ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

اِن زخموں سے خوں رِستا ہے – بتول اگست ۲۰۲۲

جیسے ہی اطلاعی گھنٹی بجی ،تینوں بڑے بچوں نے دروازہ کی طرف دوڑ لگا دی ، شازیہ نے کچن سے آواز لگائی ’’ کون ہے ؟‘‘
’’ ماسی بی بی آگئیں ماسی بی بی آگئیں ‘‘بچوں نے جالی والے دروازہ میں سے دیکھ کر کورس میں جواب دیا۔
شازیہ کام چھوڑ تولیہ سے ہاتھ صاف کرتی تیزی سے دروازہ کی طرف لپکی اور جھٹ سے کُنڈی کھول دی ، ماسی بی بی حسب سابق و عادت ڈھکنے والی پلاسٹک کی ٹوکری اور دو تین گٹھڑیاں دائیں بائیں رکھے بیرونی برآمدہ میں کھڑی تھیں دروازہ کھلتے ہی بچوں نے لپک کر اُن کا سامان اٹھایا اور اندر کی طرف دوڑلگا دی ، وہ جانتے تھے کہ گٹھڑیاںان کے پسندیدہ سامان سے بھری ہوئی ہیں ۔
’’ ماسی بی بی کو اندر تو آنے دو ‘‘شازیہ کی ڈانٹ بے کار رہی ، ماسی بی بی مسکراتی ہوئی شازیہ کے گلے لگ گئیں شازیہ نے پیار سے اُن کے بڑے کمرہ میں بچھے پلنگ پربٹھایا اور بولی ۔
’’میں آپ کے لیے شربت بنا کر لاتی ہوں ‘‘۔
’’ نہیں شازی نہیں ، میں ابھی کچھ نہیں لوں گی میرا من بہت بھرا ہؤا ہے ، بس تم میرے پاس بیٹھ جائو ‘‘انہوں نے محبت سے شازیہ کا بازو پکڑ اپنے پاس بٹھاتے ہوئے کہا اور وہ بلاچوں چراں حکم کی تعمیل پر مجبور ہو گئی وہ جانتی تھی کہ ماسی بی بی کی یہ عادت نئی نہیں بہت پرانی ہے اتنی پرانی کہ جتنی ان کی کہانی ۔
’’ جب من ہلکا ہو جائے گا تو میں خود ہی بتا دوں گی ‘‘ اور پھر دونوں دُکھ بانٹنے میں مصروف ہو جاتیں ، بچے مایوس ہو کر دوبارہ کھیل میں مگن ہو جاتے ساتھ ساتھ گٹھڑیوں اور ماسی بی بی کو کن انکھیوں سے دیکھتے رہتے جب اُن کا من ہلکا ہو جاتا تو وہ شازیہ سے کہتیں ۔
’’شازیہ!جائو اب میرے لیے کچھ لے کر آئو ‘‘شازیہ لپک کر اُن کی حسبِ منشاء سجی ٹرے اُن کے سامنے لا رکھتی ، بچوں کو بھی اُمید بندھتی اور وہ اپنے تحائف وصول کرنے اُن کے ارد گرد آڈیرے ڈالتے ، تھوڑا بہت کھانے کے بعد وہ اپنی پٹاریاں کھولتیں ، اکلوتے پوتے کو ست رنگی ربڑی گیندوں کا پیکٹ پکڑاتیں جن کو پکڑ کر وہ باہر صحن کی سمت دوڑ لگا دیتا۔ بڑی دونوں بیٹیوں کے لیے خوبصورت چھوٹی چھوٹی رنگیلی پیڑھیاں اور مختلف کھولنے ہوتے سب سے چھوٹی چندماہ کی بچی کو وہ شازیہ کی گود سے اپنی گود میں منتقل کر تیں اور منہ سر چومنے لگ جاتیں اور محبت سے گویا ہوتیں ۔
’’ بس اس کی طرف سے تم بے فکر ہو جائو اس کو آج سے میں سنبھالوں گی‘‘۔ پھر وہ اپنی ٹوکری جس کو چھوٹی سی تالی لگی ہوتی ، اٹھا کر سلیقہ سے ایک الماری میں ٹکا دیتیں ، منہ ہاتھ دھو کر تازہ دم ہوتیں اور چھوٹی بچی کو دوبارہ گود میں بٹھا لیتیں ۔
’’ کتنی کمزور ہو گئی ہو تم دونوں ،‘‘ وہ اس کا ماتھا چومتے ہوئے فکر مندی سے بولتیں ۔
’’ ماسی سب کہتے ہیں یہ آپ پر گئی ہے ‘‘ شازیہ اُن کی توجہ ہٹانے کی کوشش کرتی، ماسی کے لیے یہ بات بہت خوشی کا باعث ہوتی ۔
’’ چلو شکر ہے کوئی تو میرے جیسا ہے ، اللہ کرم نصیب نہ میرے جیسے دے کسی کو ‘‘ وہ دوبارہ غمگین ہو جاتی۔
’’ ماسی آپ کتنی خوبصورت ہیں ‘‘ شازیہ اُن کے معصوم چہرہ کو دیکھ کر کہتی ۔
’’ یہ چھوٹی بھی آپ کی طرح حسین ہے ‘‘ ۔’’چلو میرے مرنے کے بعد اس کو دیکھ کر مجھے یاد کر لیا کرنا ‘‘ ماسی محبت سے اسے بھینچتے ہوئے کہتیں۔ ’’ شازی! اب میں آگئی ہوں ، تم اب کوئی کام نہیں کرو گی ‘‘۔
