ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ابتدا تیرے نام سے – صائمہ اسما

قارئین کرام سلام مسنون!
امید ہے اس ہوشربامہنگائی اورشدت کی گرمی میں بھی عید الاضحیٰ نے چہروں پر ضرور خوشیاں بکھیری ہوں گی، روح کو سرشار کیا ہوگا، اللہ کی رحمت کی پھوار برستی محسوس کروائی ہوگی، دلوں اور دسترخوانوں کو وسعت دی ہوگی۔ اللہ کرے سب کا جذبہِ قربانی منظور و مقبول ہو کہ اللہ نے فرمایا مجھے ان جانوروں کا گوشت اور خون نہیں ، بس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہےکہ وہ کیسا ہے!اللہ تمام حجاج کرام کے حج بھی مقبول و مبرورفرمائے، اورجن کو یہ سعادت اب تک نصیب نہیں ہوئی انہیں بلاوا بھیج دے۔
سانحہ نو مئی کے ملزمان کی فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب سمیت سب حقیقی سیاسی حلقوں نے مخالفت کی ہے۔بین الاقوامی تنظیموں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے بھی فوری طور پر ان سب مقدمات کو سول عدالتوں میں منتقل کرنے کو کہا ہے کیونکہ یہ ملکی سطح پر انسانی حقوق کے عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔ ان فوجی عدالتوں کی اجازت سانحہ اے پی ایس کی وجہ سے اکیسویں ترمیم کے ذریعے دو سال کے لیے لی گئی تھی اور صرف دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کے لیے ان کو عارضی طور پر قائم کیا گیا تھا۔ پھر ناگزیر وجوہات کی بنا پر اس اجازت میں توسیع کی گئی جو کہ ۲۰۱۹ میں ختم ہو چکی ہے۔جب نظام انصاف کاپورا ڈھانچہ ملک میں موجود اور کارفرماہے تو فوج کی عدالت میں عام شہریوں کو پیش کیا جانا قطعاً خلافِ آئین ہے۔ کسی سویلین کو فوجی عدالت میں ٹرائل نہیں کیا جاسکتا، یہ بنیادی شہری حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ سماعت کا حق آئین کی شق ۱۰۔۱ے کے مطابق ہر شہری کے بنیادی حقوق میں شامل ہے جس کی فوجی عدالتوں کے خفیہ طریق کار میں ضمانت نہیں ہوتی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نومئی کے واقعات کی منصوبہ بندی اور عملدرآمد کے مجرموں کو عبرت ناک سزائیں دی جائیں،مگر جب تک اس معاملے کی غیرجانبدارانہ تحقیقات نہیں ہوں گی اصل مجرم سامنے نہیں آئیں گے۔ سینئر وکیل اور سیاستدان اعتزاز احسن نے سانحہ نو مئی پراپنی پٹیشن میں اہم سوالات اٹھائے ہیں اور ان کے جوابات کبھی بھی فوجی عدالتوں کی یکطرفہ اور خفیہ کارروائی سے نہیں مل سکتے۔ نو مئی اگر واقعی یوم سیاہ ہے تو پھر وطن عزیز کے چہرے پر یہ سیاہی ملنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانا بھی ضروری ہے ورنہ اب تک بے شمار ایام سیاہ آئے اور گئے مگر کبھی حقیقی مجرم اپنے انجام کو نہ پہنچے۔لیاقت علی خان کی شہادت سے لے کر پاکستان کے دولخت ہونے تک،اورماضی قریب میں کراچی میں ایم کیو ایم کی دہشت گردی کا پورا عشرہ،ان کے ٹارچر سیلوں کا انکشاف،پھر اعلانِ واشنگٹن، پرویز مشرف کا مارشل لالگاکراچھے بھلے جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنا، جامعہ حفصہ کے معصوم طلبہ کا قتل عام،بےنظیر کی شہادت پر پیپلزپارٹی کا پورے ملک میں آگ لگا دینا،سانحہ ۱۲ مئی، سانحہ ماڈل ٹاؤن، سانحہ بلدیہ ٹاؤن۔۔۔فہرست اتنی طویل ہے کہ یہاں بیان نہ ہوسکے گی۔
