ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

خاص مضمون – ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملاقات کا احوال – سینیٹر مشتاق احمد خان

ڈاکٹڑ عافیہ صدیقی ایک پاکستانی خاتون جن کو امریکہ نے بغیر ٹھوس الزام کے عرصہ بیس سال سے جیل میں ڈال رکھا ہے،حال ہی میں ان کے حوالے سے رہائی کی کوششوں کا مطالبہ دوبارہ میڈیا کی زینت بنا،جب سینیٹر مشتاق احمد خان صاحب نے اس معاملے کو سینیٹ کے اندر اور باہرزوروشور سے اٹھایا اوران کی رہائی اور وطن واپسی کے لیے پیش رفت کا مطالبہ کیا۔ بتول کے لیےاس خصوصی مضمون میں انہوں نے اپنی حالیہ جدوجہد کے تناظر میں ڈاکٹر عافیہ کے کیس کی تمام تفصیل بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی رہائی کے امکانات پر بات کی ہے۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملاقات کا خیال مجھے کیسے آیا اور یہ سب کچھ کیسے ممکن ہؤا، اس کے لیے میں تھوڑا سا پس منظر میں جاؤں گا۔
سینیٹ میں اس مسئلے کو ترجیح
میں مارچ 2018 میں سینیٹ میں آیا اور سینیٹ میں آنے کے بعد پہلے دن سے ہی جو ترجیحات میں نے طے کیں، ان میں سے ایک ڈاکٹر عافیہ صدیقی، گوانتانامو میں قید پاکستانی اور ملک کے اندر جبری طور پر گمشدہ کیے گئے افراد کے معاملے کو ہائی لائٹ کرنا اور اس پر کام کرنا تھا۔ ویسے تو اسلامی جمعیت طلبہ سے فارغ ہونے کے بعد 2002 میں جب سے جماعت اسلامی میں بطور رکن شامل ہؤا ہوں تو اپنی جماعت کے پلیٹ فارم سے ہم عافیہ صدیقی کے لیے آواز اٹھاتے رہے ہیں لیکن سینیٹ میں آنے کے بعد، چونکہ یہ پارلیمنٹ کا ایوان بالا ہے اور ہائی پروفائل دستوری ادارہ ہے لہٰذا میں نے ڈاکٹر عافیہ کے مسئلے کو اپنی ترجیح میں رکھا۔
کلائیو سمتھ کا رابطہ
ہوا یوں کہ سینیٹ میں آنے کے بعد سے چونکہ میں مسلسل گوانتانامو کے اسیروں کے لیے بھی کام کر رہا تھا، تو میری ایوان کے اندر اور باہر اس حوالے سے کوششوں کو ایک برٹش امریکن ہیومن رائٹس کے وکیل کلائیو سمتھ دور بیٹھے دیکھ رہے تھے۔ کوئی ڈھائی تین سال پہلے انہوں نے مجھ سے ایک ای میل کے ذریعے رابطہ کیا۔ وہ خود اس وقت یو کے میں تھے اور گوانتانامو بے کے قیدیوں پر کام کر رہے تھے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ کلائیو سمتھ ایک اکیلا بندہ ہے جس نے پروبونو یعنی رضاکارانہ طور پر گوانتانامو سے 87 قیدی آزاد کرائے ہیں۔ تو انہوں نے خود مجھ سے رابطہ کیا کہ چونکہ آپ گوانتانامو اور عافیہ صدیقی کے لیے کام کر رہے ہیں تو میں کچھ ڈاکومنٹس آپ کو دینا چاہتا ہوں۔پھر وہ ڈاکومنٹس جو سیف اللہ پراچہ اور ربانی برادران کے حوالے سے قانونی دستاویزات اور امریکی سینیٹ کے اندر سی آئی اے کی بریفنگز پر مشتمل تھے، انہوں نے مجھے دیے۔
یہ ڈاکومنٹس میں نے پاکستان کی سینیٹ میں پیش کیے اور ان پر بات کی۔ ان ڈاکومنٹس کے اندر امریکی سی آئی اے نے ربانی برادران کے بارے میں یہ کہا تھا کہ ہمیں ایک بدنام زمانہ دہشت گرد حسن گل چاہیے تھا تو 2002 میں پرویز مشرف نے ہمیں یہ دو بھائی پکڑ کر دیے کہ ایک حسن گل ہے اور دوسرا اس کا بھائی ہے۔ ان میں سے ایک ٹیکسی ڈرائیور اور دوسرا سیف تھا۔ انہیں بگرام کی امریکی جیل میں رکھا گیا جو کہ ایک ڈارک سیل ہے۔ وہاں جب دو تین سال انہوں نے گزار لیے تو خود امریکی سی آئی اے کا کہنا ہے کہ اصلی حسن گل ہم نے پکڑ لیا۔ اب اصولاً تو ان دونوں بے قصور بھائیوں کو چھوڑ دینا چاہیے تھا لیکن امریکہ نے اپنی بدنامی کے خوف سے انہیں گوانتانامو بھیج دیا۔ سی آئی اے نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ پاکستان نے ان دو بھائیوں کے بدلے ہم سے پانچ ہزار ڈالر لیے ہیں۔ سیف اللہ پراچہ بیس سال اور ربانی برادران ابھی چند ماہ پہلے اکیس سال بعد گوانتانامو سے واپس آئے ہیں۔ حکومت کی بے حسی تو ایسی ہے کہ ابھی تک ربانی برادران کو قومی شناختی کارڈ جاری نہیں کر رہے۔ بلکہ امریکہ نے ان کی بحالی کے لیے تین لاکھ ڈالر دیے تھے، وہ بھی ان کو نہیں دیے گئے۔
