ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

اعجازِ قرآن – بتول مئی ۲۰۲۳

(اس جیسا کوئی کلام نہیں )

رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو معجزات عطا ہوئے ان میں سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہیں، جو وحی آسمانی پر مشتمل ہے۔ اور یہی وہ معجزہ ہے جس پر اللہ نے تحدّی کی ہے اور اعلان ِ عام کیا ہے کہ کوئی اس کی مثال پیش کرے، اور پھر قیامت تک کے لیے اس کی پیش گوئی بھی فرما دی کہ دنیا اس کی مثالیں پیش کرنے سے عاجز اور درماندہ رہے گی۔
قرآن وہ کلامِ معجز ہے جسے حضرت محمد ؐ پر تقریباً ۲۳ برس تک مختلف شذرات کی صورت میں نازل کیا گیا، جسے صحیفوں میں لکھا جاتا ہے اور جو آپؐ سے بتواتر منقول ہے۔جس کی تلاوت عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔
اعجاز کا لفظ ’’عجز‘‘ سے ماخوذ ہے جس کے معنی عدم قدرت و استطاعت کے ہیں۔ اور معجزہ کسی کام کے خارق ِ عادت ہونے کو کہتے ہیں، یعنی جس پر عام قانون کا اطلاق نہ ہوتا ہو، اور وہ ایک چیلنج ہو۔
اعجاز ِ قرآن کے معنی یہ ہیں کہ قرآن ِ کریم فصاحت، بلاغت اور بیان کے اعتبار سے ایسا اعلیٰ اور ممتازکلام ہے کہ تمام انسان اور جن مجتمع ہو کر بھی اس جیسا کلام نہیں لا سکتے۔اللہ تعالی ٰنے ان عربوں کو قرآن جیسا کلام لانے کا چیلنج دیا جو اپنی فصاحت و بلاغت میں مشہور تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں تین مراحل میں یہ چیلنج دیا:
قرآن لانے کا چیلنج
اللہ تعالیٰ نے تمام جن و انس اور ان کے حمایتیوں کو اس وقت یہ چیلنج دیا جب ابھی قرآن نازل ہو رہا تھا ، فرمایا:
’’کہہ دیجیے، اگر تمام انسان اور جن سب کے سب مل کر اس قرآن جیسی کوئی چیز لانے کی کوشش کریں تو نہ لا سکیں گے، چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مدد گار ہی کیوں نہ ہوں‘‘۔ (بنی اسرائیل،۸۸)
قرآن جیسی دس سورتیں لانے کا چیلنج
’’کیا یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے یہ کتاب خود گھڑ لی ہے؟ کہو اچھا یہ بات ہے تو اس جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں تم بنا لاؤ اور ایک اللہ کے سوا اور جو جو (تمھارے معبود ) ہیں ان کو مدد کے لیے بلا سکتے ہو تو بلا لو اگر تم (انھیں معبود سمجھے میں) سچے ہو‘‘۔ (ھود،۱۳)
قرآن کی سورتوں جیسی ایک سورت بنا لانے کا چیلنج
’’کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اسے خود تصنیف کر لیا ہے؟ کہو اگر تم اپنے اس الزام میں سچے ہو تو ایک سورت اس جیسی تصنیف کر لاؤ، اس ایک خدا کو چھوڑ کر جس جس کو بلا سکتے ہو ، مدد کے لیے بلا لو‘‘۔ (یونس،۳۸)
یہ چیلنج قرآن کریم میں تقریباً پانچ مقامات پر وارد ہؤا ہے۔ کفار نے جب قرآن کے من جانب اللہ ہونے کا انکار کیا اور اسے محمد ؐ کی تصنیف قرار دیاکہ وہ خواہ مخواہ اسے اللہ کا کلام بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ ان آیات میں قرآن کے کلامِ الٰہی اور معجزہ ہونے پر تین طرح سے استدلال کیا گیا ہے:
