، وہ اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہؓ سے اور وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کے ہاں جایا کرتے تھے اور وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھانا تیار کرکے پیش کرتی تھیں (ام حرام حضرت عبادہ بن صامتؓ کی بیوی تھیں اور حضرت انسؓ کی خالہ تھیں)۔ ایک دن رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لائے۔ انھوں نے کھانا کھلایا۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے بال دیکھنے لگیں کہ کوئی جوں تو نہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی دوران میں سو گئے۔ جب آپؐ کی آنکھ کھلی تو آپؐ ہنس رہے تھے۔
حضرت ام حرامؓ نے پوچھا: ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کس چیز پر ہنس رہے تھے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا:’’مجھے میری امت کے کچھ جنگجو دکھائے گئے جو جہاد کی خاطر سمندر کی لہروں پر سوار تھے۔ جس طرح بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھے ہیں۔‘‘ انھوں نے عرض کیا:’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے بھی دعا فرمائیے کہ میں ان کے ساتھ جہاد میں حصہ لوں۔‘‘ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں دعا فرمائی پھر آپؐ کی آنکھ لگ گئی۔ اس مرتبہ بھی آپؐ نے نیند سے آنکھ کھولی تو ہنسنے لگے۔ انھوں نے پھر پوچھا:’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپؐ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟‘‘ آپؐ نے پھر پہلے والی بات یعنی مجاہدین کا سمندری سفر پر روانہ ہونا بیان فرمایا۔ حضرت ام حرامؓ نے پھر درخواست کی کہ ان کے لیے اس جہاد میں شمولیت کی دعا فرمائیں۔ آپؐ نے کہا:’’تو ان مجاہدین کی اگلی صفوں میں ہے۔‘‘
حضرت معاویہؓ کے دورِ حکومت میں ایک لشکر بحری بیڑے میں روانہ ہؤا۔ حضرت ام حرامؓ اس لشکر میں شامل تھیں۔ جب بیڑہ ایک بندرگاہ پر رکا اور فوجیں خشکی پر آئیں تو حضرت ام حرام ؓاپنی سواری سے گر پڑیں اور ان کی شہادت ہو گئی۔ ان کی قبر جزیرہ قبرص میں ہے۔
اہل صفہ کا دودھ
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابوہریرہؓ کی یہ روایت مجاہد کے حوالے سے بیان کی ہے، حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ میں بھوک کی وجہ سے کئی مرتبہ نڈھال ہو کر زمین پر گر جایا کرتا تھا اور بھوک کی شدت سے پیٹ پر پتھر باندھ لیا کرتا تھا۔‘‘ ایک دن میں اس راستے پر بیٹھ گیا، جہاں سے صحابہؓ کا گزر ہوتا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ وہاں سے گزرے۔ میں نے ان سے قرآن مجید کی کسی آیت کے بارے میں سوال کیا ۔ میں نے یہ سوال محض اس لیے کیا تھا کہ آپ مجھے اپنے ساتھ لے جا کر کھانا کھلا دیتے۔ انھوں نے مجھے کھانے کی دعوت نہ دی (ان کے گھر میں بھی فاقہ تھا)۔
پھر حضرت عمرؓ کا وہاں سے گزر ہؤا۔ ان سے بھی میں نے ایک آیت کے بارے میں پوچھا۔ میرا اب بھی خیال یہی تھا کہ عمرؓ مجھے کھانا کھلا دیں گے۔ انھوں نے بھی دعوت نہ دی (ان کے ہاں بھی فاقہ ہی تھا)۔ اس کے بعد ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے گزرے اور مجھے دیکھ کر تبسم فرمایا۔ آپؐ سمجھ گئے کہ میرے دل میں کیا ہے اور میرا چہرہ کیا بتا رہا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اے ابوہر‘‘ میں نے عرض کی:’’لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘فرمایا:’’آئو میرے ساتھ آئو۔‘‘ میں آپؐ کے ساتھ چلا، آپؐ گھر میں داخل ہوئے، پھر مجھے اندر آنے کی اجازت دی۔ گھر میں دودھ سے بھرا ہؤا ایک پیالہ پڑا تھا (کوئی انصاری صحابی تحفہ دے گئے تھے)۔ آپؐ نے پوچھا: ’’یہ دودھ کہاں سے آیا؟‘‘ آپؐ کے گھر والوں نے بتایا کہ فلاں مرد یا فلاں عورت نے ہدیہ بھیجا ہے۔ آپؐ نے فرمایا:’’ابوہر‘‘ میں نے عرض کیا:’’لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ فرمایا:’’اصحابِ صفہ کے پاس جائو اور ان سب کو بلا لائو۔‘‘
