ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

انوارِ ربانی – قبر اور عالم برزخ – ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی

قبر یا عالم برزخ سے مراد وہ عالم ہے جس میں موت کی آخری ہچکی سے لے کر بعث بعد الموت کے پہلے جھٹکے تک انسانی ارواح رہیں گی۔حدیث میں ’’ قبر ‘‘ کا لفظ مجازاً عالم بزرخ ہی کے لیے استعمال ہؤا ہے حدیث کے منکر اس بات پر مصر ہیں کہ عالم برزخ محض عدم کا عالم ہے جس میں کوئی شعور اور احساس نہیں اور نہ کسی قسم کا عذاب و ثواب ہوگا ۔ لیکن قرآن اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ جب کافر کی روح قبض کی جاتی ہے تو وہ موت کی سر حد کے پار کا حال اپنی توقع کے خلاف پا کر سراسیمہ ہو جاتا ہے ۔دوسری طرح متقی کی روح جب قبض کی جاتی ہے تو ملائکہ اس کو سلام بجا لاتے ہیں اور جنتی ہونے کی بشارت دیتے ہیں ۔ برزخ کی زندگی ، احساس و شعور ، عذاب و ثواب کا اس سے زیادہ کھلا کوئی اور ثبوت نہیں ہو سکتا ۔ سورہ مومن میں ارشاد ِ ربانی ہے ۔
’’ ایک سخت عذاب ( فرعون اور آلِ فرعون کو) گھیرے ہوئے ہیں ۔ یعنی صبح و شام وہ آگ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں ۔پھر جب قیامت کی گھڑی آجائے گی تو حکم دیا جائے گا آل فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کرو ‘‘۔
قرآن اور حدیث دونوں سے موت اور قیامت کے درمیان کی حالت کا ایک ہی نقشہ معلوم ہوتاہے ۔ موت محض جسم و روح کی علیحدگی کا نام ہے نہ کہ بالکل معدوم ہو جانے کا ۔جسم سے علیحدہ ہوجانے کے بعد روح معدوم نہیں ہو جاتی بلکہ اس پوری شخصیت کے ساتھ زندہ رہتی ہے جو دنیا کی زندگی کے تجربات اور ذہنی اور اخلاقی اکتسابات سے بنی تھی ۔ اس حالت میں روح کے شعوراً احساس ،مشاہدات اور تجربات کی کیفیت خواب سے ملتی جلتی ہے ۔اور مجرم روح کے فرشتوں کی باز پرس ، پھر اس کا عذاب اور اذیت میں مبتلا ہونا او دوزخ کے سامنے پیش کیا جانا سب کچھ اس کیفیت سے مشابہ ہوتا ہے جو ایک قتل کے مجرم پر پھانسی کی تاریخ سے ایک دن پہلے ایک ڈرائونے خواب کی شکل میں گزرتی ہوگی۔
اسی طرح ایک ایک پاکیزہ روح کا ملائکہ کا استقبال اور پھر اس کا جنت کی بشارت سننا اور جنت کی ہوائوں اور خوشبوئوں سے معتر ہونا ۔ یہ سب بھی اس ملازم کے خواب سے ملتا جلتا ہوگا جو حسن کار کردگی کے بعد سرکاری بلا وے پر ہیڈ کواٹر میں حاضر ہؤاہو او وعدہ ملاقات کی تاریخ سے ایک دن پہلے آئندہ انعامات کی امیدوں سے لبریز ایک سہانا خواب دیکھ رہا ہو ۔
یہ خواب نفخ دوم سے ٹوٹ جائے گا اور یکا یک میدان حشر میں اپنے آپ کو جسم و روح کے ساتھ زندہ پا کر مجرمین حیرت سے کہیں گے ۔
’’ ارے ہمیں ہماری خواب گاہ سے کون اٹھا لایا ‘‘ ۔
اس کے برعکس اہل ایمان پورے اطمینان سے کہیں گے ۔
