ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

اے طائر لاہوتی – پروفیسر خواجہ مسعود

علامہ اقبال اپنے اشعار میںجوبھی الفاظ استعمال کرتے تھے ان کا انتخاب لاجواب اور با مقصد ہوتا تھا۔ ’ لا ہوتی‘ تصوف کا وہ درجہ ہوتا ہے جہاں سالک کو فنا فی اللہ کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے وہ انسان دنیاوی حرص و لالچ سے ماورا ہو کر صرف اللہ سے لولگا لیتا ہے اور یہ درجہ بلا شبہ ہر ایک کو حاصل نہیں ہوتا ۔ خال خال متقی انسانوں کو یہ درجہ حاصل ہوتا ہے ۔
تو پھر علامہ نے بجا فرمایا ہے کہ اللہ والے انسان تجھے کبھی گوارا نہ ہوگا کہ اللہ کے سوائے کسی غیر اللہ کے آگے ہاتھ پھیلائے ۔ علامہ خود بھی عشق خدا اور عشقِ رسولؐ میں ڈوبے ہوئے تھے وہ طائر لا ہوتی کو یوں مخاطب کر سکتے تھے کوئی عام انسان ایسی جرأت نہیں کر سکتا تھا ۔
علامہ مسلمانانِ ہند بلکہ تمام عالم اسلام کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ کسی غیر اللہ کے آگے ہاتھ پھیلانا ایک ذلت سے کم نہیں ۔
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نو میدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
اور
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من
اللہ تعالیٰ تو انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہوتا ہے تو کیوں نہ اس خالق حقیقی سے ہی مانگا جائے اسی کے آگے دست حاجت و رازکیا جائے ۔ وہ کبھی اپنے بندوں کو مایوس نہیں کرتا ۔ اُسی پر بھروسہ کیا جائے جو ایک ننھے سے کیڑے کو بھی پتھر کے اندر بھی روزی دیتا ہے ۔ جوجنگل میں ، بیاباں میں ، صحرا میں ، سمندر میں ، پہاڑوں پر ہر جگہ اپنی مخلوق کا روزی رساں ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کی یہ معبود و سخا اور عطا سب کے لیے ہے ۔ مسلم اور غیر مسلم سب کے لیے ۔ وہ تو اپنے منکروں کو بھی روزی دیتا ہے ۔ اپنے رزاق ہونے کی نعمتیں وہ سب پر نچھاور کرتا ہے ۔ لیکن فرق یہ ہے کہ مومن اپنے خالق اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوتا ہے ۔ جبکہ کافربتوں کے آگے جھکتا ہے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان کے رزق سے ہاتھ نہیں کھینچتا۔
کھانا تو سب کھا لیتے ہیں ایک سارا دن بھیک مانگنے والا پیشہ ور بھکاری اور ایک سفید پوش جو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا گوارانہیں کرتا لیکن اس کا روزی رساں بھی اللہ تعالیٰ ہے۔ دن بھر اپنا پسینہ بہا کر مزدوری کرنے والا انسان بھی کھانا کھاتا ہے لیکن عزت کے ساتھ غیرت کے ساتھ ۔ اور رات کو بے فکری کی گہری نیند سوتا ہے ۔ اس لیے علامہ اقبال نے فرمایا ہے ۔
اے طائر لا ہوتی اُس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے سے انسان کی عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے ۔ اس شعر میں علامہ ہمیں خودی کا سبق دے رہے ہیں اور خودی سے یہاں مراد غرور ، تکبر یا انا پسندی نہیں ہے بلکہ عزت نفس،خود داری ، غیرت ، اور حمیت ہے ۔
جو رہی خودی تو شاہی نہ رہی تو رُوسیاہی
