ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

سیاسی دَہَن بگڑنے کی کہانی – بتول جون ۲۰۲۲

۲۰۱۱کے جلسے کے بعد عمران خان صاحب کی سیاسی مقبولیت کا گراف بڑھنے لگا تھا۔ انہوں نے ایک کے بعد ایک جلسے کرنے شروع کیے جن میں وہ سیاسی میدان کے حریفوں پربلند آہنگ تنقید کیا کرتے تھے۔ اس سے پہلے ان کے بیانات اور انٹرویوز میں دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کا اتحادی ہونے کی پالیسی پرکڑی تنقید حاوی ہوتی تھی۔ مگر مزے کی بات یہ کہ جس اسٹیبلشمنٹ کو سید منور حسن کا بولا ہؤا سچ گوارا نہیں ہؤا تھا، اس کو عمران خان کی اس تنقیدسے کبھی کوئی مسئلہ نہ ہؤا۔اس پر فریقین میں سے کس کو داد دینی چاہیے اس کا فیصلہ ہم قارئین پر چھوڑتے ہیں۔بہر حال اپنے سیاسی کیریئر کے اس اہم دور کے آغاز پر خان صاحب نے دونوں بڑی پارٹیوں پر جے یو آئی اور ایم کیو ایم سمیت کھلم کھلا تنقید شروع کی۔ ان کی تنقید کا محوران سیاسی عناصر کی کرپشن، منی لانڈرنگ،سیاسی فاشزم، امریکہ اور بھارت کی خوشنودی کی طلب،اور برا طرز حکومت تھا۔ اس تنقید میں وہ ان جماعتوں کے لیڈروں کے نام لے کرللکارا کرتے تھے۔ یعنی او فلاں ں ں۔۔۔۔
ان کے اس برہنہ (Brazen)اندازِ گفتگو کو ابتدا میں حیرت بھری ناگواری سے دیکھا گیا، کیونکہ یہ عوامی طرز تخاطب تھا، بیٹھک، ٹی وی لاؤنج،بازار، سکول کالج کے حلقہ یاراں میں گفتگو جیسا،خصوصاً پنجاب کے کلچر میں، مگر یہ پبلک اور میڈیا کے سامنے تقریر کا انداز نہ تھا۔ مخالفین کے نام لے کر پکارنااول تو معیوب سمجھا جاتا تھا اور نام لیا بھی جاتاتو مناسب طریقے سے، اورپگڑی اچھالنے سے پرہیز کیا جاتا۔مگر چونکہ یہ عوامی طرز تخاطب تھا تو عوام کا متوجہ ہونا بنتا تھا۔جلسوں کے شرکا اس گپ شپ جیسے بے تکلف اور کھلے ڈلے انداز میں کی ہوئی قومی اوربین الاقوامی سیاست کی مشکل بات کو دلچسپی سے سنتے ۔خیر بات جلسوں تک رہتی تو کوئی مسئلہ نہیں تھا، مگر اب میڈیا کا دور تھا، آپ گھر بیٹھے ان جلسوں کا حصہ بن گئے تھے، آگاہی بھی لے رہے تھے اور ساتھ اس عوامی انداز گفتگو سے محظوظ بھی ہورہے تھے۔خصوصاً 2016 کی سیاسی مہم کے دوران رات کے نو بجے سب سے پاپولر شو خان صاحب کا اس دن کے جلسے میں لائیو خطاب ہوتا تھا جو ہر ٹی وی چینل کو دکھاتے ہی بنتی تھی۔ اب جو بھی عمران خان کی اپیل پر کان دھرتا یا ان کے سیاسی موقف کو تسلیم کرتا وہ خواہی نہ خواہی اس اوئے کلچر کو بھی قبول کررہا تھاکیونکہ یہ ایک مکمل پیکیج تھا۔
میڈیا کی وجہ سے اس کلچر کے پھیلنے کا عمل اوراس پر عوام کے سنجیدہ طبقوں کا معترض ہونا کسی حد تک وہی عمل تھا جومغرب میں بیسویں صدی کےآ غاز میں ماس میڈیا کے پھیلاؤ کے باعث ماس سوسائٹی تھیوری کے علمبرداروں نے اپنے خدشات کی صورت میں پیش کیا تھا کہ میڈیا اعلیٰ کلچر کے زوال اور گھٹیا عوامی کلچر کےفروغ کا ذمہ دار بن رہا ہے اور جس پر نیو مارکسی دانشوروں نے کڑی تنقید کی تھی کہ آپ کایہ نقطہ نظر اشرافیہ کلچر،سرمایہ دارانہ نظام اور حکومتی جبر کو تحفظ دینے کے مترادف ہے۔
اس کے ساتھ ہی پاکستانی عوام آزمائش کے جن حالات سے اب تک گزرتے رہے تھے، وہ پس منظر سامنے رکھا جائے توعمران خان کے انداز میں وہ خطرناک کشش تھی جو تنگ آمد بجنگ آمد والی کیفیت میں ہوتی ہے، یا ہر مصلحت بھول کر سر بازار سچ کہہ جانے میں ہوتی ہے، یا دریدہ دامن ہوکر انا الحق کا نعرہ لگانے میں ہوتی ہے، لہٰذا اس کشش نے اپنا کام دکھایا ۔سٹیٹس کو سے بیزار لوگ مصلحت کا خول توڑتے گئے اور خان صاحب کے نعرے کو عوام کی ہمنوائی ملنے لگی۔
ان کی اسی للکار نے ماضی کے شدید مخالف سیاسی حریفوں کو

