ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

بتول میگزین – بتول اگست ۲۰۲۲

یہ دردوغم!
حنا سہیل۔ جدہ، سعودی عرب
ہر دور کے مختلف درد ہوتے ہیں !
بچپن کے درد بھی کتنے معصوم ہوتے ہیں کہ میری سہیلی نے اگر کسی دوسری لڑکی سے بات کرلی یا اس کو دوست بنانے کی کوشش کی تو سارا دن دل میں کھدبد ہوتی رہتی تھی اور ایک درد سا محسوس ہوتا ۔اس کو ہم دکھ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کہیں میں اپنی عزیز ترین دوست کو کھو نہ دوں یا اس سے الگ نہ ہوجائوں ۔ ٹیچر نے کلاس میں ڈانٹ دیا ،اب یہ اتنا بڑا درد ہے کہ اگلے دن بھی دل میں رہے گا، رات کو بھی سوتے ہوئے یہ سوچ رہے گی کہ سب دوست کیا سوچیں گے۔
اگلی منزل جوانی کی ہے۔ اس کے تو سارے درد میٹھے میٹھے ہوتے ہیں ، محبت کا درد میٹھا اور سرور دینے والا ہوتا ہے، بندہ اس درد کو بہت عزیز رکھتا ہے ،اس درد میں جیتا ہے ۔اگر جس کو وہ چاہتا ہے کسی وجہ سے جدائی مقدر ٹھہرے تو یہ درداور سوا ہوجاتا ہے ، انسان بولایا بولایا پھرتا ہے اس کو سمجھ نہیں آتی کہ اس درد کا مداوا کیسے کرے، کس سے اس کا ذکر کرے یا چپ رہے دل میں اس درد کو رکھ کر۔
زندگی میں جو غم اور دکھ ملتے ہیں وہ بعض دفعہ انسان کو مضبوط بناتےہیں اور اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان ٹوٹ جاتے ہیں ان دکھوں کی وجہ سے، اولاد جب بڑی ہوکر والدین کو چھوڑ دے ان کے حقوق کا خیال نہ کرے انھیں تکلیف دے تو یہ دکھ سب سے سوا ہوتا ہے۔بچے کو بڑا کرنے کے دوران جو تکالیف انہوں نے اٹھائی ہوتی ہیں وہ بھول جاتے ہیں لیکن اولاد کی بد تمیزی اور بے وفائی برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے۔
بڑھاپے میں جہاں جسمانی درد ہوتے ہیں وہاں سب سے بڑا درد یہ ہے کہ آپ کا زندگی کا ساتھی جس نے آپ کے ساتھ حسین دن رات گزارے وہ چھوڑ کر اس دنیا سے چلا جائے ۔ بڑھاپے میں سب سے زیادہ محبت کو پنپتے اور بڑھتے دیکھا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس عمر میں ساتھی کی جدائی کا دکھ سہنا بہت مشکل کام ہے کیونکہ اس عمر کی محبت بغیر کچھ لیے دیے بغیر کسی غرض کے کی جاتی ہے ۔ساری عمر کی قربانیوں کا صلہ آخری عمر کی محبت ہوتی ہے ، یہ درد بہت ظالم ہوتا ہے۔ ایک ساتھی چلا جائے تو دوسرے کو حسرت ویاس کی تصویر بنتے دیکھا ہے۔
یونہی تو شاخ سے پتے گرا نہیں کرتے
بچھڑ کے لوگ زیادہ جیا نہیں کرتے
٭ ٭ ٭
اندھیرے اور روشنی
مہوش ریحان۔ کراچی
عید کے دوسرے دن بارش نے حالات کچھ ایسے بنادیے کہ بجلی ایسی گئی کہ آ نا ہی بھول گئی ۔ایسے میں گھر میں موجود تمام ایمر جنسی لائٹس، سولر لائٹس سب نے ایک ایک کرکے ساتھ چھوڑ دیا ۔ آ ہستہ آہستہ موبائل کی بیٹری بھی ختم ہو گئی۔اور ایسا لگا جیسے دنیا میں ہم اکیلے رہ گئے ہیں۔نیچے بارش اور اوپر صرف اندھیرا۔
