ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

خاص مضمون- بدعاتِ محرم – ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

محرم الحرام کا اصل پیغام یہ ہے کہ حق کا بول بالا کرنے کو مقصدِ زندگی بنایا جائے

قرآن پاک کی سورۃ توبہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔
’’حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اُس کے ( اللہ تعالیٰ کے) نوشتہ میں بارہ ہی ہے ۔ اور ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں ( رجب، ذیقعد،ذالحج،محرم)۔یہی ٹھیک ضابطہ ہے ( کیلنڈر کا ) لہٰذا ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے سب مل کر لڑو۔ جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں اور اچھی طرح جان لو کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کے ہی ساتھ ہے (یعنی متقیوں کا حق ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کا ساتھ دے ) ان چار مہینوں میں محرم کی اہمیت مزید رسولﷺکے اقوال مبارکہ سے بھی عیاں ہوتی ہے ۔ محرم کا معنی ہے بہت زیادہ قابل تعظیم، ان مہینوں کی حرمت ابتدائے آفرینش سے ثابت ہے۔‘‘
حج الوادع میں نبی ؐنے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا۔
’’لوگو! زمانہ گھوم پھر کر اپنی اصلیت پر آگیا ہے ۔ سال کے بارہ مہینے ہؤا کرتے ہیں ۔ جن میں سے چار حرمت والے ہیں ۔ ‘‘(مسلم)
اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ کیلنڈر کے مطابق سال کی ابتدا محرم الحرام سے ہوتی ہے ۔ کیونکہ اس مقدس مہینے کی عظمت کون ومکاں کی پیدائش کے ساتھ وابستہ ہے ۔
(’’غنیۃ الطالبین‘‘ از حضرت عبد القادرؒ جیلانی صفحہ نمبر 676میں درج ہے محرم کی عظمت اور اس کا حوالہ شیخ الحدیث مولانا عبد السلام ؒ بستوی نے ’’اسلامی خطبات‘‘ از مکتبہ سلفیہ میں نقل کیا ہے واللہ اعلم)
اسی مہینے میں اللہ تعالیٰ نے زمین ، آسمان ،پہاڑ، سمندر، لوح وقلم، حضرت جبرئیلؑ اور دیگر فرشتوں کو پیدا کیا ۔ اسی ماہ حضرت آدم ؑ کی تخلیق ہوئی اور ان کی توبہ قبول کی گئی … عاشورہ محرم میں حضرت نوح علیہ السلام کو طوفان سے نجات دی ۔ حضرت ابراہیم ؑ کی پیدائش اور ان کی نارِ نمرودسے نجات ہوئی، آگ ، گلزار بنائی گئی اسی مہینے دس محرم کو فرعون غرق ہؤا۔ حضرت یونس ؑ مچھلی کے شکم سے باہر آئے ۔ حضرت ادریسؑ مکانِ عُلیا پہنچے ۔حضرت ایوبؑ کو شفا نصیب ہوئی ۔ حضرت دائودؑ کی توبہ قبول ہوئی حضرت سلیمانؑ کو سلطنت ملی۔ عاشورہ محرم میں اللہ تعالیٰ عرش پہ جلوہ گر ہؤا ۔ اسی مہینے قیامت آئے گی … (ملخص الحدیث از غنیۃ الطالبین)
اسلام سے پہلے لوگ عاشورہ محرم کا روزہ رکھتے تھے اور اس کے خاتمہ پر عید کی خوشی مناتے تھے ۔ ابتدائے اسلام میں عاشورہ محرم کا روزہ فرض تھا ۔ جب رمضان المبارک کا روزہ فرض ہو گیا تو عاشورہ محرم کے روزے کی فرضیت منسوخ کردی گئی ۔ البتہ مستحب تسلیم کیا گیا ۔
جب حضورؐمدینہ تشریف لے گئے تو انہوں نے یہودیوں کو عاشورہ محرم کا روزہ رکھتے دیکھا ، آپ نے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ ہماری فرعون سے نجات کا دن ہے … اس دن حضرت موسیٰؑ نے شکرانے کے طور پر روزہ رکھا ۔آپ ؐنے فرمایا۔