’’ توپھر میں کیا کروں ماسی؟‘‘
’’ تم آرام کرنا ، بچوں میں تمہاری صحت بہت خراب ہو رہی ہے ‘‘ ماسی کا جواب ہوتا اور یہ صرف بات ہی نہ ہوتی بلکہ اُسی دن سے وہ شازی کو ہر کام سے فارغ کر دیتیں گھر کی ساری ذمہ داری وہ خود اٹھا لیتیں۔
قارئین کرام! ماسی بی بی کو ن تھیں ہجرتِ پاکستان سے ان کا کیا تعلق تھا میں اپنی کہانی کا رُخ اب اُسی طرف موڑ رہی ہوں یہ رونگٹے کھڑے کر دینے والی سچی داستان ، ہجرت پاکستان سے گہرا تعلق رکھتی ہے وطن مقدس کی خاطر ہر طرح کی قربانیاں دینے والے لوگ وطن اور اہلِ وطن سے محبت کرتے وطن کی مٹی اوڑھ کر سو گئے صلہ کس صورت میں ملا یہ بھی آپ جان لیں گے۔
1947ء کا دور تھا ضلع لدھیانہ تحصیل جگرانواں کے ایک گائوں میں کرماں بی بی اپنے والدین کے ساتھ رہتی تھی ، خوبصورت ، سلیقہ مند نوجوان دوشیزہ جسے دور و نزدیک کا ہر خاندان اپنی بہو بنانے کا آرزو مند تھا کرماں کے والدین کی نظر میں کوئی جچتا ہی نہ تھا آخر اُس کا نصیب کھلا اور وہ ساتھ کے گائوں میں خدا بخش کی حویلی میں بیاہ کر جا اُتری ،کہاں ماں باپ کے گھر کا عیش و آرام اور کہاں سسرال کا زمیندارانہ کام ، کرماں مشین بن گئی المناک انکشاف شوہر کے ذہنی توازن صحیح نہ ہونے کی صورت میں ہؤا کچھ عرصہ کرماں نے خوش اسلوبی سے رشتہ نبھانے کی کوشش کی مگر مرض بڑھتا گیا ہوتے ہوتے والدین کے کانوں تک بھی یہ خبر پہنچ گئی ، ملنے کے لیے میکہ گئی ہوئی کرماں کو کسی نے واپس جانے ہی نہ دیا ، نہ طلاق نہ خلع ، والدین کا یہی کہنا کافی تھا کہ بس کام ختم ۔
’’ برادری کی عزت اور انا کا مسئلہ ہے علیحدگی نہیں کروائیں گے ‘‘، یوں کرماں رسوم و رواج کی بھینٹ چڑھ گئی ، یہ کرماں کی پہلی قربانی تھی کرماں کو چپ لگ گئی اب اُسے پوری زندگی اسی طرح گزارنا تھی باپ بھی زمیندار تھا بھائی چھوٹا تھا کرماں ماں باپ کی پہلی اولاد تھی لہٰذا وہ باپ کے ساتھ کولہو کا بیل بن گئی۔
تحریک پاکستان کا آغاز ہو چکا تھا ’’بن کے رہے گا پاکستان بٹ کے رہے گا ہندوستان‘‘ کے نعرے ہر بستی اور گلی کوچہ میں گونجنے لگے ۔ کرماں کا گائوں اس سے الگ نہ تھا ۔ چاروں طرف سے پریشان کن خبریں سننے میں آ رہی تھیں فلاح بستی کو سکھوں نے آگ لگا دی ، ہندوئوں نے فلاں گائوں پردھاوا بول دیا ‘‘مردوں کو شہید کر دیا جاتا اور نوجوان دوشیزائوں کو اٹھا کر لے جاتے غیرت کی ماری نوجوان لڑکیوں نے کنوئوں میں چھلانگیں لگا کر بھی خود کو قربان کر دیا۔
کرماں اپنے بوڑھے ماں باپ کے پاس اکیلی تھی بھائی مکلاوہ لینے دوسرے گائوں گیا ہؤا تھا چھوٹی بہن اپنے سسرال تھی ۔ وہ قیامت کی صبح طلوع ہوئی تھی کرماں اپنے باپ کے ساتھ کھیتوں میں کام کر رہی تھی کھیت گائوں کے ساتھ ہی لگتے تھے ست سری اکال کے نعروں کی گونج ، ہتھیاروں کی جھنکار ، مدہوش سکھ و ہندوئوں کے فلک شگاف قہقہے سن کر باپ بیٹی نے سر جو اٹھایا تو موت سر پر کھڑی تھی ، پورا گائوں گھیرے میں تھا قتل عام کا آغاز ہو چکا تھا۔
کرماں شیطانی نگاہوں سے کہاں چھپی رہ سکتی تھی نہ کوئی جائے پناہ تھی اور نہ جائے فرار ، نہ آسمان رویا نہ زمین ، کرماں کو تو ہوش اس وقت آیا جب اس کو درندگی سے کسی مکروہ شیطانی شکل والی بڑھیا کے آگے پھینکتے ہوئے نشہ میں دُھت ایک شیطان نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
