ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

آخرِ شب – بتول جون ۲۰۲۱

’’مجھے سب یاد ہے جو آپ نے ہم لوگوں کے ساتھ کیا۔ میری بیوی کا ذرا خیال نہ کیا۔وہ بے چاری بیمار تھی اور آپ نے‘‘۔
غصہ کے مارے اس کی آنکھیںسرخ ہورہی تھیں۔مریم سخت حیرت سے اس کی شکل دیکھ رہی تھی۔اسے یقین نہیں آرہا تھا یہ اس کا بیٹا بول رہا تھا۔
’’آہستہ بولو بیٹا ماسی بھی گھر میں ہے‘‘اس نے بمشکل کہا۔
’’نہیں بولوں گا آہستہ…..ساری دنیا سن لے…..سمیں کسی سے نہیں ڈرتا۔ہر بات میرے دلِ پہ لکھی ہے۔ آپ نے کیا کیا نہیں کیاہمارے ساتھ…..سمیرے بچوں کوکبھی نہیں بلایا کبھی ان کو نہیں سنبھالا‘‘۔
وہ ایسے چیخ رہا تھا کہ اب مریم کو اس سے ڈر لگنے لگا تھا۔ اس کی دھمکیاں،اس کے دعوے…..سب اس کے دلِ پر لگ رہے تھے۔
’’خود کشی کرلوں گا میں۔ختم کردوں گا سب کچھ‘‘۔
’’ارے بیٹا کیا ہو گیا ہے ایسا کیا کر دیا ہم نے….. تمہاری بیوی کی خواہش تھی کہ وہ الگ گھر میں رہے گی تو ہم نے پوری کر دی۔ اب تمہیں اس پر بھی شکوہ ہے؟‘‘
’’ہاں ہاں اب تو یہ بھی کہیں گی آپ۔خود تو اتنے بڑے گھر میں آرام سے ہیں آپ لوگ اور میںایک سو بیس گز کے گھر میں مر رہا ہوں۔کبھی لائٹ نہیں کبھی پانی نہیں‘‘۔
’’بیٹا ہم بھی شروع میں ذرا سے دو کمرے کے فلیٹ میں رہتے تھے۔ زندگی ایسے ہی شروع ہوتی ہے۔تمہیں بھی‘‘۔
’’بس آپ مجھے دلاسے نہ دیں میں کوئی بچہ نہیں ہوں۔سب جانتا ہوں۔آپ کو کبھی مجھ سے محبت نہیں تھی‘‘۔
غصہ کر کر کے جیسے اس کا سر گھومنے لگا اور وہ چکرا کر صوفے پر گرساگیا۔
’’خدایایہ کیا ہو گیا ہے!اس کے دماغ میں کس نے یہ زہر بھر دیا…….صرف پانچ چھ مہینے میںیہ حال ہو گیا؟نہیں بھئی یہ کام تو پچھلےتین سال سے ہی ہو رہا ہے۔ کیا جو لڑکیاں ہم پیارسے سجاکر اپنے گھر لاتے ہیں ان کی ماں نہیں ہوتی جو ان کے دل میں دوسروں کی ماؤں کے لیے اتنا زہر بھرا ہوتا ہے کہ جس سے چھو جائیں اس کو بھی ایسا کڑوا کر دیں؟یہ جان لینے والی کڑواہٹ…..‘‘مریم دونوں ہاتھوں میں سر تھامے سوچے گئی۔
وہ تو پہلے ہی مجھ سے اتنا بدگمان تھا۔اور اب تواس کی نفرت کو ہوا دینے والی بھی موجود ہے۔مریم کا ایک ایک عضو کانپ رہا تھا۔مگرراشد تھا کہ چیخےہی جا رہا تھا۔
پھرکب راشد گیا،کب ماسی دروازہ بند کر گئی،اسے کچھ پتہ نہ تھا۔خوف سے وہ بے دم تھی۔ اگر اس نے خود کشی کر لی تو…… نہیں نہیں راشد تو میری زندگی ہے،اللہ اس کی حفاظت کرے۔اس کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔
پورا ہال تالیوں سے گونج رہا تھا۔
’’پہلا انعام مریم عثمان‘‘۔
میڈم عروسہ خوشی سے گلنار ہوتے ہوئے چہرے کے ساتھ اعلان کر رہی تھیں۔مریم نے نہ صرف اپنی کلاس میں بلکہ پورے اسکول میں پہلی پوزیشن لی تھی۔
دو چوٹیاں باندھےسرخ سفید چہرے والی مریم عثما ن چمکتی سبزی مائل آنکھوں کے ساتھ اسٹیج کی طرف بڑھ رہی تھی۔ لڑکیاں جوش میں اب کھڑے ہو کر مسلسل تالیاں بجا رہی تھیں۔ہر چیز میں پہلے نمبر پر آنے والی مریم تمام ہی اسکول کو بے حد عزیز تھی۔اتنی خوبیوں کے ساتھ اس

کاانکسار اور ہر لمحہ تمیز سے جھکی آنکھیں ہر ٹیچر کا دِل چھو لیتی تھیں، ہر لڑکی اس کی گرویدہ تھی۔اس کے سینے پر ہیڈ گرل کا بیج چمک رہا تھااور اندر اک محبت کرنے والا دل دھڑک رہا تھا۔تقریر کا میدان ہویا مباحثہ کا موقع ہو،جیت مریم عثماناور صرف مریم عثمان کے نام ہوتی ۔
وہ اسٹیج پر جاتی تو جیسے ہر نگاہ اس کے لیے تعریف کی نگاہ بن جاتی۔پھر اس دِن تو وہ بڑی خوش تھی جب اسے بہترین رائٹر کا انعام ملا تھا۔آج پھر اس کی محنت کا صلہ مل رہا تھا اور شاید محنت سے زیادہ دعائیں جو اس کی امی ابو اسے ہر دم دیتے تھے۔ان کی خدمت جو وہ ہر چیز پر مقدم سمجھتی تھی۔اس بار تو اسے بہت شرم بھی آئی جب پھپھو نے اپنے بیٹے کی شادی پر اس کے گلابی رنگ کے غرارے کی تعریف کرتے ہوئے یہ اعلان بھی کر دیا کہ بھئی ہمارے خاندان کی سب سے خوبصورت لڑکی کا انعام بھی اسے ملنا چاہیے۔
’’اللہ میری توبہ….. پھپھو کو کیا ہو گیا ہے!اب اسقدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے‘‘۔موقع کا شعر تو کوئی اس سے سنے۔بیت بازی کا مقابلہ ہو یا مضمون نویسی کا،سب سے آگے مریم عثمان۔
زندگی گزرتی گئی۔ اللہ نے شوہر بھی اتنا پیار کرنے والا دیا کہ سب ہی اس جوڑی کی تعریف کرتے تھے۔ساس الگ نثار تھیں اور علی احمد تو اسی پر خوش تھے کہ مریم نے سب کے دل جیت لیے۔ اب وہ مریم عثمان سے مریم علی بن گئی تھی۔
اللہ نے اسے صلہ بھی اک پیارا سا بیٹا دیا جس کا نام راشد رکھا۔وہ بھی اسقدر پیارا بچہ تھا اور ذہین اتنا کہ واقعی مریم کا بیٹا کہلانے کا مستحق تھا ۔ہاں دل کا بھی اتنا ہی نرم تھا۔پھر دو سال بعد اللہ نے اسے اک چاند سی بیٹی سے بھی نوازدیا۔جو دیکھتا دیکھتا رہ جاتا…..بینا بالکل مریم کی کاپی تھی۔
مگر کون جانتا تھا کہ وہ جو ہر دم پر مقابلہ میں پہلے نمبر پر تھی آزمائش میںبھی بلندی کی آزمائش پر جائے گی!
