ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ایمان دار – بتول اگست ۲۰۲۲

کریم تپتی دھوپ میں ویران سڑک پر بھاگا جارہا تھا _یہ سڑک مارکیٹ سے کچی آبادی کو ملانے والا ایک مختصر راستہ تھی جس پر ٹریفک بہت کم ہوتی تھی اور اس وقت ویسے بھی گرمیوں کی دوپہر تھی جب لوگ عموماً آرام کر رہے ہوتے ہیں۔
بھاگتے بھاگتے کریم کا سانس پھول رہا تھا لیکن وہ رکنا نہیں چاہتا تھا۔سڑک کے آس پاس خوبصورت بنگلے تھے جن کو وہ کبھی کبھار رک کر دیکھا کرتا تھا لیکن اس وقت اس کا دھیان گھر کی طرف تھا ۔کریم مکینک کی دکان پر کام کرتا تھا،اس سے جو قلیل سی تنخواہ ملتی اس سے بمشکل گھر چلتا۔اس کی چار چھوٹی چھوٹی بیٹیاں تھیں اور اب اس کی بیوی دوبارہ امید سے تھی ۔کریم اور اس کی بیوی نے بہت دعائیں مانگی تھیں کہ رب اس بار انھیں بیٹا دے دے ۔
امید…. جو اندھیرے میں روشنی کی مانند ہے ،امید جس پہ دنیا قائم ہے….یہ امید کسی انسان کی بجائے خدا کی ذات سے ہو تو اس میں یقین شامل ہو جاتا ہے کہ وہ زمین و آسمان کا مالک سب کی سنتا ہے !
سڑک کے کنارے ایک پتھر سے کریم کو ٹھوکر لگی تو وہ رک کر اپنا زخمی پاؤں دیکھنے لگا ، معمولی خراش تھی اس لیے محنت کش کریم دوبارہ بھاگنے لگا ۔اس کی آنکھوں میں اپنی بیوی سمیرا کا چہرہ تھا اور کانوں میں ہمسائی کی آواز گونج رہی تھی جس نے اسے کال کر کے بتایا تھا کہ تمہاری بیوی کی طبیعت خراب ہے ،جلدی گھر پہنچو۔یہ ایک کچی آبادی تھی جہاں زیادہ گھر مٹی سے بنے ہوئے تھے ، اکا دکا پختہ بھی تھے ،کچھ جھگیاں تھیں اور کچھ خیمے تھے لیکن غریبوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ بندھے تھے ۔دکھ سکھ میں شامل ہوتے تھے۔
کریم اپنی گلی میں داخل ہؤاتو دیکھا کہ اس کے گھر کے سامنے محلے کی عورتیں جمع ہیں ۔جیسے ہی وہ قریب پہنچا ،وہ کہنے لگیں ،’’کرمو بھائی مبارک ہو‘‘ ۔
کریم کچھ خوشی اور کچھ بے یقینی کی سی کیفیت میں گھر داخل ہؤاتوڈیوڑھی میں ہی اماں صفورہ نے اس کے ہاتھ میں کپڑے میں لپٹاہؤا کچھ پکڑادیا ۔وہ اپنے میلے لرزتے ہاتھوں سے اس کو پکڑتے ہوئے ڈر رہا تھا ،جب اماں صفورہ نے کہا۔
’’مبارک ہو کرمو، خدا نے بیٹا دیا ہے !‘‘
اس نے اس ننھے منے وجود کو دیکھا اوربے اختیار بول اٹھا ۔
شکر ہے تیرا مالک ،لاکھ بار !