’’ اماں دیکھ تو سہی ، تیرے لیے کتنی خوبصورت بہو لایا ہوں ‘‘ اور پھر ’’مُسلی کہیں کی ‘‘کہہ کر اس نے پائوں سے زور کی ٹھوکر مارتے ہوئے حقارت سے اس پر تھوک دیا ۔ پہلی قربانی کی تو اس کے آگے کوئی اہمیت ہی نہ تھی ۔ وہ روز جیتی اور روز مرتی رہی ، ماں باپ سسکتے ہوئے منوں مٹی تلے جا سوئے کسی کو کچھ خبر نہ تھی کہ کرماں کہاں گئی زمیں کھا گئی یا آسماں نکل گیا۔
بھائی بہن اپنے بال بچوں کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان پہنچ گئے کرماں کی تلاش جاری رہی مہاجر کیمپ چھانے گئے قافلوں کو دیکھا آنے جانے والوں سے پوچھا ، کچھ اتہ نہ پتہ۔
اراضی کی منتقلی کے لیے کلیم حاصل کرنے کو لوگ ہندوستان میں آ جا رہے تھے اپنے اپنے دیہاتوں کا چکر بھی لگا رہے تھے سب جاننے والوں کو آگاہ کر دیا گیا تھا ۔
امید و یاس کی کیفیت تھی ۔ دو سال بیت گئے تھے تیسرا گزر رہا تھا جب اُمید کی ہلکی سی کرن نظر آئی کرماں کے گائوں کا ایک آدمی اپنی زمینوں کے کاغذات کے سلسلہ میں وہاں گیا تو گھر بھار کو دیکھنے کی تڑپ روک نہ سکا ، کنٹرول اُس وقت فوج نے سنبھالا ہؤا تھا غدر تھم چکا تھا انتقام کی آگ قدرے ٹھنڈی پڑ چکی تھی ۔وہ شخص روتے بلکتے اپنے گائوں کے کھیت کھلیان اور سڑکوں سے گزر رہا تھا کہ یکدم ٹھٹھک گیا ۔ اُسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا آنسو بھری آنکھوں کو اُس نے زور زور سے مسل کر صاف کیا اور ایک طرف نظریں جما دیں ۔
’’ خدا کی قسم یہ تو وہی ہے … خدا کی قسم یہ کرماں ہے … ہمارے گائوں کے چوہدری کی گم شدہ بیٹی … ہماری بیٹی ‘‘ وہ شدت جذبات سے بُڑ بڑا رہا تھا ، اُس کو اپنی زمین ، اس کے کاغذت بھول گئے تھے۔
کرماں گرِدو پیش سے بے نیاز چارہ کاٹ رہی تھی دشمنانِ دین کی بے دام غلام ، مظلوم لونڈی جس سے دشمن جی بھر کر اسلام دشمنی کا بدلہ لے رہے تھے وہ شخص چاروں طرف دیکھتے ہوئے بہت احتیاط سے دبے پائوں آگے بڑھ رہا تھا جب اُسے پختہ یقین ہو گیا کہ کرماں اکیلی ہے تو اس نے قریب جا کر آہستہ سے آواز دی ۔
’’ کرماں بیٹی !‘‘
کرماں نے یہ کیسی آواز سنی تھی جیسے پیاسے کو تپتے صحرا میں سایہ میسر آگیا ہو یا پانی کی پھوہار اُس پر پڑی ہو اُس نے چونک کر آواز کی سمت نگاہ ابٹھائی اور سکتے میں آگئی ’’ چاچا بشیرا‘‘ قدرت کی طرف سے آزادی کا پیغام اس سے پہلے کہ وہ جذبات میں آکر کوئی غلط قدم اٹھاتی چاچا بشیرنے منہ پر انگلی رکھ کر اُسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا ۔
کرماں کے آنسوئوں کا بند ٹوٹ چکا تھا اور وہ خاموش زبان سے سسکیوں کو مشکل سے دبا رہی تھی ، مطلع صاف ہؤا تو اشاروں کنایوں میں باتیں ہوئیں اور وہ فرشتہ ضروری معلومات لے کر بغیر اپنا کام کیے واپس وطن لوٹ گیا اور پہلی فرصت میں کرماں کے بھائی کے پاس جا کر تمام روداد گوش گزار کی ۔ سب کا دل یہ خوش خبری سن کر بلیوں اچھل رہا تھا ۔ بہت احتیاط اور مضبوط منصوبہ بندی کی ضرورت تھی خاندان والوں نے کرماں کی بازیابی کے لیے کوششیں تیز کردیں۔
تین سال بیت چکے تھے کرماں اسلام دشمنی کی چکی میں پستے پستے تین سکھوں کو جہنم دے چکی تھی ۔اُس کا نالہ نیم شبی عرش کو ہلا رہا تھا ارض و سماں بھی اس قہر اور ظلم و ستم پر نوحہ کناں منتظر تھے ۔بوڑھی سکھنی نے پوتوں کے کیس بنا رکھے تھے اور فخر سے اُن کو دیکھتی حقارت سے کرماں کے منہ پر تھوکتی اور اُن کو لے کر مندر کی راہ لیتی۔