’’ یہ وہی چیز ہے جس کا رحمٰن نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں کا بیان سچا تھا ‘‘۔
مجرمین کا فوری احساس اس وقت یہ ہوگا کہ وہ اپنی خوابگاہ میں جہاںبستر موت پر انہوں نے دنیا میں جان دی تھی شاید ایک گھنٹے پہلے ہی سوئے تھےاور اب اچانک اس حادثے سے آنکھ کھلتے ہی کہیں بھاگے جا رہے ہیں ۔ مگر اہل ایمان پورے ثبات قلب کے ساتھ کہیں گے کہ :
’’ اللہ کے دفتر میں تو تم روزِ محشر تک ٹھہرے رہے ہو اور یہی روز محشر ہے مگر تم اس چیز کو جانتے نہ تھے ‘‘۔
اللہ فرماتا ہے :
’’ پھر ذرا خیال کرو کہ جب وہ دوزخ میں ایک دوسرے سے جھگڑ رہے ہوں گے ‘‘( سورہ مومن ۴۷)
اس آیت میں عذاب بزرخ کا ذکر آیا ہے ۔ یہاں اللہ تعالیٰ عذاب کے دو مرحلوں کا ذکر فرما رہا ہے ۔ ایک کم تر درجے کا عذاب جو قیامت کے آنے سے پہلے ہوگا اور وہ یہ کہ منکرین کو صبح و شام دوزخ کی آگ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جسے دیکھ کر وہ ہر وقت ہول کھاتے رہتے ہیں کہ یہ ہے وہ دوزخ جس میں آخر کار ہمیں جانا ہے ۔ اس کے بعد جب قیامت آجائے گی تو انہیں وہ اصلی اور بڑی سزا دی جائے گی جو ان کے مقدر میں ہے ۔ یعنی وہ اسی دوزخ میں جھونک دیے جائیں گے جس کا نظارہ انہیں غرقاب ہو جانے کے وقت سے آج تک کرایا جا رہا ہے اور قیامت کی گھڑی تک کرایا جاتا رہے گا ۔تمام مجرموں کے ساتھ یہی معاملہ ہوگا۔
بخاری مسلم اور مسند احمد میں حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کی روایت ہے کہ حضور اکرم ؐ نے فرمایا ’’ تم میں سے جو شخص بھی مرتا ہے اسے صبح و شام اس کی آخری قیام گاہ دکھائی جاتی رہتی ہے خواہ وہ جنتی ہو یا دوزخی۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں تو اس وقت جائے گا جب اللہ تجھے قیامت کے روز دوبارہ اٹھا کر اپنے حضور بلائے گا ۔
سورہ طہٰ میں آیت نمبر 101سے 104تک ارشاد ربانی ہؤا:
’’ اس دن جبکہ صور پھونکا جائے گا اور ہم مجرموں کو اس حال میں گھیر لائیں گے کہ ان کی آنکھیں ( دہشت کے مارے) پتھرائی ہوئی ہوں گی آپس میں چپکے چپکے کہیں گے کہ دنیا میں مشکل ہی سے تم نے کوئی دس دن گزارے ہوں گے ۔ ہمیں خوب معلوم ہے کہ وہ کیا باتیں کر رہے ہوں گے ( ہم یہ بھی جانتے ہیں ) اس وقت ان میں سے جو زیادہ سے زیادہ اندازہ لگانے والا ہوگا وہ کہے گا نہیں تمہاری دنیا کی زندگی بس ایک دن کی زندگی تھی ‘‘۔
سورہ مومنون میں ارشاد ہؤا:
’’ اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تم زمین میں کتنے سال رہے ہو ؟ وہ جواب دیں گے ، ایک دن یا ایک دن کا کچھ حصہ رہے ہوں گے ، شمار کرنے والوں سے پوچھ لیجیے ‘‘۔
سورہ الروم میں ارشاد ہؤا:
