ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

محشر خیال- بتول ستمبر ۲۰۲۱

پروفیسر خواجہ مسعود۔ راولپنڈی
خوبصورت شفاف پانیوں کی ندیوں اور گھنے سر سبز درختوں سے مزین ٹائٹل سے آراستہ ماہ اگست 2021 کا چمن بتول سامنے ہے ۔ کاش ہمارے ملک میں ایسے درختوں کے جنگلات بے شمار ہوں۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ اپنے اداریہ میں محترمہ مدیرہ صاحبہ نے بارشوں سے بے تحاشہ نقصانات کا ذکر کیا ہے ۔آپ کے یہ جملے قابل غور ہیں ’’ ہم تو ویسے ہی اللہ کے حوالے ہیں ۔ اسلام آباد کا ایک سیکٹر ڈوب گیا تو کوئی حیرانی نہیں ‘‘۔خواتین کے بڑھتے ہوئے بہیمانہ قتل کے واقعات پر بھی آپ نے بجا طور پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ آپ کے یہ جملے غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں ’’ ظلم کسی بھی شکل میں ہو اس کو روکنا ریاست کی ذمہ داری ہے …ریاست کا یہ بھی فرض ہے کہ ملک میں اسلامی تعلیمات کو عام کرے‘‘۔
’’ صبرو ثبات‘‘ ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ کا بصیرت افروز مضمون آپ نے یہ جملے خوب لکھے ہیں ’’ ایمان کے دو حصےہیں ایک صبر اور دوسرا شکر ۔ایک مومن ان دونوں کا حریص ہوتا ہے اور ان دونوں کو تھامے ہوئے دین کی راہوں پر چلتا ہے۔ بے صبری دکھانے والا مایوسی ، عدم تحفظ اور شرمندگی کا شکار رہتا ہے ‘‘۔ہمارے رسول پاکؐ صبر و استقامت کا پیکر تھے۔ آپ کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔
’’ نبی ؐ مہر بان ‘‘ (پروفیسر عبد الجبار شاکر) مضمون میں وضاحت کی گئی ہے کہ ہمارے پیارے رسول پاک ؐ تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر آئے (رحمت اللعالمین) آپ کی امت کے ساتھ شفقت مثالی تھی حتیٰ کہ آپ غلاموں کے ساتھ بھی شفقت کا سلوک فرماتے تھے ۔ آپ ؐ نے مدینہ میں ایک مثالی رفاہی اور فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی جس میں غلاموں ، یتیموں، بیوائوں ، غریبوں اور مستحقین کا خاص خیال رکھا جاتا تھا ، انصاف اور روا داری کا بول بالا تھا ۔
’’ریاست ِ مدینہ کے خدو خال‘‘( ڈاکٹر فلزہ آفاق) اس مضمون میں ڈاکٹر صاحبہ نے وضاحت کے ساتھ بتایا ہے کہ ہمارے پیارے رسول پاک ؐ نے مدینہ میں جس اسلامی، فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی اس کےسوتے قرآن و سنت کی تعلیمات سے پھوٹتے تھے ، وہ ایک مثالی فلاحی ریاست تھی جہاں انصاف ، روا داری ، اخوت، مساوات، قانون اور اسلامی اصولوں کی عملداری تھی وہ ایک خوشحال اور پر امن ریاست بن کے ابھری ۔
