ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ایک رات کی کہانی – بتول اگست ۲۰۲۲

یہ 1947کی ایک اداس رات ہے مگر سیاہ اور خاموش نہیں ۔ چاندنی اور ریل نے اسے سفید اور شور زدہ کر دیا تھا۔ چاندنی کسے نہیں اچھی لگتی مگر آج اس ریل پر سوار ہر مسافر کی یہی دعا تھی کہ چاند بادلوں میں چھپ جائے اور ریل بنا آواز کے سفر کرے۔ چاندنی کی ہر کرن اور ریل کی مسلسل چھکا چھک ان کے سینے میں تار کول انڈیل رہی تھی کہ وہ ایسے سفر کے راہی تھے جہاں قدم قدم پر موت کی سنسناہٹ سنائی دیتی تھی۔
یہ پریشان حال مسافر ہجرت کی صعوبتیں برداشت کرتے بھار ت سے پاکستان جانے والی ریل میں دھڑکتے دلوں کے ساتھ محو سفر تھے۔ ریل نے اپنی استطاعت سے زیادہ وزن اٹھا رکھا تھا۔ جن کو اندر جگہ نہ ملی وہ چھتوں ، کھڑکیوں اور دروازوں میں چپکے تھے،ہاتھ سن ہو چکے تھے مگر دشمن سے بچ کر پاکستان پہنچنے کی خواہش نے گرفت ڈھیلی نہ ہونے دی۔ سامان کی گٹھڑیاں اور انسانوں کے سمٹے سمٹائے اجسام میں کوئی فرق نہیں تھا سب مسلے جا رہے تھے۔ بچوں کی رونے کی آوازوں کو جھوٹی تسلیوں سے دبایا جا رہا تھا ،کھڑکیوں سے چپکے لوگ دور افق کے پار پاکستان کی سرحدوں کو تلاش کر رہے تھے کہ ریل کی رفتار کم ہوتی گئی، باہر نگاہ پڑی تو خون خشک ہو گیا ۔
’’ لو ایک اور اسٹیشن آگیا‘‘ ۔
یہ آواز پوری ریل میں خوفناک پیغام بن کر پھیل گئی ۔ ادھر خبر سنی ادھر دھاوا بول دیا گیا ۔آخری اسٹیشن پر سکھوں اور ہندوؤں کا حملہ ہو گیا ۔ چیخنے چلانے بھاگنے دوڑنے ،ریل سے کودنے اور کرپانوں تلواروں ، نیزوں اور ڈنڈوں کے حملوں سے خون کی ندیاں بہا دیں گئیں۔ کچھ مسلمان بچیوں نے ہمت کی اور ریل سے کود کر کھیتوں کی طرف بھاگ گئیں مگر کچھ سکھوں نے بھاگتی ہوئی لڑکیوں کا پیچھا کیا۔ ریل میں موجود سب انسان شہید کر دیے گئے ۔جب آگ اور خون کا طوفان سمٹا تب پوری ریل پہلی بوگی سے آخری تک خون میں نہلا دی گئی ۔موت ان مسافروں کا اسی اسٹاپ پر انتظار کر رہی تھی ۔ حملہ کرنے والے بھاگ گئے تھے ۔اسٹیشن کے خوفناک سناٹے میں ریل کی ایک بوگی میں ایک سیٹ کے نیچے ایک گٹھڑی ذرا سی ہلی تھی۔
یہ 1957 ہے اور ایک تئیس سالہ لڑکی اپنے بوسیدہ سے کوارٹر کے دروازے میں کھڑی سامنے گلی کی نکڑ تک دیکھ رہی ہےجیسے کسی کا انتظار کر رہی ہو۔ کچھ ثانیے گزرے تھے کہ اس کی آنکھیں چمکنے لگیں ۔ سامنے سے ایک دس سالہ بچہ سکول بیگ شولڈر میں ڈالے دوڑتا ہؤا آ رہا تھا ۔
’’آ جا آ جا‘‘۔ اس نے ہلکے ہلکے کہا اور بچے کی طرف محبت سے ہاتھ ہلانے لگی۔ بچہ آیا اور اس نے ماں سے لپٹتے ہی سکول استانی کی باتیں سنانا شروع کر دیں۔