ہمارے پیارے رسول پاکؐ نے بھی تو فرمایا تھا کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے جب ایک دفعہ ایک غریب آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہؤا اور اپنی غربت اور تنگدستی کی شکایت کی تو آپ نے اس سے فرمایا کہ گھر میں کوئی چیز ہے ۔ جائو اُسے لائو۔ پھر آپ ؐ کے سامنے اسے فروخت کیا گیا اور آپ نے فرمایا ’’ جائواور اس رقم میں سے بازار جا کر ایک کلہاڑا خریدو ۔ روزانہ لکڑیاں جنگل سے کاٹ کر لایا کرو اور بازار میں بیچا کرو ۔ اور چند دن میں میرے پاس پھر آنا ‘‘۔ وہ چلا گیا ۔چند دن بعد آیا تو خوش تھا اور بتایا کہ اے اللہ کے پیارے رسولؐ اب میری تنگدستی دور ہو گئی ہے ۔ گویا ہمارے پیار ے نبیؐ اکرم نے ہمیں اپنے ہاتھوں سے با عزت روزی کمانے کا درس دیا ہے ۔
جب مہاجرین ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو وہاں انصار مدینہ نے ان کی ہر ممکن مدد کی انہیں گھر میںرہائش دی اور کھانا پینا پیش کیا ۔لیکن مہاجرین صحابہ نے کہا ہمیں بازار کا راستہ بتا دو ۔ بازار میں گئے چھوٹے موٹے کا روبار کیے اور جلد اپنے قدموںپر کھڑے ہو گئے۔ یہ وہ خود داری کا راستہ تھا جو پیارے رسول پاک ؐ نے انہیں دکھایا تھا ۔
جب مسلمانوں میں جذبہ ایمانی پیدا تھا ۔ خود داری اور غیرت کا جوہر موجود تھا تو خالدین ولیدکی سر براہی میں رومیوں کے لشکر جرار کو شکست سے دو چار کیا۔خود داری کا جذبہ موجزن تھا تو آزادی اور جہانباتی کی تڑپ دلوں میں پیدا ہوئی اور چند ہزار مجاہدین کے ساتھ طارق بن زیاد نے سپین میں فتح کے جھنڈے گاڑے اور پھر موسیٰ بن نصیر نے اس فتح کو مکمل کیا ۔ پھر سپین میں مسلمانوں کی اتنی عظیم سلطنت قائم ہوئی کہ عیسائی ممالک کے سربراہ ان کے دربارمیں حاضری دینے کو فخر محسوس کرتے تھے۔ لیکن جب جذبہ ایمانی کمزور ہو گیا تو کمزور مسلمان حکمران غیر مسلم حکمرانوں سے مدد کے طلب گار ہوئے ان کے آگے ہاتھ پھیلایا تو ذلیل و رسوا کر کے سپین سے نکال دیے گئے ۔ علامہ نے یہی تو سبق دیا ہے ۔
نگاہِ فقر میں شان سکندری کیا ہے
خراج کی جو گداہو وہ قیصری کیا ہے
جب مسلمانوں میں جذبہ خود داری، جذبہ حیرت جذبہ ایمان پیدا تھا تو مسلمان حکمرانوں کے خوف سے قیصر و کسریٰ جیسے عظیم بادشاہ کا نپتے تھے ۔ یہی جذبہ خود داری تھا کہ ٹیپو سلطان جیسا جری میدان جنگ میں دادِشجاعت دیتے ہوئی جام شہادت نوش کر گیا اور یہ پیارا سبق ہمیں دے گیا۔
’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے ‘‘
علامہ نے یہ بھی تو فرمایا ہے ۔
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
اور تاریخ شاید ہے کہ جب بہادر شاہ ظفر مغلیہ خاندان کا آخری فرماں روا قیدی بن کر انگریزوں کے سامنے پیش ہؤا اور کھانا پیش کیا گیا ۔ لیکن جب دستر خوان اٹھا کے دیکھا تو طشتری میں ان کے جواں سال بیٹوں کے کٹے ہوئے سر تھے اورکئی صدیاں پیشتر بغداد میں ہلاکو خان نے خلیفہ بغداد کو بوری میں بند کر کے گھوڑوں کی ٹاپوں کے نیچے روند ڈالا تھا۔
آج کمزور اسلامی ممالک کا کیا حال ہے ۔ بڑی طاقتوں کے دست نگر ہیں اور بڑی طاقتوںنے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے ذریعے انہیں مقروض کر دیا ہے اور ایسے سودی نظام میں پھنسا کر رکھ دیا ہے کہ انہیں پھر ہر سال ان قرضوں کا سود ادا کرنے کے لیے بھی پھر آئی ایم ایف اور دیگر ممالک کے آگے ہاتھ پھیلانے پڑتے ہیں۔پھر آئی ایم ایف کی جانب سے اور کڑی شرائط پر نیا قرضہ دیا جاتا ہے اور پھر ملک میں مہنگائی کا سیلاب آجاتاہے۔ غریب عوام پس جاتے ہیں ۔ انہیں بجلی ، گیس کا بل ادا کرنا محال ہو جاتا ہے دو وقت کی روٹی بچوں کو کھلانا مشکل ہوجاتا ہے اور پھر آئی ایم ایف کی منظوری کے بغیر عوام کوکوئی ریلیف بھی نہیں دیا جاسکتا اورآئی ایم ایف نئے ٹیکس لگانے پر اصرار کرتا ہے ۔
