ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

دیر کتنی لگتی ہے – قانتہ رابعہ

پانچ پانچ سو روپے کی مبارکبادیاں لے کر اب عملے کا رخ ان کی طرف یعنی چوہدری شہزاد وڑائچ کی بیگم اورنومولود کی دادی نصرت کی طرف ہؤا۔انہوں نےتفاخر سے ہزار ہزار روپے کے نوٹ بغیر گنے بانٹنا شروع کر دیے ،دو چار دس ،جتنے ملازم تھے سب آنے بہانے وہاں پہنچ گئے۔
ہیڈ نرس ،ہیڈ بوائے وارڈ بوائے ،پیرا میڈیکل سٹاف سب ان کے دست مبارک سے نیلے نوٹ وصول کر چکے تھے اور تقریباًپچیس تیس ہزار روپے مبارکبادیوں کی مد میں دینے کے بعد ان کے چہرے پر عجیب سا تکبر کا احساس تھا۔ ڈاکٹر کمرے میں آئیں تو اس وقت تک نومولود بچی کو والدہ کے ساتھ کمرہ میں شفٹ کردیا گیاتھا۔
ڈاکٹر فرخ اور ڈاکٹر شہناز امجد نے ہاوس جاب والی بچیوں کو کیس ہسٹری لکھوائی ۔جب ڈاکٹرز کمرہ سے رخصت ہوئے توہائوس جاب والی بچیاں بھی سینئرڈاکٹر کے ساتھ کمرے سے نکلنے لگیں۔ بیگم چوہدری شہزاد وڑائچ نے بیگ سے پانچ پانچ ہزار کے کڑکتے نوٹ نکال کر ہائوس جاب والی بچیوں کی طرف بڑھائے۔
وہ نئی تو تھیں ہی اور شاید نہیں یقیناً کسی دوسرے شہر سے تھیں جو انہیں اس ہستی کا تعارف نہیں تھا ۔جونہی بیگم نصرت وڑائچ نے مبارکبادی کے نوٹ ان کی طرف بڑھائے تو انہیں جیسے بچھو نے ڈنگ مار دیا ہو۔
تیز لہجے میں اور قدرے خفگی سے ایک نے کہا۔
’’آنٹی کیا ہم آپ کو ڈیزرونگ لگتی ہیں ؟‘‘اس کا رنگ غصے کی شدت سے لال ہورہا تھا۔دوسری ڈاکٹر کا بازو پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے وہ بوٹے سے قد والی باہر چلی گئی۔
وہ تو کمرے سے نکل گئیں لیکن بہت دیر تک نصرت وڑائچ کے بڑبڑانے کی آواز کمرے میں سب کو سنائی دیتی رہی۔
’’ہونہہ ! آئیں بڑی چودھرانیاں ،دو ٹکے کی نوکری کے لیے ہسپتالوں میں ماری ماری پھرتی ہیں اور نخرہ دیکھو !بھئی جو نوکری کرتا ہے وہ ضرورت مند ہی ہوا ناں ایک طرح سے…. اور نخرہ دیکھو‘‘۔
’’ماما جی ایسی بات نہیں ،ایک کا تو میں جانتی ہوں باپ ٹی وی چینل پہ ڈائریکٹر ہے پوری شو بز انڈسٹری اس کے آگے پیچھے پھرتی ہے ‘‘طیبہ نے ساس کو درست معلومات فراہم کیں۔
’’ہونہہ ! جو بھی ہو ہیں تو نوکریاں کرنے والی ناں ‘‘ساس یعنی نصرت وڑائچ اپنے موقف پر قائم تھیں۔
اس کے بعد افتخار وڑائچ ،طیبہ کا میاں فراز وڑائچ ،اور چوہدری شہزاد اندر داخل ہوئے۔ ان کے پیچھے طیبہ کے ابو اور بھیا بھی تھے۔ یوں وقتی طور پر گفتگو کا موضوع بدل گیا ادھر ادھر کی باتیں، امریکہ میں قیام کی دس سالہ داستان اور ملکی حالات کے بعد نومولود بچی کا نام رکھنے پر نوبت آگئی۔
’’ہاں تو طیبہ پتر کیا نام رکھنا ہے پتری کا؟ بڑی بھاگوان ہے ویسے ‘‘شہزاد وڑائچ نے بہو سے سوال اور جواب دیا ۔
’’آج میرا بڑا بیٹا دس سال کے بعد پردیس سے آیا ،عید کا چاند بھی ابھی گھنٹہ پہلے دکھائی دیا میں تو اس کا نام ملکہ رکھوں گی….ملکہ بختاور! ‘‘دادی نصرت نے گردن اکڑا کر اپنا فیصلہ سنایا ۔
ان کے کہے لفظوں کو بھی حکم کا درجہ حاصل تھا اور یہ تو تھا ہی ان کا حکم!