’’ جس روز قیامت قائم ہو جائے گی تو مجرم لوگ قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہم ( موت کی حالت میں ) ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں پڑے رہے ہیں ۔ اسی طرح وہ دنیا میں بھی دھوکے کھاتے رہتے تھے اور جن لوگوں کو علم اور ایمان دیا گیا تھا وہ کہیں گے کہ کتاب اللہ کی رو سے تو تم یوم البعث تک پڑے رہے ہو اور یہ وہی یوم البعث ہے مگر تم جانتے نہ تھے ‘‘۔
قرآن مجید کی کئی آیات ہیں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ قیامت کے روز لوگ اپنی دنیاوی زندگی کے متعلق بھی یہ اندازہ لگائیں گے کہ وہ بہت تھوڑی تھی اور موت سے لے کر قیامت تک جو وقت گزرا ہو گا اس کے متعلق بھی ان کے اندازے ایسے ہی ہوں گے ۔ دنیا کی زندگی برزخ کی زندگی ان کے نزدیک بہت قلیل ہو گی کیونکہ انکار کرنے والوں کو آخر ت کی ابدی زندگی میں جب اپنی امیدوں کے برعکس آنکھیں کھولنا پڑیں گی اور انہیں اندازہ ہو گا کہ یہاں کی تیاری تو ان کے پاس تھوڑی سی بھی نہیں ہے تو انتہا درجے کی حسرت کے ساتھ وہ اپنی دنیاوی زندگی کی طرف پلٹ کر دیکھیں گے اور کف افسوس ملیں گے کہ چار دن کے لطف و انبساط کی خاطر ہمیشہ کی زندگی کا عذاب مول لے لیا ۔ حیات بعد ممات کو وہ غیر ممکن ہی سمجھتے رہے اور قرآن کے بنائے ہوئے عالم آخرت کا جغرافیہ کبھی سنجیدگی سے انہوں نے ذہن نشین کرنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔
یہی تصورات لیے ہوئے دنیا میں احساس و شعور کی آخری ساعت تک جا پہنچے ۔ اب جو اچانک آنکھیں ملتے ہوئے عالم آخرت میں بیدار ہوئے اور دوسرے ہی لمحے اپنے آپ کو ایک صور کی آواز پر مارچ کرتے ہوئے پایا تو گھبراہٹ کے ساتھ اندازہ لگانے لگیں گے کہ فلاں ہسپتال میں بے ہوش ہوئے یا فلاں حادثے میں جاں بحق ہوئے اس وقت سے اب تک کتنا وقت لگا ہوگا ۔ اس وقت تک انہیں حیات بعد االممات کا یقین نہ ہوگا کیونکہ دنیا میں اس بات کو لغو سمجھ کر مذاق میں اڑا دیا کرتے تھے اس لیے ان میں سے ہر شخص یہی سمجھے گا کہ شاید میں چند گھنے یا چند دن بےہوش پڑا رہا ہوں اور اب شاید مجھے ہوش آیا ہے یا ایسی جگہ اتفاق سے پہنچ گیا ہوں جہاں کسی بڑے حادثے کی وجہ سے لوگ ایک طرف کو بھاگے جا رہے ہیں ۔
سورہ مومنون کی آیت نمبر 100میں ا س کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے :
’’ اب ان سب مرنے والوں کے پیچھے ایک برزخ حائل ہے ۔ دوسری زندگی کے دن تک ، پھر جونہی کہ صور پھونک دیا گیا ان کے درمیان پھر کوئی رشتہ نہ رہے گا نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے ‘‘۔
برزخ سے مراد پر دہ یا رکاوٹ جو ان لوگوں کو واپس جانے سے روک دے گی اور قیامت تک یہ دنیا اور آخرت کے درمیان اس حد فاصل میں ٹھہرے رہیں گے ۔
’’ اور اس وقت نہ باپ بیٹے کے کام آئے گا نہ بیٹا باپ کے ۔ ہر ایک اپنے حال میں کچھ اس طرح گرفتار ہو گا کہ دوسرے کو پوچھنے تک کا ہوش نہ ہوگا کجا یہ کہ اس کے ساتھ کوئی ہمدردی یا اس کی مدد کر سکے ‘‘۔