۱ ۔قرآن اپنی زبان، اسلوب ِ بیان، طرزِ استدلال، مضامین، مباحث، تعلیمات اور اخبار ِ غیب کے لحاظ سے ایک مغجزہ ہے، جس کی نظیر لانا انسان کی قدرت سے باہر ہے۔
۲۔ محمد ؐکہیں باہر سے یکایک نمودار نہیں ہو گئے، تمہارے درمیان اس کے نزول سے پہلے ۴۰ برس رہ چکے ہیں۔ کیا دعوائے نبوت سے ایک دن پہلے بھی کبھی تم نے ان کی زبان سے اس طرز کا کلام، اور ان مسائل اور مضامین پر مشتمل کلام سنا تھا؟یقیناً نہیں سنا تھا، تو کیا تمہاری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ ایک دن میں کسی شخص کی زبان، خیالات، معلومات اور طرزِ فکر وبیان میں یکایک ایسا تغیر واقع ہو سکتا ہے؟

۳ محمد ؐ تمھیں قرآن بھی سناتے ہیں اور تم ان سے دوسری گفتگوئیں اور تقریریں بھی سنتے ہو۔ قرآن کے کلام اور محمد ؐ کے اپنے کلام میں زبان اور اسلوب کا اتنا نمایاں فرق ہے کہ کسی انسان کے دو اس قدر مختلف سٹائل کبھی نہیں ہو سکتے۔ قرآن اور حدیث کی زبان میں اتنے بڑے واضح فرق کا مشاہدہ آج بھی کیا جا سکتا ہے۔(تفہیم القرآن، ج۲، ص۶۴۱)
یہ قرآن محض عبارتوں، تراکیب اور الفاظ کا نام نہیں بلکہ یہ قرآن اللہ کی دوسری مخلوقات اور عجائب کی طرح ہے جس کی نقل کوئی انسان نہیں بنا سکتا۔یہ روح کی طرح ایک امرِ الٰہی ہے۔ انسان روح کے اسرار و رموز سے واقف نہیں وہ اس روح کے اوصاف اور آثار کو جانتے ہیں، اسی طرح قرآن کے معانی، نظریات اور اسرار کو پوری طرح نہیں جانتے کہ اس جیسی کتاب لے آئیں۔(فی ظلال القرآن، تفسیر نفس الآیۃ)
قرآن کی وجہِ اعجاز
اس امر پر سب مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ قرآن معجزہ ہے، البتہ اس کی وجہ اعجاز میں اختلاف ہے کہ وہ کیا ہے:
۔ بعض کے نزدیک قرآن کا نظم ِ کلام (اسٹائل) معجزہ ہے۔قرآن نے اہلِ عرب کے طرزِ اسلوب کو چھوڑ کر ایک بدیع طرز اور عجیب اسلوب کو اختیار کیا جو عرب میں موجود نہ تھا۔ قرآن نے نظم و نثر کے درمیان ایک ایسا پسندیدہ اسلوب اختیار کیا جو بلغائے عرب کے تصور میں بھی نہ تھا۔
۔ بعض قرآن کو فصاحت و بلاغت کی حیثیت سے معجزہ قرار دیتے ہیں۔
۔ بعض کہتے ہیں کہ اس کا اعجاز یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی قدرتِ کاملہ سے تمام بلغائے عرب کی زبانیں گنگ کر دیں، اس لیے وہ اس کا جواب نہیں لا سکے۔
۔ بعض کے نزدیک اس کی وجہ ِ اعجاز اظہارِ غیب اور پیش گوئیاں ہیں جو انسن کے حیطہء امکان سے باہر ہیں۔
۔ بعض کے نزدیک اس کا اعجاز یہ ہے کہ یہ دلوں کے چھپے ہوئے اسرار کو فاش کرتا ہے جو انسانی دسترس سے باہر ہے۔
۔ بعض نے کہا کہ انسانی کلام کے مراتب مختلف ہوتے ہیں اور اس میں بلند و پست، صحیح و غلط اور کامل و ناقص پایا جاتا ہے جب کہ قرآن مجید بلندیء کمال اور صحت کے اعتبار سے ایک ہی نوعیت کا ہے۔
۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس کے اعجاز کی وجہ اس کی خارق ِ عادت تاثیر اور قلوب ِ انسانی کی تسخیر بھی قرار دی جا سکتی ہے۔
بعض نے ثابت کیا کہ قرآن مجید کا اصلی اعجاز اس کے احکامات، تعلیمات اور ارشادات ہیں۔ (الفصل فی الملل والنحل، ابنِ حزم، ج۳، باب اعجاز القرآن؛ الفوز الکبیر، شاہ ولی اللہ؛ سیرت النبیؐ، شبلی نعمانی،اعجاز قرآن)
حقیقت یہ ہے کہ قرآن صرف فصاحت و بلاغت ہی نہیں اپنی تمام حیثیتوںسے معجزہ ہے اور اس کے معجزہ ء کامل ہونے پر مختصر دلیل یہ ہے کہ آج تقریباً ساڑھے چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی قرآن کی تحدی اور چیلنج کا جواب نہیں ملا کہ اس کے مقابل ایک سورت ہی پیش کر دیں۔یہ انسانوں اور ان کے مدد گاروں عاجز ہونے کی عملی مثال ہے۔
قرآن کا اعجاز
قرآن اس لحاظ سے عظیم ہے کہ دنیا کی کوئی کتاب اس کے مقابلے میں نہیں لائی جا سکتی۔ وہ اپنی زبان اور ادب کے لحاظ سے بھی معجزہ ہے اور اپنی تعلیم اور حکمت کے لحاظ سے بھی! جس وقت وہ نازل ہو رہا تھا اس وقت بھی لوگ اس کے مانند کلام بنا کر لانے سے عاجز تھے اور آج بھی ہیں۔اس کی کوئی بات کبھی کسی زمانے میں غلط ثابت نہیں کی جا سکی ہے اور نہ کی جا سکتی ہے۔ باطل نہ سامنے سے اس کا مقابلہ کر سکتا ہے نہ پیچھے سے اس پر حملہ آور ہو کر اسے شکست دے سکتا ہے۔اور اس لحاظ سے وہ کریم ہے کہ انسان جس قدر زیادہ رہنمائی اس سے حاصل کرنے کی کوشش کرے اسی قدر زیادہ وہ اس کو رہنمائی دیتا ہے، اور جتنی زیادہ اس کی پیروی کرے اتنی ہی زیادہ اسے دنیا و آخرت کی بھلائیاں حاصل ہوتی چلی جاتی ہیں۔اس کے فوائد اور منافع کی کوئی حد نہیں ہے جہاں جا کر انسان اس سے بے نیاز ہو سکتا ہو، یا جہاں پہنچ کر اس کی نفع بخشی ختم ہو جاتی ہو۔ (تفہیم القرآن، ج۵،ص۱۰۸)

قرآن کا شیریں نغمہ
قرآنِ کریم کے شیریں نغموں سے مخالف و موافق اور عالم و جاہل متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اس کا پیغام عقل و خرد کو لذتِ جستجو بخشتا ہے۔ اور قلب و روح کو شوق فراواں سے مالا مال کر دیتا ہے۔ عمر بن خطابؓ کو اس کے نغمے نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا، ابوسفیان، ابو جہل اور شریق بن اخنس جیسے کٹر دشمن اسے راتوں کو چھپ چھپ کر سنتے تھے، جبیر بن مطعم غزوہ بدر کے بعد قیدیوں کی رہائی کے معاملہ پر بات چیت کے لیے کفارِ مکہ کے نمائندہ کے طور پر مدینہ آیا ، تو رسول اللہ ؐ کو امامت کرواتے ہوئے سورۃ الطور پڑھتے سنا تو پکار اٹھا: ’’اسے سن کر میرا دل میرے سینے میں اُڑا جاتا تھا‘‘۔ ولید بن مغیرہ کے سامنے آپؐ نے سورۃ النحل کی آیات پیش کیں: ’’اللہ تعالی عدل اور احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے ۔۔‘‘، اس نے کہا: بھتیجے اسے پھر سناؤ، آپؐ نے پھر سنایا تو وہ دشمنِ اسلام اور منکرِ اسلام بول اٹھا: ’’یہ بڑا شیریں کلام ہے، اس کا تنا پتوں والا اور اس کی شاخیں پھلوں سے لدی ہیں، یہ کسی بشر کا کلام نہیں ہے‘‘۔ (ضیاء القرآن، ج۲،ص۵۹۵)