اور اپنے آنسو صاف کرتا ہوا اندربیوی کی طرف بڑھ گیا ۔
وقت پر لگا کر اڑتا گیا ۔سڑک کے کنارے بنگلوں میں اضافہ ہوچکا تھا ۔سمیرا پہلے تین گھروں میں ماسی کا کام کرتی تھی ،بڑھتی ہوئی مہنگائی نے غریبوں کے چولھے بجھا دیے تو سمیرا نے دو بڑی بیٹیوں کے ساتھ کچھ نئے گھروں میں بھی کام کرنا شروع کر دیا۔گھر میں چھوٹی بیٹیاں سارادن بھائی کو سنبھالتیں۔ بھائی میں ان کی جان تھی ،نام تو اس کا بلال تھا لیکن وہ پیار سے اسے ببلو کہتیں _وہ جتنا اس کا خیال رکھتیں،اتنا ہی وہ اپنی شرارتوں سے انھیں تھکاتا رہتا ۔شام کو ابا آجاتا ، وہ ببلو کو اپنے ساتھ سلا لیتا تو ان کو ذرا دم لینے کو مل جاتا –۔
اس دن ابا کو بخار تھا،ابا کام پہ نہیں جاسکا تو ننھا ببلو جو اَب پاؤں پاؤں چلتا تھا ،بار بار ابا کی چارپائی کے پاس آکے دیکھتا کہ آج وہ اٹھ کیوں نہیں رہا ؟پھر اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اسے چھوتا ،تاکہ وہ اٹھ جائے۔شام کو سمیرا تھکی ہاری گھر آئی تو کریم کی حالت دیکھ کے پریشان ہوگئی،الٹے پاؤں حکیم صاحب کے گھر کی طرف بھاگی ۔حکیم صاحب کی بیوی نے بڑی منت ترلے کے بعد دوائی دی کیونکہ سمیرا نے پچھلا ادھار بھی نہیں چلایا تھا ۔بہرحال دوائی کھا کے کریم کا بخار ہلکا ہوگیا تو سمیرا کو پتہ نہیں چلا کہ کب وہ اس کی چارپائی کی پائنتی کے ساتھ بیٹھے بیٹھے ہی نیند کی آغوش میں چلی گئی –
٭ ٭ ٭
سڑک کے کنارے بنے بنگلوں میں سے ایک سیٹھ زاہد کا تھا جو اپنے سیکرٹری کو فون پہ ہدایات دے رہے تھے ۔
’’سلیم صاحب ، یہ بنگلہ آپ نے 5 کروڑ سے کم پہ ہرگز نہیں دینا ہے ۔مجھے اس کی اصل قیمت معلوم ہے لیکن جیسا میں کہہ رہا ہوں ویسا کریں ۔پچھلی بار آپ نے 3 میں دے دیا تھا ،دوبارہ وہی غلطی نہیں ہونی چاہیے‘‘۔
سیٹھ زاہد پراپرٹی کے کاروبار کا ایک معتبر نام تھے اور ان کا کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا تھا ۔فون بند کر کے انھوں نے بیٹے کے کمرے سے آتی میوزک کی تند و تیز آوازوں کو سنا تو اس کے کمرے کی طرف بڑھ گئے لیکن راستے میں انھیں بیگم زاہد نے روک دیا ۔سیٹھ صاحب نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو کہنے لگیں کہ بیٹے کے دوست آئے ہوئے ہیں ،انھیں انجوائے کرنے دیں ۔
’’اوہ اچھا‘‘! سیٹھ صاحب نے صوفے پہ بیٹھ کر کال ملا لی –۔
٭ ٭ ٭
کچی آبادی میں آندھی نے بہت گند پھیلادیا تھا ۔سمیرا نےبیٹی سے کہا کہ دوبارہ سے گھر کی صفائی کردے اور خود روٹیاں پکانے لگی، پھر کھانا لگادیا ۔سمیرا نے روٹی کا نوالہ بنا کے اچار کے ساتھ ببلو کی طرف بڑھایا تو وہ منہ بسورنے لگا ۔
’’کیا بات ہے بلال‘‘؟ سمیرا نے پوچھا۔
اماں ،آج میں بھی ابا کے ساتھ کام پہ جاؤں گا ،چار سالہ ببلو ضد کر رہا تھا ۔
نہ بیٹا نہ….!کریم نے کھانا کھاتے ہوئے اسے سمجھایا ۔ا بھی تیری عمر نہیں کام کی…..بڑا ہو کے ساری زندگی کام ہی کرنا ہے….ابھی تو چھوٹا ہے پتر !
’’ضد کر رہا ہے تو ویسے ہی لے جاؤ‘‘۔ماں نے سفارش کی ۔
’’بھلیے لوکے ، تجھے کیا پتہ ؟ استاد بڑی گندی زبان بولتا ہے اور جتنے بال وہاں کام کرتے ہیں ،سب اس کی مار کھاتے ہیں ،میں اسے وہاں کے ماحول میں نہیں لے جانا چاہتا،جب تک میں زندہ ہوں میرا پتر گھر بیٹھ کے کھائے گا‘‘ ۔کریم نے بیٹے کو سینے سے لگا لیا۔
بلکہ میں خود بھی یہ کام چھوڑنا چاہتا ہوں۔کل مجھے سیٹھ صاحب نے ڈرائیور کے طور پر کام کے لیے بلایا ہے،میں مکینیکی کا کام چھوڑ کے اب سیٹھ صاحب کا کام کروں گا ، کریم نے بڑی خبر دے دی۔
٭ ٭ ٭
سیٹھ صاحب مسلسل فون پہ بزی تھے اور ڈرائیور پاس کھڑا کبھی ایک پاؤں پہ وزن ڈالتا ،کبھی دوسرے پر ۔آخر سیٹھ صاحب نے بات ختم کی تو ایک ترچھی نظر اس پہ ڈالی ۔
’’صاحب ، میرا بچہ بہت بیمار ہے …..مجھے دو دن کی چھٹی چاہیے‘‘ ۔کریم نے عاجزی سے کہا ۔
لیکن سیٹھ صاحب اگلا نمبر ملارہے تھے ۔
’’انسپکٹر ، یہ مارکیٹ میں تیسری واردات ہے ، کہاں ہیں آپ لوگ ؟ کیا کر رہے ہیں ؟ ہماری جان مال کا تحفظ آپ کی ذمہ داری ہے ۔اگر یہ چور ڈکیت یوں ہی کھلے پھرتے رہے تو ہمارا کاروبار تباہ ہو جائے گا ….میرے بھائی کی دکان وہیں اس دکان کے ساتھ ہے جہاں چوری ہوئی ہے….پھانسی پہ لٹکاؤ ان کو ….‘‘
سیٹھ صاحب کا بی پی ہائی ہونے لگا ۔جب وہ اپنی بھڑاس نکال چکے تو ان کی نظر پھر کریم پہ پڑ گئی۔
’’تم ابھی تک یہیں کھڑے ہو‘‘ ؟انھوں نے کہا ۔
’’سر….میرا بچہ….‘‘کریم نے کچھ کہنے کی کوشش کی ۔
’’اچھا ٹھیک ہے….جاؤ!‘‘
’’انھوں نے ناگواری سے اشارہ کیا‘‘ ۔لیکن سنو !