حضرت ابوہریرہؓ کہتے تھے:’’اصحاب صفہ اسلام کے سپاہی اور اللہ کے مہمان تھے نہ ان کا کوئی گھر بار تھا، نہ اہل و عیال۔ نہ وہ دنیا کمانے کی فکر کرتے نہ مال کی ہوس رکھتے تھے۔ وہ طالبان علم اور مجاہدین فی سبیل اللہ تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اگر صدقے کا مال آتا تو پورے کا پورا اصحابِ صفہ پر خرچ کر دیتے اور خود اس میں سے کچھ نہ لیتے تھے اور اگر کہیں سے ہدیہ آجاتا تو اصحابِ صفہ کو بھی دیتے اور خود بھی اس میں سے حصہ لے لیا کرتے تھے۔
جب آپؐ نے مجھے حکم دیا تو میں اصحاب صفہ کو بلانے چلا تو گیا مگر مجھے یہ بات اچھی نہ لگی۔ میں نے سوچا کہ اس دودھ سے اصحابِ صفہ کا کیا بنے گا کیا ہی اچھا ہوتا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے یہ دودھ پلا دیتے، میں تو سیر ہو جاتا۔ خیر سب اصحابِ صفہ آ کر بیٹھ گئے۔ آپؐ بھی تشریف لے آئے اور مجھے حکم دیا کہ ان کو ایک سرے سے پلانا شروع کر دوں۔ ایسے مواقع پر ہمیشہ میری ہی ذمہ داری ہوتی تھی کہ تقسیم کروں۔ میں نے پلانا شروع کیا تو خیال آیا کہ یہ دودھ میری باری آنے سے پہلے ہی ختم ہو جائے گا۔ میں نے لوگوں کو باری باری دودھ پلایا۔ ہر ایک سیر ہو کر پیتا اور پھر دوسرے کی باری آتی۔ سبھی لوگ پی چکے تو میں پیالہ لے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا۔
آپؐ نے پیالہ اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور میری طرف دیکھ کر مسکرائے۔ پھر فرمایا: ’’اباہر‘‘ میں نے عرض کیا:’’لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔‘‘ آپؐ نے کہا:’’سبھی پی چکے اور اب میں اور تم رہ گئے ہیں۔‘‘ میں نے عرض کیا:’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ؐ نے سچ فرمایا۔‘‘
آپؐ نے فرمایا:’’بیٹھ جا اور پی۔‘‘ چنانچہ میں بیٹھ گیا اور دودھ پیا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اور پی۔‘‘ میں نے اور پیا۔‘‘ آپ ؐ بار بار کہتے رہے:’’اور پی لو اور پی لو۔‘‘ میں نے بالآخر عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ نبی بنا کر مبعوث کیا ہے، اب مزید گنجایش بالکل نہیں ہے۔‘‘
اس پر آپؐ نے فرمایا:’’لائو مجھے دے دو۔‘‘ میں نے پیالہ آپؐ کو دے دیا۔ آپؐ نے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی اور بسم اللہ پڑھ کر پیالے میں بچا ہؤا دودھ پی لیا۔ گویا سب سے آخر میں آپؐ نے پیا۔
ام سلیم کا کپہ
حافظ ابو یعلیٰ کی روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے شیبان نے، ان سے محمد بن زیاد البرجمی نے، ان سے ابوطلال نے اور ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ میری والدہ نے مجھے بتایا کہ ان کے پاس ایک دودھ دینے والی بکری تھی۔ اس کے دودھ کو بلو کر وہ ایک ڈبے میں گھی جمع کرتی رہیں یہاں تک کہ وہ ڈبہ بھر گیا۔ ان کے پاس ایک لڑکی تھی جسے انھوں نے حکم دیا کہ گھی کا کپہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دے آئے تاکہ وہ اس سے روٹی کھا لیا کریں۔
وہ لڑکی کپہ لے کر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں حاضر ہوئی اور عرض کیا:’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ ام سلیم نے بھیجا ہے۔‘‘ چنانچہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ کپہ خالی کرکے لڑکی کو دے دیں۔‘‘ انھوں نے کپہ خالی کرکے دے دیا۔ لڑکی نے کپہ لا کر کھونٹی سے لٹکا دیا۔ ام سلیم جو کسی کام سے باہر گئی تھیں، واپس آئیں تو لڑکی سے پوچھا:’’کیا میں نے تجھے حکم نہیں دیا تھا کہ کپہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں دے آئو؟‘‘ اس نے جواب دیا:’’ہاں میں گھی دے آئی ہوں۔‘‘ ام سلیم نے کہا کہ کپے میں سے گھی کے قطرے ٹپک رہے ہیں۔ لڑکی نے عرض کیا:’’آپ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں جا کر تصدیق کر لیں۔‘‘