’’حضرت موسیٰؑ کے ساتھ موافقت رکھنے میں ( ان کی خوشی میں شریک ہونے کے ) ہم زیادہ حق دار ہیں ۔ آپ نے خود بھی روزہ رکھا اور اپنے ساتھیوں کو بھی عاشورہ محرم کا روزہ رکھنے کی تلقین کی۔‘‘ ( بخاری و مسلم)
یہودیوں کے ساتھ مشابہت سے بچنے کی خاطر آپؐ نے فرمایا اگر میں اگلے سال دنیا میںموجود ہؤا تو محرم کی نو اور دس تاریخ کو روزہ رکھوں گا ۔ آپؐ اگلے سال اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے لیکن آپ کی تاکید اور حکم باقی رہا ۔ صحابہ کرام ؓ نے اس ارشاد پر عمل کیا اور دسویں کے ساتھ نو یا گیارہ تاریخ کا روزہ رکھا۔
دسویں محرم کا روزہ رکھنا کس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ حضور اکرمؐنے ارشاد فرمایا رمضان المبارک کے بعد محرم الحرام کا روزہ رکھنا افضل ہے (مسلم)
اور فرمایا کہ عاشورہ کے دن روزہ رکھنے سے ایک سال کے گناہ ( حقوق اللہ) معاف ہو جاتے ہیں( مسلم)
یہ تو ہے محرم اور عاشورہ محرم کی اہمیت کتاب و سنت کی روشنی میں۔مگر مسلمانوں کی اکثریت محرم اور عاشورہ محرم کے بارے میں یہی خیال کرتی ہے کہ اس کا تعلق صرف حضرت امام حسین ؓ سے ہی وابستہ ہے ۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ شیعہ حضرات کے ساتھ دیگر مسالک کے مسلمان بھی بہت سی بدعات میں مبتلا ہورہے ہیں اور ہر سال ان بدعات اور افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔
اکثر مسلمان گھرانے شش و پنج میں مبتلا نظر آتے ہیں کہ ہم اپنی اولادوں کو کیا جواب دیں؟ سکول ، کالج کے طالب علم بہت سے سوال کرتے ہیں والدین ان کو بدعات کی درست تفہیم سے آگاہ کرنا نہیں جانتے … ’’ کیا حرج ہے … ایسا کیا برا ہے ؟… محبت ہی تو کرتے ہیں ‘‘ قسم کے ڈھارس بندھانے والے جملوں کے سوا کچھ نہیں سوجھتا… ایسی محفلوں میں شریک ہونے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی جہاں اعلانیہ بدعات کا دور دورہ ہوتا ہے ۔ بلکہ اب تو سنی گھرانوں میں بھی مجالس و محافل اور جلوس و تقریبات کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے ۔
بدعاتِ محرم
روزہ رکھنے کی بجائے عصر کے بعد کا فاقہ کرنا نوحہ اور ماتم ، گریہ وزاری ، سوگ میں کالے کپڑے پہننا ، رشتہ طے نہ کرنا ۔محرم میں شادی نہ کرنا ، نئے کپڑے نہ سلوانا نہ پہننا، کپڑے الٹ کر کے پہننا، بستر کی چادریں الٹی کر کے بچھاناچار پائی الٹ کر رکھنا وغیرہ وغیرہ ۔
آنحضرتؐنے فرمایا۔
’’جو ماتم کرے ، رخسار اور منہ پیٹے، گریبان پھاڑے ، جاہلیت کی طرح بین ڈالے ،وہ ہم میں سے نہیں ۔ میں اس سے بے زار ہوں جو ماتم میں سر کے بال مونڈے یا بلند آواز سے روئے یا کپڑے پھاڑے (بخاری و مسلم)
آنحضورؐنے نوحہ کرنے والی اور اس محفل میں شامل ہو کر غور سے سننے والی عورت پر لعنت بھیجی ہے ( ابو دائود)
دو باتیں مسلمانوں میں کفر کی ہیں۔ نسب میں طعن کرنا اور میت پر نوحہ کرنا (مسلم)
تمام امت کے علمائِ حق کا اس بات پر اتفاق رہا ہے کہ نوحہ اور جاہلیت کے طریقہ پر بین کرنا حرام ہے ۔
علامہ ابن حجر مکی صواعق محرمّہ میں فرماتے ہیں کہ