کرماں اُس کے طعنے سنتی اور خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتی ۔ اس کے کان طعنے سن سن کر پگ گئے تھے ۔ بوڑھی نفرت سے دیکھتی اور ہذیان بکنے لگتی۔
’’ ہم نے تم مُسلی سے اپنے سپوت پیدا کروائے ہیں یہ بڑے ہو کر تمہارے دین کو مٹائیں گے دیکھنا تم، کہاں ہے تمھارا رب اور رسولؐ انہیں بلائو تمھیں آکر چھڑائیں ، نکالیں ہمارے چنگل سے ، کہاں ہیں تمہارے غیرت مند باپ اور بھائی … ہم بھی تو دیکھیں تمھارا رب کتنا طاقتور ہے…ہمت ہے تو کوئی آئے یہاں ‘‘۔
کرماں روز ان اذیتوں سے گزرتی ، ایک دو دفعہ اُس نے خودکو ختم کرنے کی بھی کوشش کی تو اس پر اور بھی زیادہ ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ۔
’’تمہارا کیا خیال ہے ہم تمہیں اتنی آسانی سے مر جانے دیں گے؟‘‘تم سے تو ہم نے گِن گِن کر بدلے لینے ہیں … تمہارے پاکستان کا مزہ چکھانا ہے ‘‘۔
وہ خود کے آنسو روتی خون کے گھونٹ پیتی اور جبر و قہر کی سولی پر لٹکی رہتی ۔
قارئین کرام ! اللہ کے گھر میں دیر ہے اندھیر نہیں ، ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ کرماں کے درد بھرے نالے آسمانوں کا سینہ چیرتے ہوئے عرش الٰہی کو ہلا رہے تھے قبولیت کی گھڑی قریب آن لگی تھی نالوں کا جواب آنے ہی والا تھا ۔ کرماں کے خاندان میں پڑھے لکھے لوگ بھی موجود تھے جن کی با اثر حکومتی افسران تک رسائی تھی ۔ بات اُن تک پہنچائی گئی اور فوج کے ذریعے سے ایک خفیہ منصوبہ بنایا گیا ۔ چا چا بشیر کو ساتھ لے کر یہ کانوائے سوئے منزل روانہ ہؤا کرماں کا بھائی اور رشتے کا چاچا ساتھ تھے ۔ فوجیوں کی آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا ۔ زمین جائیداد کی منتقلی ، سفارت کاری کے معاملات جاری ہو چکے تھے۔
فوجی ٹرک ہندوستان کی حدود میں داخل ہو کر کرماں کے گائوں کے قریب ایک فوجی اسٹیشن پر رُک گیا اور چاچا بشیرا اللہ کا نام لے کر اپنے مشن پر روانہ ہو گیا ، اُسی مقام اور انہی کھیتوں کی جانب جہاں اُس کی کرماں سے ملاقات ہوئی تھی ۔آج وہ خوفزدہ نہیں تھا ، نصرت تائیدی اس کی رہنمائی کر رہی تھی ۔ اُس نے دُور ہی سے کرماں کو چارہ کاٹتے دیکھ لیا تھا ۔ احتیاط سے چاروں طرف دیکھتے ہوئے وہ کرماں کے قریب جا پہنچا اور آہستہ سے آواز لگائی ۔
’’ کرماں بیٹی !‘‘
وہ تو گوش بر آواز تھی اُس کارواں رواں کان بن چکا تھا وہ پہلے سے ہی گویا منتظر تھی بات چیت ہوئی آنے والے نے پورا منصوبہ گوش گزار کیا اور اگلے روز کی بات پکی ہو گئی ، آنے والا واپس پلٹا اور کرماں چارہ اٹھائے اس جہنم کی طرف روانہ ہوگئی جہاں سے نکل کر وہ جنت ارضی میں جانے والی تھی ، قیامت کی گھڑیاں ختم ہونے والی تھیں ۔گھر والے اپنے میں مگن تھے کرماں کی طرف سے اب اُن کو کوئی خدشہ نہ تھا وہ بالکل مطمئن ہو چکے تھے وہ تو ان کی قیدی اور غلام تھی اس کے تو تمام راستے بند تھے مگر دشمنان دین کیا جانیں کہ سب دربند ہو جاتے ہیں تو ایک در ہمیشہ کھلا رہتا ہے اور وہ ایمان والوں کے رب کا در ہے ۔