ایک دوسرے مقام پر اسی مضمون کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ :
’’ کوئی جگری دوست اپنے دوست کو نہ پوچھے گا ‘‘ اور’’ اس روز مجرم کا جی چاہے گا کہ اپنی اولاد اور بیوی اور بھائی اور اپنے حمایت کرنے والے قریب ترین کہنے اوردنیا بھر کے سب لوگوں کو فدیے میں دے دے اور اپنے آپ کو عذاب سے بچا لے ‘‘۔(سورہ المعارج۔ رکوع1)
سورہ عبس میں ارشاد ربانی ہؤا:
’’ وہ دن کہ آدمی اپنے بھائی اور ماں اور باپ اور بیوی اور اولاد سے بھاگے گا ، اس روز ہر شخص اپنے حال میں ایسا مبتلا ہوگا کہ اسے کسی کا ہوش نہ ہوگا ‘‘۔
سورہ مومنون کی آیت99میں ارشاد ہؤا:۔
’’یہ لوگ اپنی کرنی سے باز نہ آئیں گے یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آجائے تو کہنا شروع کرے گا کہ اے میرے رب مجھے اسی دنیا میں واپس بھیج دیجیے جسے میں چھوڑ آیاہوں ، امید ہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا ۔ ہرگز نہیں یہ تو بس ایک بات ہے جو وہ بک رہا ہے ‘‘ ( سورہ مومنون 99)
عالم برزخ کا مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے کہ مجرمین موت کی سرحد میں داخل ہونے کے وقت سے لے کر آخرت میں واصل جہنم ہونے تک بلکہ اس کے بعد بھی درخواست کرتے رہیں گے کہ بس ایک دفعہ دنیا میں انہیں واپس بھیج دیں اب ہماری توبہ ہے ہم کبھی نا فرمانی نہیں کریں گے بالکل سیدھی راہ چلیں گے لیکن ان کو واپس نہیں بھیجا جائے گا ۔ از سر نو عمل کے لیے انہیں کوئی موقع نہیں دیا جائے گا ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں اگر دوبارہ امتحان کے لیے اسے واپس بھیج دیا جائے تو اس کے حافظے اور شعور میں وہ سب مشاہدے بھی محفوظ ہوں گے جو مرنے کے بعد اس نے کیے یا ان سب کو محو کر کے اسے پھر ویسا ہی خالی الذہن پیدا کیا جائے جیسا وہ پہلی زندگی میں تھا ۔ اوّل الذکر صورت میں امتحان کا مقصد فوت ہو جاتا ہے کیونکہ اس دنیا میں آدمی کا امتحان اس بات کا ہے کہ وہ حقیقت کا مشاہدہ کیے بغیر اپنی عقل سے حق کو پہچان کر اسے مانتا ہے یا نہیں اور طاعت و معصیت کی آزادی و اختیار رکھتے ہوئے ان دونوںراہوں میں سے کس راہ کو منتخب کرتا ہے ۔ اگر اسے حقیقت کا مشاہدہ کرا کے ، معصیت کا انجام عملاً دکھا کر معصیت کے انتخاب کے لیے کہا جائے تو کوئی بھی اس بری راہ پر چلنے کے لیے تیار نہ ہوگا ۔دوسری صورت میں ایک بار آزمانے کے بعد دوبارہ امتحان میں ڈالنا فضول ہے ۔ اس لیے اس کے لیے دنیا کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا جائے گا ۔ یہی وہ برزخ یا حد فاصل ہے جو دنیا اور آخرت کے درمیان حائل رہے گی ۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x