طیبہ نے دل میں دس نام سوچ رکھے تھے۔عنبر ،شمامہ ، عصمہ،حمنہ….لیکن ساس کا فیصلہ گھر میں حرف آخر ہی ہوتا تھااس لیے اس نے بھی ملکہ بختاور کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا اور اس کے نام کو بھی خوشدلی سے قبول کر لیا ۔
تیکھے نین نقش والی ملکہ میں شروع دن سے دادی کی ساری صفات بدرجہ اتم موجود تھیں۔ کچھ قدرت کے رنگ نرالے کہ جب سے وہ پیدا ہوئی تھی ہر دو چار مہینوں کے بعد ان کے گھرانے کے لیے کوئی نہ کوئی خوشی کی خبر دروازے پر دستک دینے کو موجود ہوتی ۔طیبہ تو بیٹی کو لاڈ پیار میں ملکہ ہی کہتی لیکن دادی نصرت کا منہ ہر مرتبہ اس کے لیے نئے سے نئے لاڈ کے نام لیتا۔میری شہزادی ،بختاور ،خوش نصیب ،بخت بھری جیسے بیسیوں ناموں سے پکارتیں۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ پوتوں کو گود میں نہ لینے والی دادی اسے کھلاتیں پلاتیں لاڈ اٹھاتیں اور خوب خوب نخرے برداشت کرتیں ۔جوں جوں ملکہ بڑی ہو رہی تھی دادی پوتی یک جان دو قالب بن چکی تھیں ۔
پوتے اپنے بیگ خود گاڑی سے نکال کر سکول میں لے کر جاتے لیکن ملکہ کے لیے الگ سے ان کی پرانی خاندانی ملازمہ ست بھرائی کی بیٹی ساتھ جاتی۔ست بھرائی اب فالج کی وجہ سے کام سے معذور تھی لیکن اپنی بیٹی کو وہ اپنا قائم مقام بنا کر پیش کر چکی تھی ۔ست بھرائی کی بیٹی ملکہ سے دو چار سال ہی بڑی تھی لیکن ملکہ کا بیگ اٹھا کر کلاس روم میں ڈیسک پر رکھتی ،تفریح کے وقت میں اسے دھلے ہوئے پھل دوبارہ دھو کاٹ کر دیتی، ہاتھ صاف کرنے کے لیے رومال پیش کرتی۔ سکول سے واپسی کے وقت تک وہ اس سکول کے کونے کھدرے میں بیٹھی رہتی ،جونہی چھٹی کا وقت ہوتا وہ بھاگ کر ملکہ کی کلاس میں جاتی اس کاسکول بیگ اٹھاتی ،ملکہ آگے آگے اور وہ پیچھے پیچھے چلتی ۔
وہ تو ہوم اکنامکس کی ٹیچرصبا برکت کا راستہ بھی اتفاق سے ملکہ والا تھا ۔وہ دونوں کوروزانہ گاڑی سے نکلتے دیکھتیں،پھر سکول لگ جانے کے بعد وہ اس ملازمہ بچی کو کسی کونے میں بیٹھے دیکھا کرتیں۔ ایک دن وہ یونہی اس کے قریب سے گزریں ، اس پر نظر پڑی تو وہ ایک قاعدہ لیے حرفوں اور تصویروں پر انگلیاں پھیر رہی تھی۔ مس صبا کو دیکھ کر اس نے جلدی سے قاعدہ اپنے پیچھے چھپا لیااور خوفزدہ نگاہوں سے ان کی طرف دیکھنے لگی۔ مس صبا مسکرائیں اور اسے پوچھا ’’پڑھوگی؟‘‘
وہ تو بس بے یقینی سے انہیں دیکھتی ہی رہی۔ انہوں نے پرنسپل میم فرزین سے بات کی۔گرامر سکول کی پرنسپل مس فرزین رانا بہت اچھی فطرت کی مالک تھیں۔ انگلینڈ کی یونیورسٹی سے بڑی بڑی ڈگریوں کے باوجود وہ بہت عاجز طبیعت رکھتی تھیں اورہر طرح کے طبقاتی امتیاز سے بالا ہر تعصب سے پاک صرف میرٹ پر چلنے اور چلانے والی۔ان کی اضافی خوبیوں میں انسان دوستی کے علاوہ بنیادی حقوق کے حصول کے لیے آواز بلند کرنے والوں کی دامے درمے سخنے مدد کرنا بھی شامل تھی۔