قانونی جدوجہد کا عزم
بہرحال گوانتانامو سے ان قیدیوں کی پاکستان واپسی سے ہمیں ایک امید ملی کہ اب ہم ڈاکٹر عافیہ کو بھی واپس لا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے ہم نے کراچی میں ایک میٹنگ کی جس میں ڈاکٹر فوزیہ، کلائیو سمتھ، سیف اللہ پراچہ اور میں تھا۔ ہم نے پلان کیا کہ ہم ڈاکٹر عافیہ کے لیے قانونی جدوجہد کریں گے اور ساتھ ساتھ امریکہ جا کر ان سے ملاقات کی بھی کوشش کریں گے۔
اس کے بعد اسلام آباد میں دوسری میٹنگ ہوئی اور اس میں بھی کلائیو سمتھ آئے۔ یہ ملاقات مکمل طور پر قانونی جدوجہد کے نتیجے میں ہوئی ہے۔ امریکی قانون کے مطابق ملاقات کے لیے تمام ضروری دستاویزا ت جمع کرائی گئیں۔ پھر جب جیل انتظامیہ کی طرف سے ملاقات کی اجازت مل گئی تب ہم نے یہاں سے ویزے کے لیے کوششیں کیں۔
پاکستانی دفتر خارجہ کا کردار
اس میں پاکستانی دفتر خارجہ کا کیا کردار رہا، اس کو بھی ذرا سمجھ لیں۔ دراصل ڈاکٹر فوزیہ نے ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی تھی جس میں میں بھی ان کے ساتھ معاون ہوں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں دو سال خوار ہونے کے بعد ہائی کورٹ نے وزارت خارجہ کو ایک سخت آرڈر جاری کیا کہ ڈاکٹر فوزیہ کو ویزا جاری کیا جائے۔ آخر وزارت خارجہ کو ہائی کورٹ کے آرڈر کی ضرورت کیوں پیش آئی اور دو سال پہلے ہی ڈاکٹر فوزیہ کی درخواست پر وزارت خارجہ نے انہیں ویزا جاری کیوں نہیں کیا؟ اس کا کریڈٹ اسلام آباد ہائی کورٹ کو جاتا ہے کہ انہوں نے وزارت خارجہ کو ویزا جاری کرنے پر مجبور کر دیا۔ میرے ویزے میں بھی وزارت خارجہ کا کوئی کردار نہیں تھا۔ ہاں چونکہ میں سینیٹر ہوں تو سینیٹ سیکرٹریٹ نے ویزا جاری کروانے میں میرے ساتھ تعاون کیا۔ عافیہ ایک بے گناہ پاکستانی شہری ہیں۔ ان کا تو پورا مقدمہ حکومت پاکستان کو لڑنا چاہیے بجائے اس کے کہ حکومت صرف ویزا جاری کرنے کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرے۔
عافیہ سے ملاقات
اب آئیے عافیہ سے ملاقات کی کیفیت اور صورت حال کی طرف۔ اس بارے میں میں سب سے پہلے تو یہ کہوں گا کہ عافیہ اس امت کی مظلوم ترین خاتون ہے۔ اور میں سوچتا ہوں کہ اگر اقبال ہوتے تو جس طرح انہوں نے فاطمہ بنت عبداللہ پر نظم لکھی کہ ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی، اسی طرح وہ عافیہ کا درد اور اس کا نوحہ لکھتے۔
عافیہ سے ملاقات میری زندگی کا بالکل عجیب و غریب تجربہ تھا۔
میں آپ کو بتاؤں کہ 89 میں جب میں نے میٹرک کے پیپرز دیے ہوئے تھے اور ابھی رزلٹ نہیں آیا تھا تو انہی دنوں میری والدہ کا ایک رات اچانک انتقال ہو گیا تھا۔ مجھے سب بچوں کی طرح اپنی والدہ سے بے پناہ محبت تھی لیکن میں اپنی والدہ کی وفات پر بھی اتنا غمگین نہیں ہو&ٔا اور اتنا نہیں رویا جتنا کہ میں عافیہ سے ملاقات کے تین دن یعنی ملا قا ت سے ایک دن پہلے جب ڈاکٹر فوزیہ ملاقات کر کے آئیں، پھر ملاقات والے دن اور پھر اس کے ایک دن بعد رویا ہوں۔ میں بالکل ٹراما کی کیفیت میں تھا۔
عافیہ کہاں ہے!