انتظار بہت طویل تھا اورایسا لگ رہا تھا کہ وقت آ ج کئی صدیوں پر محیط ہے ۔ہم اپنے دل کو بہلا رہے تھے،تسلیاں دے رہے تھے۔ ہم نے اسے بتایا دیکھو تمہارے پاس سب کچھ ہے صرف روشنی ہی تو کم ہے مگر وہ سر پھرا نہ مانا بولا وہ نہ ہو تو اس کے بنا کیا کریں نہ کچھ لکھ پڑھ سکیں نہ موسم انجوائے کر سکیں ۔دیکھو تو ہر طرف کیسی ویرانی ہے۔
ہم بھی اس سےسوفیصد متفق تھے اور سوچ رہے تھے کہ روشنی نہ ہو تو گھر کی اس آ رائش و زیبائش پر بھی جن بھوت کا گماں ہو تا ہے۔ہر چیز کی صحیح پہچان روشنی میں ہی ہو سکتی ہے۔جو لوگ تیز روشنیوں کے عادی ہو جاتے ہیں ان کا گزارا پھر ہلکی روشنی میں بہت مشکل سے ہوتا ہے (جبکہ رب کی عطا دیکھیں کہ بلی اندھیرے میں بھی دیکھ سکتی ہے)۔
جو لوگ اندھیرے میں رہتے ہیں روشنی میں ان کی آ نکھیں چندھیا جاتی ہیں ۔ عجب ہے ناں کہ ان سے زیادہ روشنی برداشت نہیں ہوتی۔ ویسے روشنی زیا دہ تیز ہو تب بھی انسان ٹھیک سے دیکھ نہیں سکتا ۔ اور بعض دفعہ جو پوری روشنی میں دیکھ رہا ہوتا ہے وہ بھی درست نہیں ہوتا بلکہ نظر کا دھوکا ہوتا ہے۔
بعض دفعہ دل اندھیرے جیسے سیاہ ہوجاتے ہیں، ان کے لیے روشنی بے کار ہوتی ہے۔ ایسے دل نہ روشن ہوتے ہیں نہ ان کو کہیں روشنی نظر آ تی ہےاورنہ ہی روشنی ان کو خوش کرتی ہے ۔بلکہ بعض اوقات تو روشنی انکو مزید تکلیف اور اشتعال میں مبتلا کر دیتی ہے۔
کیا آ پ جانتے ہیں کہ کچھ جیلوں میں انسان کو سزا دینے کے لیے بھی روشنی کا استعمال کیا جاتا ہے وہ ایسے کہ ہر تھوڑی دیر بعد اس کی آنکھوں پر روشنی ڈال کر اس کو تکلیف دی جاتی ہے ۔مسلسل ایسا کرنے سے اس کے اعصاب جواب دے دیتے ہیں اور وہ ہار مان لیتا ہے۔
کچھ روشنیاں انسانی صحت کے لیے بہت اہم ہوتی ہے۔جدید تحقیق کے مطابق فجر کے بعد سے صبح 9 بجے تک کی روشنی چند منٹ ہماری آنکھوں میں پڑنے سے ہمارے جسم کے فاسد مادے تیزی سے ختم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔اور ہم مفت میں کئی بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔
کچھ لوگ بہت روشن خیال ہونےکا دعوٰی کرتے ہیں۔ صحیح معنوں میں روشن خیالی کاتصور دکھانے والی کتاب دراصل قرآن مجید ہے جس کی روشنی نے تاریخ رقم کردی، جہالت زدہ قوم کے دلوں کو مسخر کر کے پُر نور بنا دیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کو وہ روشنی عطا کر دی جو کبھی بجھنے والی نہیں اس کو بجھانے کی جتنی بھی کوششیں کر لی جائیں ناکام رہیں گی۔
ایک روشنی اور بھی ہےجس کو ابھی سے چارج کرکے رکھنے کی ضرورت ہے۔جس وقت ہر طرف اندھیرا ہوگا اور کوئی کسی کی روشنی سے فائدہ نہیں اٹھا سکے گا لہٰذا دور اندیش بنیے اور پل صراط کے لیے روشنی جمع کرکے رکھیے ۔ آ ج تو ہم کے الیکٹرک اور بارشوں کو اندھیرے کا الزام دے رہے ہیں مگر قیامت کے دن اندھیرے کے ذمہ دار ہم خود ہوں گے۔
٭ ٭ ٭
ڈپریشن سے چھٹکارا کیسے پائیں
بنت عبدالقیوم۔لاہور