’’اس بات کی بہت تاکید ہے کہ انسان روافض کی بدعات میں مشغول ہونے سے پرہیز کرے ، نوحہ ، ماتم ، بین ڈالنے سے بچے اس لیے کہ یہ سب اعمال و افعال شائستہ ایمان والوں کے اخلاق کے منافی ہیں ۔ اگر نوحہ و غم جائز ہوتا تو رسولؐکی وفات کا دن اس کا زیادہ حق دار تھا (حضوراکرمؐ کی وفات کا دن 12ربیع الاول ہے حوالہ از محسن انسانیت نعیم صدیقی ؒ۔ اس دن تو نبیؐ کی محبت کے دعوے دار چراغاں کررہے ہوتے ہیں )۔ شاہ عبد الحق محدث دہلوی شرح ’’سفرالسعادت‘‘ میں صفحہ 673میں لکھتے ہیں کہ ’’اہل سنت کا دستور یہ ہونا چاہیے کہ عاشورہ محرم کو فرقہ رافضیہ کی نکالی ہوئی بدعات مثلاً مرثیہ ، ماتم و نوحہ وغیرہ سے احتیاط کریں یہ کام مومنوں کے نہیں ہیں… اگر ایسا جائز ہوتا تو نبی اکرم ؐ کی وفات کا دن سب سے زیادہ غم کا دن ہے ۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ منہاج السنہ میں فرماتے ہیں ۔
’’رافضیوں نے عاشورہ محرم کو ماتم کا دن بنا لیا ہے ۔ نوحہ کے شعر و اشعار پڑھتے ہیں ، پیاسے رہتے ہیں ، رخساروں پر طمانچے مارتے ہیں ، گریبان اور کپڑا پھاڑتے ہیں ، کفار کی طرح چیختے چلاتے ہیں … یہ سب بدعات ہیں ۔(ابن تیمیہؒ جیسے بزرگوں کی رخصت کے بعد اب کیا کیا بدعات فرائض میںشامل ہو گئی ہیں قل ،چالیسواں، ماتم کے خون خوار طریقے )حالانکہ ماتم و گریہ زاری ، خود پہ ناروا پابندیاں شرعاً و عقلاً معیوب اور مذموم ہیں سوگ کے بارے میں واضح احکامات و طریقے موجود ہیں ۔
حضور ؐنے فرمایا
’’جو عورت اللہ پر ، قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اس کے لیے جائز نہیں کہ میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے ۔ ہاں اپنے خاوند کے فوت ہونے پر وہ چار ماہ دس دن سوگ کرے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
گویا کسی بھی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ حرام ہے … اور بیوہ عورت پر بھی چار ماہ دس دن سے زیادہ کا سوگ نہیں ۔ اس مدت کے بعد اُس کا سوگ میں رہنا حرام ہے ۔
خلافِ سنت کام کرنا ہر مسلمان کے لیے منع ہے ۔ ہر وقت ہر لمحہ اسوہِ رسولؐ کی پیروی لازمی ہے ۔ مگر حرمت کے مہینوں میں اپنا احتساب اور جائزہ لیتے رہنا زیادہ ضروری ہے ۔ خصوصاً ان خرافات اور بدعات سے بچنے کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے جو خاص دنوں میںرائج ہو گئے ہیں ۔ کیونکہ شیطان نے جن بدعات کے ذریعے مسلمانوں کو اپنا نشانہ بنا رکھا ہے اس کا مقابلہ کرنا اپنے ایمان کو بچانے کے لیے لازمی ہے ۔
عشرہ محرم میں زیب و زینت سے دور رہنا ، شادی نہ کرنا ، اظہار غم میں ننگے سر ننگے پائوں یاننگے بدن رہنا شیطانی سوچوں کا نتیجہ ہیں۔
حضورؐ ایک بار جنازے پر تشریف لے گئے آپ ؐ نے کچھ لوگوں کو دیکھاانہوں نے اظہار غم کے لیے اپنے اوپر سے چادریں اتار رکھی ہیں ۔ آپؐ نے فرمایا ۔
’’کیا تم جاہلیت کا کام کرتے ہو، جاہلیت کی رسم کی مشابہت کرتے ہو ‘‘( سند احمد)
کفار سے ملتی جلتی رسمیں چاہے وہ خوشی کی ہوں یا غم کی مسلمانوں کے لیے ہر گز جائز نہیں ہیں ۔ مرنے والے کی مرثیہ خوانی کے بارے میں ارشادِ نبوی ہے ۔
’’مرثیہ خوانی سے دور رہو…‘‘ ( ابن ماجہ)
مرثیہ خوانی کرتے کرتے لوگ ہجو پر اتر آتے ہیں ۔ ایک کی محبت میں شدت ظاہر کرنے کے لیے دوسروں کی ہتک کرتے ہیں ۔
حضورؐ نے فرمایا۔
’’میرے اصحاب کو گالی مت دینا ‘‘(بخاری و مسلم)
’’ڈرو اللہ تعالیٰ سے میرے اصحاب کے بارے میں ( تین بار ارشاد فرمایا)
’’ان کو میرے بعد نشانہ مت بنا لینا (یعنی ان کی برائی نہ کرنا) جوان کو دوست رکھتا ہے وہ مجھے دوست رکھتا ہے ۔ جو ان سے دشمنی رکھتا ہے تو گویا وہ مجھ سے دشمنی رکھتا ہے ۔‘‘