ابھی بینادو سال کی ہی ہوئی تھی کہ پتہ چلا اس کی آنکھ میں اک نکتہ سا ہے۔کچھ خاص نمایاں نہ تھا مگر اک بے چینی سی تھی۔
’’ٹیسٹ کروالینے میں پتہ چل جائے گا‘‘۔
علی احمد کا اصرا ربینا کو ہسپتال لے گیا۔
’’بینائی ذرا کمزور ہے۔اور مزید کم ہوتی جائے گی‘‘۔
’’مگر کیوں؟‘‘ مریم کو اک کھٹکا سا لگ گیا۔
اس کے کزن انہی دنوں امریکہ سے اسپیشلسٹ بن کر آئے تھے۔انھوں نے رپورٹس دیکھیں تو چپ سے ہو گئے۔ایک نیا ٹیسٹ لکھ کر دیا ۔اب علی احمد کو پریشانی لگی کیونکہ یہ ٹیسٹ معمولی نہ تھا۔بینائی کی آنکھ میں کینسر کی ا بتداتھی۔ہر کوئی حیران تھا مگر ایسا ہی تھا۔
دوسال کے علاج کے لیے دونوں میاں بیوی بیناکو لے کر امریکہ روانہ ہو گئے۔راشد اکیلا دادی کے پاس رہ گیا۔وہ ہر رات بہت روتا۔دادی بے چاری بہت بہلاتی مگر ماں کہاں سے لاکر دیتیں !اس نے وڈیو گیم میں پناہ ڈھونڈنی شروع کر دی۔ اب اسے ہر طرف وہی کردار ناچتے نظر آتے۔عجیب خوفناک…..وحشت ناک…..وہ ڈر کے مارے چادر میں منہ چھپا لیتا اور دادی کا دوپٹہ پکڑ کر سونے کی کوشش کرتا۔ ننھے ذہن نے جانے کیا کیا سوچ لیا۔امی ابومجھے چھوڑ گئے،منی کو لے گئے۔میں برا ہوں۔امی کو یاد نہیں آتا۔ امی مجھ سے پیار نہیں کرتیں۔
ہر کہانی اس کی ذہانت سے مل کر اسے مزید خوفناک اور دردناک انجام تک پہنچا دیتی۔
کبھی اپنے دوست کو وہ حسرت سے دیکھتا کیسے اس کے ماما پاپا اسے ساتھ بٹھا کرسکول کی میٹنگ میں لاتے تھے اور وہ دادی کے ساتھ جاتا۔بھلا کوئی مقابلہ تھا اسمارٹ ماما اور عمررسیدہ دادی کا!جانے اس کے معصوم ذہن میں طرح طرح کے گیم کیا کچھ ڈالتے رہے۔ہر گیم میں جو ظالم کردار ہوتا کبھی اسےماما کی طرح لگتا کبھی پاپا کی طرح، جو ظلم کرتا اور مظلوم کی جگہ وہ خود ہوتا۔
دو سال بہت ہوتے ہیں۔ بینا کا آپریشن کامیاب ہو گیا۔اک نہیں کئی بار اسے تھیٹر میں جانا پڑا، بار بار سرجری ہوئی مگر خدا کا کرم کہ وہ سچ مچ بینا بن گئی۔مگر اس کی احتیاطیں ابھی باقی تھیں۔وہ واپس آگئے،راشد چاہتا تھا کہ اب دو سال کے بعد امی ابو صرف اور صرف اس

کے ہو جائیں مگر ایسا نہیں ہو سکتا تھا۔ ابھی بینا کو توجہ دینا ضروری تھا۔
اس نے پھر اپنی الگ دنیا بنا لی۔
مریم اور علی احمد کے آتے ہی ماہِ رمضان آگیا اور اپنے ساتھ نئی مصروفیات لایا۔ راشد کے دکھ کوعلی احمد سمجھ رہے تھے۔ وہ پوری کوشش کرتے کہ اسے ساتھ رکھیں،دفتر سے آکر اسے اپنے ساتھ لٹاتے،رات تراویح میں بھی ساتھ لے کر جاتے مگر راشد تو بس کن انکھیوں سے مریم کو دیکھتارہتا۔عید پر علی احمد نے راشد کے لیے دو سوٹ خریدے اور خاص کر بینا کا ایک۔مگر اب کیا کریں کہ اس کے دل کو پھر بھی قرار نہ تھا۔اس کی دنیا ہی ایسی بن گئی تھی جہاں محبت کا دروازہ بند ہو گیا تھا شاید……مقابلے کا صحن بہت بڑالگنے لگا تھا۔
زندگییونہی گزرتی رہی۔ اپنی محبت سے بینا نے راشد کے دل میں کچھ جگہ بنا لی مگر پھر بھی ابھی بہت جگہ خالی پڑی تھی۔دونوں بچے جوان ہو گئے۔بینا کی شادی کے وقت راشد کا دکھ دیکھنے کا تھا۔ اندر اندر اسے بہن سے خاصی انسیت ہوچلی تھی۔ اس کے ساتھ مل کر کبھی شرارت کرنا، کھیلنا، اب تو اسے ایک بار پھربالکل اکیلے ہو جانا تھا۔یہی بھانپتے ہوئے علی احمد نے فوراً ہی اس کی شادی بھی طے کر دی۔