کریم رک گیا ۔
’’میں دو دن کی تمھاری تنخواہ کاٹوں گا‘‘۔یہ کہہ کے سیٹھ صاحب باہر نکل گئے ۔
٭ ٭ ٭
آج سمیرا کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور وہ کام پہ نہیں جاسکی تھی ۔ دو سال قبل کریم کو سڑک پار کرتے ہوئے کسی وین نے ٹکر ماری اور وہ ہسپتال کے راستے ہی میں اللہ کو پیارا ہوگیا ۔بطور ڈرائیور تنخواہ سے اس کے کنبے کا اچھا گزارا ہو جاتا تھا۔اس کے بعد گھر کا سارا بوجھ سمیرا کے ناتواں کندھوں پر آن پڑا ۔ببلو اب دس سال کا ہوچکا تھا ۔نہ چاہتے ہوئے بھی سمیرا مجبور ہو کے اسے مکینک کی دکان پہ چھوڑ آئی اور گھر آکے کتنی دیر روتی رہی –جس ماحول میں بلال کا باپ اس کو اپنے ساتھ بھی لے جانا پسند نہ کرتا تھا، وہاں اب وہ خود چھوٹا سا کاریگر بن کر جارہا تھا۔دس سال کا بچہ سارا دن استاد کی جھڑکیاں کھاتا اور شام کو کچھ پیسے لاکے ماں کے ہاتھ پہ رکھ دیتا ۔ماں کو اب بیٹیوں کی شادی کی فکر لگی تھی اور وہ اپنا پیٹ کاٹ کے کچھ پیسے جمع کر رہی تھی۔ایک دن ببلو نے گھر آنے میں دیر کردی تو ماں کا دل ہولنے لگا ،وہ دروازے پہ جا کے کھڑی ہوگئی۔
کچھ دیر بعد اسے ببلو آتا دکھائی دیا ۔انتہائی سست روی سے قدم اٹھا رہا تھا ۔
’’کیا ہؤاپتر ؟ آج دیر کیوں لگادی ؟ ‘‘ماں نے پوچھا ۔
’’اماں ، پچھلی گلی میں چور کھڑے تھے ۔انھوں نے مجھے مارا اور سارے پیسے چھین لیے‘‘ ۔بلو رونے لگا تو ماں نے اسے اپنے ساتھ چمٹا لیا ۔
’’بس کر میرا بچہ‘‘وہ اس کے آنسو صاف کرنے لگی ۔
’’اماں میں نے سارا دن اتنی محنت کر کے پیسے کمائے اور وہ بھی چور لے گئے ….‘‘اماں یہ چور کہاں سے آتے ہیں ؟ یہ کوئی کام کیوں نہیں کرتے ؟سمیرا کیا جواب دیتی، بس چپ چاپ اسے گلے لگائے رہی۔
٭٭٭
الیکشن مہم زوروں پہ تھی ۔جگہ جگہ جلسے ہورہے تھے ،عوام کو وعدوں اور نعروں سے نئے نئے سبز باغ دکھائے جارہے تھے ۔
’’ببلو !میرے ساتھ چل….وہاں جلسے میں بریانی مل رہی ہے ،‘‘اللہ دتا کہہ رہا تھا ۔
’’اچھا چل پھر ….‘‘ببلو جو اب بچہ نہیں رہا تھا، اس کے ساتھ الیکشن کے جلسے میں چلا گیا ۔
بہت بڑا پنڈال سجا ہؤاتھا ۔جھنڈے لہرا رہے تھے ۔لاوڈ سپیکر پہ آواز گونج رہی تھی ۔
ہم اس نظام کو بدلنا چاہتے ہیں ،اب عوامی حکومت آئے گی ،آپ ہمیں اپنا ووٹ دیں ۔اب آپ کا وقت ہے !
