ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

قولِ نبیؐ – مسا کین کے حقوق – بنت الاسلام

حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا کہ اے آدم ؑ کے بیٹے ٗ میں بیمار ہؤا تو تو نے میری عیادت نہ کی۔
(انسان) کہے گا کہ اے میرے رب ٗ میں تیری کس طرح عیادت کرتا جب کہ تو رب العٰلمین ہے۔
خدا تعالیٰ فرمائے گا کہ کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہؤا تو تو نے اس کی عیادت نہ کی۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ اے آدم ؑ کے بیٹے ٗ میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو تو مجھے کھانا نہ دیا۔
(انسان) کہے گا کہ اے میرے رب میں تجھے کیسے کھانا دیتا جبکہ تو رب العٰلمین ہے۔ خدا فرمائے گا کہ کیا تجھے علم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا ٗ تو تو نے اسے کھانا نہ دیا۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اسے کھانا دیتا تو اسے میرے پاس پاتا۔ اے آدم ؑ کے بیٹے ٗ میں نے تجھ سے پانی مانگا تو تو نے مجھے پانی نہ پلایا۔
(انسان) کہے گا کہ اے میرے رب میںتجھے کیسے پانی پلاتا جبکہ تو رب العلمین ہے۔ خدا فرمائے گا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا ٗ مگر تو نے اسے پانی نہ پلایا۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اسے پانی پلاتا تو اسے میرے پاس پاتا۔ (مسلم)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک معاشرتی حیوان بنایا ہے جسے قدم قدم پر اپنے ابنائے جنس کی محبت ٗ ہمدردی ٗ امداد اور خیر خواہی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی اس باہمی محبت ٗ ہمدردی ٗ امداد اور خیرخواہی کو بہت بڑا ثواب قرار دے دیا ہے اور انسان کے انسان کا دکھ درد بٹانے اور مشکلات میں ایک دوسرے کے کام آنے کو اپنی خوشنودی کے حصول کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ انسانی زندگی ہزارہا اقسام کے آلام کا شکار رہتی ہے ٗ جن میں ایک بہت بڑا الم مفلسی ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مفلس کی امداد کی فضیلت بیان کرنے کے علاوہ خود مفلسی کی فضیلت بھی واضح فرما دی ہے۔ وہ مفلس اور محروم لوگ جو اپنی مفلسی اور محرومی کو صبر سے برداشت کرتے اور نیکی پر قائم رہتے ہیں ٗ خدا کے ہاں بہت بڑے اجر کے مستحق ہوتے ہیں۔
حضرت اسامہؓ بن زیدؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہؤا تو دیکھا کہ داخل ہونے والے عموماً مسکین لوگ ہیں… (مسلم)
سنن ابی دائود میں حضرت ابو سعید خدریؓ کی ایک حدیث بیان ہوئی ہے کہ ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے غریب مہاجرین کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اے فقرائے مہاجرین کی جماعت خوش ہو جائو (اس) نور کامل کے باعث (جو تمہیں) قیامت کے دن (ملے گا) تم دولت مندوں سے آدھا دن پہلے جنت میں داخل ہو گے اور وہ (آدھا دن بھی) پانچ سو سال کا ہو گا۔
حضرت معاذؓ بن جبل بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں یہ نہ بتائوں کہ جنت کے بادشاہ کون ہوں گے۔ میں نے عرض کیا کیوں نہیں (یا رسولؐ اللہ ضرور بتائیے) آپؐ نے فرمایا کہ (جنت کا بادشاہ) وہ شخص (ہو گا) جو کمزور ہے ٗ لوگ اسے کمزور سمجھتے ہیں ٗ وہ دو پرانے کپڑے پہنے ہوئے ہے ٗ کوئی اس کی پروا نہیں کرتا (مگر اللہ کی نگاہوں میں اس کا وہ رتبہ ہے کہ) اگر وہ خدا کے بھروسے پر قسم کھا لے تو خدا اسے سچا کر دیتا ہے۔ (ابن ماجہ)