جس جیل میں عافیہ کو رکھا ہو&ٔا ہے فیڈرل میڈیکل سنٹر کارس ویل اس کا نام ہے اور نام سے ہی ظاہر ہے کہ یہ دراصل ذہنی اور جسمانی طور پر بیمار قیدیوں کی جیل ہے جہاں انہیں علاج کے لیے رکھا جاتا ہے۔ جیل تو ویسے ہی خوفناک ہوتا ہے لیکن جہاں ذہنی بیمار قیدی رکھے جائیں وہ کتنا خوفناک ہو گا۔ پھر یہ امریکہ کے بدنام ترین جیلوں میں شامل ہے جس کے بارے میں اس وقت بھی فیڈرل گورنمنٹ میں جیل کے اندر ہونے والے دو تین ریپ کیسز کی انکوائری چل رہی ہے۔ اس جیل کے اندر بھی جس یونٹ میں عافیہ کو رکھا گیا ہے اسے SHU کہتے ہیں یعنی سپیشل ہاؤسنگ یونٹ جہاں انتہائی خطرناک قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔
عافیہ کو لانے کا منظر
عافیہ کو ملاقات کے لیے زنجیروں میں لایا گیا اور زنجیروں میں ہی واپس لے جایا گیا۔ جیل عملے کے چھ اونچے لمبے بندے چوبیس گھنٹے عافیہ پر نظریں گاڑ کر رکھتے ہیں حتیٰ کہ ان کے واش روم کے اندر بھی کیمرے لگائے گئے ہیں۔ جب ہم جیل گئے تو یہ عمارت مختلف بلڈنگز پر مشتمل تھی۔ پہلے تیس منٹ تو ہماری سکریننگ پر لگے۔ پھر ہم ایک بلڈنگ میں داخل ہوئے ، وہاں سے دوسری بلڈنگ میں داخل ہوئے۔ مختلف دروازوں سے جب ہم گزرتے تو ہر دروازہ موٹی موٹی لوہے کی چادروں کا بنا ہؤا تھا۔ ان کو کھولنے اور بند کرنے پر خوفناک گڑگڑاہٹ ہوتی تھی۔ جیل کا جتنا بھی عملہ ہمارے پاس سے گزرا سب کے ہاتھوں میں بڑی بڑی اور بھاری چابیوں کے گچھے اور ہتھکڑیاں ہوتی تھیں جن کی جھنکار پورے جیل میں سنائی دیتی تھی۔
پھر ہمیں ایک چھوٹے سے کمرے میں لے جایا گیا۔ کمرے میں پارٹیشن کی گئی تھی اور درمیان میں ایک مربع میٹر موٹے شیشے کی دیوار تھی۔ دیوار کے اس پار عافیہ کوکرسی پر بٹھایا گیا تھا اور سامنے چھوٹی سی میز تھی۔ دوسری طرف تین کرسیاں اور ایک میز رکھی گئی تھی جہاں میں، ڈاکٹر فوزیہ اور کلائیو سمتھ بیٹھ گئے۔ معمولی سی آواز ہم ایک دوسرے کی سن سکتے تھے لیکن موٹی دیوار کی وجہ سے آواز صاف سنائی نہیں دیتی تھی۔ ریسیور کے ذریعے ہم بات کر رہے تھے۔ یہ ملاقات تین گھنٹے تک جاری رہی۔
عافیہ کی حالت
عافیہ کی ظاہری حالت تو کچھ یوں تھی کہ سامنے کے چار دانت تشدد کی وجہ سے ٹوٹ چکے تھے۔ دائیں جانب چہرے پر گہرے زخم کا نشان تھا جو جیل میں ہی لگا ہے اور اب مندمل ہو چکا تھا لیکن اس کا نشان باقی تھا۔ کان کے پیچھے بھی گہرا زخم تھا جس کی وجہ سے ان کی قوت سماعت کمزور ہو چکی تھی۔
رقت آمیز مناظر
عافیہ کو دیکھ کر کچھ تاثرات بالکل واضح طور پر پیدا ہوتے ہیں۔ پہلی چیز تو یہ کہ ان کے چہرے پر ایک واضح نظر آنے والی سکینت ہے۔ دوسرا نور کی شعاعیں چہرے سے پھوٹتی محسوس ہوتی ہیں۔ تیسری بات یہ کہ اگرچہ اس جیل کے لیے انہوں نے جہنم اور جیل کے عملے کے لیے ریپسٹ کے علاوہ کوئی دوسرا لفظ استعمال نہیں کیا لیکن اس سب کے باوجود جب وہ مسکراتی تھیں تو شیر خوار بچوں جیسی معصوم مسکراہٹ چہرے پر پھیل جاتی تھی انہوں نے بیس سال میں جتنی آزمائشیں اور تکلیفیں دیکھی ہیں ان کی وجہ سے ان کی آنکھوں میں سات سمندروں جتنا کرب نظر آتا ہے اور جب وہ درد اور کرب سے ایک ٹھنڈی آہ بھرتی تھیں تو بس انسان جیسے بالکل ذبح ہو جائے۔