خلافت ِ عباسہ کا نامور ملحد ادیب ابنِ منقع جس کا اپنے زمانے میں فصاحت وبلاغت میںکوئی ثانی نہ تھا اس نے بڑی دماغ سوزی اور دیدہ وری اور جگر کاوی سے ایک سورت بنا ئی تاکہ اسے قرآن کے مقابلے میں پیش کرے۔ اسی دوران ایک روز اس کا گزر ایک مکتب کے قریب سے ہؤا، جہاں بچے قرآن حفظ کر رہے تھے، اس کی سماعت سے قرآن کی ایک آیت ٹکرائی:
’’حکم ہؤا اے زمین اپنا سارا پانی نگل جا اور اے آسمان رک جا، چنانچہ پانی زمین پر بیٹھ گیا ، فیصلہ چکا دیا گیا، کشتی جودی پر ٹک گئی اور کہہ دیا گیا کہ دور ہوئی ظالموں کی قوم‘‘۔ (ھود،۴۴)
اسے سن کر وہ دم بخود رہ گیا، وہ الٹے قدموں اپنے گھر واپس گیا اور اپنی تحریر کو دھو ڈالا اور کہا کہ اس کلام کا مقابلہ ممکن نہیں۔ (روح المعانی، علامہ آلوسی)
کئی کبار قریش نے بھی کہا تھا کہ اگر ہم چاہیں تو اس جیسا کلام پیش کر سکتے ہیں، مگر قرآن کریم تقریباً تئیس برس تک ان کے سامنے نازل ہوتا رہا اور وہ اس چیلنج کے مقابلے میں شرمندگی سے سر جھکائے تلخی کے گھونٹ پیتے رہے۔اور اپنی فصاحت و بلاغت کے باوجود اس کے مقابلے میں ایک سورت تو درکنار ایک آیت بھی نہ پیش کر سکے۔
بلاغۃ القرآن کے متاثرین
جنوں نے بھی رسول اللہؐ کی زبان سے قرآن سنا، تو اپنی قوم کے سامنے اس کی گواہی دی: ’’ہم نے بڑا عجیب قرآن سنا ہے، جو راہِ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے ، ہم اس پر ایمان لے آئے ۔۔‘‘ (الجن، ۱۔۲) قرآن کی پہلی واضح خصوصیت جو ان کو نظر آئی وہ یہ تھی کہ یہ ایک عجیب اور غیر مالوف ہے۔ اس کو سن کر دلوں میں خوف پیدا ہوتا ہے۔ جو شخص بھی قرآن کو تیز احساس اور کھلے دل کے ساتھ پڑھے گا، دل کی کشادگی اور معتدل ذوق کے ساتھ پڑھے گا یا سنے گا، وہ اس سے مرعوب ہو جائے گا۔ اور اسے نظر آئے گا کہ یہ ایک عجیب کلام ہے ۔ اس کے اندر قوتِ استدلال ہے، اور اس کے اندز بے پناہ جاذبیت ہے۔اور اس کے اثرات اس قدر شدید ہیں کہ قلب و ضمیر کے تاروں میں ایک زبردست ارتعاش اور نغمہ پیدا کر دیتا ہے۔یہ عملاً بھی عجیب ہے کہ جنوں نے جونہی اسے سنا ، فورا ًایمان لے آئے اور عمل کو تیار ہو گئے۔ قرآن کی دوسری نمایاں صفت یہ ہے کہ یہ کتاب ِ ہدایت ہے۔(فی ظلال القرآن، تفسیر نفس الآیۃ)
ابراہیم بن ادھمؒ کہتے ہیں کہ میں ایک مشہور عابد سے ملا، جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ سوتا نہیں ہے، میں نے اس سے اس کا سبب پوچھا تو وہ بولا: مجھے قرآن کے عجائب سونے نہیں دیتے (یعنی اسی پر غور و فکر میں لگا رہتا ہوں)۔ (سیر سلف صالحین، الاصبھانی،۹۷۳)
شیخ العثیمینؒ کہتے ہیں: بے شک قرآن کے عجائب کبھی ختم نہ ہوں گے، کیونکہ یہ اللہ کا کلام ہے۔