حضرت سہلؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک امیر شخص رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا۔ آپؐ نے (صحابہؓ) سے فرمایا کہ تم اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو (یعنی تمہارا کیا خیال ہے کہ یہ شخص کیسا ہے) صحابہؓ نے عرض کیا کہ یہ اس قابل ہے کہ اگر نکاح کا پیغام دے تو اس سے نکاح کیا جائے اور اگر سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول کی جائے اور اگر بات کرے تو اس کی بات کو غور سے سنا جائے۔ حضرت سہلؓ کہتے ہیں کہ پھر حضورؐ خاموش ہو گئے۔ پھر غریب مسلمانوں میں سے کوئی شخص پاس سے گزرا تو حضورؐ نے فرمایا کہ (اچھا) اس کے بارے میں تم کیا کہتے ہو۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ یہ (تو معمولی آدمی ہے اور) اس قابل ہے کہ اگر نکاح کا پیغام دے تو اس کے ساتھ نکاح نہ کیا جائے اور اگر سفارش کرے تو اس کی سفارش کو قبول نہ کیا جائے اور اگر بات کرے تو اس کی بات کو غور سے نہ سنا جائے۔ اس پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر دنیا اس جیسے (امیروں) سے بھری ہوئی ہو تو ان سب سے یہ (غریب) بہتر ہے۔ (بخاری)
غریبی کی فضیلت میں جو کچھ بیان ہؤا ہے اس پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ غریب کو غریب سمجھتے ہوئے اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں وہ درحقیقت کتنی کوتاہ بینی کا ثبوت دیتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس زندگی میں اگر کسی شخص کے متعلق قرائن سے یہ پتہ چل جائے کہ اب یہ بڑا آدمی بننے والا ہے ٗ تو لوگ پہلے ہی اس کی خوشامد شروع کر دیتے ہیں اور اس کی نگاہ میں چڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ جب اسے بڑائی حاصل ہو تو وہ انہیں فائدہ پہنچائے۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جن نیکوکار مفلسوں نے کل خدا کے ہاں بہت بڑے آدمی بن جانا ہے ٗ ان کی نگاہ چڑھنے کی کوئی کوشش نہیں کرتا بلکہ انہیں اس قابل ہی نہیں سمجھا جاتا کہ ان کی نگاہ چڑھنے کے بارے میں سوچا بھی جائے۔ آپ کو کیا معلوم کہ یہ غریب آدمی جو اس وقت عاجزی کی تصویر نظر آرہا ہے ٗ جو
’’کمزور ہے ٗ لوگ اسے کمزور سمجھتے ہیں ٗ وہ دو پرانے کپڑے پہنے ہوئے ہے اور کوئی اس کی پروا نہیں کرتا۔‘‘
کل خدا تعالیٰ کے ہاں کتنا بڑا بادشاہ ہو گا!!! اس وقت شاید آپ کے دل میں یہ حسرت پیدا ہو کہ کاش کہ اس بادشاہ سے ہمارا کوئی تعلق ہوتا جو آج ہمارے لیے باعث عزت بنتا۔ تو پھر آپ ابھی سے کیوں نہیں اس کے ساتھ عزت ٗ محبت اور ہماردی کا تعلق قائم کر لیتے؟
یہی نہیں بلکہ ایک اور حقیقت بھی ہے جو کوتاہ نظروں کو شاید کبھی دکھائی نہ دیتی ہو مگر نگاہ دوربین رکھنے والے اس سے اچھی طرح واقف ہیں اور وہ یہ ہے کہ بڑے کو چھوٹا اور چھوٹے کو بڑا بننے میں کچھ بھی دیر نہیں لگا کرتی۔ آپ کو کیا معلوم کہ یہ محتاج ٗ مسکین ٗ مفلس ٗ مجبور اور مصیبت زدہ شخص جو اس وقت آپ کی مدد کا متمنی ہے ٗ جو اس وقت آپ کو اتنا معمولی نظر آرہا ہے کہ آپ کے خیال میں وہ اسی قابل ہے کہ
’’اگر نکاح کا پیغام سنے تو اس سے نکاح نہ کیا جائے اور اگر سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول نہ کی جائے اور اگر بات کرے تو اس کی بات کو غور سے نہ سنا جائے۔