علامہ نوویؒشارح مسلم میں تحریر فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ کو گالی دینا حرام ہے ۔ علامہ غزانیؒ احیاء العلوم میں فرماتے ہیں ۔
صحابہؓ کے باہمی اختلافات اور نزاعات کو مجالس میں بیان نہیں کرنا چاہیے ۔ کیونکہ یہ ( بشری کمزوریوں کو زیر بحث لانے سے ) صحابہ کرام ؓ کے بارے میں کینہ پیدا کرنے کا باعث ہے ۔ ہم تک دین ان کے ذریعہ سے پہنچا ہے … صحابہ کرام ؓ ہمارے محسن ہیں ۔ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ
’’ان محفلوں میںشامل ہونا ( چاہے کسی بھی نیت سے ہو مثلاً دوستی نبھانا ) درست نہیں جہاں بزرگوں کی ہجوکی جاتی ہو … واقعات میں اپنی مرضی سے کمی بیشی کر کے سنایا جاتا ہو ، فرضی داستانیں سنائی جاتی ہوں ۔ بدعتی مجالسی میں شریک ہو کر ان کی تعداد بڑھانا بدعتی عمل میں شراکت ہی ہے ۔ ‘‘
’’جو شخص کسی قوم کے مجمع کو بڑھائے وہ اسی میں سے ہوگا اور کسی بدعتی کے کام کو پسند کرے وہ اسی کام میں شریک ہوگا (فتاویٰ عزیز یہ جلداول صفحہ72,71)
’’جو کسی قوم سے مشابہت رکھتا ہے وہ اسی کے ساتھ اٹھایا جائے گا ۔‘‘( ابودائود)
اسی طرح نذرو نیاز کے حوالے سے غیر اللہ کا نام لیا جانا بھی کافرانہ روش ہے ۔
وہ کھانا اسی طرح حرام ہے جیسے سُؤر کا گوشت کھانا حرام ہے ۔
’’تمہارے لیے حرام کیا گیا ہے مردار ، خون ، سُؤر کا گوشت اور جس چیز پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو ۔‘‘(البقرہ)
ایسی نذر ماننا بھی حرام ہے اور کسی اور کی طرف سے ایسے کھانے کو لینا اور کھانا بھی حرام ہے ۔ حدیث ہے
اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی کے کاموں میں نذر کو پورا مت کرو ( ابو دائود) حضرت امام حسین ؓ نے جس گھر میں تربیت پائی وہ نمونے کا گھر تھا ۔ اور حضرت امام حسین ؓ کے بارے میں حضور اکرم ؐنے جس محبت کااظہار فرمایا اس کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کا ایمان ہے کہ وہ بھی خانوادۂ رسولؐ سے محبت و تعظیم میں کمی نہ کرے …اس لیے کہ اس گھرانے کو دنیاو آخرت میں فلاح و سعادت کی خوشخبریا ںسنائی گئیں ۔ پدرانہ محبت کی تسکین جن نفوس میں حضورؐ نے پائی وہ ہمارے لیے قابلِ احترام و محبت ہیں ۔ صحابہ کرام ؓ اور خلفائے ثلاثہ( حضرت ابو بکر ؓ، عمرؓوعثمانؓ) نے ان سب نفوسِ قدسیہ کی ایسی ہی عظمت و توقیر کی جیسا کہ ان کا حق تھا ۔ آپس میں ان سب کی رشتہ داریاں تھیں۔ تو آج جو حضرت امام حسین ؓ کے حقوق کے غاصب بنا کر پیش کیے جاتے ہیں ان کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ وہ امام حسینؓکے رشتہ دار بھی تھے ۔ ان سے حضرت فاطمہ ؓ حضرت علی ؓ اور امام حسن ؓو حسینؓ کی قرابت داری اور محبت کے رشتے قائم تھے … وہ ان صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کر کے امام حسین ؓ کی نظر میں کیا مقام بنا رہے ہیں ۔حضرت امام حسنؓ اور حسینؓ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں ( ترمذی) یہ دونوں میرے دنیا کے دو پھولہیں ( بخاری )
علیؓ، فاطمہؓ ،حسنؓ و حسینؓ سے جو جنگ کرے گا ، میں بھی ان سے جنگ کروں گا ۔ جو ان سے صلح رکھے گا میں بھی ان سے صلح رکھوں گا ( ترمذی)
حضرت فاطمہؓ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں( ترمذی)