دوران ملاقات عافیہ اپنی والدہ اور اپنے بچوں کا پوچھتی رہیں۔ ہم انہیں یہ نہیں بتا سکتے تھے کہ آپ کی والدہ کا انتقال ہو چکا ہے۔ اسی طرح وہ اپنے بچوں کا پوچھ رہی تھیں اور خصوصاً سلیمان کا جو مارچ 2003 میں ان کے اغوا کے وقت ان کے ساتھ تھا اور چھ ماہ کا تھا۔ سلیمان اب تک لا پتہ ہے۔ ہمیں بھی معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہے اور کس حال میں ہے لیکن ہم انہیں یہی کہتے رہے کہ سب ٹھیک ہیں۔ ہمیں ان کے بچوں کی تصویریں انہیں دکھانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی اور نہ ہی دونوں بہنوں کو ایک دوسرے کو چھونے، گلے لگنے کی اجازت دی گئی۔ ہماری کوشش یہ تھی کہ ہم تھوڑے وقت کے لیے ہی سہی انہیں ٹراما سے نکالیں اور escape کر لیں ان کی تکلیفوں سے۔
ایمان افروز گفتگو
انہوں نے مجھے بہت خوبصورت آواز میں سورہ مریم کی کچھ آیات سنائیں واذکر فی الکتاب مریم اذ انتبذت من اھلھا مکانا شرقیا۔ اور اسی طرح یہ شعر سنایا: جہاں تیرا قدم دیکھتے ہیں، خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں، اور کہنے لگیں کہ یہ شعر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے تناظر میں ہے۔ میں نے انہیں اقبال کی نظمیں سلطان ٹیپو کی وصیت اور نپولین کے مزار پر سنائیں۔ ان دونوں نظموں میں اقبال نے ہمت اور جدوجہد کی بات کی ہے۔ تو جب یہ اشعار میں نے سنائے کہ :صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے، جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول، تو عافیہ نے علامہ اقبال کے کلام میں عقل و دل کا جو موازنہ ہے، اس پر بڑی خوبصورت فلسفیانہ گفتگو کی۔
دعاؤں کا تبادلہ
میں نے ان سے ان کے مطالعہ اور کھانے پینے کے معمولات کے بارے میں پوچھا۔ ساتھ ہی اپنے چھوٹے بارہ سالہ بیٹے کا بتایا کہ اسے کھانے پکانے کا بہت شوق ہے تو وہ پوچھ رہا تھا کہ میں عافیہ آنٹی کے لیے کیا بنائوں۔ تو عافیہ کہنے لگیں علی سے کہیں کہ جو کچھ بھی بنائے وہ غذائیت والا کھانا ہو، اس میں اللہ کی ناراضی کا کوئی پہلو شامل نہ ہو اور اس میں غریبوں اور مستحقین کو شریک کیا کرے۔ پھر اپنے کھانے کا بتایا کہ مجھے اب اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مطالعہ کے بارے میں کہنے لگیں کہ یہ لوگ ابھی بھی قرآن پاک کی توہین کرتے ہیں اس لیے میں اپنے پاس قرآن یا کوئی بھی اور کتاب نہیں رکھتی۔ ایک دعا جو میں نے انہیں خصوصی طور پر پڑھنے کا کہا تو میرے ساتھ ساتھ ہی وہ دہرانے لگیں اور بتایا کہ میں مستقل پڑھتی ہوں۔ دوسری ایک دعا انہیں کچھ بھول رہی تھی تو بالکل آتے آتے مجھ سے کہا کہ مجھے یہ یاد کرا دیں اور میں نے دو تین مرتبہ یہ دعا انہیں پڑھائی یا حی یا قیوم برحمتک استغیث اصلح لی شانی کلہ ولا تکلنی الی نفسی طرف عین۔
پاکستانیوں کے لیے پیغام