کل آخرت ہی میں نہیں بلکہ خود اس دنیوی زندگی ہی میں اتنا بڑا آدمی نہیں بن جائے گا کہ آپ کو اس کے جاہ و جلال میں اپنا آپ گھٹیا نظر آنے لگے۔ دنیا میں آئے دن یہ نظارے دیکھنے میں آتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے کسی خاک نشین کو خاک سے اٹھا کر تخت پر بٹھا دیا اور کسی کو تخت سے گرا کر خاک میں ملا دیا۔
غرضکہ جس نقطہ نگاہ سے بھی دیکھا جائے اپنے محتاج ٗ مسکین ٗ مفلس ٗ مجبور اور مصیبت زدہ بہن بھائیوں سے عزت اور محبت کا سلوک کرنا اور ان کی امداد کرکے ان کے دکھوں کو کم کرنے کی کوشش کرنا خود اپنے ساتھ خیر خواہی کرنا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضورؐ نے اس کارخیر کی بہت تاکید فرمائی ہے اور مؤثر الفاظ میں اس کی فضیلت بیان کی ہے۔
حضرت ابو الدرداءؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ مجھے اپنے کمزور غریب لوگوں میں تلاش کرو کیونکہ تمہارے کمزور اور غریب لوگوں ہی کی وجہ سے تمہیں روزی دی جاتی ہے اور (دشمنوں کے مقابلے میں) تمہاری امداد کی جاتی ہے۔ (ترمذی)
اس حدیث کی تشریح میں بتایا گیا ہے کہ کمزور اور غریب لوگوں کی وجہ سے روزی اور امداد کے دیے جانے سے یا تو یہ مراد ہے کہ ان کی برکت سے خدا تمہیں روزی اور امداد دیتا ہے یا یہ ہے کہ ان کی دعا کے باعث تمہیں روزی اور امداد ملتی ہے۔
صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہؓ کی ایک حدیث بیان ہوئی ہے۔ جس کے ابتدائی حصے میں اسی بات کی وضاحت فرمائی گئی ہے کہ ضرورت مند کی امداد کرنا بہت زیادہ فضیلت کی بات ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی مومن کی دنیوی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کی اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کی سختیوں میں سے کوئی سختی دور فرمائے گا۔ اور جس نے کسی تنگ دست پر آسانی کی ٗ حق تعالیٰ اس پر دنیا اور آخرت میں آسانی کرے گا۔
اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی ٗ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی عیب پوشی کرے گا۔
اور جب تک بندہ اپنے (مسلمان) بھائی کی امداد میں لگا رہتا ہے ٗ اللہ تعالیٰ بھی اس کی امداد فرماتا رہتا ہے… (مسلم)
ابو امامہ بن سہل بن حنیف سے روایت ہے کہ ایک مسکین عورت بیمار ہوئی تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی بیماری کی خبر دی گئی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم (کی عادت تھی کہ آپؐ) مسکینوں کی عیادت کیا کرتے تھے اور ان کا حال پوچھا کرتے تھے۔ پس آپؐ نے فرمایا کہ جب یہ وفات پا جائے تو مجھے خبر کرنا (وہ عورت وفات پا گئی) اور اس کا جنازہ رات کو اٹھایا گیا اور لوگوں نے اس بات کو پسند نہ کیا کہ حضورؐ کو (رات کے وقت) جگائیں (لہٰذا انہوں نے حضوؐر کو اطلاع دیے بغیر ہی اسے دفن کر دیا) جب صبح ہوئی تو اس کے بارے میں حضوؐر کو بتایا گیا تو حضورؐ نے فرمایا کہ کیا میں نے تمہیں حکم نہیں دیا تھا کہ اس (کی وفات) کے بارے میں مجھے خبر کرنا۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ ٗ ہمیں یہ بات پسند نہ آئی کہ آپؐ کو رات کے وقت جگائیں (اس لیے آپؐ کو اطلاع نہ دی) پھر حضورؐ نکلے اور اس کی قبر کے پاس لوگوں کی صف قائم کی اور چار تکبیریں کہیں۔ (نسائی)
