ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

زوال کو عروج میں کیسے بدلیں- بتول جون ۲۰۲۱

تہذیب و تمدن اسی کا ہوتا ہے جس کی علوم وفنون میں اجارہ داری ہوتی ہے۔ اندلس کی گمشدہ تہذیب و ترقی کا ایک نوحہ!
غزہ پر اسرائیل کی حالیہ ظالمانہ کارروائیوں کے بعد ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ہم صرف فنڈنگ اور مظاہروں پر اکتفا نہ کریں ۔ ہم اپنی تاریخ کو بھی جانیں، اپنے ماضی سے نسبت جوڑلیں۔مسلمانوں کاشاندار ماضی اس بات کا پیغام رکھتا ہے کہ اس امت کا مستقبل بھی شاندار ہو سکتا ہے اگر یہ اپنے اسلاف سے نسبت جوڑ لیں،اپنے سازشیوں سے ہوشیار رہیں اور تاریخ کے جھروکوں کو کھلا رہنے دیں تاکہ اس حبس زدہ ماحول کو عظمت رفتہ کی ٹھنڈی ہوائیں معطر رکھیں ۔ تاریخ کا مطالعہ حیات تازہ ہے ۔ حکیم الامت اقبال یونہی تونہیں بار بار مسلمانوں کو عہد رفتہ کی یاد دلاتے ہیں۔ رومیوں کے مقابل جس شیر کی بابت علامہ اقبال نے پیش گوئی کی تھی، فلسطین سے آتی نعرہ تکبیر کی آوازیں بتارہی ہیں کہ وہ شیر عنقریب ہوشیار ہونے کو ہے ۔
آج ہم امریکہ اور یورپ کو اپنا استاد مانتے ہیں۔ہماری نوجوان نسل کو علم بھی نہیں ہوگا کہ کسی زمانے میں مسلمان یورپ کے استاد تھے۔ اگرچہ اندلس کی سر زمین سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دیا گیا لیکن مسلمانوں نے اپنے آٹھ سو سال کے دور حکومت میں جو کارنامے انجام دیے آج ان کو بیان کرنے والا بھی کوئی نہیں۔
میں آسٹریلیا میں جب پارکوں میں جاتی تھی تومجھے خوش گوار حیرت ہوتی تھی کہ جا بجا پتھروں پر انہوں نے اپنی تاریخ کے سنہری واقعات کوتحریر کیا ہؤا ہے۔ تفریح گاہوں میں جب ہم بسوں میں سوار ہوتے تھے تو انائونسر اپنے تاریخی واقعات اور ہیروز کے نام لے کر انہیں سیلوٹ کرتے تھے۔
اندلس میں مسلمانوں سے پہلے قرطاجنہ والوں نے حکومت کی پھر رومیوں بعد ازاں گوتھ باشندوں نے حکومت کی ۔ ان سب نے عوام کی فلاح وبہبود کے کئی منصوبوں پر کام کیا لیکن اندلس کی تاریخ گواہ ہے کہ تاریخ کے کسی دور میں اندلس کووہ خوش حالی حاصل نہیں ہوئی جومسلمانوں کے دور میں حاصل ہوئی ۔ اس وقت اندلس نے دنیا کی امامت کی اور اہلِ اندلس یورپ میں علم وفن کی روشنی کے چراغ ٹھہرے ۔ وہ اندلس کی اور مسلمانوں کی تاریخ کا ’’ عہد زریں‘‘ تھا۔اندلس چھوٹا سا ملک ہونے کے باوجود علم و فن اور تہذیب و تمدن میں بہت آگے تھا۔ اسلامی تاریخ میں ما سوائے عراق اور ماورائے نہر کے، اتنی کثرت سے علم و فن کے ماہرین کہیں پیدا نہیں ہوئے۔یہ عظیم ترین عالموں، ادیبوں، شاعروں، مورخوں ، طبیبوں ، فلسفیوں کی سر زمین تھی۔یہاں کے علمائے دین میں ابن حزم ، ابن عبد البر، ابن عربی، فلسفیوںمیں ابن طفیل اور ابن رشد ، طبیبوں میں زہراوی اور ابن زبیر، ادیبوں اور مورخوں میں ابن عبدربہ ، خطیب اور شاعروں میں ابن زیدون اور ابن عمار کی دور دور تک شہرت تھی۔
