ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

سات چاقو-بتول جنوری ۲۰۲۱

لاکھوں سال پرانی بات ہے کسی جنگل میں میں نندرتھال نسل کا ایک قبیلہ رہا کرتا تھا ۔کہنے کو تو یہ قبیلہ تھا مگر اس میں صرف سات مرد تھے اور ان کی بیویاں اور بچے ۔
پتھر کے اس دور میں زندہ رہنے کے لیے شکارپر ہی ان کا مکمل انحصار تھا ۔ وہ دن بھر پتھروں کوپتھروں پر رگڑ کر نوک دار بنا کر ان سے اوزار بنایا کرتے اور ان اوزاروں سے جانوروں کا شکار کیا کرتے اور اپنے قبیلے کے پڑا ئو میں لاکراس شکار کو کھایا کرتے اور آگ کو سجدہ کر کے سو جایا کرتے ۔
کبھی کبھار ان کا کھانا کم پڑ جاتا اور وہ ایک دوسرے سے جھگڑا کرتے مگر تیز دھار آلے نہ ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کو جان سے مارنے کی نوبت نہ آ پاتی ۔
لڑائی جھگڑا روز کا معمول ہوتا ہر روز وہ ساتوں کھانےکے معاملے پر گتھم گتھا ہوتے ۔ مگر اگلے دن پھر مجبوراً انہیں مل جل کرہی شکار کرنا پڑ تا تاکہ خود بھی زندہ رہ سکیں اور ان کی اولاد اور بیویاں بھی ۔
ایک روز شکار کی تلاش میں وہ قریبی ٹیلے کی اونچائی پر پہنچ گئے ۔ انہیں وہاں ایک خام لوہے کاپتھر دکھائی دیا۔ ایسی شکل اور دھات سے وہ بالکل شنا سا نہیں تھے ۔ مگر انہیں اس کی چمک بھلی لگی اور انہوں نے اسے اپنے پاس رکھ لیا ۔
کچھ دیر بعد ایک مریل سور اور ایک بوڑھی بھیڑ بھی شکار میں ان کے ہاتھ لگیں ۔
نیچے آ کر انہوں نے شکار کو چیر پھاڑ کھایا اور تقسیم پر پھر جھگڑنے لگے ۔
ان میں سے ایک جس کے پاس وہ پتھر تھا سب نے اسے حصوں میں تقسیم کرنے کا کہا ۔
انہوں نے اس پتھر کوجو دراصل لوہا تھا اپنے پتھر کے اوزاروں سے توڑ نا چاہا مگر ان کے پتھر کے اوزار ٹوٹ گئے مگر وہ لوہا جوں کا توں رہا غصے میں ایک نے وہ پڑاؤ کے قریب جلتی آگ میں پھینک دیا اور وہ سب تھک ہار کر سو گئے ۔
دو چار گھنٹے بعد لوہا سرخ ہونے لگا اور اس کی ہئیت بدلنے لگی۔ گول سے وہ چپٹا ہوا اورپھر صبح تک لمبوترا نما بن گیا ۔ صبح جب ان سب کی آنکھ کھلی اور پتھر کو ایک لمبی سلا خ کی حالت میں دیکھا تو حیرانی سے اس کو ٹکٹکی باندھ کر تکنے لگے ۔
ان کی عورتیں اس سلاخ کو سجدہ کرنے لگیں اور وہ ساتوں بھی سجدے میں جھک گئے اور لوہے کی توہین کرنے پر پشیمان ہونے لگے ۔
ان میں سے ایک نے ان کوئلوں پر جو اب بھی دہک رہے تھے مٹی ڈالنا شروع کر دی تا کہ آگ بجھ جائے اس سے پہلے وہ سب آگ کی پوجا کیا کرتے تھے۔ اب ان کے لیے لوہا سب سے زیادہ با عث تکریم ہو گیا۔ انہوں نے لوہے کو بڑی عقیدت سے نکالا اسے قریب ندی میں جا کے دھویا اور قریب بڑےپتھر پر رکھ دیا ۔ اب وہ روزانہ لوہے کی سلاخ کو سجدہ کرنا نہ بھولتے ۔