یہ پورا گھرانہ انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر سب مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہے کیونکہ حضوراکرمؐ نے ان سب پر خصوصی شفقت فرمائی اور تربیت میں سب سے زیادہ حصہ ان کو ہی ملا ۔ اسی تربیت وتعلیم کا ہی نتیجہ تھا کہ ان کی زندگی حق کے لیے وقف تھی اور حق کی خاطر انہوں نے جان قربان کر دی اور اپنی شہادت سے پہلے حضرت امام حسینؓ نے وصیت فرمائی تھی جو اسوہ حسینؓ میں درج ہے ۔
’’میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ جب دشمن کے ہاتھوں قتل کر دیا جائوں تو میرے ماتم میں گریبان چاک نہ کرنا ، اپنے رخساروں پر طمانچے نہ مارنا ، اپنے منہ کو زخمی نہ کرنا ۔‘‘ (اسلامی خطبات جلد اول ۔صفحہ633)
حضرت امام حسین ؓ کی یہ وصیت اپنے نانا محمدؐکی تعلیمات کے عین مطابق تھی… مگر وہ کیا عوامل تھے کہ اس وصیت کی خلاف ورزی شروع ہوئی اور پھر اس خلاف ورزی میں اضافہ ہوتا چلا گیا جو تاحال جاری ہے ۔
امام حسین ؓ کی شہادت کے بعد دنیا میں سب سے پہلے نوحہ و ماتم کرنے والا بقول شیعہ حضرات کے خود یزید تھا ۔
ملا جعفر اپنی مشہور کتاب جلاء العیون میں لکھتے ہیں کہ
’’جب اہل حسینؓ کا قافلہ کوفہ سے دمشق آیا اور یزید کے دربار میں پیش ہؤا تو یزید کی بیوی ہندہ بے تاب ہو کر بے پردہ دربار یزید میں چلی آئی۔ یزید نے دوڑ کر اس کے سر پر کپڑا ڈال دیا اور کہا کہ گھر کے اندر جائو اور آلِ رسولؐ پر نوحہ و ماتم کرو ۔ ابن زیاد نے ان کے بارے میں عجلت سے کام لیا ۔ میں قتل ِ حسینؓ پر ہر گز راضی نہ تھا ۔‘‘(جلا العیون صفحہ256)
اہل بیت یزید نے زیور اتار کر لباس ماتم پہنا ، صدائے گریہ و ماتم بلند کیا ، یزید کے گھر تین روز تک ماتم برپا رہا ( جلاء العیون صفحہ 256)
نواسخ التاریخ صفحہ 278اور منہج صفحہ 328میں اسی طرح کے ماتم کا ذکر کیا ہے ۔امام حسین ؓ پر نوحہ و ماتم کا پہلا دن تھا جو یزید کے محل میں برپا ہؤا ۔
قتل حسینؓ سے بری الذمہ ہونے کے لیے یزید نے ’’چور مچائے شور‘‘والا معاملہ کیا ۔ یزید کے انتقال کے بعد دوسرا شخص مختار ثقفی ہے جس کے متعلق حضورؐ نے نا پسندیدگی کے ساتھ ذکر کیا اور اس نے امام حسین ؓ کی شہادت کو اپنے حق میں مفاد کی خاطر عجیب رنگ دیا کہ مرثیہ خوانی ، نوحہ خوانی کی مجالس کا اہتمام کیا اور محبتِ حسین ؓ ہونے کی ایسی بدعتی رسوم کو تاویل بنایا 67ھ میں اس کا انتقال ہؤا۔
تیسراشخص معزالدولہ ہے جس نے سب سے پہلے بغداد میں بزور حکومت عشرہ محرم میں نہایت دھوم دھام سے رسمِ ماتم منائی اور مخالفین ( نام نہاد ) پر زبانِ طعن و دشنام کا اضافہ کیا ( تاریخ ِ ابن خلدون جلد 3صفحہ 425) معز الدولہ نے حکم دیا کہ سب دوکانیں بند کر دی جائیں ۔ خرید و فروخت کا کام روک دیا جائے … لوگ ماتم کریں ، کمبل کا لباس پہنیں ، عورتیں پراگندہ بال اور بین کرتی ہوئی ، سینے پہ دوہتڑ مارتی ہوئی شہر کا چکر لگائیں۔(کامل ابن اثیر جلددوم صفحہ197)
سید امیر علی ’’سپرٹ آف اسلام‘‘ میں صفحہ 461پرلکھتے ہیں کہ معز الدولہ نے بیادگار شہادت امام حسین ؓ و دیگر شہدائے کربلا، عاشورہ محرم کو ماتم کا دن مقرر کیا ۔ مولوی اعجاز حسین شیعی اپنی کتاب مرقع کربلا میں صفحہ 78، 79میں بحوالہ تاریخ الخلفاء تسلیم کرتے ہیںکہ معز الدولہ پہلا بادشاہ مذہب امامیہ پر تھا اور اس نے سرکاری طور پر ماتم کا اہتمام کیا ۔ یزید کے گھر سے شروع ہوتی یہ بدعت مختار ثقفی اور معز الدولہ کے ذریعے یہاں تک آ پہنچی …اب وہ ایک مذہبی فریضہ بن گیا ہے ۔ جس میں شیعہ کے علاوہ دوسرے مسلمان بھی ملوث ہو گئے ہیں ۔ امام زین العابدین نے جب دیکھا کہ کوفہ کے لوگ ماتم و گریہ میں مبتلا ہیں تو فرمایا۔