ام سلیم لڑکی کو ساتھ لے کر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں گئیں اور ان سے پوچھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ لڑکی گھی دے گئی تھی اور ہم نے کپہ خالی کرکے اسے دے دیا تھا۔ اس پر ام سلیم نے عرض کیا: ’’اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو سچائی اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ وہ کپہ تو بھرا پڑا ہے اور اس میں سے گھی کے قطرے گر رہے ہیں۔‘‘
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ام سلیم تجھے اس پر کوئی تعجب ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو رزق دیا، اسی طرح تجھے بھی اپنی رحمت سے رزق عطا فرما دے، کھائو، پیو اور شکر ادا کرو۔‘‘
ام سلیم کہا کرتی تھیں:’’اس کپے میں سے ہم نے فلاں اور فلاں گھر پیالے بھر کے گھی بھیجا اور ہم خود بھی باقی ماندہ گھی سے دو ماہ تک روٹی کھاتے رہے۔‘‘
وابصہؓ اسدی کا واقعہ
امام احمد بن حنبلؒ نے بیان کیا ہے کہ ہم سے عفان نے، ان سے حماد بن سلمہ نے، ان سے زبیر بن عبدالسلام نے اور ان سے ایوب بن عبداللہ بن مکرز نے بیان کیا۔ ایوب کہتے تھے کہ وابصہؓ اسدی کے ساتھی یہ واقعہ وابصہؓ کی اپنی زبانی یوں سنایا کرتے تھے۔حضرت وابصہؓ نے کہا: ’’میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہؤا۔ میں نے آمد سے قبل ہی اپنے دل میں سوچ رکھا تھا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی اور بدی کے بارے میں ہر سوال پوچھ کے رہوں گا تاکہ کوئی نیکی مجھ سے پوشیدہ نہ رہے اور کسی برائی کے بارے میں بے خبر نہ رہوں۔ میں پہنچا تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد مسلمانوں کی ایک جماعت جمع تھی۔ وہ آپؐ سے سوال پوچھ رہے تھے۔ میں نے لوگوں کی گردنوں کے اوپر سے آگے بڑھنا چاہا۔ لوگوں نے مجھ سے کہا کہ یوں گردنیں پھلانگنا ٹھیک نہیں ہے۔ میں نے کہا خدا کے لیے مجھے راستہ دے دو۔ میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچنا چاہتا ہوں۔ آپؐ مجھے دنیا بھر کے انسانوں سے زیادہ محبوب اور عزیز ہیں۔‘‘
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال شفقت و محبت سے فرمایا: ’’وابصہ کو چھوڑ دو ، وابصہ میرے قریب آجائو۔‘‘ آپؐ نے یہ بات دو یا تین مرتبہ فرمائی۔ لوگوں نے میرے لیے راستہ چھوڑ دیا اور میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل سامنے جا بیٹھا۔ آپؐ نے فرمایا:’’کیا تم خود پوچھو گے یا میں بتا دوں کہ کس ارادے سے آئے ہو؟‘‘
میں نے عرض کیا:’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہی بتا دیں۔‘‘
آپؐ نے فرمایا:’’تم نیکی اور بدی کے بارے میں سوال پوچھنے آئے ہو؟‘‘
میں نے عرض کیا:’’جی ہاں۔‘‘
اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیاں اکٹھی کرکے میرے سینے پر ٹھونکا دیا اور تین مرتبہ ارشاد فرمایا:’’اے وابصہؓ اپنے دل سے اور اپنے نفس سے پوچھ لیا کر۔ نیکی وہ ہے جس پر تیرا دل مطمئن ہو جائے اور برائی وہ ہے جو دل میں کھٹکے اور تجھے تردد میں مبتلا کر دے۔ یہی اصول پیش نظر رکھنا اگرچہ لوگ تجھے فتویٰ دیتے رہیں۔‘‘
مشکوک بکری
ابودائود نے بیان کیا ہے کہ ان سے محمد بن علاء نے، ان سے ابن ادریس نے، ان سے عاصم بن کلیب نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ایک انصاری صحابی نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنازے کی نماز کے لیے نکلے۔ میں نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ وہ قبر کے کنارے کھڑے تھے اور گورکن سے فرما رہے تھے:’’پائوں کی جانب سے ذرا کھول دو اور سر کی جانب سے بھی ذرا کشادہ کر و۔‘‘
جنازہ او رتدفین کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس مدینہ آئے تو ایک عورت کے قاصد نے اس کی طرف سے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت طعام دی۔ آپؐ اس کے ساتھ تشریف لے گئے۔ کھانا پیش کیا گیا۔ آپؐ نے کھانے میں ہاتھ ڈالا اور دوسرے حاضرین نے بھی ہاتھ بڑھائے۔ لوگ کھانے لگے۔ ہمارے بزرگوں نے دیکھا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے لقمہ منہ میں ڈالا اور اسے منہ میں پھیرانے لگے۔ پھر کہا:’’میں محسوس کرتا ہوں کہ اس بکری کا گوشت پکا لیا گیا ہے مگر اس کے مالک سے پوچھے بغیر یہ کام ہؤا ہے۔‘‘
