ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

بیوی کے محبوب بنیے – بتولاگست۲۰۲۲

جب چلتے ہوئے آپ کے گھٹنوں سے چڑ چڑ کی آوازیں آنی شروع ہو جائیں، نظر کمزور اور داڑھی سفید

ہوجائے، تو کوئی ہے جس کے لیے اس وقت بھی آپ ہیرو سے کم نہیں ہوں گے، فیصلہ آپ کا ہے!

چاہے سارا سر اور داڑھی سفید ہو جائے، کمر خم کھا جائے، ہاتھوں میں رعشہ طاری ہوجائے، دو باتیں کرنے کے بعد تیسری بات کرتے ہوئے کھانسی کا گھونٹ بھرنا پڑ جائے، چلتے ہوئے گھٹنوں، ٹخنوں سے چڑ چڑ کی آوازیں آنا شروع ہو جائیں، تو اس دور میں بھی اکثر حضرات کے دل میں یہ خواہش موجود ہوتی ہے کہ وہ کسی محترمہ کے دل کےمحبوب ہوں!
وہ 60 سال کی عمر میں بھی سر، داڑھی کے بالوں کو کلف لگا کر اپنے آپ کو جوان ثابت کرنے پر تلے ہوتے ہیں۔ شادی کے نام پر ان کے ہونٹ گلاب کی پنکھڑیوں کی طرح کھل اٹھتے ہیں۔ شرمیلی مسکراہٹیں چہرے پر ڈیرہ جما لیتی ہیں۔
لیکن زندگی کے اس دور میں کسی محترمہ کے دل کا محبوب بننا شاذونادر ہی ہوتا ہے کیونکہ یہ حضرات اپنے جوانی کے بہترین دور میں یہ نادر موقع گنوا چکے ہوتے ہیں اور ان کے برابر میں بیٹھی سفید بالوں والی اماں ان کے ساتھ صرف زندگی کے دن پورے کر رہی ہوتی ہے۔ ان حضرات کے لیے میں کہنا چاہوں گی کہ ماضی میں آپ نے اپنی نفسیاتی انا کی تسکین میں ان کے لیے کوئی خوشگوار یاد ہی نہیں چھوڑ رکھی۔البتہ جن کے ہاتھ میں ابھی وقت ہے ان کے لیے کہوں گی کہ دل دار بننا ہے تو اس عورت کا بنیے جس کے نصیب میں تجھ جیسا سرجن تارا لکھ دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے کہ جوانی کی دوپہر گزر کر بڑھاپے کی شام آ جائے اور آپ پر موت کی گہری اندھیری رات چھا جائے۔ لہٰذا اگر مہلت عمل میسر ہے تو آپ صرف ان چند باتوں پر عمل پیرا ہو کر اپنی بیوی کے خوابوں کا شہزادہ، امنگوں کا محور اور اور دل کا محبوب بن سکتے ہیں۔
1۔ پھولوں سے سجی سیج میں بیٹھ کر بیوی کو منہ دکھائی میں کوئی اچھا سا تحفہ دینے کی بجائے، اس کے ساتھ زندگی بھر کا ساتھ نبھانے کے وعدے کی بجائے، اس کا دکھ سکھ کا ساتھی بننے کا یقین دلانے کی بجائے، یہ کہہ کر اپنی خاندانی گوریلا تربیت کا ثبوت دینے نہ بیٹھ جاناکہ’’تم نے میرے سب گھر والوں کا خیال رکھنا ہے۔ میری ماں کی کبھی نافرمانی نہیں کرنی۔ میرے بھائی اور بھابھی کے آگے جواب نہیں دینا۔ان سے ہمیشہ ادب واحترام سے پیش آنا ہے۔ میری بہنوں سے اپنی بہنوں سے بڑھ کر محبت کرنی ہے‘‘۔
اے رستم پاکستان صاحب! پہلے دن کی دلہن کو اپنے رشتہ داروں کے بارے میں تاکید کرنے سے پہلے یہ سوچ لینا کہ یہ وہی ماں ہے جس کے سامنے چپڑ چپڑ تم بولتے ہو۔ یہ وہی بہن بھائی ہیں جن کے سامنے برداشت کا مظاہرہ تمہاری فطرت سے باہر ہے۔ان کے بارے میں اپنی ذمہ داری تم تو پوری نہ کرسکے۔ گویا آنے والی پہلے دن کی دلہن سے اپنی کوتاہیوں کا ازالہ بھی کروانا چاہتے ہو حالانکہ ان لوگوں نے تمہارے پوتڑے دھوئے ہیں تمہاری دلہن کے نہیں۔