گھر کے کاموں سے فارغ ہو کر کرماں نے چارہ کاٹنے والے اوزار اٹھائے ۔ بوڑھی سکھنی بچوں کو نہلا دھلا کر مندر لے جانے کی تیاری کر رہی تھی ۔ اُن کا باپ مونچھوں کو تائودیتے اپنی کرپان نیفے میں اُڑیس کر کرماں کو گالیاں دیتا گھر سے نکل گیا ۔کرماں اپنے رب کو یاد کرتی کھیتوں کی جانب چل دی آج اُس کے قدم گویا خود بخود اُٹھ رہے تھے کوئی غیبی طاقت اس کی ہمت بندھا رہی تھی وہ تو جیسے ہوائوں میں اڑ رہی تھی۔
کھیتوں میں قدم رکھتے ہی اس کو بیٹی کہہ کر پکارنے والا چاچا بشیرا کسی فرشتہ کی صورت میں موجود تھا ۔ سب کچھ تیار تھا ، تھوڑی دور سڑک پر درختوں کے جھنڈ میں فوجی گاڑی کھڑی نظر آ رہی تھی ۔ کرماں بہت مشکل سے اپنے جذبات کو قابو کر رہی تھی ۔ بشیرا چاچا اُس کے ان جذبات کو بخوبی محسوس کر رہا تھا ۔ تاخیر خطر ناک ہو سکتی تھی ۔ اُس نے کرماں کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا اور بیٹی کہہ کر اس کا بازو تھام لیا ۔ معتدل چال چلتے ہوئے وہ گاڑی کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ اُس کی نظر چاروں اطرف کا جائزہ لے رہی تھی ۔ جیسے ہی وہ فوجی گاڑی کے قریب پہنچے چا چا بشیرے نے جھٹ سے پچھلا دروازہ کھول کر کرماں کو اندر دھکا دے دیا اور پھرتی سے دروازہ بند کر کے خود بھی پیچھے بیٹھ گیا۔
گاڑی میں بیٹھتے ہی کرماں کی چیخیں آسمان کو چھونے لگیں ۔ اُس نے اپنی آنکھیں بند ہونے سے پہلے خواب کی طرح ، آنسوئوں کی دھند میں اپنے بھائی اور چچا کی شکلیں دیکھیں اور اُس کے بعد اُسے کچھ ہوش نہ رہا۔
گاڑی میں موجود سب کی آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں ۔ گاڑی فرماٹے بھرتی جا رہی تھی ۔ کرماں کی خواہشوں کی منزل ارض مقدس کی صورت میں قریب آ رہی تھی ۔ فوجی گاڑی نے جیسے ہی پاک سر زمین کا بارڈر عبور کیا ۔ گاڑی کو دیکھتے ہی نعرۂ تکبیر گونج اٹھا ، وہاں موجود لوگوں کو اس بات کی کوئی خبر نہ تھی کہ گاڑی کے اندر کیا تلاطم برپا ہے ۔
نعروں کی گونج نے کرماں کے تن مردہ میں گویا جان ڈال دی ۔ وہ دھاڑیں مارتی ہوئی اٹھی اور ساتھ میں بیٹھے اپنے بھائی سے چمٹ گئی ۔ اس کی آہ وفغاں کلیجے چیرے دے رہی تھی ، سب اس کے ساتھ گریہ میں شریک تھے کسی نے بھی اُس کو چپ کرانے کی کوشش نہیں کی۔
غبار دھلتا رہا ۔ بھائی نے روتی بلکتی کرماں کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا اور اسے سینہ سے چمٹا لیا ۔ کرماں تو جیسے جہنم سے جنت میں آگئی ۔ اُس نے ایک پر سکون سسکی بھری اور دوبارہ دنیا و مافیھا سے بے نیاز ہو کر بھائی کی بانہوں میں جھول گئی ۔ گاڑی کے ایک زور دار جھٹکے سے وہ حواس کی دنیا میں آئی تو بھائی بڑی محبت سے اُسے ہلا رہا تھا۔
’’ کرماں ! اٹھو ! گھر آگیا ، تم پاکستان آگئی ہو، آنکھیں کھولو ! میری بہن ‘‘۔
کرماں کے قدموں تلے ارض پاک تھی وہ بے خود ہو کر سجدہ ریز ہو گئی ، دو محبت بھرے ہاتھوںنے اُسے پکڑ کر اٹھایا اور بازوئوں کے حصار میں لے لیا ، کوئی اس کا منہ سر چوم رہا تھا اُس کے کانوں میں رس گھولتی آواز آئی۔
’’ میری بہن ، میری پیاری بہن ، میری مظلوم بہن ! ‘‘چھوٹی بہن ماں کی طرح اُسے اپنے دامن میں سمیٹ رہی تھی کرماں جو قربانیاں دے کر منزل تک پہنچی تھی دیکھنے والے اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے ۔ پورا خاندان جمع تھا ، مختلف انداز میں اُس کا استقبال ہو رہا تھا ۔ کرماں کی نگاہیں جس کا جائزہ لے رہی تھیں کسی کی نظر میں محبت کے سمندر ٹھاٹھیں ما ررہے تھے ، کسی میں ہمدردی تھی تو کوئی نفرت بھری نگاہوں سے اُسے تک رہا تھا ، کوئی طنزیہ انداز میں گھور رہا تھا اور کوئی مذاق اڑانے والی نگاہوں سے دوسروں کے ساتھ چہ مگوئیوں میں مصروف تھا۔