دنیا میں ہوائی جہاز بنانے کی پہلی کوشش اندلس کے سائنسدان عباس ابن فرناس نے کی ۔ وہ بڑا ذہین سائنس دان تھا ۔ اس نے اپنے گھر میں ایک مصنوعی آسمان بنایا تھا جس میں سورج ، چاند اور ستارے بنانے کی بھی حیرت انگیز کوشش کی تھی ۔ اس کی اس کوشش کا دور دور چرچا تھا اور لوگ اس مصنوعی نظارے کودیکھ کر لطف اندوزہوتے ۔اس نے پتھر سے شیشہ تیار کرنے کی صنعت ایجاد کی ۔ جس وقت لوگوں کے پاس وقت معلوم کرنے کا واحد ذریعہ سورج کا سایہ تھا اس نے گھڑی کی طرح کا آلہ ایجاد کیاجو بغیر سائے کے دن کے اوقات میں وقت بتاتا تھا۔
پہلی مرتبہ اندلس میں چاول، زعفران، نارنگی ، لیموں ،انگور ، خربوزہ ، کیلے ، زرد گلاب ، روئی اور گنے کی کاشت کی گئی۔ان چیزوں کو کاشت کرنا یورپ کے ملکوں نے اندلس ہی سے سیکھا۔آج جس طرح اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ اور امریکہ کا رخ کیا جاتا ہے مسلمانوں کے عروج کے زمانے میں یورپ کے عیسائی پہلے عربی زبان سیکھتے تھے پھر اسلامی

ملکوں میں آکر اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے تھے۔
اندلس چونکہ یورپ کے ملکوں کے قریب تھا اس لیےاندلس کے علما ، کتب خانوں اور مدرسوں سے سب سے زیادہ فائدہ انہی ممالک نے اٹھایا۔پیرس اور لندن میں لکڑی اور بانس کے گھر بنائے جاتے تھے جن کو لکڑی اور بھوسے سے لیپ دیا جاتا تھا ۔ صفائی ستھرائی نا پید تھی۔مسلمان مورخ قزدینی لکھتا ہے:
’’ ڈنمارک کے لوگ بالکل وحشی تھے ۔ننگے رہتے تھے یا چمڑے کے ٹکڑوں سے ستر پوشی کرتے تھے ‘‘۔
شمالی یورپ کے لوگوں کے متعلق مسلمانوں میں یہ خیال عام تھا کہ وہ لوگ فطری طور پر بے وقوف ہیں ، سردی کی شدت نےان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو منجمد کر دیا ہے ۔
اندلس کے مشہور عالم ابن سعد لکھتے ہیں:
’’جوقومیں مثلاً صقالیہ اور بلغار وغیرہ جو انتہائی شمال میں آباد ہیں جہاں سورج کی دوری کی وجہ سے ہوا میں ٹھنڈک اور فضا میں کثافت پیدا ہو گئی ہے ، ان کے مزاج سرد اوردماغ گٹھل ہو گئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بدن موٹے ہو گئے ، رنگ سفید ہو گئے اور بال لٹک گئے ۔ چنانچہ یہ قومیں باریک بینی اور ذہن کی تیزی سے محروم ہیں۔ جہالت اور حماقت ان پر غالب آگئی ہے ۔ یہ لوگ انسانوں سے زیادہ جانوروں سے مشابہ ہیں‘‘۔
زمانہ کیسے گردش میں ہے ۔ قوموں کے درمیان عروج و زوال کی داستانیں تاریخ کی کتابوں میں محفوظ نہ ہوں تو آج ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ جو رائے آج یورپ کے اہل دانش ہمارے بارے میں قائم کرتے ہیں کہ ایشیا کے لوگ گرم ملکوں میں رہنے کی وجہ سے سست اور کاہل ہیں، یورپ کی ترقی نے ابن سعد اور ابن خلدون کے ایسے ہی خیالات کو غلط ثابت کردیا ۔ ایشیا والوں کے بارے میں بھی ان کے خیالات ہم غلط ثابت کر سکتے ہیں ۔ قوموں کے عروج و زوال موسموں کے ساتھ وابستہ نہیں ہوتے کسی قوم کی پستی یا اقبال میں کئی دوسرے عوامل کا ر فرما ہوتے ہیں۔
اسی طرح قرطبہ شہر یورپ والوں کے لیےایسا تھا جیسے آج تیسری دنیا کے ملکوں کے لیے امریکہ اور یورپ ۔ شہر 24 میل لمبا اور 7میل چوڑا تھا ۔ اس زمانے میں اتنے بڑے شہر عجیب و غریب چیز خیال کیے جاتے تھے ۔ شہر میں کوٹھیاں ، بڑے بڑے کشادہ گھر ، ہزاروں مسجدیں اور حمام تھے ۔ ایک لاکھ کے لگ بھگ دکانیں تھیں ۔ پختہ سڑکیں نکاسی کے لیے زمین دوز نالیاں ، چوراہوں پر فوارے، راستوں میں روشنی جس کے باعث لوگ بے خوف راتوں کو میلوں سفر کر لیتے تھے۔