یہ ماں بیٹا ہندوستان سے ہجرت کر کے بڑی کسمپرسی کے عالم میں پاکستان پہنچے تھے۔ کچھ عرصہ مہاجر کیمپوں میں گزارا ،دھکے کھائے اور بالآخر ایک چھوٹے سے کوارٹر میں جگہ مل گئی جہاں آس پاس سب لوگ بہت اچھا سلوک کرتے رہے ان کے تعاون اور خود سلائی کڑھائی میں ماہر ہونے کی وجہ سے گزر بسر ہونے لگی، آہستہ آہستہ ماحول میں رچ بس گئے۔ اگرچہ تقسیم کے دنوں کی تلخ یادیں مریم کو جھنجھلا دیتی تھیں مگر اس کے واحد سہارے اس کے بیٹے کی روز بروز کی شرارتیں اور باتیں اس کے کرب کو کم کر دیتیں۔ اس نے اپنے بیٹے کے بہتر مستقبل کے لیے خود کو اور ماضی کو بالکل فراموش کر دیا تھا۔ دن رات محنت کرتی اور احمد کے دل میں بھی بٹھا دیا کہ یہ وطن بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے اس کی ترقی اور خوشحالی کے لیے محنت کرے۔ بچے نے بھی ماں کی بات پلے سے باندھ لی اور ایف ایس سی(پری میڈیکل) میں پہنچ گیا۔
کلاس میں سب سے آگے رہنے والے بچے کے خلاف حسد کرنے والوں اور ازل سے شر پسندی کی طبیعت لے کر پیدا ہونے والوں نے محاذ کھول لیا اور اس کے محلے میں بھی اپنے حلیف پیدا کر لیے۔ اسے عجیب سی باتیں سننے کو ملتیں ۔
’’مہاجر ہے‘‘۔
’’نہ جانے وہاں ہندوستان میں ان کی کونسی برادری ہو گی‘‘۔
’’وہاں کیا کام کرتے ہوں گے‘‘۔
’’وہاں سے آنے والے سب خود کو بڑا زمیندار بتاتے ہیں،مگر جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا‘‘۔
’’سنا ہے باپ وہیں غدر میں مارا گیا ‘‘۔
’’ جھوٹ بول کے گھر اپنے نام الاٹ کروا لیا ہو گا ‘‘۔
’’بھئی کوئی شناخت تو ہونی چاہیے ‘‘۔
وہ اس پراپیگنڈہ سے بہت مضطرب ہو گیا تھا ،کئی بار ماں سے پوچھنے کی کوشش کی مگر وہ جو ماضی کی تلخ باتوں کو بھلا چکی تھی اس کو ماضی کی یاد کے عذاب میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا تھا ۔
ایک دن تو ایسا دھماکہ ہؤا کہ اس کی گھن گرج نے اس کی ساری شخصیت مسخ کر ڈالی۔
’’ماں بیٹے میں تیرہ سال کا فرق ہے‘‘۔ حاسدوں کی طرف سے آواز آئی
’’پتہ نہیں باپ ہے بھی کہ نہیں ‘‘ایک آواز آئی ۔
’’جلد شادیاں ہو جاتی تھیں پہلے‘‘ ایک نے لقمہ لگایا۔
احمد کو ماں کا ذکر سننا اچھا نہ لگا مگر برداشت کر گیا۔
’’سمجھا کر، تقسیم کے وقت مسلمان عورتوں کو اٹھا لے گئے تھے ۔ بعد میں پاک آرمی نے بازیاب کروائیں، بہت سے بچے ہیں جن کے باپ‘‘۔
اس کے بعد اس کو کچھ سمجھ نہیں آئی کہ حاسدوں نے کیا کہا کیا سنا۔ وہ بے یقینی کے بحر بے کراں میں ڈوب گیا اور وہیں غوطے کھا کھا کر فنا ہوگیا ۔
گھر آیا اور دروازے کو زور سے بند کر کے بہت درشتی سے پکارا ۔
’’ماں‘‘
ماں کا دل دہل گیا۔