’’ ایک بڑے آدمی کی ماں ‘‘ ( افشاں نوید ) مولانا مودودی ؒ کی شفیق اور مہر بان والدہ کا دل کو چھو لینے والا تذکرہ ، پڑھ کے پتہ چلتا ہے کہ وہ کیسی شرافت و نیابت کا مجسم تھیں ، انہی کی تربیت کا اثر تھا کہ ان کی گود میں مولانا مودودیؒ جیسی جلیل القدر ہستی پروان چڑھی۔
حصہ شعر و شاعری میں شاہدہ اکرام سحر کی چھوٹے بحر کی خوبصورت غزل ہے :
چاہت کے سب افسانے
تاروں سے یہ کہتی ہیں
یادوں کے موتی انمول
دامن میں یہ بھرتی ہیں
آمنہ رمیصا زاہدی کی غزل سے خوبصورت اشعار
بیش قیمت ہیں ہر گہُر سے وہ
سچے موتی جو چشم تر میں ہیں

غم نہ کر ان دیوں کے بجھنے پر
ساعتیں چند اب سحر میں ہیں
’’کرونا میں گزری عید ‘‘( فرحت طاہر) کرونا کے دوران گھروںمیں بند فیملیز کی سر گرمیوں کا احوال خوب لکھاہے ۔ واقعی کرونا نے تو سارے نظام کو درہم برہم کر دیا ہے ، نہ ملنے جلنے کی آزادی، نہ پارکوں کی سیر، نہ عید کی چہل پہل ، نہ شادیوں کی رونق سب کچھ ہی تو بدل کے رہ گیا ہے ۔ اللہ اپنا خصوصی کرم فرمائے ( آمین)۔
’’ العروس‘‘( عظمیٰ ابو نصر صدیقی) فلسطین میں اسرائیل نے جو ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے اس کے پس منظر میں لکھی گئی دلوں کو چھوتی ہوئی ایک کہانی ۔ شیما اور انس کو ارمان تھا کہ عید کے بعد ہماری شادی ہو جائے گی ۔ لیکن حالات کا ستم کہ اسرائیلی بمباری سے شیما شہید ہو گئی ۔’’ ساون رُت‘‘( حمیرا بنت فرید) بڑے ارمانوں کے ساتھ اپنی شادی پر اس نے اپنے بیڈ روم کے لیے پسند کا نیا فرنیچر بنوایا لیکن شادی کے فوراً بعد اس کا بیڈروم کا سارا سامان سیلاب میں بہہ گیا ساتھ ہی اس کے سارے ارمان بھی بہہ گئے ۔ غریبوں کے ارمانوں کی انوکھی داستان۔
’’بند دروازہ‘‘ (جیلانی بانو) یہ کہانی بتاتی ہے کہ اندھا دھند مغربی تہذیب کی پیروی ہمارے معاشرے میں بہت بگاڑ پیدا کرتی ہے ، کئی سادہ لوح لڑکیاں اس کا شکار ہو جاتی ہیں۔’’ بتانِ رنگ و خوں‘‘(سلمیٰ اعوان) اس کہانی میں ایک زبردست پیغام ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ۔ ان کا مقصد صرف انسانی جانوں سے کھیلنا ، ملک میںدہشت گردی پھیلانا، خوف و ہراس پیدا کرنا اور امن وامان کو تباہ کرنا ہوتا ہے ۔ہمارے نوجوانوںکو ایسی مشکوک تنظیموں سے دور رہنا چاہیے۔ کہانی اتنی دلچسپ ہے کہ ایک دفعہ شروع کریں تو چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا ۔
’’ دادی جان ، فرنگی اور مسلمان بادشاہ کا پاکستان‘‘( عامر جمال) آپ نے اپنی سادہ لوح ، نیک فطرت،پیاری دادی جان کا ذکر بڑے مزے سے کیا ہے ۔ واقعی پرانادور اچھا تھا جب انصاف اور قانون کی عملداری تھی ۔ کاش آج بھی حالات اچھے ہو جائیں ۔جنگی قیدی کی آپ بیتی ‘‘(سید ابو الحسن) اس ماہ اس دلچسپ اور تاریخی حقائق سے بھرپور داستان کا خاتمہ ہو رہا ہے سب قارئین نے اسے شوق سے پڑھااور اس سے بہت کچھ سیکھا ۔ سید صاحب کی آنے والی کتاب کا انتظار رہے گا ۔