کرماں اپنوں میں کھڑی ایک اور کڑے امتحان کا منظر دیکھ رہی تھی بندوں کی عدالت میں گویا وہ کٹہرے میں کھڑی تھی۔ وہ خود کو ایک مجرم تصور کر رہی تھی ، یہ بھی اس کے لیے ایک قربان گاہ تھی جس کے لیے اسے خود کو تیار کرنا تھا ، قربانی کا پہلا دور سہاگن ہو کر بیوگی کی زندگی گزارنا تھا ۔ خاندان ، برادری کی انا اور رسم و رواج کی بھینٹ چڑھ کر اس نے اسے پورا کیا ۔ دوسری قربانی تحریک پاکستان سے شروع ہو کر تکمیل پاکستان تک پہنچی جو کہ اُس کی زندگی کا ایک انتہائی تاریک اور درد ناک دور تھا جس کو اُس نے ایمان کی چنگاری کو سلگا کر عبور کیا ، قربانی کا تیسرا دور اب ارضِ مقدس میں آکر ہر طرح کی جدائیاں سہنے کے بعد ملن سے شروع ہونے والا تھا ۔ کرماں کی پوری زندگی سراپا قربانی بن چکی تھی وہ اب بھی آزمائش کی چکی میں پسنے کے لیے خود کو تیار کر رہی تھی۔ اطمینان اگر تھا تو فقط یہ کہ وہ اپنے ایمان کو بچا کر اسلام کے قلعہ میں پناہ لے چکی ہے ۔ اُس نے ٹھنڈی آہ بھری اور آنے والے حالات کے لیے کمر بستہ ہو گئی۔
بھائی کے بچے ، اکلوتا بھانجا جو غدر سے پہلے اُس کی گود میں پلے تھے اب جوانی کی حدوں کو چھو رہے تھے ۔ کرماں تہی دامن و تہی دست ہو کر بھائی کے گھر آئی تھی ۔ اُس کا سب کچھ لُٹ چکا تھا ، ایمان کی متاعِ عزیز کی چنگاری ایسی تھی جو ستم کی بھٹیوں میں مزید بھڑک اُٹھی تھی ، نیم شبی کے کرماں کے نالے عرش تک پہنچتے تھے ۔ وہ رحمت الٰہی سے مایوس نہ تھی۔وہ حالات کو اچھی طرح بھانپ چکی تھی ، اُس نے کانوں میں گویا پگھلا ہؤا سیسہ ڈال لیا ، آنکھوں پر پٹی باندھی اور زبان پر تالے لگا کر سب کی خدمت کو اپنا شیوہ بنا لیا۔ وہ روحانی طور پر نہال تھی کہ وہ ارضِ مقدس پر ہے وہ غیروں کی نہیں رب کی غلام ہے اُسے ہر طرح کی آزادی حاصل ہے وہ اپنے رب سے جب چاہے بلا خو ف و خطر گفتگو کر سکتی ہے اُس نے ٹوپی والا برقعہ پہننا شروع کر دیا ، اپنوں کی چیرہ دستیوں سے بچنے کے لیے یا رب کی رضا کی خاطر ، یہ تو وہی جانتی ہو گی ۔
عزیز و اقارب کے طعن و تشنیع کے تیروں کو ہنس ہنس کر برداشت کرنا ان کا شیوہ بن گیا تھا ۔ وطن میں آکر بھی وہ جتنا زیادہ ٹوٹتی گئیں رب کا قرب اتنا ہی بڑھتا گیا صوم و صلوٰۃ کی سخت پابندی کرتیں بھائی کے گھر کا سارا کام اپنے ذمہ لے لیا ۔ بہن بھائی کے علاوہ کوئی اور خونی رشتہ بھی نہ تھا ۔ بہن کے اکلوتے بیٹے مصطفی کو انہوں نے گودوں کھلایا تھا اب اسے ہی انہوں نے اپنا ہمراز بنا لیا۔ وہ اسے ٹوٹ کر چاہتی تھیں ، وہ بھی ان کی امیدوں پر پورا اتر رہا تھا ان کی دلجوئی کرتا ، دُکھ بانٹتا ، حوصلہ دیتا ، ٹوٹنے سے بچاتا ، رب کی رحمتوں کا یقین دلاتا ، اب وہ مصطفی کی ماسی بی بی تھیں اور جب شازیہ مصطفی کے گھر میں بہار بن کر آئی تو وہ اُس کی بھی ماسی بی بی بن گئیں اب مصطفی کے ساتھ شازیہ بھی ماسی بی بی کی ہمدرد و ساز بن گئی شازی کے چاروں بچوں کی پرورش کا ذمہ انہوں نے لے لیا وہ شازی کے ہر دکھ کی دوا اور دعا بن گئیں ۔ ماسی بی بی نے اپنی تمام محبتیں اس چھوٹے سے خاندان پر نچھاور کردیں ، ماسی بی بی کا نیم شبی میں تڑپنا ، رونا بلکنا اُس کے رب کو اتنا بھایا کہ اُس نے اپنے گھر کا دروازہ اُن کے لیے کھول دیا ، رحمت ٹوٹ کر ماسی بی بی پر برسی اور سب ششدر رہ گئے ۔