’’کیا ہؤا ؟‘‘ اس نے حیرانی سے پوچھا ۔
چند لمحے وہ ماں کو گھورتا رہا ۔
’’نہیں جاؤں گا….. کل سے کالج نہیں جاؤں گا ‘‘۔
’’کیوں کیا ہؤا ؟‘‘ ماں نے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔
’’وہ….. وہ…..مم …..میں سوچ رہا تھا کہ مزدوری کروں اور گھر کی ذمہ داری اٹھاؤں ۔ کب تک کپڑے سلائی کرتی رہیں گی‘‘۔ وہ جو کہنا چاہتا تھا نہ کہہ سکا اور بات بدل ڈالی۔
’’ابھی بہت ہمت ہے مجھ میں ۔ صحت بھی اچھی ہے ۔کام کاج بڑے اچھے سے کر سکتی ہوں۔ تم پڑھائی مکمل کرو گے ‘‘۔ ماں نے جواب دیا ۔
’’ نہیں بس بہت ہو گئی پڑھائی ….. اب میں بھی کام کاج ہی کروں گا ‘‘۔
’’میں ہر رات دن تیرے ڈاکٹر بننے کے خواب دیکھتی ہوں‘‘ماں نے اداسی سے کہا ۔
’’ماں ہماری حیثیت کیا ہے کہ ہم خواب دیکھیں ‘‘۔
’’کیوں کیا ہؤا ہماری حیثیت کو ‘‘۔
’’ ٹھیک ہے کہ گھر ذرا پرانا ہے۔ مگر کسی کی محتاجی نہیں ،محلے والے عزت کرتے ہیں۔ اور جس کے پاس تیرے جیسا لائق بیٹا ہو اس کی حیثیت کو کون چیلنج کرے گا‘‘ ۔ ماں نے بڑے اعتماد سے کہا تھا۔
’’ماں !‘‘ اس نے دھیرے سے پکارا ۔
’’پتہ ہے محلے والے کیا باتیں بنا رہے ہیں‘‘۔
اب کے ماں نے صرف اس کی طرف دیکھا ،کہا کچھ نہیں جیسے سب جانتی ہو۔
’’میں کون ہوں ؟‘‘
ماں کے دل میں جیسے کوئی چیز ٹوٹی ہو ۔
’’دیکھو بیٹا باتیں بنانے والوں کو جواب دو گے تو منزل کھوٹی کر بیٹھو گے، تمہاری نگاہ صرف اپنے مقصد پر ہونی چاہیے ۔ اور جہاں کچھ لوگ برے ہیں وہاں اچھے لوگ بھی ہیں۔ جیسے ماسی بشیراں ہے،پھروہ کرنل صاحب کی بہو ہیں ، قاری صاحب ہیں کتنی محبت سے قرآن پڑھا یا ‘‘۔
’’میرا باپ کون تھا‘‘ اس نے ماں کی بات کاٹ دی۔
جواب میں ماں کا زرد پڑتا چہرہ اور خاموشی ! مگر صرف چند لمحوں کے لیے ۔ اس نے خود کو سنبھالا اور بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر کرسی پر بٹھا لیا ۔
’’ایک عرصے سے تیرے جوان ہونے کا انتظار کر رہی تھی۔سوچ رہی تھی کہ تو ڈاکٹر بن جائے گا اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے گا تو تجھے اس رات کی حقیقت بتا دوں گی ۔ مگر زمانہ بہت سخت ہے ،یہ شیر خوارگی کے بعد جوانی کا سفر طے کرا دیتا ہے بچپن کو مسخ کر دیتا ہے۔ جیسے اس رات میں نے ماں بننے کا سفر تیرہ سال کی عمر میں طے کر لیا تھا ‘‘۔
’’ماں کونسی رات ؟ ‘‘ احمد نے اضطراری کیفیت میں پوچھا ۔
ماں نے گہری سانس لی۔ جیسے بات کرنے کا حوصلہ جمع کررہی ہو۔