ظاہر ہے اتنے پیارے بیٹے کی دلہن بھی تو ویسی ہی ہونی تھی۔یہ بھی چیز غضب ڈھاگئی۔راشد نے خالی دل کا ہر کونا عنبر کی محبت سے بھر لیا۔ اب تو جیسے حال یہ تھا کہ وہ دیکھتا تو عنبر کی نگاہ سے،بولتا تو اس کی زبان سےاور سوچتا تو اس کے دماغ سے،سنتا تو اس کے کہنے سے۔
مریم تو پہلے ہی جدائی کے زخموں کے مارے بیٹے کے ساتھ تعلق کے ٹوٹے دھاگے جوڑنے میں ہانپ رہی تھی۔نئی صور تحال درپیش آئی تو بھی لاکھ کوشش کی کہ بات بن جائے۔اس نے ہر طرح سے عنبر کا خیال رکھا۔پہلے بچے کی پیدائش پر سارے گھر میں خوشیاں بھر گئیں۔بینا بھی تحفوں سے لدی ہوئی پہنچی۔مگر عنبر نے ہر چیز میں نقص نکالے۔ہر بات میں شکوہ اورہسپتال سے نکل کر جو اپنی امی کے گھر بیٹے کو لے کر پہنچی تو دو ماہ واپسی کا نام ہی نہ لیا۔ راشد جو محبت کے گھوڑے پر سوار تھا زیادہ تر وہیں رہتا۔مریم ہی جانتی تھی کس کس طرح خاندان میں ملنے جلنے والوں میں بات سنبھالی جب عید پر بھی وہ نہ آئی۔ افطار پارٹیوںمیں بہو اور پوتے کی شمولیت کو مریم کا دل کتنا تڑپتا مگر عنبر کو پروا نہ تھی، راشد جو اس کے ساتھ تھا۔
خدا خدا کر کے گھر واپسی ہوئی تو عنبر کا موڈ بالکل ہی بدلا ہؤا تھا۔ یوں جیسے اسے گھر میں کچھ بھی پسند نہیں، بس مسئلے ہی مسئلے ہیں۔یہ دیکھ کر علی احمد نے سوچا کہ اگر بہو الگ گھر میں رہنا چاہتی ہے تو دل پر پتھر رکھ کر اس کی مرضی پوری کردی جائے۔
الگ ہوکروہ بڑی خوش تھی مگر ہؤا یوں کہ اس کا منا ابھی سال بھر ہی کا ہؤا تھا کہ اللہ نے دوسری خوشخبری اس کو عطا کر دی۔ اب تو وہ بیزار ہو گئی۔پہلی بار والا آرام یہاں کہاں! وہ تو چلتا ہؤا رستا بستا گھر تھا، طبیعت خراب ہوتی تو بارا ایک بجے تک سوئی رہتی۔اب توالٹی متلی کے ساتھ گھراور بچہ بھی سنبھالناتھا۔ہر وقت کا راشد سے بھی جھگڑا۔جب کوئی بس نہ چلتا تو بس مریم پر جھوٹے سچے الزامات جنہیں لے کر راشد ماں باپ کے گھر پہنچ جاتا۔اس کے آگے ہر دم وضاحتیں کر کر کے علی احمد تنگ آجاتے۔
اور آج تو حد ہی ہو گئی۔
کافی دیر مریم بے سدھ صوفے پر پڑی رہی۔باہر گیٹ پر کوئی زور زور سے بیل بجا رہا تھا۔ وہ بمشکل اٹھ کر دروازے تک پہنچی۔مگر دروازہ کھو ل کر جیسے اس کے سارے دکھ دور ہوگئے۔ سامنے امی کھڑی تھیں۔ بھائی انہیں چھوڑ کررات آنے کا کہہ کر چلے گئے اور وہ امی کے گلے سے لگی تو سارے بند ٹوٹ گئے۔دور کہیں ہال تالیوں سے گونج رہا تھا۔ وہ پھر مریم عثمان بن گئی۔
اول انعام ۔
آج آنسوبہنے میں بھی اول انعام ملنا تھا اسے۔امی تو جیسے گھبرا گئیں۔
’’ارے کیا ہو گیا میری بچی……علی تو ٹھیک ہیں نا…..بینا کیسی ہے؟روزہ رکھا ہؤا ہےیا نہیں……طبیعت کیسی ہے؟پانی پلاؤں؟‘‘ انہوں نے گھبرا کر بہت سے سوال کر ڈالے۔

’’کچھ نہیں امی آپ اندر تو آئیں‘‘۔
’’ میں تو اندر ہی آرہی ہوں۔افطار کرنے آئے آئی تھی۔مگر اب تو دِل بیٹھ رہا ہے میرا۔ویسے ہی آج واجبی سی سحری کی ہے ،دیر میں آنکھ کھلی تھی بہو کی‘‘۔
مریم نے آنسو پونچھے، انہیں بیڈ پر بٹھایا اوراے سی آن کر دیا۔