جب ہوم اکنامکس کی ٹیچر نے انہیں ملکہ بختاور کے ساتھ آنے والی بچی کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ کس طرح وہ اپنی ہی عمر کی ایک نوابزادی کی خدمت کے لیے کیسے سارا دن سکول کے کونے میں بیٹھی رہتی ہے اور تفریح کے پیریڈ میں اسے پھل کاٹ کر دیتی ہے ہاتھ دھلواتی ہے اور گاڑی میں ساتھ ہی واپس جاتی ہے تو میم فرزین چند لمحوں کے لیے سکتے کی سی کیفیت میں آگئیں ان پر جیسے بے یقینی سی طاری تھی۔
دو چار دن انہوں نے اس بچی کا خود جائزہ لیا ۔ وہ واقعی کہیں سے گرا پڑا قاعدہ لے کر حسرت سے دیکھ رہی ہوتی تھی۔ پھرانہوں نے چپڑاسی کو بھیج کر اس بچی کوآفس میں بلوایا۔جب وہ سوکھی سڑی رنگت ، موٹے موٹے ہونٹوں والی بچی دفتر میں داخل ہوئی تو اس کی ٹانگیں تھر تھرکانپ رہی تھیں ۔
’’ادھر بیٹھو ‘‘انہوں نے اپنے بائیں جانب پڑے سٹول کی طرف اشارہ کیا ۔
ڈرتے جھجکتے وہ بچی سٹول پر بیٹھی تو اب بھی بری طرح سے کانپ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ایک ہی رنگ تھا… خوف کا رنگ!
ماسی نے اسے گلاس میں ٹھنڈا پانی ڈال کر دیا۔،بچی نے ہاتھ آگے نہیں بڑھایا ۔
’’لیں ناں پانی پئیں ‘‘ہوم اکنامکس کی ٹیچر صبا برکت نے اسے تسلی دی ۔
جونہی اس بچی نے ہاتھ آگے بڑھایا شاید پکڑنے والی کی غلطی تھی یا پکڑانے والی کی ،گلاس اس کے ہاتھ سے گرگیا۔اس نے دونوں ہاتھوں میں منہ چھپا لیا اورآواز کے ساتھ رونا شروع کردیا۔ اس کے موٹے موٹے آنسو سیاہ بھدے ہاتھوں کی انگلیوں کو چھو کر فرش پر گر رہے تھے۔بچی جس کی عمر زیادہ سے زیادہ پندرہ سولہ سال تھی حددرجہ گھبراہٹ کا شکار تھی،اس کی آنکھوں میں خوف ہی خوف تھا،اس کی باڈی لینگوئج میں ڈراور پریشانی تھی۔وہ بار بار گھبرا کر دائیں بائیں دیکھتی ،تھوک نگلتی۔
دس پندرہ منٹ میں وہ کچھ نارمل ہوئی اس کو دوبارہ پانی پینے کے لیے دیا گیا۔اب اس نے قدرے اعتماد سے گلاس تپائی پر رکھا۔اس کی سانولی پتلی انگلیوں کے ناخن میلے اور ٹوٹے ہوئے تھے۔پرنسپل میم فرزین رانا نے رجسٹر ایک طرف رکھ کر سوال جواب کا سیشن شروع کیا۔
’’ہاں تو بچے کیا نام ہے آپ کا؟‘‘ان کی آواز میں مٹھاس گھلی ہوئی تھی۔
’’دادی نے میرا نام شہزادی رکھا تھا پر میری اماں مجھے نصیبن کہتی ہیں‘‘اس نے جواب دیا ۔
میم فرزین اورمس صبا کی نظریں آپس میں ملیں۔مس صبا ملکہ بختاور کی پیدائش اور نام رکھےجانے کےبارے میں سارا کچھ جانتی تھیں۔ان کی بھاوج ڈاکٹر تھی جو ہاؤس جاب کر رہی تھی اور اس کی پیدائش کے وقت لیبر روم میں موجود تھی ۔ان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
’’اتفاق ہے میم ،ملکہ بختاور کا نام بھی اس کی دادی نے رکھا اور خدمت گار بچی کانام بھی اس کی دادی نے‘‘۔