اس عورت نے یہ سن کر کہلا بھیجا:’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے کسی ہمسائے کو بقیع کی طرف بھیجا کہ ایک بکری خرید لائے مگر بکری نہ مل سکی۔ میں نے پھر اپنے ہمسائے کے ہاں پیغام بھیجا کہ وہ مجھے رقم لوٹا دے مگر ہمسایہ گھر پر نہ تھا۔ میں نے اس کی بیوی سے مطالبہ کیا تو اس نے یہ بکری بھیج دی جو ہمسائے نے اپنے لیے خریدی تھی۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’یہ گوشت قیدیوں کو کھلا دو۔‘‘
کنکریوں کا تسبیح پڑھنا
حضرت ابوذرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سعید میں اس جستجو میں رہا کرتا تھا کہ آپؐ سے تنہائی میں ملاقات کیا کروں اور سوالات پوچھا کروں۔ میں نے ایک روز گرمیوں کے موسم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق دوپہر کے وقت خادم سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ آپ فلاں مقام پر تشریف لے گئے ہیں۔ میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم تنہا بیٹھے تھے۔ مجھے خیال گزرا کہ آپؐ پر وحی نازل ہو رہی ہے مگرمیں نے سلام کیا تو آپؐ نے جواب دیا اور مجھ سے پوچھا:’’تمھیں کون سی چیز یہاں لائی ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا:’’صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت۔‘‘ آپؐ نے مجھے بیٹھنے کا حکم دیا تو میں آپؐ کے پہلو میں بیٹھ گیا۔ میں خاموشی سے بیٹھا رہا۔ نہ میں نے کوئی سوال پوچھا نہ آپؐ نے مجھ سے کچھ فرمایا۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ تیز تیز چلتے ہوئے وہاں آ پہنچے اور سلام کیا۔ آپؐ نے سلام کا جواب دینے کے بعد ان سے بھی وہی سوال پوچھا جو مجھ سے پوچھا تھا کہ کس غرض سے آئے ہو؟ انھوں نے بھی میری طرح یہی جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت کھینچ لائی ہے۔ آپؐ نے انھیں بیٹھنے کا اشارہ فرمایا۔ وہ آپؐ کے سامنے ایک منڈھیر پر بیٹھ گئے۔ آپؐ نے انھیں اشارہ فرمایا کہ وہ میرے ساتھ بیٹھ جائیں، چنانچہ وہ میرے دائیں جانب بیٹھ گئے۔ پھر تھوڑی دیر بعد حضرت عمر ؓاور حضرت عثمانؓبھی آگئے اور ان سے بھی وہی سوال و جواب ہوئے، جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔
اس کے بعد نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی کلمہ کہا جس کی مجھے سمجھ نہ آئی۔ پھر آپ نے فرمایا:’’وہ تھوڑی ہی رہ جائیں گی، یا تھوڑی ہی رہ گئی ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر آپؐ نے اپنے ہاتھ میں کچھ کنکریاں اٹھائیں، وہ سات تھیں یا نو۔ آپؐ نے مٹھی بند کر لی اور کنکریوں نے تسبیح پڑھنا شروع کر دی۔ ہم نے ان سے اس طرح کی آواز سنی جس طرح شہد کی مکھیوں کے بھنبھنانے کی آواز ہے۔ میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل سامنے بیٹھا تھا مگر آپؐ نے مجھے چھوڑ کر کنکریاں ابوبکرؓ کو دے دیں۔کنکریوں نے حضرت ابوبکرؓ کی مٹھی میں بھی ویسی ہی تسبیح پڑھی، جیسی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں پڑھ چکی تھیں۔ حضرت ابوبکرؓ سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکریاں لے لیں اور زمین پر پھینک دیں۔ وہ بالکل خاموش ہو گئیں۔ پھر آپؐ نے وہی کنکریاں حضرت عمرؓ کو دیں تو ان کی مٹھی میں بھی کنکریوں نے تسبیح پڑھی اور ہم نے سنی۔ پھر ان سے کنکریاں لے کر دوبارہ زمین پر پھینک دیں، وہ پھر چپ ہو گئیں۔ آپؐ نے کنکریاں حضرت عثمانؓ کو دیں تو کنکریوں نے حضرت عثمانؓ کے ہاتھ میں بھی پہلے حضرات کی طرح تسبیح پڑھی۔ اس کے بعد نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کنکریاں لے کر زمین پر پھینک دیں اور وہ پھر خاموش ہو گئیں۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
5 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x