2۔ جب ایک لڑکی آپ کے نکاح میں آتی ہے تو آپ اس کے جملہ حقوق کے نگران ہیں۔ اب اس نے زندگی میں حمل، زچگی، رضاعت جیسی تکالیف اور کمزوریوں سے گزرنا ہے۔ سب کچھ اس نے اپنے جسم سے ہی ادا کرنا ہے۔ لہٰذا اس کے کھانے پینے کا خیال رکھیں۔ اگر بھابیاں یا گھر کی دوسری خواتین اعتراض کرتی ہیں اور آپ میں یہ اعتراض سہنے کا حوصلہ بھی نہیں یا ان کی جاسوسی سے بچنا بھی مشکل ہے تو ایسی صورت میں بیوی صاحبہ کے لیے یہ سامان قمیض اور پینٹ کی جیب میں یا پھر اپنی شلوار کے نیفے میں ہی اڑس کر لے آئیں۔ کمرے کے دروازے کی اندر سے کنڈی لگا کر انہیں کھلا پلا دیں اور پھر خالی شاپر یا ریپر کو تلف کرنے کی ذمہ داری بھی خود اٹھائیں۔ کہیں یہ نادان خاتون تمہارا پول ہی نہ کھول دے۔ ہم نے تو ایک صاحب بہادر کے بارے میں سنا کہ وہ بیگم کے لیے چپل جوتا بھی جیب میں ڈال کر لائے تھے۔
3۔ کسی بھابھی یا ماں، بہن کو خوش کرنے کے لیے کبھی بیگم سے اونچی آواز میں بات نہ کریں۔ ہو سکتا ہے کہ آج اپنا گھر بچانے کی خاطر وہ خاموش رہے لیکن یاد رکھیں تمہارے گھر کا مستقبل اسی کے ہاتھ میں ہے اور وہ آنے والے وقت کی سپر پاور ہے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ سپر پاور بھی تمہیں ایسے گھما کر گرائے جیسے ککلی کلیر دی کھیلتی ہوئی لڑکی اپنی مخالف لڑکی کو جھٹکا دے کر گرنے کے لیے چھوڑ دیتی ہے ۔
4 ۔ بیگم کے رشتہ داروں کو برے الفاظ میں یاد کرنے یا انہیں برا بھلا کہنے سے مکمل احتراز برتیں خاص کر بیگم کے سامنے۔ اگر بیگم تمہارے جانوروں جیسے غصے کے سامنے ظاہراً چپ بھی ہے تو یقین کرووہ اپنے دل میں تمہارے رشتے داروں کو اس سے بھی بڑی بڑی گالیاں دے رہی ہوتی ہے جو آپ اس کے رشتہ داروں کو دیتے ہیں ۔ اس معاملے میں صرف ظاہر اور باطن کا فرق ہے ادھار بالکل بھی نہیں۔
5۔ کئی گھرانوں میں امی جی گھر میں اپنی راج دھانی قائم رکھنے کے لیے بہو کو اپنا محتاج رکھنا چاہتی ہیں۔ اس معاملے میں یہ ذمہ دار محترمائیں ذرا کوتاہی نہیں برتتیں ۔پھر ان کے بیٹوں کی طرف سے بیویوں کو حکم ہوتا ہے کہ’’تمہیں جس چیز کی ضرورت ہے ہماری ماں سے مانگو‘‘ کئی بہویں تو ان ساسوں کی بھی استاد نکلتی ہیں۔ ساس کی شہ رگ پر انگلی رکھ کر سب کچھ نکلواتی ہیں اور کئی اپنی خود داری میں ہی دن بدن گھلتی رہتی ہیں۔ بھوکی مر جائیں گی مگر ساس سے کچھ نہیں مانگیں گی۔ لہٰذا بیوی کو خرچہ وغیرہ دینے کا معاملہ اپنے ہاتھ میں رکھیں۔ اگر ماں پیاری ہے تو اس کی زندگی کے لیے دعائیں کروائیں مرنے کے لیے بد دعائیں نہیں۔