ان ساتوں میں سے ایک جو زیادہ چالاک تھا اس کے دماغ میں کچھ اور ہی چل رہا تھا۔ اس نے ایک روز سوچا کیوں نہ وہ اس لوہے کا اوزار بنائے جو ایسا ہو جس کو دیکھ کر باقی چھ ڈر کر اس کے تا بع ہو جائیں اس نے اس نایاب سلاخ کو اٹھایا اور دور جا کر ایک بڑے الاؤ کو جلا کر اسے گرم کر کے نرم کیا اور اورپتھروں سے کوٹ کر اس کو ایک خنجر کی شکل میں تبدیل کر دیا ۔اس کے بعد اس نےپتھروں پر گھنٹوں رگڑ کر اس کو تیز دھار چاقو میں بدل دیا ۔
یہ سب دیکھ کر وہ خو شی سے اچھلنے لگا اس کو لگاکہ اس کے ہاتھ دنیا کی سب سے بڑی طاقت آ گئی ہے اور اب وہ اپنے سامنے آئے کسی بھی جانور یا انسان کو تہس نہس کر سکتا ہے۔ ایک غرور اس کے اندر ٹھاٹھیں مارنے لگا ۔ اس نے چاقو کو دائیں بائیں تیزی سے گھما کر خود کو تیار کرنا شروع کیا ۔ جلد از جلد وہ اس چاقو کو کسی کے سینے میں اتا رنا چاہتا تھا ۔ وہ سرپٹ بھا گتا ہو ا اپنے پڑاؤ کی جانب بڑھ رہا تھا راستے میں اس کے مقابل ایک جنگلی بھینس آ گئی۔ اس سے پہلے وہ ساتوں مل کر بھی بوڑھے اور لاغر چھوٹے چوپایوں کو شکار کر پا تے تھے اور اس کی وجہ ان کے نا مناسب اوزار تھے مگر اس بار اس اکیلے نےہی ایک جست میں اس بھینس کی گردن میں وہ چاقو گھونپ دیا جس سے وہ چند لمحوں میں سرد ہو گئی ۔
اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا اس کے ہاتھ ایک عظیم طاقت آ چکی تھی جس سے وہ کسی کو بھی مار سکتا تھا اس کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا ۔
جونہی وہ قبیلے میں واپس پہنچا وہاں باقی چھ نے اس پر حملہ کرنے کی ٹھانی ۔اس نے ایک جست میں ایک کے بازو میں خنجر اتار دیا اس کے بازو سے خون کا فوارہ بلند ہوا جسے دیکھ کر اس سمیت سب گھبرا کر دور دبک کر بیٹھ گئے اور اسے اور اس کے خنجر کو حیرت سے تکنے لگے ۔ وہ خنجر کو تیزی سے رقص کے انداز میں گھما کر منہ سے عجیب و غریب خون خوار آوازیں نکال کر ان سب پر رعب جما رہا تھا ۔
خواتین بچے اسے دیکھ کر ڈر کر سجدوں میں گر گئے اور وہ چھ بھی سجدے میں گر کر اس سے معافی مانگنے لگے ۔
وہ ایک بڑے پتھر پر براجمان ہو گیا اور سب کو کہاکہ جاؤ اور بھینس جس کو اس اکیلے نے شکار کیا ہے اٹھا کر یہاں لائواور اس کا سب سے اچھا حصہ اسے پیش کرو ۔
سب حیرانی سے بھینس کو لینے چلے گئے ۔ اب ان سب کا معمول تھا کہ وہ اسے سجدہ کرتے اور اس کی خدمت کرتے ۔ وہ بھی سب پر اپنی دہشت بٹھانے کے لیے چاقو کے کرتب دکھا تا رہتا۔ مگر ایک دن نیند میں بڑ بڑا تے ہوئے اس نے چاقو بنانے کی ترکیب اپنی بیوی کو بتا دی ۔ جو یہ ترکیب سن کر بہت حیران ہوئی اور اس نے یہ ترکیب ایک اور عورت کو بتا دی ۔
کچھ عرصے بعد ان میں سے ایک اور کو بھی خیال آیا کیوں نہ وہ بھی وہ نایاب پتھر تلاش کرے جسے اوزار بنا کر انہی میں سے ایک شخص دیوتاکی حیثیت حاصل کر چکا ہے ۔