میں نے ان سے پوچھا کہ آپ پاکستان کے حکمرانوں، عوام، وکلاء، سیاستدانوں، طلبہ اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کو کیا پیغام پہنچانا چاہتی ہیں تو انہوں نے بالکل سادہ الفاظ میں ایک ہی جواب دیا کہ ان سے کہیں کہ مجھے اس جہنم سے نکالیں۔ مجھے ڈاکٹر فوزیہ نے عافیہ کا ایک سکارف دیا ہے جو میں مختلف جلسوں میں بھی سب کو دکھا رہا ہوں کہ سب پاکستانیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر طرح کی تفریق اور سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر عافیہ کو واپس لانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور یہ سکارف واپس ان کے سر پر پہنائیں۔
حکومتِ پاکستان کا کردار
اب تک حکمرانوں کا کردار انتہائی گھناؤنا رہا ہے۔ حکومت میں آنے سے پہلے سب ڈاکٹر عافیہ کے گھر جاتے اور ان کی والدہ سے وعدے کرتے رہے کہ ہم سو دن کے اندر انہیں واپس لائیں گے لیکن عملاً آپ دیکھیں کہ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کے دوران جب ایک صحافی نے ڈاکٹر عافیہ کے بارے میں سوال کرنا چاہا تو عمران خان نے انہیں منع کر دیا کہ اس پر بات نہ کریں۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ دوحہ پیس ڈیل اور یو ایس ودڈرال کے واقعات پی ٹی آئی حکومت کے دوران ہوئے ہیں جنہیں بہت آسانی سے عافیہ کی رہائی کے لیے مضبوط لیور کے طور پر استعمال کیا جا سکتا تھا لیکن پاکستان کی کسی بھی حکومت نے بیس سال میں ایک بار بھی حکومتی سطح سے عافیہ کے مسئلے پر کسی قسم کی کوئی بات امریکہ سے نہیں کی ہے۔ جبکہ حالیہ سیاسی کشیدگی کے بعد خدیجہ شاہ کی رہائی کے لیے امریکہ پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے کیونکہ وہ امریکی شہری ہیں۔ خدیجہ شاہ تو امریکہ کے ساتھ ساتھ پاکستانی شہری بھی ہیں جبکہ عافیہ تو صرف اور صرف پاکستانی شہری تھیں جنہوں نے کبھی گرین کارڈ کے لیے اپلائی تک نہیں کیا تھا تو ایک پاکستانی شہری پر امریکہ میں کسی بھی قانون کے تحت مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔
حکومتی بے حسی اور مجرمانہ غفلت کی بہت سی مثالیں ہیں۔ ابھی دورہ امریکہ میں جب میں پاکستانی سفارت خانے گیا تو وہاں ایک سینئر افسر سے ملاقات میں شدید دکھ ہؤا کہ وہ وہی تمام الزامات عافیہ کے ساتھ منسوب کر رہے تھے جو بالکل بے بنیاد اور محض پروپیگنڈا ہیں مثلاً یہ کہ ان کا القاعدہ سے تعلق، ہیروں کا کاروبار کرنا، مشکوک اشیا کی خریداری وغیرہ وغیرہ۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے کبھی عافیہ کیس کا مطالعہ کرنے کی زحمت ہی نہیں کی ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے جو میں نے سوال کی شکل میں سینیٹ میں بھی اٹھایا ہے کہ حکومت پاکستان نے ڈاکٹر عافیہ کے کیس میں دو ملین ڈالر لگائے ہیں تو ان کا حساب دیا جائے کہ وہ کہاں لگائے ہیں۔ ہمیں تو کہیں نظر نہیں آ رہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ دو ملین ڈالر عافیہ کی رہائی پر نہیں بلکہ ان کی رہائی مزید مشکل بنانے پر لگائے گئے ہیں۔
جیل میں لرزا دینے والاغیر انسانی سلوک