’’یہ 1947 کی ایک خوفناک رات تھی ،ریل سے سفر کر کے میں اپنے ماں باپ کے ساتھ پاکستان آ رہی تھی ہمارے ڈبے میں اور بھی بہت سے لوگ سوار تھے ،ہر قدم پر حملے کا ڈر تھا لوگ سکھوں اور ہندوؤں کی باتیں کر رہے تھے اور دعائیں کر رہے تھے کہ پاکستان خیریت سے پہنچ جائیں ۔مائیں بچوں کو سینوں سے چمٹائے بیٹھی تھیں۔ میری ماں نے بھی مجھے اپنے بازوؤں کے حصار میں لے رکھا تھا ۔میں اپنے ماں باپ کے بیچ بیٹھی تھی مجھ سے بابا کی پریشانی دیکھی نہ جاتی تھی۔ میں بابا کے اطمینان کے لیے دعائیں کرتی تھی۔ اچانک ریل رات کے اندھیرے میں ایک اسٹیشن پر رکی اور ساتھ ہی حملہ ہو گیا ۔ ماں نے مجھے زور سے پکڑ لیا ۔ لوگوں کے چیخنے چلانے کی آوازیں آ رہی تھیں ۔ بلوائیوں نے لوگوں کو مولی گاجر کی طرح کاٹنا شروع کر دیا ۔نہ بچوں کا لحاظ کیا نہ جوانوں کا نہ بوڑھوں کا ۔ اچانک میرے بابا نے مجھے ایک جھٹکے سے الگ کیا اور روتے ہوئے کہا کہ ریل سے نکل کے بھاگنے کی کوشش کر اور سامنے کھیتوں میں چھپ جا ۔اگر زندہ بچ گئی تو بارڈر قریب ہے ادھر چلی جانا ۔ پاکستانی فوج کی گولی کا نشانہ بن جانا مگر کسی سکھ یا ہندو کے ہاتھ نہ لگنا‘‘۔
میں نے رونا شروع کر دیا مگر بابا نے بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور دردناک آواز میں چلایا کہ بھاگ جا وہ آ رہے ہیں ۔ ماں نے بھی دہشت زدہ نگاہوں سے گھورا میں ہمت کر کے بھیڑ سے نکل کر پلیٹ فارم پر اتری جوتے پلیٹ فارم پر بکھرے خون سے پھسل رہے تھے اور بھی لڑکیاں اتریں اور کھیتوں کی طرف بھاگیں۔ مگر کچھ سکھوں کی نظر پڑ گئی وہ پیچھا کرنے لگے کچھ لڑکیوں کو پکڑ لیا اور واپس گھسیٹ لے گئے میں نے ایک جھاڑی کی اوٹ میں پناہ لی۔ ان کی آوازیں صاف آرہی تھیں ۔
’’باندیاں بنا کر رکھیں گے ، لونڈیاں بنائیں گے‘‘۔
’’اور ان لڑکیوں کے چلّانے کی آوازیں کلیجہ کاٹ رہی تھیں‘‘۔
مریم کچھ لمحے خاموش ہو گئی۔احمد اس خون آلود داستان کو بت بنا سن رہا تھا ۔
کچھ دیر کے بعد مریم بولی۔
’’وہ سب چلے گئے ….. پلیٹ فارم پر آگ اور خون کی ہولی کھیل کر….. کوئی ایک بھی انسان زندہ نہیں بچا تھا ۔ میں کچھ دیر سانس روکے بیٹھی رہی پھر ہمت کر کے اس امید پر ریل کی طرف گئی کہ شاید ماں اور بابا زخمی ہوں تو انہیں بچانے کی کوشش کروں۔ اس بوگی میں سوار ہوئی تو سامنے ماں کا کٹا ہو گلا دیکھ کر غش کھا کر گری اور دبی ہوئی سسکی سے ماں کو پکارا مگر وہ رخصت ہو چکی تھی اور اس کے پہلو میں بابا بھی۔ کچھ ہی لمحے بیٹھی اور پھر جھاڑیوں کی طرف جانے لگی کہ ایک گٹھڑی میں حرکت سی ہوئی اور ایک بچے کے رونے کی آواز آئی ۔ میں نے پلٹ کر دیکھا ایک 7 ماہ کا بچہ گٹھڑی کے پیچھے سے اٹھ کر بیٹھا اوررونے لگا‘‘ ۔
موت کے سناٹے میں زندگی کی آواز بہت سریلی لگی۔ہم دونوں کو تقدیر نے ایک جگہ اکٹھا کر دیا تھا!