’’یہ لوگ رو ررہے ہیں حالانکہ ان ہی لوگوں نے ہم کو قتل کیا ہے۔‘‘(احتجاج ۔ طبری صفحہ156)
ماتم کے علاوہ ایک خاص رسم تعزیہ داری ہے ۔ تعزیہ کے لغوی معنی کسی مصیبت زدہ کو صبر کی تلقین کرنے اور اس کے لیے تسکین کی دعا کرنے کے ہیں۔ کسی کی موت پر صبرکی تلقین کرنا ، ڈھارس بندھانا تعزیت کرنا کہلاتا ہے محرم کا تعزیہ یوں ہے کہ امام حسین ؓ کے روضہ مبارک کی ایک نقل تیار کی جاتی ہے جس کو سجایا جاتا ہے … ہزاروں مرد اور عورتیں اس کے پاس دست بستہ تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے ہیں ۔ جھک جھک کر سلام و سجدہ کرتے ہیںاور اپنی منتیں، مرادیں ، دعائیں کرتے ہیں… اس کے زیر سایہ آنے کے لیے ، اس کو ہاتھ لگانے کے لیے خلقت ٹوٹی پڑتی ہے کہ آفات و بلیات کے دور ہونے ، اور مرادیں پوری ہونے کا یہی ذریعہ ہے ( استغفر اللہ)
مولانا شاہ عبد العزیز دہلویؒ تحفہ اثناء عشریہ باب گیارہ میں رقم طراز ہیں کہ ’’کسی چیز کی صورت اور نقل کو اصل ٹھہرالینا ایک وہم ہے ( دنیا میں بت پرستی کا پہلا قدم اسی وہم کا نتیجہ ہے )شیعہ حضرات بھی اسی وہم میں مبتلا ہیں یہ حضرت علیؓ ، حضرت فاطمہؓ اور حسنؓ و حسین ؓ کی قبروں کی نقل بنا کر خیال کرتے ہیں کہ یہ ان کی نورانی قبریں ہیں… فاتحہ و درود و سلام پیش کرتے ہیں ، سجدے کرتے ہیں ، مکھیوں سے بچانے کے لیے مور چھل ہلاتے ہیں ۔(مختصرازتحفہ)
شرکیہ رسم کیسے چلی ؟
علامہ جلدل الدین سیوطی تاریخ الخلفاء صفحہ 277میںذکر کرتے ہیں کہ 341؁ھ میں ایک گروہ جو تنا سخ کا قائل تھا ، ظاہر ہؤا ۔ ان میں سے ایک نوجوان شخص نے دعویٰ کیا کہ حضرت علیؓ کی روح اس کے اندر حلول کرگئی ہے اور اس کی بیوی کا دعویٰ تھا کہ حضرت فاطمہ ؓ کی روح اس کے اندر آگئی ہے ۔ اسی گروہ کے ایک شخص نے دعویٰ کیا کہ وہ خود جبرئیل ہے ۔خلیفہ وقت کو معلوم ہو‘ا ( مطیع باللہ القاسم) تو اس نے ان لوگوں کو عبرت کا نشان بنانے کا حکم دیا ۔ تب اس گروہ نے مکرو فریب سے کام لے کر خود کو اہل بیت کے ساتھ منسوب کر لیا … معز الدولہ شیعی نے ان کو سفارش کر کے بچا لیا۔
معز الدولہ کی نسبت امام سیوطی ؒ فرماتے ہیں کہ ’’ یہ اُس کے لغتی کاموں میں سے ہے یاد رہے یہ وہ ہی شخص ہے جس نے میلاد کی محافل برپا کرنے کی رسم سرکاری طور پر ابتدا کی تھی۔علامہ سیوطیؒ نے اپنی کتاب میں مزید لکھا کہ
معز الدولہ کے بعد اس کے بیٹے عزالدولہ نے مذہب شیعہ امامیہ کی ترویج کی اور اسی نے اذان میں کلمہ بڑھایا ’’حیِّ علی خیرالعمل‘‘ اس کے معاون جعفر بن فلاح نے اس کو دمشق میں پھیلا دیا ۔ تابوت سکینہ یا امیر کی کرسی کے متعلق علامہ عبد الکریم شہر ستانی الملل و النحل کے صفحہ 84میں درج کرتے ہیں کہ