عافیہ نے جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ جس قدر نفسیاتی اذیتیں برداشت کی ہیں وہ ایک الگ داستان ہے۔ آپ تصور کریں جیل کی تنہائی اور اپنے بچوں سے دوری تو ایک طرف لیکن جب کبھی بھی انہیں دوسرے یونٹ میں لے جانا ہوتا ہے یا پیشی ہوتی ہے تو ایسے موقع پر ان کو بدترین میڈیکل ایگزامینیشن سے گزرنا پڑتا ہے جس میں ان کے جسم سے سارے کپڑے اتار دیے جاتے ہیں اور اس حالت میں ان کی ویڈیوز بنائی جاتی ہیں، انہیں مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ قرآن پاک پر پاؤں رکھیں نعوذ باللہ، ان سب کے باوجود وہ ابھی تک نہ صرف زندہ ہیں بلکہ اپنے نظریے کے ساتھ کھڑی ہوئی ہیں، ثابت قدم ہیں، اپنے اذکار میں مصروف رہتی ہیں تو یہ ایک معجزہ ہے۔
پیش رفت کے ممکنہ راستے
عافیہ کی رہائی کے لیے آگے کے لائحہ عمل کی جہاں تک بات ہے، میں حکومتی سطح سے اور بطور سینیٹر بھی کوششیں کر رہا ہوں۔ میں نے واپس آنے کے بعد وزیر اعظم کو خط لکھا ہے کہ میں ان سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں اور میں نے چار پانچ قانونی اور سیاسی راستے حکومت کے سامنے رکھے ہیں جن کے ذریعے بالکل آسانی کے ساتھ مہینوں میں نہیں بلکہ ہفتوں اور دنوں میں عافیہ واپس آ سکتی ہیں بشرطیکہ حکومت مدعی بن جائے۔ وہ چند آپشنز یہ ہیں:
فیصلے پرنظرثانی:Review of the Judgment
امریکہ میں بارہا ایسا ہو&ٔا ہے کہ کسی مقدمے کے فیصلے کے کئی سال بعد بھی ریویو ہؤا ہے اور گواہ اپنے بیان سے واپس ہوئے ہیں جس کی بنیاد پر فیصلہ زمین بوس ہو گیا ہے۔ اس کیس میں بہت آسانی سے ایسا ہو سکتا ہے کیونکہ ثبوت ویسے بھی موجود نہیں ہیں اور گواہوں پر اگر ریاست تھوڑا سا کام کر لے اور ان کے ضمیر کو جگانے کی کوشش کرے تو یہ عین ممکن ہے کہ وہ بیان سے واپس ہو جائیں۔
انسانی ہمدردی کی بنیاد پرمدد اور رہائی:
Relief and Release on Compassionate Grounds
ان کو ذہنی و جسمانی بیمار قیدیوں کی جیل میں رکھا گیا ہے اور گذشتہ تیرہ سال کا ان کا میڈیکل ریکارڈ ان کی رہائی کی اپیل کے لیے ایک مضبوط بنیاد بن سکتا ہے۔
رحم کی اپیل:Clemency
امریکی صدر کے ہر انتخاب کے موقع پر حلف اٹھانے سے پہلے صدر کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ مجرموں کو معاف کر سکتا ہے۔ اس کے تحت امریکہ نے اسرائیل کے کچھ مجرموں اور ایران اور جرمنی کے بڑے بڑے جاسوسوں کو معاف کیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے موقع پر پاکستانی حکومت صرف ایک خط لکھ دے امریکی صدر کو۔
مفادات کا تبادلہ:Swap of Interests
روزانہ کی بنیاد پر ریاستوں اور حکومتوں کے درمیان ایسے بہت سے معاملات آتے ہیں جن میں مفادات کا تبادلہ ہو رہا ہوتا ہے۔ تو اگر عافیہ کی رہائی کو حکومت اپنی ترجیحات کی فہرست میں ڈالے تو امریکہ کے ساتھ بہت آسانی سے کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر بات ہو سکتی ہے۔ اس میں قیدیوں کا تبادلہ بھی شامل ہوتا ہے۔ امریکہ نے ایران اور روس کے ساتھ بھی قیدیوں کا تبادلہ کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگرچہ شکیل آفریدی اور ڈاکٹر عافیہ کا کوئی موازنہ نہیں بنتا، شکیل آفریدی پاکستان کا مجرم ہے اور اس کے خلاف پورے ثبوت موجود ہیں لیکن حکومت پاکستان نے اس کے خلاف جتنا کمزور کیس بنایا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسی بات کی تیاری ہے کہ جونہی کچھ امریکی دباؤ بڑھے تو شکیل آفریدی کو قانونی راستہ دیتے ہوئے چھوڑنے میں مشکل پیش نہ آئے۔ تو اگر حکومت ویسے بھی شکیل آفریدی کو چھوڑ دے گی اور امریکہ بھیج دے گی تو کم از کم اس کے بدلے عافیہ کو تو واپس بلا لے۔