حضرت عبداللہؓ بن ابی اوفیٰ بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے ذکر الٰہی کیا کرتے تھے اور بیکار باتیں نہ کرتے تھے اور نماز کو لمبا کرتے تھے اور خطبہ چھوٹا رکھتے تھے اور اس بات کو برا نہیں جانتے تھے کہ کسی بیوہ اور مسکین کے ساتھ چلیں اور اس کا کام کر دیں۔ (نسائی)
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ (حضرت علیؓ کے بھائی) حضرت جعفرؓ بن ابی طالب مسکینوں سے محبت رکھتے تھے اور ان کے پاس بیٹھتے تھے اور ان سے باتیں کرتے تھے اور مساکین ان سے باتیں کرتے تھے (ان کی اس صفت کے باعث) رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کنیت ابو المساکین رکھی تھی (یعنی مسکینوں کا باپ) (ابن ماجہ)
حضرت ابوذرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا اپنے بھائی کے سامنے مسکرانا تمہارے لیے صدقہ ہے اور تمہارا نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا (بھی) صدقہ ہے۔ اور تمہارا کسی شخص کو ایسی سرزمین میں راستہ بتانا جہاں لوگ راستہ بھول جاتے ہوں ٗ تمہارے لیے صدقہ ہے اور تمہارا کسی ایسے شخص کی مدد کرنا جس کی بصارت خراب ہو (یعنی نابینا ہو یا کمزور نگاہ والا ہو) تمہارے لیے صدقہ ہے اور تمہارا راستے سے پتھر ٗ کانٹا اور ہڈی (وغیرہ) کا ہٹا دینا (تاکہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو) تمہارے لیے صدقہ ہے اور تمہارا اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں پانی ڈال دینا (بھی) تمہارے لیے صدقہ ہے۔ (ترمذی)
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بھوکے کو کھلائو اور بیمار کی بیمار پرسی کرو اور قیدی کو رہائی دلائو۔ (ابو دائود)
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ کرامؓ کو مخاطب کرکے) فرمایا کہ آج تم میں سے کوئی روزہ دار ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ میں ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ آج تم میں سے کون جنازے کے ساتھ گیا ہے؟ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ میں (گیا ہوں) آپؐ نے فرمایا کہ آج تم میں سے کس نے کسی مسکین کو کھانا کھلایا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ میں (نے کھلایا ہے) حضورؐ نے فرمایا کہ آج تم میں سے کس نے کسی مریض کی عیادت کی ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ میں( نے کی ہے) اس پر حضورؐ نے فرمایا کہ جس شخص میں یہ تمام باتیں جمع ہو گئیں وہ جنت میں جائے گا۔ (مسلم)
اعرج بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہؓ فرمایا کرتے تھے کہ برا کھانا ہے اس دعوت کا جس میں امیر بلائے جائیں اور مساکین کو چھوڑ دیا جائے… (مسلم)
غرض کہ معاشرے کے وہ تمام افراد جو محرومی ٗ پریشانی اور مصائب کا شکار ہوں اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ جو لوگ ان تکالیف سے بچے ہوئے ہیں ٗ وہ اپنے امکان کی حد تک ان کے غم و الم اور احتیاج کو دور کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔ ایسا کرکے وہ محروم اور مصیبت زدہ لوگوں کی تو صرف دنیوی تکالیف ہی دور کریں گے ٗ مگر اپنے آپ کو انشاء اللہ دنیوی اور اخروی دونوں تکالیف سے بچا لیں گے۔!
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x