’’سعودی عرب میں رہنے کا تجربہ ‘‘ (ڈاکٹر فائقہ اویس) ڈاکٹر صاحب نے صحیح لکھا ہے کہ سعودی عرب میں زندگی پر سکون ہے ، حالات اچھے ہیں، لا قانونیت نہیں ، چوری ، ڈاکے ، اغوا، قتل و غارت نہیں ، اشیائے ضرورت صاف ستھری اور ارزاں مل جاتی ہیں۔کتاب’’ گوشہِ تسنیم‘‘ پر تبصرہ ( افشاں نوید ) ہر ماہ ’’ بتول‘‘ میں ہم گوشہ ِتسنیم کے نام سے ڈاکٹر بشریٰ تسنیم صاحبہ کے اصلاحی کالم پڑھتے رہتے ہیں ۔ اس لحاظ سے یہ کتاب ہماری لائبریری کے لیے قیمتی سرمایہ ثابت ہو سکتی ہے ۔ افشاں نوید صاحب نے خوب تبصرہ کیا ہے ’’ ان کی تحریروں میں قرآن کی تفسیر بھی ملتی ہے اور کائنات کی تعبیر بھی۔ دھیرے دھیرے قاری کا ہاتھ تھامے آفاق کی وسعتوں میں لے جاتی ہے ، کائنات کا حسن تلاش کرتی ہیں ۔ دل میں اترنے والی تحریر یں وہ عوام الناس کے لیے لکھتی ہیں ‘‘۔
’’کرم کے میڈل‘‘( ظفر اقبال وٹو)ہمارے پیارے وطن پاکستان کے ان جیالے اور باہمت انجینئرز کی کہانی جنہوں نے بلوچستان کے دشوار گزار اور خطر ناک علاقوں میں اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر پانچ چھ ڈیم بنا ڈالے اور اب وہاں دور دراز علاقوں میں لوگوں کو پانی کی نعمت وافر مقدار میں میسر آجاتی ہے ،فصلیں لہلہاتی ہیں ، زندگی رواں دواں ہے ۔ بیشک یہ عزم و ہمت اور حوصلے کی ایک عظیم داستان ہے ۔ ’’کینسر قابل علاج ہے ‘‘( ڈاکٹر مقبول شاہد ) کینسر جیسی موذی بیماری کے بارے میں اس مضمون میں بڑی قیمتی معلومات دی گئی ہیں اور ڈاکٹر صاحب نے واضح کیا ہے کہ اگر ابتدائی سٹیج پر اس مرض کو پکڑ لیا جائے تو علاج ممکن ہے اور اس سے بچنے کے لیے ہمیں سگریٹ ، پان، گٹکے ، شراب اور دیگر نشہ آور اشیا سے پرہیز کرنا چاہیے۔
’’ میں ہی پاکستان ہوں ‘‘ اس مضمون میں یہ خوبصورت جملے یاد رکھنے کے لائق ہیں ’’ تم مایوسی پھیلاتے رہو میں امید کی ایک مدھم سی کرن کے پیچھے بھی چلوں گا … دیکھ لینا یہ روشنی کسی دن میرا آنگن نور سے بھر

دے گی ‘‘۔گوشہ ِتسنیم ’’ حق لے کے رہنا ہے ‘‘ (ڈاکٹر بشریٰ تسنیم صاحبہ) ڈاکٹر صاحبہ نے بڑی خوبصورتی سے سمجھایا ہے کہ ہمیں اپنے حقوق لینے پر زور دینے کی بجائے دوسروں کو ان کے حقوق دینے پر زیادہ زور دینا چاہیے کیونکہ روز قیامت ہم سے انہی حقوق کے بارے میں زیادہ باز پرس ہو گی۔
آخر میں ’’ چمن بتول‘‘ کے لیے دعائیں اور نیک تمنائیں کہ ہمارےپیارے مجلے کے چمن میں سدا بہار رہے اور ادارہ ’’ چمن بتول‘‘ کی ہمتیں ، حوصلے بلند رہیں جو ہر ماہ اتنی محنت و کاوش سے اس گلدستہ کو سجا کر قارئین تک پہنچاتے ہیں۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x