رہائی کی کنجی ،اسلام آباد یا واشنگٹن؟
لیکن میری ساری امیدیں قوم اور عوام سے ہیں۔ اس میں بنیادی بات یہ سمجھنے کی ہے کہ پاکستانی قوم اس بات پر یکسو ہو جائے کہ عافیہ مکمل طور پر بے گناہ ہیں۔ ان کے اوپر امریکی عدالت میں جو مقدمہ ہے اس میں نہ کوئی دہشت گردی کا مقدمہ شامل ہے، نہ ہی القاعدہ کا ذکر ہے بلکہ صرف حراست کے دوران امریکی فوجیوں سے اسلحہ چھین کر ان پر حملے کی ناکام کوشش کا الزام ہے جو بالکل ایک جھوٹا الزام ہے۔ اس کا کوئی ثبوت عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکا ہے۔ دوسرا اس بات پر بھی یکسو ہو جائیں کہ عافیہ کی رہائی کی کنجی واشنگٹن میں نہیں بلکہ اسلام آباد میں ہے۔ پاکستان کے عوام کے ہاتھ میں وہ طاقت ہے جس کے ذریعے وہ حکومت کو مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ عافیہ کیس میں مدعی بن جائے۔ ہم عوامی دباؤ کو منظم شکل دینے کے لیے گوگل فارم کے ذریعے رجسٹریشن کر رہے ہیں جس میں تین چیزوں پر حلف لیا جا رہا ہے:
۱۔ آپ اپنے آس پاس اور اپنے حلقہ اثر میں عافیہ کیس کے حوالے سے بات کریں گے اور آگاہی پھیلائیں گے ۔
۲۔ سوشل میڈیا سائیٹس پر کمپین چلائیں گے۔
۳۔ جب حکمرانوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے اسلام آباد کی کال دی جائے تو آپ اپنے خرچ پر آئیں گے۔ یہ ہر مسلمان کا ذاتی فریضہ ہے جس کے لیے ہمیں کسی تنظیم کے تعاون کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ میں بھی امریکہ اپنے ذاتی خرچ پر گیاہوں کیونکہ عافیہ ہماری بہن اور بیٹی ہے اور اپنی بہن اور بیٹی کی رہائی کے لیے کوئی کسی اور سے خرچہ نہیں مانگتا۔
یہ ایک قومی مسئلہ ہے
اس حوالے سے میں بہت پرامید ہوں کیونکہ امریکہ سے میں نے جو چند ٹویٹس کیں، صرف ان ٹویٹس پر پاکستانی عوام نے جتنا بھرپور رسپانس دیا اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک زندہ قوم ہے۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں جن کے ذریعے میں عوام اور خصوصاً تمام مکاتب فکر کے علمااور خطباکا شکریہ ادا کروں کہ انہوں نے اپنے اثر و رسوخ اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو استعمال کرتے ہوئے جس طرح چند دنوں کے اندر قوم کو جگا دیا وہ ایک بہت بڑی امید کی کرن ہے اور میں علماء سے درخواست کروں گا کہ وہ اسی طرح قوم کو جگانے اور اٹھانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے رہیں۔ اسی طرح ہمارے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نوجوان بھی شاباش کے مستحق ہیں جنہوں نے چھوٹی چھوٹی ویڈیوز بنا کر چند دنوں کے اندر عافیہ کیس کو پس منظر سے نکال کر بالکل عین منظر نامے کے درمیان لا کھڑا کیا۔ اسی طرح مختلف سیاسی جماعتوں نے بھی رابطہ کر کے تعاون کی بات کی تو میں ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یہ اکیلے کسی سیاسی جماعت کا ایشو نہیں ہے پوری قوم کی غیرت کی بازیابی کا مسئلہ ہے۔ یہ روز قیامت جواب دہی کا مسئلہ ہے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سرخرو ہونے کا مسئلہ ہے۔ تو میں قوم کے تمام طبقوں نوجوان، خواتین، علماء، سیاستدان، صحافی تمام کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے آواز میں آواز ملائی۔