قرآن ِ کریم کی لذت سے جو آشنا ہو جائے تو اس کے سامنے دنیا کی لذتیں ہیچ ہو جاتی ہیں۔شجاع بن ولیدؒ کہتے ہیں کہ اصحاب ِقرآن میں ایک شخص شادی کر کے گھر آیا، اور زوجہ کے کمرے میں داخل ہوا تو نکاح کے مسنون دو نفل پڑھنے کھڑا ہؤا، اور نماز اتنی طویل ہو گئی کہ صبح کی اذان

ہو گئی، اور بیوی کی جانب متوجہ بھی نہ ہو سکا، جب اس سے شکایت کی گئی تو بولا: میں تو دو رکعت نماز کے لیے کھڑا ہؤا تھا مگر قرآن کے عجائب نے مجھے ایسا گرفت میں لیا کہ مجھے ’’وہ‘‘ بھول ہی گئی۔(فضائل القرآن، القاسم بن سلّام، ص۱۲۹)
قرآن کریم کا دلوں پر اثر
قرآن کریم کے عجائب میںیہ بھی ہے کہ یہ غیر عربی دانوں کی زبان پر بھی جاری ہو جاتا ہے، وہ اس کو اپنے سینے میں محفوظ کر لیتے ہیں، اور بسا اوقات وہ اس کے معانی بھی نہیں جانتے۔ اس سے غیر عربی بھی متاثر ہوتے ہیں اگرچہ وہ اس کے معانی سے ناواقف ہوں۔ ایسا ہی ایک عجیب واقعہ ہے کہ عرب مسلمانوں کے کچھ خطیب جب غیر عرب کفار کے سامنے خطبہ دے رہے تھے تو کچھ لوگ قرآن اور غیر قرآن میں فرق محسوس کر رہے تھے۔جیسے ایک داعی نے اپنا واقعہ بیان کیا کہ انہوں نے ایک مرتبہ بحری جہاز میں جمعہ کا پیش کیا، جہاں عجمی اور یورپی لوگ موجود تھے۔ نماز کے بعد ایک بوڑھی یورپی خاتون ان کے پاس آئی اور کہنے لگی: آپ کے خطیب کے بیان کے کچھ حصّے دوسرے حصوں سے مختلف تھے، اور ان کا روح پر اثر جدا اور لذت مختلف تھی! تب ہمیں احساس ہؤا کہ وہ قرآن کی آیات کے متعلق کہہ رہی ہے، اگرچہ وہ عربی زبان نہیں جانتی۔ خطیب کہنے لگے، جبھی میں حیران ہو رہا تھا کہ وہ آیات کو سن کر رو کیوں رہے ہیں۔
اور یہ بھی عجیب بات ہے کہ قرآن کا رقیہ (آیات ِ قرآن سننے سے علاج) کافرپر بھی اس کے کفر کے باوجود اثر کرتا ہے۔جیسا کہ حضرت ابو سعید خدریؓ نے سات مرتبہ سورۃ الفاتحہ پڑھ کر مشرکین کے ایک علاقے کے سردار پر دم کیا تھا، جسے بچھو نے کاٹ لیا تھا اور اس کی شفا یابی پر بطور اجرت ان سے کچھ بکریاں بھی وصول کی تھیں۔
پس قرآن کا صوتی اثر یہ بھی ہے کہ وہ انسانوں کے لیے شفاء ہے۔ اور اس میں تمام انسان شامل ہیں۔اور یہ کلام سے ناواقف دلوں پر بھی اثر کرتا ہے۔
بعض سورتوںکے ابتدائی حروف ِ مقطعات
قرآن کریم کے عجائب میں اس کی بعض سورتوں کے آغاز میں وارد حروف ِ مقطعات بھی ہیں، جیسے الم، ح، م، ص، ق،ن وغیرہ۔ اور یہ چیلنج ہے کہ قرآن ایسے ہی حروف پر مبنی کلام ہے تو اے اہلِ لغۃ تم بھی ان جیسے حروف سے اس جیسا کلام پیش کرو۔ابنِ کثیرؒ فرماتے ہیں کہ ان حروف میں الم سب سے زیادہ تکرار سے استعمال ہؤا ہے۔ اگر مکرر حروف کو نکال دیا جائے تو یہ ۱۴ حروف ہیں جو کل حروف کا تقریباً نصف ہیں۔اگر انہیں ملائیں تو ایک جملہ مرتب ہو سکتا ہے: ’’نص حکیم قاطع لہ سر‘‘۔ اور یہ چودہ حروفِ مقطعات دیگر حروف سے زیادہ اشرف ہیں۔