ایک مورخ لکھتا ہے ۔’’ قرطبہ آباد یوںکا سرتاج ہر دل کا مقصود ، اہل فضل و تقویٰ کا مسکن ، علوم کا سرچشمہ اور اسلام کا گھر ہے ۔ دنیا بھر کی عقلیں سمٹ کر یہاں جمع ہو گئی ہیں ۔ اس کے افق سے دنیا کے تارے نکلے ہیں، نظم ونثر کے شہسواروں کے گھوڑے دوڑے اور اعلیٰ درجے کی کتابیں یہاں لکھی گئیں ‘‘۔
یقیناً اسی دور کے لیے اقبال نے کہا ہوگا کہ تمہیں اپنے آبا سے کیا نسبت ہے ۔
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی
جودیکھیں ان کو یورپ میں تودل ہوتا ہے سیپارا
اہلِ قرطبہ بڑے خلیق اور شائستہ مزاج ہوتے تھے ۔ سپاہیانہ علوم و فنون میں ان کو فخر تھا ۔کیا ہم یقین کر سکتے ہیں کہ پوری دنیا میں سوائے بغداد کے کوئی شہر قرطبہ کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا؟اس زمانے میں یورپ میں سوائے پادریوں اور امراء کے خاندانوں کے عوام الناس ناخواندہ تھے جب کہ اندلس میں شرح خواندگی سو فیصد تھی۔فرانس کے بادشاہ کے کتب خانے میں صرف چھ سو کتابیں تھیں۔ اس کے بر خلاف قرطبہ میں لوگوں کے ذاتی کتب خانوںمیں ہزاروں کتابیں ہوتی تھیں اورشاہی کتب خانہ میں چار لاکھ کتابیں موجود تھیں ۔یہ بات ضرور قابل بیان ہے کہ اس زمانے میں چھاپہ خانے نہیں تھے۔ لوگ ہاتھ سے کتاب لکھا کرتے تھے ۔ کتابوں کا کاروبار باقی اسلامی دنیا کی طرح اندلس میں بھی اتنا ترقی کر گیا تھا کہ ہزاروں لوگوں کی روزی کتابیں لکھنےاور بیچنے پر منحصر تھی ۔ صرف قرطبہ میں بیس ہزار لوگ کتابوںکا کاروبار کرتے تھے۔
جیسے ہمارے سماج میں کہا جاتا ہے کہ سب سے کامیاب بزنس کھانے پینے کا بزنس ہوتا ہے،شہر میں ہر اسٹریٹ فوڈ اسٹریٹ ہے،اسی

لیے ہم دماغ کے بجائے شکم سے سوچنے لگے ۔جب مسلمانوں کے عروج کا دور تھا وہ علم اور کتاب کے عشق میں گرفتار تھے ۔ علم ہی اوڑھنا بچھونا تھااور وہی کاروبار ۔ جو لوگ کم لکھنا پڑھنا جانتے تھے وہ بھی اچھی کتابیں خریدنے میں دلچسپی رکھتے تھے اورلوگ فخریہ ایک دوسرے کو بتاتے تھے کہ فلاں کتاب اس کی ذاتی لا ئبریری میں موجود ہے۔
کتابیں کاغذ پر چھپتی ہیں ۔ اس زمانے میں سوائے چین اور اسلامی دنیا کے کسی ملک کے لوگ کاغذ بنانا نہ جانتے تھے۔اندلس میں شہر ’’شاطبہ‘‘ کاغذ سازی کا مرکز تھا ۔ یہاں سے کاغذ سارے یورپ کو جاتا تھا۔ یورپ کے لوگوں نے یہاںآکر کاغذ بنانا سیکھا ۔
یورپ کے جن مشہور لوگوں نے اندلس آکر علم حاصل کیا ان میں پاپائے روما پوپ سنو یسٹر دوم (940-1003)بھی شامل ہیں۔وہ فرانس کے رہنے والے تھے ۔ اندلس تعلیم کی غرض سے آئے ۔ سائنس ، ریاضی اور موسیقی پر کئی کتابیں لکھیں۔999 میں پاپائے روم منتخب ہوئے۔ہندسے ، صفر اور عشاریہ کا استعمال سیکھ کر جب وہ یورپ گئے تو ان کی غیرمعمولی قابلیت دیکھ کرلوگ کہنے لگے کہ انہوں نے یہ چیزیں شیطان سے سیکھی ہیں۔
مسلمانوں کے عہد عروج میں جہالت اور تعصب کے باعث یورپ کے لوگ زیادہ تعداد میں اندلس نہیں آتے تھے۔ جب 1085ء میں شہر طلیطلہ پر عیسائی قابض ہوگئے تو یورپ کے ہر حصے سے علم کے طالب طلیطلہ آنے لگے اور عربی سیکھ کر عربی کتابوں سے فائدہ اٹھانے لگے۔