میںنے اس بچے کو اٹھا کر سینے سے لگا لیا اور تیز قدم اٹھاتی جھاڑیوں کی طرف چلنے لگی ۔ پوری کوشش کی کہ صبح کی روشنی سے پہلے بارڈر پر پہنچ جاؤں ۔ راستے میں اور لوگ بھی ملے جو زخمی تھے اور ریل سے کود کر بھاگے تھے ۔یوں ایک نیا قافلہ بنا اور ہمت کر کے بارڈر کے قریب پہنچا ۔ بارڈر کے اس پار سے رائفلز کے لوڈ ہونے کے ساتھ ہی ’’کون ہے‘‘ کی گرجتی ہوئی آواز آئی۔
ادھر سے ایک زخمی جوان نے ہمت کر کے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا ۔صبح کی سپیدی میں مجھے دکھائی دیا کہ رائفلز کا رخ نیچے کر دیا گیا اور آگے بڑھ کر ہاتھ تھام لیے گئے۔
سرحد پار کر کے میں نے سب کو یہی بتایا کہ وہ سات ماہ کا بچہ میرا بیٹا ہے،میرے باقی سب عزیز مارے گئے ہیں۔ اس افرا تفری میں اتنی چھان بین کی فرصت کسے تھی ۔پھر اسے پالنے کی خاطر کبھی بھی شادی نہ کرنے کافیصلہ کر لیا مریم نے آہستگی سے کہا ۔
’’احمد ! وہ سات ماہ کا بچہ تم ہو ۔ تم نے پوچھا کہ تمہارا باپ کون ہے۔ لیکن میں تو تمہاری ماں کو بھی نہیں جانتی اور میں تو تمہارا نام بھی نہیں جانتی تھی ۔ آئندہ جب بھی پوچھو تو یوں پوچھو کہ میں کون ہوں میرے ماں باپ کون ہیں‘‘۔
احمد برستی آنکھوں کے ساتھ آگے بڑھا اور ماں کے قدموں میں گرا ۔ ’’میرا سب کچھ آپ ہیں ۔ مجھے معاف کر دیں کہ میں چند شر پسندوں کی باتیں سن کر آپ سے گستاخی کر بیٹھا ‘‘۔
’’ احمد تم نے پوچھا تھا کہ ’’میں کون ہوں‘‘ …..تو سنو کہ تم پاکستان ہو اور پاکستان تم سے ہے ۔ اس سے بڑھ کر اور کیا شناخت چاہیے۔ ہمیں اپنی اسی شناحت پر فخر ہونا چاہیے، ہمیشہ اس شناخت کو سینے سے لگا کر رکھنا‘‘۔
سسکیاں لے لے کر وہ آج کی رات روتا رہا اور پھر اس نے بھی ایک لمبا سفر آج کی رات طے کر لیا تھا۔ ایک ایسا سفر جس میں انسان اس مقام پر پہنچ جائے کہ حاسدوں کی باتیں، زمانے کے گرم تھپیڑے اور مقصد کی راہ میں آنے والی مشکلات اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔
یہ 1970 ہے اور یہ ڈاکٹر احمد ہے کہ جس کی ڈگری اور سٹیٹس نے سب زبانیں خاموش کر دی تھیں۔ کرنل صاحب نے گھر سے اپنی بیٹی دے کر احمد کو داماد بنا لیا تھا۔ مریم نے بہت سال خوشیوں اور آسائشوں کے گزارے اور اپنے پوتوں پوتیوں کو اس ایک رات کی داستان بھی ازبر کروا دی۔ پھر اس وطن میں اجنبیت کیسی۔ ساٹھ سال کی عمر میں اسی سر زمین پاک کی مٹی اوڑھ کر ابدی نیند سو گئی۔
@ یہ 2022 ہے اور 74 سال کی عمر میں بھی ڈاکٹر احمد اپنے گرے بالوں کے ساتھ بہت چست اور ہینڈ سم دکھائی دیتے ہیں۔ صبح جاگنگ کرتے ہیں اور چشمے کے باوجود 14 اگست کی وہ رات اکثر انہیں کھڑکی سے دور سرحد کے اس پار بالکل صاف دکھائی دیتی ہے۔ کچھ مناظر کا تعلق ویسے بھی ہماری آنکھوں کے ساتھ نہیں بلکہ دل کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ اپنے پوتوں پوتیوں کو اس ایک رات کی داستان ہر 14اگست کو ضرور سنایا کرتے ہیں۔ یہ داستان ایک ایسی امانت ہے جو نئی نسل کو منتقل کرنا لازم ہے۔
میں نے سن کے آپ کو سنا دی ہے، آپ سن کر آگے سنا دیں۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x