’’ وہ ایک پرانی کرسی تھی جو طفیل بن جعدہ کسی روغن فروش کی دوکان سے اٹھا لایا تھا اور اس سے حضرت علیؓ کا کوئی تعلق نہ تھا۔جس پر مختار ثقفی نے ریشمی غلاف چڑھا کر اور خوب آراستہ کر کے ظاہر کیا کہ حضرت علیؓ کے توشہ خانہ سے ملی ہے … جب کسی دشمن سے جنگ کرتا تو صف اول میں اس کرسی کو رکھ دیتا اور لشکر سے کہتا کہ یہ تابوتِ سکینہ تمہارے درمیان بنی اسرائیل کے تابوت کی مانند ہے ۔ اس سے دلوں کی تقویت و تسکین ملتی اور فرشتوں کے نزول کا موجب ہے (الملل و النحل صفحہ 84) مزید لکھتے ہیں کہ تیموری عہد میں چونکہ بادشاہ ، وزراء اور سب اشرافیہ شیعہ تھے ، وہ اپنی سیاسی و حکومتی مصروفیات کی بنا پر ہر سال کربلا نہیں جا سکتے تھے … امیر تیمور نے کربلا سے امام حسین ؓ کے روضہ کی نقل کرا کے ، زیارات کا ثواب گھر بیٹھے حاصل کرنا آسان کردیا۔ایک اور بات قابل غور ہے کہ اسی زمانے میں احادیث کے وضع کرنے کا رحجان زوروں پر تھا۔
خطیب بغدادیؒ نے ایسے متعدد افراد کے اعترافات نقل کیے ہیں جو انہی گمراہ فرقوں میں سے کسی فرقہ سے تعلق رکھنے والے تھے ۔بعد میں جب ان کو توبہ کی توفیق ہوئی تو انہوں نے اس فتنہ گری کی نوعیت سے لوگوں کو آگاہ کیا کہ جب ہم چاہتے کہ اپنی کسی بدعت کو دین ثابت کریں(کیونکہ قرآن میں تحریف کرنا ممکن نہ تھا ) تو سب سے زیادہ سہل طریقہ یہ تھا کہ اس کو حدیث کا جامہ پہنایا اور لوگوں میں پھیلا دیا ۔ اس طرح جو جھوٹ پھیلایا گیا اس کی مقدار معمولی نہیں ہے بلا مبالغہ لاکھوں کی تعداد بنتی ہے ۔ مثلاً ایک صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے حماد بن زید سے سنا کہ زنا دقہ نے بارہ ہزار حدیثیں گھڑ کر پھیلا دیں ( الکفایۃ فی علم الروایۃ از مبادی تدبر حدیث از امین احسن اصلاحی)
حماد بن زید ۔ جعفر بن سلیمان سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے مہدی سے سنا کہ وہ لکھتے تھے کہ زنادقہ میں سے ایک شخص نے خود میرے سامنے اقرار کیا کہ اس نے چار سو روایتیں گھڑ یں اور لوگوں میں پھیلا دیں (الکفایۃ فی علم الروایۃ مبادی تدبر حدیث ، از امین احسن اصلاحی)
اسی ضمن میں عاشورہ کی بابت یہ حدیثیں پھیلائی گئیں کہ
جو شخص عاشورہ کے دن اپنے اہل و عیال کو کھانے اور کپڑے کی وسعت کرے تو اللہ تعالیٰ سارا سال فراخی عطا کرتا ہے
جو عاشورہ کو سرمہ لگائے سارا سال آنکھوں میں درد نہ ہوگا۔
جو عاشورہ کو غسل کرے سارا سال بیمار نہ ہوگا۔
یہ سب موضوع الحدیث ہیں ۔ جو لوگوں نے اپنی بدعات کو مستحکم و قابل قبول کرنے کو وضع کی تھیں اس صورتحال کو سامنے رکھ کر یہ بات ذرا بھی تعجب انگیز معلوم نہیں ہوتی کہ امام بخاری ؒ اور امام مسلم ؒ نے لاکھوں حدیثوں کے انبار میں سے چند ہزارحدیثیں پائی ہیں جن سے مجموعے تیار ہوئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان قدسی نفوس کے درجات بلند فرمائے جنہوں نے بدعات اور جاہلیت کے اندھیروں میں سنت و شریعت کے چراغ روشن کیے … لیکن اب بھی ایسے ایسے کام مذہب کے نام پر کیے جاتے ہیں جن میں مشرک اقوام سے بدرجہامشابہت پائی جاتی ہے ۔
خود اپنے ہاتھوں سے نقلی چیزیں بنا کر ان کی پرستش کرنا … بت پرستی نہیں تو کیا ہے ؟ صرف چیزوں اور شکلوں کا فرق ہے … ورنہ بت پرستی اور کیا ہوتی ہے ؟ شرک یہی کچھ تو کہلاتا ہے …
سورۃ توبہ کی آیت جس میں مہینوں کی حرمت کا ذکر ہے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ۔
’’ان مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو … اور مشرکوں کے خلاف متحد ہو کر لڑو۔‘‘
’’ظلم‘‘ کو قرآن میں شرک سے بھی تشبیہہ دی گئی ہے ۔
اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِْیْمٌ(لقمان)
بے شک اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک ، ظلم عظیم ہے ۔
محرم مہینوں میں خصوصاًمحرم الحرام میں شرک کے مناظر اُتنے ہی زیادہ ہیں تو مشرکوں کے خلاف لڑنے کون اٹھے گا ؟ مسلمان خود کسی نہ کسی طور پر شرک میں مبتلا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
’’ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرے گا اللہ تعالیٰ اُس کے اوپر جنت حرام کر چکا … اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور ظالموں ( مشرکوں ) کا کوئی مدد گار نہ ہوگا ( المآئدہ)
مشرک صرف بت کو پوجنے والے ، نبی کو بیٹا بنانے والے ، ستاروں اور دیگر مخلوق اور مادی اشیاء کی پرستش کرنے والے نہیں ہوتے ،قبروں ، تعزیوں ، اماموں کے ساتھ وابستگی ویسی جیسی کہ اللہ تعالیٰ سے ہونی چاہیے ، بھی سراسر شرک ہے ۔
کرے غیر گر بت کی پوجا تو کافر
جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر
جھکے آگ پر بہر سجدہ تو کافر
کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مومنوں پرکشادہ ہیں راہیں
پرستش کریں شوق سے جسکی چاہیں
محبت میں غلو، افراط و تفریط کا شکار احترام ہمارے لیے اُمت مسلمہ کے لیے ستم قاتل ہیں … اس کا علاج نہ ہؤا تو ہماری بحیثیتِ مسلمان داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں … کیا کبھی مومن و مشرک برابر ہو سکتے ہیں ؟ حضورؐکی امت کے ایک فرد کی حیثیت سے اور خانوادۂ رسول ؐ کے ساتھ محبت کرنے ، ان کے عاشق ہونے کا ثبوت صرف اسی صورت میں قابل قبول ہو سکتا ہے جب اسوہ رسولؐ اور ان کے نقشِ قدم پہ چلنے والوں کی سیرت کو مشعل راہ بنائیں۔
جنت میں داخل ہونے کی اور جنت کے اماموں کے ساتھ رہنے کی تمنا ہے تو پھر حضرت علی ؓ جیسا سچا اور پختہ ایمان چاہیے کہ جب کوئی ساتھ نہ دے رہا تھا تو اس بچے نے اقرارِ حق کیا اور شہادت حق میں اپنی آخری سانس تک کھپا دی … خواتین جنت کی امام ، سربراہ اور سردار کے ساتھ رہنا دل کو بے تاب رکھتا ہے تو اسوۂ بتولؓ کو اپنایا جائے ۔ اپنے بیٹوں کو حسنؓ و حسین ؓ کی سیرت میں ڈھالنے کا عزم کیا جائے ۔ نوجوانو! اللہ کے نبیؐ ، اللہ تعالیٰ کے محبوب حضرت محمدؐکے ’’پھولوں‘‘ جنت کے نوجوانوں کے سردار وں کی معیت چاہئے تو حق کا بول بالا کرنے کو مقصد زندگی بنائو ۔ حق کی خاطر جان قربان کرنے کو حقیقی زندگی جانو ۔ امت اور ملک و قوم کی خدمت کے دعوے دار و! حکومت کے ایوانوں میں حق کی آواز بلند کرنا سیکھو … مفاد پرست حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا مدعا بیان کرنے کا عزم کرو… تاریخ سے سبق سیکھو ، حق کا بول بالا اور باطل کا منہ کالا ہی ہوتا ہے … مگر اس کے لیے علی ؓ کی شجاعت ، فاطمہ ؓ کی سی پیرویٔ رسولؐ،حسنؓ کی سی حکمت و جذبہ خیر خواہی ، حسینؓ کی سی دلیری اور اصولوں پہ ڈٹ جانے کا حوصلہ چاہیے ۔ اس لیے کہ آزمائش کے بغیر کوئی سند قبولیت نہیں ملتی … کامیابی آزمائشوں کی بھٹی سے گزر کر کندن ہوجانے کا نام ہے … کوئی ہے جو خود کو کندن بنانے کے لیے آمادہ ہو؟
قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
٭٭٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
4 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x