’’کچھ نہیں ہؤا امی۔میں ٹھیک ہوں …..سب ٹھیک ہیں‘‘۔
’’اور وہ راشد کیسا ہے….. اس کی دلہن کیسی ہے؟
راشد کا نام سنتے ہی سارے رکے آنسو پھر بہہ نکلے۔
’’ امی وہ راشد…..‘‘ کچھ کہے بنا چارا کہاں تھا مگر دل اتنا خراب تھا تو کہتی بھی کیسے۔’’ امی روزہ خراب ہو گا کیا برا ذکر کروں!‘‘
’’ارے تو اچھا کر لومیرے بچے‘‘امی نے اسے گلے سے لگا لیا۔ کچھ نہ کہنے سے کیا ہونا تھا سب کچھ اس کے چہرے پر لکھا تھا۔
’’آپ یہ بتائیں آج افطار پر کیا بنائیں؟ اس نے بات بدل دی۔
امی بھی سمجھ گئیں کہ اب جو کہنا ہے مبارک شب میں اس ہی سے کہنا ہے جو سب کی سنتا ہے۔افطار کے بعد وہ شب بیداری کی تیاری میں مشغول ہوگئیں۔ علی احمد دن بھر کے تھکے یہ کہہ کر سو گئے کہ تہجد میں جلد اٹھا دینا۔
کچن سمیٹ کر دونوں ماں بیٹی نماز اور دعاؤں میں مشغول تھیں کہ رات دو بجے زور زور سے کال بیل بجنے لگی۔مریم آنسو پونچھتی بھاگی۔ دروازے پر عنبر کھڑی تھی۔ آٹھویں مہینے کی کمزوری اورتکلیف اپنی جگہ تھی مگر نہ جانے اس کے پیٹ میں درد کیوں اٹھ رہا تھا۔راشد اسے سنبھالتا اندر لے آیا تو مریم نے جلدی سے اسے بستر پر لٹایا۔
شرمندگی سے راشد کی آنکھیں نہیںاٹھ رہی تھیں۔
’’ امی عنبر……امی عنبر آج بیڈ سے بری طرح ٹکرا گئی۔بہت زور سے جھٹکا لگا۔آپ…..آپ عنبر کو بچا لیں……میرے بچے کو بچا لیں‘‘۔
مریم چپ رہی اور عنبر کے پاس بیٹھ کردعائیں پڑھنے لگی۔
نانی کا دِل بھر آیا تھا۔
’’بیٹا تمہیں اپنے بچے کی اتنی فکر ہے۔اللہ اچھا کرے گا۔ویسے اتنی فکر نہ کیا کرو ‘‘۔
’’کیوں نانی؟ وہ میرا بچہ ہے……میرے جسم کا حصہ……میرے دِل کا ٹکڑا‘‘۔
مریم دکھ سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی جیسے کہہ رہی ہو، تم بھی تو کسی کے جسم کا حصہ ہو……دل کا ٹکڑا……بیٹا! کیا پتہ وہ بچہ بڑا ہو کر تم سے خفا ہو جائے۔
شاید قبولیت کا وقت تھا۔ راشد کے دل پر اک گھونسا سا لگا۔ مریم نے آنسو چھپا نے چاہے تو رخ پھیر لیا مگر پھر بھی ایک چنچل آنسو عنبر کے چہرے پر گر گیا۔ اس نے گھبرا کر آنکھ کھولی۔
’’امی آپ رو رہی ہیں؟میرے لیے؟‘‘
ایک لمحے نے اس کی گزشتہ بہت ساری تلخ باتیں، بد گمانیاں، بدتمیزیاں اس کے اپنے ہی کانوں میں انڈیل دیں۔اس نے آہستہ سے مریم کا بڑھا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
’’امی مجھے معاف کردیں میں نے آپ کو بہت دکھ دیے۔دعا کریں میرا بچہ صحیح ہو۔مجھ سے گم نہ ہو‘‘۔
مریم اسے بھیگی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی جیسے کہہ رہی ہو،’’ میرا کھویا بچہ مجھے لوٹا دو……وہ دینے والا تمہارا بچہ ضرور تمہیں دے دے گا‘‘۔
دنوں کی خدمت و محبت وہ اثر نہ ڈال سکی جو سفر ایک لمحے نے طے کر لیا۔مریم نے اثبات میں سر ہلا یا اور عنبر ایسے مسکرائی جیسے اسنے مریم کے دل کی بات سمجھ لی ہو۔راشد نے آگے بڑھ کر ماں کے گھٹنوں پر سر رکھ دیا۔
نانی سب کچھ سمجھ گئی تھیں کہ مریم کو کیا کہنا تھا۔دور کہیں ہال تالیوں سے گونج رہا تھا۔
’’مریم عثمان اول نمبر‘‘۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
3 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x