مسلمانوں کے علوم کی سر پرستی کرنے میں قشتالہ کا ایک حکمران الفانسو دوم (1252-1284)سب سے آگے بڑھ گیا ۔ اس کے زمانے میں بکثرت کتابوں کا عربی سے ہسپانوی اور لاطینی زبانوں میں ترجمہ ہؤا۔1230ء میں اندلس کے شہر سلامنکہ میں عیسائیوں نے مسیحی یورپ کی پہلی یونیورسٹی قائم کی۔
اندلس کی طرح جزیرہ صقلیہ یعنی سسلی بھی یورپ میں مسلمانوں کی تہذیب کا بڑا مرکز تھا۔ یہاں مسلمانوں نے ڈھائی سو سال تک حکومت کی۔ شمالی یورپ کی ایک قوم نارمن نے اس جزیرہ سے مسلمانوں کی حکومت کا خاتمہ کیا ۔ بادشاہ راجر دوم (1101-1154)نے مشہور عرب جغرافیہ دان ادریسی (1099-1153)کو افریقہ بلا کر جغرافیہ پر ایک کتاب لکھوائی اور دنیا کا نقشہ تیار کرایا ۔ یہ دنیا کا پہلا درست نقشہ تھا ۔ ادریسی کی کتاب کا جب 1619ء میں یورپی زبانوں میںترجمہ ہؤاتو اہلِ یورپ کو پہلی بار ایشیا اور افریقہ کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں۔
اس زمانے میں اسلامی تہذیب کا اتنا اثر تھا کہ عیسائی عورتیں بھی مسلمان عورتوں کی طرح چہروں کا پردہ کرنے لگیں بالکل اسی طرح جیسے آج مسلمان امریکہ اور یورپ جا کر ان کے لباس اور چال ڈھال اختیار کر لیتے ہیں۔اس زمانے میں رازی کی مشہور کتاب ’’ حادی‘‘ کا لاطینی زبان میں ترجمہ ہؤا۔ بعد میں یہ کتابیں سارے یورپ میں پھیل گئیں۔ اسی زمانے میں جنوبی اٹلی کے شہر شلونو میں عربوں کی مدد سے طب کا ایک مدرسہ قائم ہؤا جو یورپ کا طب کا پہلا تعلیمی ادارہ تھا جہاں مسلمان اطباء کی کتب پڑھائی جاتی تھیں۔
جن مشہور مصنفین کی کتابوں کے لاطینی ترجمے کیے گئے ان میں کندی ، فارابی ، ابن سینا ، زہراوی ، خوارزمی، ابن رشد شامل ہیں۔ان ترجموں کی بدولت یورپ میں علوم و فنون پھیل گئے ۔ ابن رشد کی فلسفہ کی کتابیں ، ابن سینا کی طب کی کتابیں تین سو سال تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی رہیں ۔ یہ یورپ میں جہالت کا وہ زمانہ تھا کہ جس کو علم ہیئت، کیمیا ، طب کا علم آتا تھا لوگ اس کو جادوگر خیا ل کرتے تھے۔
1511ء میں ہسپانیہ کی حکومت نے عربی کی کتابوں کو جلانے کا حکم دیا ۔ لاکھوں کتابیں راکھ کے ڈھیر میں بدل گئیں ۔ صرف غرناطہ میں 80ہزار کتابیں جلائی گئیں ۔میکس میوہدف لکھتا ہے ’’ یورپ کی سر زمین جوعلمی اور سائنسی لحاظ سے بنجر تھی،سینکڑوں عربی کتابوں کے ترجموں سےبنجر زمین شاداب اور زرخیز ہوگئی‘‘۔
یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ وہ یورپ جہاں سے علم و فن کے چشمے پھوٹتے ہیں، ان کااستاد اندلس ہے۔ ہمارے علوم سے وہاں روشنی پھیلی۔ آج ہم اس قابل بھی نہیں کہ ان کی کتابوں کے ترجمے کر کے اپنا کھویا ہؤا علمی مقام دوبارہ حاصل کرلیں ۔ تہذیب و تمدن اسی کا ہوتا ہے علوم وفنون میں جس کی اجارہ داری ہوتی ہے ۔اگر ہم مسلمانوں کی نشاۃثانیہ کے خواب دیکھتے ہیں تو ہمیں علوم و فنون میں پیش قدمی کرنا ہوگی۔ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
5 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x