یہ سوچ کر وہ ان ٹیلوں کی خاک چھاننے لگا آخر کار ایک روزلوہے کا ایک ٹکڑا اس کے ہاتھ بھی لگ گیا اس نے بھی اسے خنجر میں ڈھالا اور تیز دھار چاقو بنا کر ہی دم لیا ۔ چاقو بنتے ہی وہ دیوانوں کی طرح خوشی سے ناچنے لگا ۔ چاقو ہاتھ آتے ہی خون کی پیاس اسے بھی لگنے لگی جلدی جلدی چاقو لیے وہ اپنے قبیلے میں پہنچا۔ جہاں باقی پانچ اس چاقو والےدیوتا کی پوجا کر رہے تھے اور وہ چاقو پکڑے پتھر پر براجمان تھا ۔
اسے دیکھتے ہی چاروں نے اس پر حملہ کر دیا اس نے فورا چاقو لہرا کر سب کو حیران کر دیا چاقو دیکھتے ہی سب دبک کر بیٹھ گئے مگر دوسرا چاقو والا جو اب خود کو واقعی دیوتا سمجھنے لگا تھا اس کے تیور دیکھ کر آگ بگولہ ہو گیا اس نے چاقو سے اس پر پیچھے سے حملہ کیا جس سےوہ نیچے گر گیا اور اس نے فوراً اس کے پاؤں کی تین انگلیاں کاٹ ڈ الیں ۔
جسے دیکھ کر باقی سب سہم گئے اور لڑائی وہیں ختم ہو گئی ۔
اب دوسرے والے کو بھی ایک چھوٹےدیوتاکا درجہ مل چکا تھا گو کہ اس کے پاؤں کی تین انگلیاں کٹ چکی تھیں مگر بہرحال چاقو اس کے پاس تھا اور اس کے ارادے بھی خطرناک تھے ۔
بس اب باقی چار اسی تگ و دو میں دن رات ٹیلوں کی خاک چھانتے پھرتے تھے کہ ان کے ہاتھ بھی وہ عظیم دولت آ جائے جس سے وہ بھی طاقت ور بن جائیں ۔ اس دوران پرانےدیوتانے اپنی طاقت کو بڑھانے کا سوچا اورزیادہ بڑا چاقوحاصل کرنے کا سوچا اس نے کچھ نایاب لوہا جو چاقو بنانے کے بعد بچ گیا تھا دبا کر رکھ چھوڑا تھا ۔ اس نےسارا لوہا پگھلایا اور ایک تلوار بنا نے میں کامیاب ہو گیا ۔
تلوار ہاتھ میں آتے ہی اس کی خون کی پیاس بھڑک اٹھی اس نے اپنا دبدبہ ڈالنے کے لیے بیسیوں بے زبان جانوروں کو تلوار سے ذبح کر ڈ الا قبیلے کی کئی عورتوں اور بچوں کی گردنیں اڑا دیں جس کے بعد وہ خوف کی علامت بن گیا ۔
اس واقعے کے بعد تو جیسے سب جلد از جلد چاقو اور تلوار کو حاصل کرنے کے لیے سرگرداں پھرنے لگے ۔کچھ اور کے ہاتھ عظیم لوہے کے کچھ ٹکڑے آ گئے مگر ان کو کس طرح پگھلا کر تلوار اور چاقو بنانا ہے یہ ان کے بس کی بات نہ تھی ۔
بڑے دیوتاکی ایک بیوی اپنے خا وند کی اس خون ریزی سے بہت تنگ آ چکی تھی اس نے وہ راز آگے پہنچا دیے کہ کیسے لوہے کو موم بنا کر پھر سے اتنا مضبوط بنایا جا سکتا ہے ۔
وہ راز آہستہ آہستہ سب تک پہنچ گیا اور چند سالوں میں ہی ساتوں مردوں کے پاس خنجر اورتلواریں آ گئیں ۔ بس اس کے بعد لوہے کےذخائر کی تلاش سب کا مقصد بن گئی اور ہر طرف الاؤ میں لوہا پگھلنے لگا اور اس سے تلواریں خنجر بھا لے تیر نیزے بننے لگے اور وہ سا توں آئےدن آپس میں ایک دوسرے پر جان لیوا ہتھیاروں سے وار کرنے لگے اور آہستہ سب ایک دوسرے کو قتل کرتے چلے گئے اور ایک ایک کر کے سب مارے گئے ۔
آج اس قبیلےاور ان کی اولادوں کا نام ونشان مٹ چکاہےصرف وہ تلواریں نیزے بھالے تیر زمین کی گہرایوں میں باقی ہیں۔
لاکھوں سال بعد ہماری زمین کی گہرائی سے بھی ہائیڈروجن بم ایٹم بم برآمد ہوں گے ۔مگر ہم سب یقیناً موجود نہ ہوں گے ۔

٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x