ایک سانحہ شہر کراچی پہ بھی گزرا جو یوم سیاہ سے کم نہیں جب عوام کی نمائندہ سیاسی قوت کواپنا میئر بنانے سے روک دیا گیا۔ نو لاکھ ووٹ لینے والوں کے بجائے محض تین لاکھ ووٹ وہ بھی اپنی من مانی حلقہ بندیوں اورنتائج کی تبدیلی کے بعد لینے والوں کو شہر کی زمام کار تھما دی گئی۔کراچی جیسی سونے کی چڑیا کو موجودہ ایلیٹ مافیا اپنے ہاتھوں سے نکلتا ہؤا کیسے دیکھ سکتا تھا، جو سندھ پر وڈیرہ شاہی کے ذریعے ان کا قبضہ برقرار رکھنے کا دروازہ بھی ہے…. پی ٹی آئی کے ممبران کچھ ڈرا دھمکا کر خاموش کروا دیے گئے کچھ منڈی میں اپنی بولیاں لگوا آئے۔حقیقت یہ ہے کہ اقتدار اور اختیار کے کھیل میں واحد ایک چیز جو چاہیے وہ بس کردار کی مضبوطی ہے۔۔۔ہر لالچ اور خوف کے آگے ڈٹ جانے والا کردار….سینے پر پتھر کی سل اور احد احد کی پکار….ایک ہاتھ پہ چاند دوسرے پر سورج کی پیش کش کا بھی انکار۔۔۔باقی سب کچھ بے معنی ہو چکا ہے۔ہماری مرتی ہوئی معیشت کو آئی ایم ایف نے بچا کر احسان کیا اور چند گھنٹوں کی مہلت پر پھر وینٹی لیٹر کا سوئچ آن کردیا وہ بھی اگلے نو ماہ کے لیے، جبکہ مانگنے والوں کوتوقع تین ماہ سے زیادہ کی نہ تھی۔
عید الاضحیٰ کے دن سویڈن کی حکومت نے اپنی بدبختی ایک بار پھر ثابت کرتے ہوئے ایک مذہبی جنونی دہشت گرد کو مسلمانوں کی دلآزاری کرنے کے لیے اپنی پوری حفاظت فراہم کی۔عالم اسلام میں ترکیہ نے سبقت کرتے ہوئے سخت الفاظ میں مذمت کی، مراکش نے تواحتجاج میں سفیر بھی واپس بلالیا،مگر خود سویڈن میں بھی عام لوگوں نے اس نفرت انگیز حرکت کی مخالفت کی۔ امریکہ نے یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ یہ حرکت قانونی تو ہے مگر مناسب نہیں۔اہل مغرب کی جہالت پر افسوس ہوتا ہے جنہوں نے گزشتہ پانچ صدیوں سے علوم وفنون میں دنیا کی رہنمائی کی ہے مگر اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر اتنے کھلے دہرے معیارات پر انہیں کوئی شرمندگی نہیں۔ ان کے قانون میں آزادیِ اظہار مطلق نہیں ہے بلکہ اس پر کئی قدغن ہیں جیسا کہ مہذب انسانی معاشروں میں ہونا چاہیے۔ بلکہ یہودیوں کے بارے میں تو وہ غیرمعقول حد تک قدغن لگاتے ہیں۔ یہ صرف اسلام ہے جس کو نیچا دکھانے کی حسرت ان سے ایسے نفرت انگیز کام کرواتی ہے جو شرفِ انسانی سے بھی گرے ہوئے ہیں۔ یہ امت کے زوال کے شاخسانے ہیں کہ ان کا ہاتھ سختی سے پکڑنے والا کوئی نہیں۔ یہ امتحان ہمارا ہے ورنہ اللہ تواپنے کلام کی حفاظت خود فرمانے والا ہے، اللہ کے مقابلے پر کون آسکتا ہے!
اس باردخترِ وطن عافیہ صدیقی سے ملاقات اور ان کے کیس کی تفصیلات کا احوال خاص مضمون کے طور پہ شامل ہے۔ یہ معاملہ ہم سب کے دلوں سے بے حد قریب ہے، امید ہے آپ کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوگا۔حج کی مناسبت سے کچھ کالم ہیں اس کے علاوہ مددگار نمبر کی کچھ مزید تحریریں ہیں جو جون میں شامل نہ ہو سکی تھیں۔ہمارے پڑھنے والے کم سخن سہی مگر خاص نمبر پر زبانی اور تحریری بہت سی پسندیدگی موصول ہوئی ہے۔ کچھ تبصرے شامل ہیں، مزید ان شاءاللہ اگلے شمارے میں ہوں گے۔آرٹسٹک سرورق کو خصوصی طور پر سراہا گیا ہے اگرچہ کچھ سوالات بھی اٹھے۔یہ تصویر تجریدی آرٹ کی ویب سائٹ سے لی گئی ہے،اصل موقع محل جو بھی ہو مگر ہماری تھیم کو اچھے انداز میں بیان کرتی ہوئی لگی اس لیے منتخب کی۔ بعد میں معلوم ہؤا کہ غالباًبرصغیر کے کسی علاقائی سب کلچرمیں کسان میلے کے لوک رقص پر مشتمل ہے۔
چند اشعار کے ساتھ اجازت دیجیے اگلے ماہ تک بشرطِ زندگی:

 

کچھ کہنے کا وقت نہیں یہ کچھ نہ کہو خاموش رہو
اے لوگو خاموش رہو ہاں اے لوگو خاموش رہو
سچ اچھا پر اس کے جلو میں زہر کا ہے اک پیالہ بھی
پاگل ہو کیوں ناحق کو سقراط بنو خاموش رہو
گرم آنسو اور ٹھنڈی آہیں من میں کیا کیا موسم ہیں
اس بگیا کے بھید نہ کھولو سیر کرو خاموش رہو
آنکھیں موند کنارے بیٹھو من کے رکھو بند کواڑ
انشاؔ جی لو دھاگا لو اور لب سی لو خاموش رہو

 

دعاگو، طالبہ دعا
صائمہ اسما

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x