بقائے باہمی کی خاطر ایک ہونے پر مجبور کردیا جس سے خان صاحب کا کام مشکل ہونے کی بجائے آسان تر ہوگیا۔وہ جواب تک چار پانچ سیاسی مخالفین کو اکیلےنمٹ رہے تھے، اب انہیں صرف ایک گروہ کا سامنا کرنا تھا جسے انہوں نے بڑی سہولت سےاپنے انداز کے مطابق چوروں اور ڈاکوؤں کا ٹولہ کہہ کر رد کیا اورتبدیلی کے واحد نقیب بن گئے ۔ شہروں اور قصبوں میں رہنے والے لوگوں کی ایک کثیر تعداداس بیانیے پر ان کے گرد اکٹھی ہوگئی۔ یہ زیادہ تر وہ لوگ تھے جو ملکی حالات میں کسی بہتری کی امید چھوڑ بیٹھے تھے۔ ان میں برگر کلاس بھی تھی اور ملازم پیشہ بھی، دکاندار بھی اورمزدور بھی۔نظریاتی اعتبار سے دیکھا جائے تو نہ صرف سنٹر رائٹ اور سنٹر لیفٹ بیک وقت ان کی جھولی میں تھی بلکہ انتہائی دائیں اور بائیں کے بھی کچھ فیصد لوگوں کو وہ اپیل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔اپنے مدمقابل سیاسی حریفوں کو کرپٹ ٹولہ اور چور ڈاکو کا خطاب دینا ، ان کی کرپشن کو کھول کھول کر سامنے لانا قوم کو ان کے موقف پہ قائل کرنے کا کام کررہا تھا۔ القابات کے بارے میں خان صاحب کا کہنا تھا کہ اب چوروں اور ڈاکوؤں کو چور اور ڈاکو نہ کہا جائے ، ملکی سرمایہ باہر لے جانے والوں کو لٹیرے نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے ، قومی مفاد کا سودا کرنے والوں کو غدار نہ کہیں تو اور کیا نام دیں!
چلیے یہاں تک تو کسی طرح بات سمجھ میں آتی ہے۔ مگر ہؤا یہ کہ عمران خان کی للکار جب ان کے جاں نثاروں کے ہاتھ میں آئی تو اس للکار نے وہ وہ رنگ دکھائے کہ شاید خاں صاحب نے کبھی تصور بھی نہ کیا ہوگا۔ سوشل میڈیا پر ان کے جذباتی سپاہی ہر تہذیب بھول کر نہ صرف مخالفین بلکہ ذرا سا بھی مخالف نقطہ نظر رکھنے والے پر پِل پڑتے۔ رہی سہی کسر حالیہ بحران نے پوری کردی جب اس دوران خان صاحب نے امر بالمعروف کا نام لے کر ہر کارکن کو بتایا کہ کرپٹ ٹولے کو مسترد کرنے کا کام اکیلے نہیں کرنا بلکہ بطور مسلمان ان پر فرض ہے کہ اس آگاہی کو پھیلانا ہے۔کاش وہ اس آگاہی کو پھیلانے کی اسلامی تہذیب بھی سکھا دیتے!ان کے حامیوں نےیہ امر بالمعروف شروع کیا تو گویا زبان کی حد تک ہر قسم کے منکر کو نہ صرف جائز ہونے کا لائسنس دے لیا بلکہ نیکی کا کام بھی جان لیا۔
میاں نواز شریف کے اندازِسیاست کے برعکس ، یہ ماننا پڑے گا کہ خان صاحب نے اپنے دیے ہوئے القابات کی بنیاد ملکی خزانےکی لوٹ مار تک ہی محدودرکھی، کسی کی بھی ذاتی زندگی کو نشانہ نہیں بنایا،مگر انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے سپاہی سوشل میڈیا پر سب حدیں پار کررہے ہیں۔سوشل میڈیاایک ایسا اگالدان بن گیا ہے جس میں ہر طرح کی غلاظت انڈیلی جا رہی ہے۔بدزبانی، بدتہذیبی اور گالم گلوچ ہرپوسٹ کے جواب میں ملتی ہے، خصوصاً لعنت کا لفظ تو ایسا ہے جسے شاید اب برا سمجھا ہی نہیں جارہا۔ جبکہ یہ وہ لفظ ہے جو نبیِ رحمت ﷺ نے کبھی کسی کے لیے استعمال نہیں کیا حالانکہ ان کی بدترین مخالفت ہوئی ۔ خان صاحب کے پرستاروں کا مقابلہ نو ن لیگ والے بھی اسی انداز میں کررہے ہیں۔بحیثیت قوم ہم بدزبانی کے جس قعرِ مذلت میں گر چکے ہیں، اس سے نکلنے کا راستہ اب عمران خان صاحب ہی کو ڈھونڈنا ہوگا کیونکہ اس کو متعارف کروانے والے انہی کے پرستار ہیں۔
(گُلِ دوپہر،روزنامہ ۹۲ نیوز، ۱۳ مئی ۲۰۲۲)

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x