ببلو بھی پنڈال میں بیٹھ گیا اور تقریریں سنتارہا۔جلسہ ختم ہؤا، بریانی بٹی۔ پھر الیکشن بھی ہوئے، مگر عوامی حکومت کہاں تھی، ببلو کو یہ سمجھ نہیں آتی تھی۔ نفسا نفسی کا دور تھا ،ہر کوئی اپنی بقا کی جدوجہد میں لگا ہؤاتھا اور دوسرے کو چور ڈاکو کہہ رہا تھا ، ملکی دولت لوٹنے کا شور مچا ہؤا تھا۔ سبھی بے ایمان اور لٹیرے ثابت ہو رہے تھے ۔عوام کے حالات بدلنے تو کیا تھے،مزید ابتر ہوتے چلے گئے۔
٭ ٭ ٭
سیٹھ صاحب جلدی سے گاڑی میں بیٹھے اور تھوڑی دیر میں گاڑی ہائی وے پہ فراٹے بھر رہی تھی ، آج انھوں نے ایک کمپنی سے بزنس ڈیل کرنی تھی اور لاکھوں روپے ان کے بریف کیس میں ساتھ رکھے ہوئے تھے ۔ نجانے سائیڈ سے ایک گاڑی کیسے اچانک سامنے آگئی اور ایک دھماکے کی آواز کے ساتھ سیٹھ صاحب کا دماغ اندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا ۔ نجانے کتنی دیر کی بے ہوشی کے بعد ان کی آنکھ کھلی تو سامنےمیلے سے لباس میں ایک پندرہ سولہ سال کا لڑکا کھڑا تھا ،اس نے جیسے ہی سیٹھ صاحب کو آنکھیں کھولتے دیکھا،اس کے سادہ سے چہرے پہ بہت پاکیزہ مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’تم کون ہو ؟ ‘‘سیٹھ صاحب بمشکل بولے۔
’’میں بلال ہوں جی ‘‘ آپ کے پچھلے ڈرائیور کا بیٹا۔ آپ کی گاڑی کا حادثہ ہؤاتو میں وہیں تھا، میں نے آپ کو پہچان لیا۔ میں نے ریسکیووالوں کو فون کیا تو وہ آپ کو ہسپتال لے آئے۔
’’اچھا یہ بتاؤ ،میرے ساتھ ایک بلیک بریف کیس بھی تھا ؟‘‘ سیٹھ صاحب نے بے تابی سے پوچھا۔
’’جی ،صاحب جی ،یہ رکھا ہے بریف کیس ! ‘‘اس نے اپنے بالکل قریب رکھی میز کی طرف اشارہ کیا۔ایسے لگتا تھا جیسے وہ اس کی رکھوالی کررہا تھا۔
’’ حادثے کے وقت یہ کھل گیا تھا ،میں نے دوبارہ بند کردیا ہے‘‘۔ اس نے اعتماد سے کہااور بریف کیس اٹھا کے سیٹھ صاحب کی طرف بڑھایا جیسے کہتا ہو کہ چیک کرلیں۔
مال کی فکر انسان کو خود ہی ہمت دے دیتی ہے۔ نقاہت کے باوجود سیٹھ صاحب کراہتے ہوئے کہنی کے بل ذرا سا اٹھے اور بریف کیس کھول کر رقم چیک کی ، پھر حیران آنکھوں سے ببلو کو دیکھنے لگے ۔
’’بچے!تم میرا بریف کیس لے کر بھاگ سکتے تھے لیکن تم نے ایسا نہیں کیا ،کیوں ؟‘‘
’’وہ جی ،ہر طرف چور ہی چور ہیں۔ کوئی تو ایمان دار ہونا چاہئے نا ؟‘‘
ماشاءاللہ !سیٹھ صاحب اتنی بڑی بات سن کے حیران رہ گئے ۔ انہیں یہ بچہ سا بلال یاد آگیا جو کبھی کبھار کریم کے ساتھ ہؤا کرتا تھا۔انہوں نے کریم کی وفات کے بعد خبر ہی نہ لی تھی کہ اس کا کنبہ کس حال میں ہے۔
’’آج سے تم ورکشاپ میں نہیں بلکہ میرے ساتھ میرے آفس میں کام کروگے اور اپنی والدہ کے ساتھ ہمارےگھر رہو گے‘‘ ۔
سیٹھ صاحب نے کہا تو ببلو کا چہرہ بھی چمک اٹھا ۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x