کاش یہ کمزور اسلامی ممالک اپنے پائوں پر کھڑا ہونا سیکھیں ،اپنی زراعت کو ترقی دیں ،صنعتی میدان میں ترقی کریں درآمدات کو کم کریں اپنی برآمدات بڑھائیں اور آئی ایم ایف کے ظالمانہ چنگل سے نجات حاصل کریں اور علامہ کے اس شعر سے کچھ سبق حاصل کریں
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہین کا جہاں اور
کرگس مردہ جانوروں کا گوشت کھاتا ہے اور شاہین اپنے شکار پر جھپٹ کر تازہ گوشت کھاتا ہے ۔ وہ ایک خود دار پرندہ ہے ۔ قوم کے اندر وجذبہ بیدارکرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمارے ایک سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے قوم سے کہا تھا ۔
ہم گھاس پھونس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے
اور آج ہم اللہ کے فضل سے ایک ایٹمی طاقت ہیں اسی لیے دشمن کو ہم پر حملہ کرنے سے پہلے سو بار سوچنا پڑے گا ۔ ہمارے ایک سابق فوجی صدر نے ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام بڑا اچھا رکھا تھا Friends not Masters یہ بھی ایک اچھا پیغام تھا لیکن کاش وہ خود بھی اس پر عمل کرتے اور بعد میں آنے والے حکمران بھی اس بات کو یاد رکھتے تو ہم سودی قرضوں کی لعنت سے نجات حاصل کر لیتے۔
شیر کیوں جنگل کابادشاہ کہلاتا ہے کیونکہ وہ خود شکار کر کے کھاتا ہے ۔ کبھی مردہ جانورنہیں کھاتا اور لومڑی اس کا چھوڑا ہؤا گوشت کھاتی ہے۔ کاش آج ہم بھی شیر بنیں ،شاہین بنیں ، لومڑی نہ بنیں کر گس نہ بنیں۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہر نعمت سے نوازا ہے ۔ ہمارے ہاں دنیا کے بہترین خوش ذائقہ پھل پیدا ہوتے ہیں ، انار ، سیب ، انگور ، آم، ناشپاتی، آڑو، امرود ، آلو بخارا ، الیچی، چیری ،خربوزہ، کھجور، سٹرابری ، خوبانی اور دیگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں وافر زراعی اجناس سے بھی نوازا ہے ۔ دنیا کی بہترین سبزیاں ہمارے ہاں پیدا ہوتی ہیں آلو ، پالک ، ٹماٹر ، بینگن، کدو ، ٹینڈے ، کریلے ، بھنڈی ، توری ، پیٹھا وغیرہ وغیرہ اور زرعی اجناس گندم، گنا، کپاس، چاول ، مکئی ، باجرہ ، چنے ، دالیں اور بہت کچھ ۔
ہماری ٹیکسٹائل کی صنعت دنیا بھر میں بہترین تسلیم کی جاتی ہے ، کٹلری ، سپورٹس ، پنکھا سازی ، برتن سازی اور دیگر بے شمار صنعتیں ، کاش ہم اپنی زرعی پیدا وار کو اور بڑھائیں ۔ صنعت میں مزید ترقی کریں ، اپنی برآمدات بڑھائیں ، درآمدات پر انحصار کم کریں ، محنت کریں تو ہم اپنی مصنوعات دنیا کے دوسرے ممالک کو فروخت کر کے کثیر زر مبادلہ کما سکتے ہیں اور اس طرح ایک دن ہم آئی ایم ایف کے چنگل سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں ۔ افسوس کہ ہر شعبے میں کرپشن ہمارے ملک کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہے ۔ کاش ہم کرپشن کوجڑ سے اکھاڑ پھینکیں ، محنت اور دیانتداری کواپنا شعار بنائیں تو ہمارا ملک پاکستان بھی دنیا کا ایک عظیم ملک بن سکتا ہے ، قائد اعظم اور علامہ اقبال کے خوابوں کی حقیقی تعبیرپن کے ابھر سکتا ہے ہمیں علامہ کا یہ سبق یاد رکھنا ہے ۔
اے طائر لا ہوتی اُس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x