’’بیٹے آپ روزانہ سکول آتی ہیں چھ سات گھنٹے یہاں بیٹھ کر واپس چلی جاتی ہیں سارا وقت یہاں وہاں دیکھتی رہتی ہیں بالکل فارغ ، تو آپ بھی سکول میں کچھ تھوڑا بہت پڑھ لیں ،کچھ ضروری مضامین جیسے اسلامیات اردو حساب اور انگریزی کےمضامین ،اس سے آپ کو بہت فائدہ ہوگا ۔ہم سکول کی طرف سے آپ کو کتب دیں گے ،آپ ان پیریڈز میں کلاس روم میں جاکر بھی پڑھ سکتی ہیں، اکیلے بھی پڑھ سکتی ہیں ۔ہم ٹیچر دیں گے لیکن یاد رہے ان پیریڈز میں کلاس روم میں بیٹھنے کی اجازت کے متعلق آپ دنیا میں سوائے اپنے گھر والوں کے کسی سے ذکر نہیں کریں گی۔ اگر کلاس روم میں آپ کو مشکل ہو تو ہم آپ کو یہ مضامین کسی بھی ٹیچر سے یا ان کی ہیلپر سے الگ اکیلے میں بھی پڑھا سکتے ہیں ‘‘۔
انہوں نے شہزادی عرف نصیبن کو مخاطب کیا جو ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی عملی تصویر بنی ہوئی تھی
’’ اور ہاں آپ نے الگ سے یونیفارم نہیں پہننا اگر ضرورت پڑی تو ہم خود ہی مہیا کردیں گے، لکھنے پڑھنے کا سامان بھی آپ کو ملے گا لیکن پلیز آپ پوری توجہ اور محنت سے پڑھنے لکھنے میں دلچسپی لیں گی۔ زندگی گزارنے کا ڈھنگ صرف امیر لوگوں کو نہیں غریبوں کو بھی آنا چاہیے ، مجھے پورا یقین ہے آنے والے کل میں آپ ایک ہونہار طالبہ اور مفید شہری کے طور پر اپنا حصہ ادا کریں گی ‘‘میم فرزین نے حوصلے اور ہمت کی ایک ڈوز دی ۔
جب شہزادی عرف نصیبن دفتر سے نکل رہی تھی تو مس صبا نے یاد دہانی کروائی ۔
’’یہ سارا کام میم فرزین ذاتی دلچسپی سے کر رہی ہیں اس لیے کسی سے ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہاں تفریح کے پیریڈ میں ملکہ کی خدمت کی روٹین اسے لانے لے جانے کا طریقہ پچھلا ہی رہے گا۔ اللہ آپ کی مدد کرے اور آپ کی مشکلیں آسان کرے‘‘۔
جونہی شہزادی کمرے سے نکلی ناگوار سی بواس کے کپڑوں سے محسوس ہوئی۔
میم فرزین دکھ اور غم سے اسے جاتا ہؤادیکھ رہی تھیں ۔
’’مس صبا بچی بہت تشدد اور ذہنی دبائو کا شکار رہتی ہے آپ نے اس کی سائیکی ملاحظہ کی ہے ناں…. ابھی بات کرتے ہوئے ہکلانا گھبرا کر ادھر ادھر دیکھنا، گلاس ٹوٹنے پر بے ساختہ دونوں ہاتھوں سے منہ چھپانا ،لگتا ہے بیچاری بہت مشکل وقت میں ہے ۔پتہ نہیں مائیں خود تو خدمتگار بن کر ذلت کا طوق گلے میں ڈالتی ہیں اولاد کے نام شہزادیوں والے رکھ کر انہیں کیوں پیدائشی غلام بنواتی ہیں ،حد ہوگئی ذلالت اور جہالت کی ،بھئی بچیوں کو کوئی ہنر سکھلائو دستکاری سکول میں بھیجو جہاں تعلیم اور ہنر ایک ساتھ ملتے ہیں باعزت روزگار ملتا ہے معاشرے میں ایک مقام بنتا ہے پر یہ جہالت اپنی بچیوں کو وڈیروں اور امیروں کے گھروں میں گروی رکھوا کر ذلیل کروانے کی عادت نسلوں میں چلے گی شاید ،بے شعور معاشرہ ….ظلم کرنے والے کرتے رہیں گے اور سہنے والے پانچ سات ہزار روپوں کے عوض ظلم سہتے رہیں گے ،میرے بس میں ہو تو ایک ہی کٹہرے میں کھڑا کروں ان کو‘‘دکھ سے میم فرزین نے اپنی بھڑاس نکالی دفتر میں موجود سب ٹیچرز ان سے متفق تھیں ۔