ابن القیمؒ فرماتے ہیں: ’’الم‘‘ کا راز یہ ہے کہ یہ تمام مخارج کا جامع ہے۔ ’’ء‘‘ کی ادائیگی اقصی الصدر سے ہوتی ہے جو سب سے آخری مخرج ہے۔’’ل‘‘ مخارج الحروف کا درمیانی حرف ہے۔ اور ’’م‘‘سب سے پہلا مخرج ہے جو ہونٹوں سے ادا ہوتا ہے۔یہی تین مخارج الحروف کے مقام ہیں۔یعنی حلق، زبان اور ہونٹ۔
موضوعی اعتبار سے جن سورتوں کا آغاز الم سے ہوتا ہے ان میں تخلیق کے ابتدا، اس کے توسط اور انتہا کا بیان ہے۔کائنات کے آغاز اور اختتام کے ساتھ ان میں توسط کے ضمن میں شرعی احکام و اوامر کا تذکرہ ہے۔ سورۃ ق میں حرف ق کی تکرار ہے، جیسے قرآن، خلق، تکریر القول، ابن ِ آدم سے قرب، بندے کا قول، اور رقیب کا ذکر،جھنم میں القاء کے وقت سائق اور قرین کا تذکرہ، متقین کا ذکر، وغیرہ۔اسی طرح سورہ ص میں کئی خصومات (یعنی جھگڑوں )کا تذکرہ ہے اور ہر خصومہ (جھگڑے) میں حرف ص وارد ہؤا ہے۔جن میں کفار کا جھگڑا رسول اللہ ؐ سے، پھر ملأ الاعلی میں علم کا اختصام، پھر ابلیس کا رب سے جھگڑا اور آدمؑ کو سجدہ کرنے پر اعتراض، اور اہل ِ اخلاص کے سوا سب کو بہکانے کا حلف۔ (بدائع الفوائد، ج۳، ص۱۷۳)
اسی طرح مختلف سورتوں کا آغاز جن حروف اور الفاظ سے ہوتا ہے ان میں بھی ایک ربط موجود ہے۔ابن القیم نے اس ربط کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے، جیسے سورۃ النساء کا آغاز ’’یا أیھا الناس‘‘ سے ہوتا ہے: ’’اے لوگو، اپنے رب سے، ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا، اسی

سے اس کا جوڑا بنایا اور ان سے بہت سے مرد اور عورتیں دنیا میں پھیلا دیے‘‘۔ (النساء،۱)
قرآن کریم میں دوسری سورت جس کا آغاز ’’یا ایھا الناس‘‘ سے ہوتا ہے، وہ سورۃ الحج ہے: ’’اے لوگو، اپنے رب کے غضب سے بچو، حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ بڑی ہولناک چیز ہے‘‘۔ (الحج،۱)
ان میں سے پہلی سورت قرآن کے نصف اوّل کی چوتھی بڑی سورت ہے اور دوسری نصف ثانی کی چوتھی سورت۔ پہلی سورت میں انسان کے آغاز یا ابتدا کی بات کی گئی ہے اور دوسری میں اس کے معاد یعنی آخرت کی۔
قرآن میں مفرد وجمع کلمات
قرآن کے الفاظ پر غور کریں تو الفاظ کے استعمال میں بھی اعجاز نظر آتا ہے، قرآن میں ہوا کے لیے ’’ریح‘‘ اور ’’ریاح‘‘ مفرد اور جمع دونوں الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ رحمت کی ہوائیں مختلف صفات اور منافع اور عطا کے خزانے لیے ہوتی ہیں۔ رہی عذاب کی ہوا تو وہ ایک ہی سبب کی بنا پر آتی ہے، اور ایسی زور دار کے اس کے سامنے کچھ ٹھہر نہ سکے۔ اللہ تعالیٰ نے قوم ِ عاد پر ایسی ہی بانجھ ہوا بھیجی: ’’ہم نے ان پر ایسی بے خیر ہوا بھیج دی کہ جس چیز پر بھی وہ گزر گئی اسے بوسیدہ کر کے رکھ دیا‘‘۔ (الذاریات، ۴۱)
اس کے مقابل سورہ الروم میں ریح اور ریاح دونوں کا استعمال اس کو بیان کر رہا ہے: ’’اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے، اور وہ بادل اٹھاتی ہیں ۔پھر جب وہ بارش اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے برساتا ہے تو وہ یکایک خوش ہو جاتے ہیں ۔ دیکھو ، اللہ کی رحمت کے اثرات ‘‘۔ (الروم۴۸۔۵۰)