گمشدہ افراد کی بازیابی
آخر میں میں مسنگ پرسنز پر بھی کچھ بات کرنا ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ ہماری یہ کمپین دو اہداف کے حصول کے لیے ہے۔ ایک عافیہ کی رہائی اور دوسرا مسنگ پرسنز کی بازیابی۔ دیکھیں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ عافیہ کیس بھی دراصل مسنگ پرسن کا کیس ہی تھا۔ 2003 سے 2008 تک وہ لاپتہ کی گئی تھیں اور اگر اسی وقت حکومت کارروائی کرتی تو معاملہ اس بدترین صورت حال تک نہ پہنچتا۔ اسی طرح دیگر مسنگ پرسنز کو بھی کبھی سالوں بعد واپس کر دیا جاتا ہے اور کبھی انہیں مار کے کہیں ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ دراصل پاکستانی آئین کی دفعہ 9 جو لائف اینڈ لبرٹی کا حق دیتی ہے اور دفعہ 10 اے جو فیئر ٹرائل کا حق دیتی ہے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اگر کسی شہری نے کوئی جرم کیا ہے تو اس پر عدالت میں مقدمہ چلنا چاہیے، اسے اپنا دفاع کرنے کا حق ملنا چاہیے لیکن افسوس کہ یہ بنیادی حق چھین کر جبری طور پر گمشدہ کر دیا جاتا ہے اور سب کی نظروں سے غائب کر کےمن مانا سلوک کیا جاتا ہے۔ یہ بدترین ریاستی ظلم کی ایک شکل ہے اور آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ یہ ہمارے ملک کے چہرے پر ایک بدنما داغ اور جمہوریت اور پارلیمنٹ کے لیے چیلنج ہے۔
اسی لیے ہماری کمپین کا دوسرا ہدف تمام جبری گمشدہ افراد کی بازیابی ہے۔ اس تحریک کی قیادت میرے ساتھ ساتھ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی جو بیس سال سے اپنی بہن کے بچوں کی پرورش کے ساتھ ساتھ بہن کی رہائی کے لیے ہر در پر گئی ہیں اور اس کے لیے زبردست خراج تحسین کی مستحق ہیں اورآمنہ مسعود جنجوعہ کریں گی جنہوں نے 2005 میں اپنے شوہر کی جبری گمشدگی کے بعد سے ڈیفنس آف ہیومن رائٹس تنظیم بنا کر حقوق انسانی کا علم بلند کیا اور جبری گمشدہ افراد کے خاندانوں کے لیے ایک سہارا اور امید بن گئیں۔ تو ہم تینوں اس تحریک کی قیادت کریں گے۔
ایک نہایت خوش آئند بات یہ ہے کہ امریکی دورے کے دوران ہی امریکی مسلمانوں کے درمیان مقبول ترین سکالرز شیخ عمر سلیمان اور شیخ یاسر قاضی نے ہم سے ملاقاتیں کیں۔ اپنی مساجد میں ہمارے پروگرام رکھے جس میں ہزاروں مرد و خواتین شریک ہوئے اور عافیہ کی رہائی کے لیے امریکہ کے اندر بیداری کی مہم چلانے کا اعلان کیا۔ اور یہ بھی وعدہ کیا کہ جب کبھی آپ عافیہ کی رہائی کے سلسلے میں کوئی بڑا ایونٹ اسلام آباد میں منعقد کریں گے تو ہم اپنے خرچ پر امریکہ سے آ کر اس میں شریک ہوں گے اور آپ کے شانہ بشانہ اس مہم میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ یہ سب باتیں اس چیز کی علامت ہیں کہ ان شاءاللہ عافیہ بہت جلد رہا ہو کر پاکستان آئیں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمت اور استقامت دیں اور ہماری مدد فرمائیں، آمین۔
٭ ٭ ٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x