اللہ کا قانون ہے کہ وہ اپنی مختلف نعمتوں سے بندوں کو نوازتا ہے ، اورمحاسبہ اسی نعمت کا کرے گا جو وہ عطا کرے گا۔اسے ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہر فرد کا امتحان اللہ تعالیٰ ایک ہی سوالیہ پرچہ دے کر نہیں لے رہا،ہر بندے کی طبیعت ومزاج دوسرے سے مختلف ہے،حالات ومسائل میں فرق ہے۔بلال رضی اللہ تعالیٰ کو ان کی غلامی قبول اسلام سے روک سکی نہ اس ضمن میں آنے والے مصائب ہی نے انہیں کسی قسم کے ڈپریشن میں مبتلا کیا، بلکہ دین پر استقامت اور ثابت قدمی نے دین ودنیا میں سرخرو کر دیا۔
پھر غزوہ تبوک میں پیچھے رہ جانے والے ان مخلص اہلِ ایمان کے مسائل و معاملات اور قسم کے تھے، بظاہر دیکھا جائے توشدید ڈپریس کر دینے والا سوشل بائیکاٹ ان کا اللہ کے رسولؐ اور ساتھی اہلِ ایمان کی جانب سے ہؤا۔بظاہر تو یہ بھی لگتا تھا کہ دائرہ حیات ان پر جتنا تنگ کر دیا گیا ہے ،یہ مسلمانوں سے بد ظن ہو جائیں گے۔لیکن نہیں ۔وقت کے فرعونوں نے اس بظاہر نظر آنے والی ذلت کو حوالہ بنا کر انہیں عیش وعشرت کی پیشکش کی ،لیکن قربان جائیے اس اخلاص پر ،انہوں نے سزا کو شفقت و محبت سمجھ کر گوارا کیا یہاں تک کہ اللہ کی طرف سے ان کی توبہ قبول کر لی گئی۔نوٹ کرنے کے قابل بات یہ بھی ہے کہ نہ وہ خود ڈپریس ہوئے اور نہ ہی دیگر صحابہؓ نے اس سزا پر اپنے دلوں میں کوئی خوشی محسوس کی۔اک اصلاح کا جذبہ تھا جو ہر دل میں پنہاں تھا۔اور اعلان مغفرت ہوتے ہی خوشی کی ایسی لہر دوڑی کہ قلم بیان کرنے سے عاجز ہے۔
گویا ایمان نہ تو ڈپریس ہونے دیتا ہے اور نہ ہی ڈپریشن کا موجب بنتاہے۔ پھر اللہ مالک الملک جو ساری کائنات کا خالق ہے،زبردست منتظم ہے،اور بحثیت مسلمان یہ ہر کسی کا عقیدہ ہے کہ اللہ سمیع و بصیر دلوں کے راز تک سے ،سرگوشیوں ، تمناؤں ، آرزئووں سے واقف ہے۔تو وہ کیسے کسی انسان کے ساتھ نا انصافی کر سکتا ہے،کیسے دعاؤں کو رد کر سکتا ہے،کیسے کسی کو بے یارو مددگار چھوڑ سکتا ہے،کیسے اپنی نعمتوں سے محروم کر سکتا ہے۔اس کی عطائیں کیسے مخصوص لوگوں پر ہو سکتی ہیں۔وہ ہمیں کبھی مایوس نہیں کر سکتا۔بس اس دارفانی میں اپنے پرچے پر نظر رکھیے۔ یقیناً ہمیں دوسرے کا پرچہ تبھی آسان لگتا ہے جب ہمارے اپنے ایمان میں کمزوری واقع ہوتی ہے،ورنہ تو ہر بندہ جو اس دار الامتحان میں آیا ہے ،کسی نہ کسی طور آزمایا ہی جا رہا ہے۔البتہ سوالیہ پرچے ہر ایک کی طبیعت ومزاج،حالات و واقعات ومسائل کے مطابق ہیں،اس حکیم و خبیر کی طرف سے دیئے گئے ہیں جس کی عدالت کو کوئی جج کرنے والا نہیں،اور جس کی مینجمنٹ پر کوئی معترض نہیں ہو سکتا۔
مشیت الٰہی اور رضائے الٰہی کا باریک فرق ہمیں بہت سی الجھنوں سے بچا سکتا ہے۔ ’حساباً یسیرا‘ کی آرزو ہمیں بہت بار سنبھالا دے سکتی ہے۔بس اس کی حکمت و مصلحت کے آگے سرنڈر کر دیجیے، ان شاءاللہ وہ ہمارے لیے کافی ہو جائے گا، ہمیں بھٹکنے سے ،مایوسی سے بچا لے گا، بلا شبہ ہمارے لیے وہی کرے گا جس میں ہماری دونوں جہانوں کی خیر ہے۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x