اگلی ہی آیت میں ریح کا لفظ وارد ہؤا، جو ناشکروں پر برسی: ’’اور اگر ہم ایک ایسی ہوا بھیج دیں، جس کے اثر سے وہ اپنی کھیتی کو زرد پائیں تو وہ کفر کرتے رہ جائیں‘‘۔ (الروم،۵۱)
پہلی مثال میں رحمت کی ہواؤں کا تذکرہ ہے اور دوسری میں سخت سرد یا گرم ہوا (ریح) جو فصلوں کو بھسم کر ڈالے۔
ایسی ہی مثال لفظ ’’نور‘‘ اور’’ ظلمات ‘‘ کے استعمال میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نور کو ہر مقام پر مفرد استعمال کیا ہے کیونکہ نور ِ حق ایک ہی ہے۔ جبکہ ظلمات یعنی تاریکیاں متعدد ہیں، کہیں جہل ہے تو کہیں کفر، کہیں طاغوت کے اندھیرے اور کہیں بغاوت کی تاریک راہیں۔
’’اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے‘‘۔ (النور، ۳۵) اور ’’یہ لوگ اللہ کے نورکو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا نا چاہتے ہیں، اور اللہ اپنا نور پھیلا کر رہے گا‘‘۔ (الصف،۸) یہاں غلبہ اسلام کی نوید سنائی گئی ہے، کہ ایک اللہ ہی کا نور ہے جو دنیا میں پھیل کر رہے گا۔
’’جو لوگ ایمان لاتے ہیں، ان کا حامی و ناصر اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے۔ اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں ، ان کے حامی ومددگار طاغوت ہیں اور وہ انھیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں‘‘۔ (البقرۃ، ۲۵۷)
اللہ تعالی کے نام کی اضافت
قرآن کے عجائب پر غور کریں تو اللہ تعالیٰ کے لیے الفاظ کے استعمال کی رہنمائی ملتی ہے، کہ جن جگہوں پر اللہ کی صفات ِ رحم، احسان اور جود و عطا کا تذکرہ ہے وہاں اللہ کے نام یعنی فاعل کے ساتھ ہے، اور جہاں اس کے افعال سزا اور عقوبت کا ذکر ہے وہاں فاعل کو حذف کر دیا گیا ہے اور اللہ کا ادب یہی ہے کہ وہاں مفعول کے لیے فعل کا تذکرہ ہے فاعل کا نہیں۔
’’ان لوگوں کا راستہ دکھا جن پر تو نے انعام کیا‘‘ (الفاتحۃ،۷)
’’(ان کا نہیں) جو غضب کا شکار ہوئے‘‘ (الفاتحۃ،۷)
یہی اسلوب حضرت ابراہیمؑ کی دعا کا ہے: ’’وہی ہے جس نے مجھے پیدا کیا، پھر وہی میری رہنمائی فرماتا ہے۔ جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔ اور جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے‘‘۔ (الشعراء، ۷۸۔۸۰)
اور مومن جنوں کا قول جہاں وہ رشد کے لیے رب کا ذکر کرتے ہیں اور شر کا اس کے فاعل کے بغیر: ’’اور ہماری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ آیا زمین والوں کے ساتھ کوئی برا معاملہ کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کا رب

انہیں راہِ راست دکھانا چاہتا ہے‘‘۔ (الجن،۱۰)
موسیٰؑ اور خضر کے معاملے میں خضر کشتی کو عیب دار کرنے اور لڑکے کے قتل کو اپنے سے منسوب کرتے ہیں اور دیوار کی تعمیر کو رب کی رحمت سے:
’’اس کشتی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ چند غریب آدمیوں کی تھی جو دریا میں محنت مزدوری کرتے تھے۔ میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں ۔رہا وہ لڑکا تو اس کے والدین مومن تھے ہمیں اندیشہ ہوا کہ یہ لڑکا اپنی سرکشی اور کفر سے انہیں تنگ کرے گا، اس لیے ہم نے چاہا ‘‘۔ (الکھف،۷۹۔۸۰)
’’اور اس دیوار کا معاملہ یہ ہے کہ یہ دو یتیم لڑکوں کی ہے ۔ تمہارے رب نے یہ چاہا کہ یہ دونوں بالغ ہو کر اپنا خزانہ نکال لیں ‘‘۔ (الکھف،۸۲)
حلال کے ساتھ لفظ اللہ آیا اور حرام کے ساتھ حذف: ’’اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام‘‘۔(البقرۃ، ۲۷۵)
وہ اشیاء جن سے نزول کے وقت انسان آگاہ نہ تھا:
قرآن کریم سائنس کی کتاب نہیں، لیکن سائنس کی ترقی کے ساتھ قرآن کے الفاظ کی معنویت اور حقانیت کا ادراک بڑھتا ہے، جب سورج اور چاند کی روشنی کی تفصیلات انسان کے علم میں نہیں تھیں اس وقت قرآن میں فرمایا:
’’وہی ہے جس نے سورج کو اجیالا بنایا اور چاند کو چمک دی‘‘۔ (یونس،۵)
سورج کی روشنی کے لیے ’’ضیاء‘‘ اور چاند کے لیے ’’نور‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا۔ چاند ایک ٹھنڈا وجود ہے جبکہ سورج آگ کا گولہ، سورج میں حرارت ہے اور روشنی بھی، جبکہ چاند میں روشنی ٹھنڈی ہے اس میں حرارت نہیں۔
اسی طرح انسان کی رحم مادر میں پیدائش کے جو مراحل قرآن میں بیان کیے گئے، طب کی ترقی کے بعد اس کی تائید ہوئی:
’’ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفے سے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی، تاکہ ہم تم سے بیان کریں‘‘۔ الحج، ۵)
’’وہ تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تمہیں تین تین تاریک پردوں میںایک کے بعد ایک شکل دیتا چلا جاتا ہے ‘‘۔(الزمر۶) جدید طب نے اسی کی تصدیق کی ہے۔
قرآن کے عجائب میں جس قدر غور کریں وہ انسان پر ظاہر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ آج جب ہم اپنے مختلف حالات میں قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ ہمیں صدیوں پہلے کی کتاب معلوم نہیں ہوتی بلکہ ہمیں حاضر کے مسائل اور حالات میں بھی پوری رہنمائی دیتی ہے۔اور قرآن کے عجائب میں یہ بات بھی ہے کہ وہ ہر زمانے میں درست ہدایات پر مبنی اور بالکل ترو تازہ ہے۔ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے یہ ہدایات ابھی ہمارے لیے اتری ہیں۔
اے اللہ قرآن کو ہمارے دلوں کی بہار ، ہمارے سینوں کا نور، ہمارے غموں کے زائل ہونے کا ذریعہ اور ہماری پریشانیوں اور مشکلات سے نجات کا ذریعہ بنا دے۔ اے اللہ ، ہمارے اعمال کو قرآن سے زینت دے دے۔ آمین
(جاری ہے)
٭٭٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
5 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x