6۔ جب کبھی کہیں سفر پر یا تفریح کے لیے جاؤ اور وہاں سے اپنی ماں بہن کے لیے تحفے خریدو تو ساتھ ہی بیوی کی ماں بہن کے لیے بھی خرید لو۔ اگر اس فعل سے آپ کو اپنے میکے کی مخالفت کا ڈر ہے تو انہیں بتانا ضروری نہیں۔ یہ تحفے آپ نے اپنے ذاتی مال سے خریدے ہیں کسی کی چوری نہیں کی۔ دیکھنا! آپ کے اس چھوٹے سے عمل اور چند روپے خرچ کرنے سے آپ کو اپنے سسرال والوں کی محبت اور بیوی کی حقیقی خوشی اور محبت ملتی ہے۔ سسرال والے آپ کے ان چند ٹکوں کی چیز کے نہ تو ضرورت مند ہیں اور نہ ہی محتاج، البتہ انہیں آپ کی ذات میں اپنائیت محسوس ہوگی۔ اس طرح آپ کا اپنے میکے پر خرچ کرنے پر بیوی اعتراض بھی نہیں کرے گی بلکہ آپ کے رشتے داروں کے لیے خود بھی آگے بڑھ کر خرچ کرے گی۔
7 ۔ کئی خبطی مرد اپنے بچوں کو ننھیال کے خلاف بھڑکا کر، ان سے بدتمیزی کروا کر خوش ہوتے ہیں۔ وہ اپنے ذہن میں بٹھا لیں کہ وہ کسی کا کچھ نہیں بگاڑ رہے، اپنا مستقبل خود تباہ کر رہے ہیں کیونکہ ایسے بچے مستقبل میں سب سے زیادہ اپنے باپ کے ہی نافرمان ہوتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تمہیں بڑھاپے میں منہ کھول کھول کر رونا پڑے اور اولاد کی بے رُخی کی دہائی دینی پڑے۔ بچوں کے دلوں میں ننھیالی رشتوں کی بھی قدر بٹھائیں۔ تمہاری بیوی بھی ددھیالی رشتوں کی محبت بچوں کے دلوں میں بڑھائے گی۔زیادہ تر بچے ماں کی عینک سے ہی دیکھتے ہیں۔ وہ انہی لوگوں سے زیادہ محبت کرتے ہیں جن سے ان کی ماں محبت کرتی ہے۔ بچوں سے ننھیالی لوگوں سے محبت اور ان کی قدر کروائیں گے تو جواباً اپنے رشتوں کی بھی قدر کروائیں گے ورنہ بے مول حسرت لیے جھاگ کی طرح بیٹھ جائیں گے۔
8 ۔ حسب توفیق بیوی کو کبھی کبھار خریداری اور سیر و تفریح کے لیے ضرور لے کر جائیں۔ چاہے آپ کے گھر والے برا ہی کیوں نہ منائیں۔ بھئی اس عورت نے آپ کی نسل پیدا کرنی اور پھر ان کی تربیت کرنی ہے۔ اسے ذہنی طور پر پر سکون ہونا چاہیے ورنہ آپ کی نئی نسل بھی آپ کی طرح ٹیڑھی میڑھی ہی ہوگی۔
9۔ رن مریدی کے طعنہ میں شرمندگی نہیں بلکہ فخر محسوس کریں اور اپنی خدمات بیگم کے لیے جاری رکھیں یہاں تک کہ وہ آپ سے خوش ہو جائے۔ آپ اسے ساری دنیا سے زیادہ عزیز ہو جائیں۔ آپ کے بغیر ایک دن بھی رہنے کا تصور نہ کرے۔ آپ کی خوشی کو وہ اپنی خوشی بنا لے۔ آپ کی خاطر وہ اپنے بچوں تک سے ٹکرا جائے۔ جب چلتے ہوئے آپ کے گھٹنوں سے چڑ چڑ کی آوازیں آنی شروع ہو جائیں، نظر کمزور اور اٹھتے بیٹھتے زبان سے ہائے ہائے نکلے، داڑھی سفید اور سر کا گنجا پن چودھویں کے چاند کا نظارہ دینے لگے، تو اس وقت بھی آپ اس کے لیے دنیا کے حسین ترین مرد اور ہیرو سے کم نہیں ہوں گے۔ وہ آپ کی ہر ادا پراپنی محبتیں نچھاور کرے گی۔ بچوں کو آپ کا فرمانبردار غلام بنائے گی۔
اب یہ فیصلہ آپ کا ہے کہ بیوی پر سرمایہ داری وقتی کرنی ہے یا مستقل! ٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x