اگلے دن شہزادی کو کلاس روم کی بجائے سائنس لیب کے ساتھ والے چھوٹے کمرے میں جہاں کچھ کیمیکلز بوتلیں اور دوچار کرسیاں پڑی رہتی تھیں میں مس صبا،مس مقدس نے حروف تہجی سکھلانے سے باقاعدہ مہم کا آغاز کیا ۔
وقتاً فوقتاً میم فرزین اس کام کی روداد پوچھتیں اور گاہے بگاہے مشورے بھی دیتیں شروع کے چار چھے ہفتے تو صرف اردو کے حروف تہجی کےلیے مخصوص کیے لیکن شہزادی نے بے پے تے جیم چے اور حے سیکھنے میں مہینہ لگایا۔کئی مرتبہ دونوں ٹیچرز حوصلہ ہار دیتیں، اسے کند ذہن قرار دیتیں۔
اس کے بعد اس کے اندر جیسے غیر مرئی طاقت حلول کر گئی ہو۔ وہ برق رفتاری سے انگریزی ،حساب میں بھی آگے بڑھ رہی تھی اس کی رپورٹ دن بدن بہتر ہورہی تھی ۔
پڑھائی میں اس کی غیر معمولی دلچسپی سے میم فرزین بہت خوش تھیں۔وہ چاہتی تھیں کہ اپنی بچی کے کپڑے پہننے کے لیے اسے دیں لیکن اس صورت میں وہ نظروں میں آجاتی ،ہاں اسے صاف ستھرا رہنا اور بنیادی اخلاقی اسباق بہت اچھے طریقے سے یاد کروائے جا رہے تھے اور وہ خلاف توقع سب کی امیدوں سے بڑھ کر محنتی اور ذہین ثابت ہورہی تھی۔ اس کے سانولے رنگ میں اب چمک آگئی تھی۔ گفتگو میں کسی حد تک اعتماد جھلکتا تھا ۔ کپڑے گو پرانے اور بدرنگ ہی ہوتے تھے تاہم اسے کچھ نہ کچھ اوڑھنے پہننے کا سلیقہ آگیا تھا ۔پلیز ،اور سنیے جیسے الفاظ استعمال کرتی۔خوف کی جگہ اس کے چہرے پر واضح اعتماد نظر آتا۔ وہ ملکہ بختاور کو اسی طرح سکول میں اس کا بیگ پکڑے لاتی، آگے آگے ملکہ ہوتی پیچھے پیچھے سکول بیگ پکڑے شہزادی۔
صرف ایک مرتبہ غلط فہمی کی بنا پر وہ ملکہ بختاور سے پہلے سکول میں داخل ہوئی تو ملکہ نے اسے پائوں سے ٹھڈا مارتے ہوئے دادی سے ڈنڈوں سے پٹوانے کی دھمکی دی اور گھر میں داخل ہوتے ہی دادی سے اس کی خوب درگت بنوائی ۔
یہ بات شہزادی نے مس صبا کو بتائی تو ساتھ ہی بازو پر پڑے نیل بھی دکھائے۔ اس کی بائیں ہاتھ کی انگلی پچکی ہوئی تھی۔
اس کے بدن پر چار چوٹ کی مار دیکھ کر پرنسپل میم فرزین اور صبا نے فیصلہ کیا تھا کہ کسی طریقے سے شہزادی کی ماں ست بھرائی کو قائل کریں گی کہ وہ اپنی بیٹی کو اس گھر سے نکلوانے کی کوشش کرے ۔ وہ اسے اپنے ہاں رکھیں گی تعلیم تربیت کی ذمہ داری اٹھائیں گی۔
لیکن اس کی نوبت ہی نہ آسکی۔
چند دنوں کے بعد سالانہ رزلٹ کی تقریب منعقد ہونا تھی۔دو جگہ پر ٹیوشن پڑھنے والی ملکہ بختاور کے نمبر ستر فیصد تھے اور اپنی کلاس میں شہزادی کے ستانوے فیصد!