’’ ماسی بی بی حج پہ جا رہی ہیں ، ماسی بی بی اللہ کے گھر جا رہی ہیں ‘‘۔
حاسد ناقد تو دانتوں میں انگلیاں داب کر رہ گئے اور ماسی بی بی سوئے حرم روانہ ہو گئیں واپسی پر کایا مزید پلٹ گئی اب وہ بی حجن تھیں غموں کی ماری کرماں اپنے رب کے در پر جا کر کیسے کیسے نہ بلکی ہوں گی اپنوں اور غیروں کے تازیانوں کے کیا کیا زخم نہ دکھائے ہوں گے دیارِ غیر اور دیارِ یار کے کیا کیا قصے نہ سنائے ہوں گے اور ہر طرف سے دھتکاری ہوئی کرماں کو اُس کے رب نے کس پیار سے اپنے دامنِ رحمت میں جگہ دی ہو گی یہ تو صرف وہی جانتی تھیں ۔ سب نے دیکھا کہ رب کے در سے لوٹنے کے بعد وہ حقیقت میں ایک معصوم بچے کی طرح حسین ہو گئی تھیں ۔ اُن کے چہرہ پر ہر وقت ایک ملکوتی مسکراہٹ کھلتی رہتی تھی وہ دنیا اور دنیا والوں سے بے نیاز ہو چکی تھیں خاندان میں بہت سوں نے اب بھی ان کو قبول نہیں کیا تھا بہت سے رشتہ داروں نے اُن کو اچھوت سمجھتے ہوئے میل جول بند کر دیا تھا اور ماسی بی بی کو مسلمان ماننے سے ہی انکار کر دیا ، اُن کو دیکھتے ہی حقارت سے اور نفرت سے تھوکنے لگ جاتے اور با آواز بلند کہتے:
’’ نکالو اس کو گھر سے ، یہ تو سکھنی ہے ، سکھنی ‘‘۔
اور ماسی بی بی بجلی کی سی تیزی سے اُن کے اور اپنے بھائی کے گھر کی دہلیز پار کرتیں اور اپنے گوشۂ تنہائی میں جا گھستیں پھر وہ ہوتیں اور ان کا رب اور اُن کی آہ وفغاں سے سجے شکوے ، دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا تو باہر نکل کر دوبارہ کاموں میں مصروف ہو جاتیں ۔ سب کام انہوں نے اپنے غم غلط کرنے کے لیے خوامخواہ ہی اپنے ذمہ لے رکھے تھے۔ دنیا سے بے نیاز ی کا اُن کے پاس اس سے اچھا کوئی نسخہ نہ تھا ، مصطفی ملازمت کے سلسلہ میں جہاں بھی گیا ماسی بی بی دونوں میاں بیوی کی محبت میں وہاں جا پہنچتیں ، بچوں کو سنبھالنا ، شازی کا خیال رکھنا ، اُس کو سسرال کے سردو گرم سے بچانا اُن کا اولین کام ہوتا۔
قارئین کرام ! ایک خاکی انسان اور وہ بھی عورت ذات آخر کب تک ظلم و ستم کی چکی میں پس سکتی ہے کہاں تک سہہ سکتی ہے یہی وجہ تھی کہ وہ جب بھی شازیہ کے پاس آتیں ہمیشہ ان کا یہی کہنا ہوتا ’’ شازی میرا من بہت بھرا ہؤا ہے مجھے پہلے اُس کو ہلکا کرنے دو ، کھانے پینے کی بات بعد میں کرنا ‘‘… ’’ شازی میرے پیٹ میں غموں نے گولے بنا دیے ہیں اُن گولوں سے ٹیسیں اٹھتی رہتی ہیں‘‘۔
وہ اپنی زندگی کی بپتا شازیہ کو سنا کر دل کا بوجھ ہلکا کرتی تھیں شازیہ کو ان کے ایک ایک دکھ کا پتہ تھا وہ دونوں گھنٹوں دکھ بانٹتی رہتیں۔ سکھ تو تھے ہی نہیں ، ماسی کی زندگی تو دکھوں کے کانٹوں سے بھری ہوئی تھی جس کو چنتے ہوئے وہ خود تار تار ہو چکی تھیں ان کا حال تو یہ تھا کہ ؎
تن ہمہ داغ داغ شُد پنبہ کجا کجا نہم
ماسی بی بی کی دکھوں بھری داستان ہندوستان سے شروع ہوتی موت کی وادیوں سے گزرتی ہوئی ارض مقدس پر آکر سوا ہو جاتی ۔ وہ کوئی بھی بات شازی سے نہ چھپاتیں ، شازی آنسو بہاتی آنکھوں سے ان کے ملکوتی حسن اور مسکراتے چہرے کو دیکھتی اور بے اختیار عقیدت و محبت سے اُن کا منہ چوم لیتی اور پھر وہ دونوں دیر تلک ایک دوسرے سے لپٹی دکھ سمیٹتی رہتیں ۔
اور پھر وہ لمحہ آن ہی پہنچا جس کا شازیہ کو ڈر تھا ماسی بی بی کے غموں کے گولوں نے کینسر کی شکل اختیار کرلی ۔ آپریشن ہؤا ، بجلیاں لگیں ، ماسی بی بی نے مصطفی کے ڈیرہ کو مسکن بنا لیا ۔ شازی کو خدمت کا سنہری موقعہ مل گیا عارضی طور پر بیماری کم ہو گئی ۔ دوسرے سال پھر جاگ اٹھی علاج کے وہی اذیت ناک مرحلے دوبارہ جاری ہو گئے ۔ بیماری زور پکڑتی گئی ، رجوع الی اللہ اتنا ہی بڑھتا گیا اور پھر کرماں بی بی ، ماسی بی بی بستر مرگ پر پڑ گئیں ۔ اُن کا کینسر محاورۃً نہیں عملاً ، حقیقتاً ایک ناسور بن گیا ماسی بی بی کے غموں کے تمام گولوں کو اپنا راستہ بنا کر جسم سے باہر نکلنے کا اک بہانہ مل گیا۔کرماں ماری ماسی بی بی کے جسم میں غموں کو چھپانے کی اب سکت نہ رہی آخر ی ایام اسی کشمکش میں گزرے ۔ بے حس و حرکت پڑا نحیف و نزار جسم اپنے تمام بوجھ نکال رہا تھا غم زندگی ، غم دوراں سے بے گانہ ہو رہا تھا ۔ جس کھاٹ پر زخموں سے چور چور جسم پڑا تھا اس کو درمیان سے کاٹ دیا گیا تھا کھاٹ کے نیچے بڑا سارا برتن رکھ دیا گیا تھا جہاں ماسی کے تمام زخموں کا دھوون گر رہا تھا ۔ جب اس پاکیزہ روح کے جسم کا سارا ناسور بہہ گیا تو ہلکی پھلکی روح کو فرشتے اٹھا کر اس رب کے حضور لے گئے جس کا سہارا لے کر انہوں نے زندگی گزاری تھی اور یوں وہ نفس مطمئن اُسی مٹی کو اوڑھ کر ابدی نیند سو گیا جس کی خاطر انہوں نے لازوال قربانیاں دی تھیں ۔
قارئین کرام! اب ماسی بی بی کے تمام غم شازیہ نے سمیٹ لیے ہیں ۔ وہ ان کی راز دان بھی ہے اور گواہ بھی ملکوتی مسکراہٹ والی ماسی بی بی کے غموں کے گولوں کو شازیہ نے اپنے من میں اتار لیا ہے اور وہ سوال کناں ہے اہلِ وطن سے کہ کیا عظیم قربانیاں دینے والی ایسی ہستیوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہونا چاہیے ؟محبت کرنی چاہیے یا نفرت؟ گلے لگانا چاہیے یا حقارت سے دُھتکار دینا چاہیے ؟ اُن کے زخموں پر مرہم رکھنا چاہیے یا اُن پر نمک چھڑکنا چاہیے ؟ یا اُن کو اچھوت سمجھ کر اپنی زندگیوں سے نکال دیں ؟
ایسی ہستیاں جنہوں نے تعمیر وطن میں قیمتی ترین متاع لٹا دی ایمان کو زندہ رکھا وہ اپنوں کے درمیان اور اپنے ہی وطن میں اجنبی ٹھہریں ہم نے غیروں سے پینگیں بڑھائیں اور اپنوں کو ستم کی سولی پر چڑھا دیا ۔ کیا روز محشر وہ اپنا مقدمہ رب کے حضور پیش نہ کریں گی کیا اس طرح کی دوشیزائوں سے جن کو زندہ در گور کر دیا گیا رب نہ پوچھے گا کہ تم کس قصور میں ماری گئیں ؟ رب نے تو ان کو دنیا میں شاید معاف کر ہی دیا ہو لیکن زمانے نے نہ کیا ان کی مثال تو ایسی ہے جیسے کہ بقول شاعر ؎
زندگی جہد مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
شازیہ نے ماسی بی بی کے زخموں کو اپنے دل میں جگہ دی ہے اور اب ماسی بی کے غموں کا ناسور اُس کو اپنے اندر محسوس ہوتا ہے اور یہ صرف شازیہ کا نہیں پوری اُمت اور اہلِ وطن کا ناسور ہے جو شاید قیامت تک رِستا رہے گا اور اس کا مرہم سوائے مالک ِ کائنات کے کسی کے پاس نہیں ، ماسی بی بی اپنے مقدمہ سمیت ہم سب کی منتظر ہیں۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x