جس رفتار اور شوق سے شہزادی پڑھائی میں دلچسپی لے رہی تھی ، اس کی ٹیچرز کوامید نہیں یقین تھا کہ وہ ایک سال کے اندر اندر ملکہ بختاور کے ساتھ امتحان میں شرکت کرے گی اور رزلٹ میں اسے کہیں پیچھے چھوڑ جائے گی۔
لیکن ایسے نہیں ہؤا۔کسی نہ کسی طرح اس کے اتنے شاندار رزلٹ اور ملکہ بختاور کی کلاس ٹیچر مس رمانہ بہزاد کا کومنٹ ملکہ کے کانوں میں پڑا
’’آپ کو معلوم ہے یہ جو بچی ملکہ بختاور کی ہیلپر ہے یہ میم فرزین سے پڑھتی ہے اور اس نے نائنٹی سیون پرسنٹ مارکس لیے ہیں …. عنقریب یہ باقاعدہ سٹوڈنٹ رجسٹر ہوگی، اس کا رزلٹ شہر کے بینرز پر سب کو نظر آئے گا، سوشل میڈیا والے سوال کریں گے….پوسٹیں لگائیں گے کہ ایک ملازمہ بچی نے بورڈ میں پوزیشن لے کر سب کو حیران کردیا ‘‘۔
یہ سب گفتگو ملکہ نے اپنے کانوں سے سنی۔اپنے اوپر ضبط کرنے کی خواہش کے باوجود ملکہ قابو نہ پاسکی اور تفریح کے وقت سیڑھیوں سے اترتے ہوئے اس نے شہزادی کو آواز دی ۔
’’اوئے بدنصیبن ادھر آو‘‘۔
’’جی ،آئی‘‘آج بھی وہ اس کے سامنے پہلے دن کی طرح کانپ رہی تھی ۔
’’میرے آگے آئو اگلی سیڑھی پر ‘‘اس نے تحکم آمیز لہجے میں اس کو بالوں سے گھسیٹ کر آگے کیا ۔
ڈرتے ہوئے شہزادی نےملکہ سے اگلی سیڑھی پر پاوں رکھا۔ایک لمحے میں نصیبن کی تقدیر پر سیاہی پھر چکی تھی۔پائوں کی ٹھوکر سے اس نے پوری قوت سے شہزادی کو دھکا دیا۔پندرہ سیڑھیوں پر سے وہ لڑھکتی ہوئی فٹ بال کی طرح اوندھے منہ نیچے فرش پر جاگری۔
اس کا سر دو جگہ سےپھٹ چکا تھا ۔ دانت ہونٹ میں کھبااور چہرہ خونوں خون ہوگیا۔اس کے ارد گرد خون تھا….ناک اور منہ سے نکلتا سیال سرخ خون !!
پلک جھپکنے میں سارے لوگ نصیبن کی چیخیں سن کر وہاں موجود تھے۔
غصے سے بھوت بنی ملکہ نے اس تڑپتی کرلاتی زخمی وجود پر دو ٹھڈے اورمارے اور ہنکارا بھرتی گیٹ کی طرف چلی گئی ۔گیٹ سے باہر نکلتے ہوئے اس کی بڑ بڑ سب کو سنائی دے رہی تھی ۔
’’ہو نہہ دادی ٹھیک کہتی ہیں کمی کمینوں کو سر پر نہیں چڑھانا چاہیے، میرے مقابلے میں آئے گی اور میرے ساتھ پڑھے گی میری کلاس میں…. واہ!بڑی اونچی چھلانگیں لگارہی تھی۔ دادی نے کہا بھی تھا اسے چیک کرو بڑے پر پرزے نکال رہی ہے‘‘۔
جب وہ گیٹ سے نکلی تو ڈرائیور نے اسے اکیلا آتے دیکھ کر پوچھا
’’چھوٹی باجی وہ مصلن کہاں ہے ؟‘‘
ملکہ نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا اور دھاڑتے ہوئے دروازہ کھولنے کے لیے کہا۔دروازہ کھلا،وہ گاڑی میں بیٹھتے ہی فون ملا کر دادی کو کارگزاری سنانے لگی۔اس کی آواز غصے کی شدت میں پھٹے ڈھول جیسی ہو رہی تھی ۔
’’ہونہہ دادی میں نے ٹھیک کیا نا….بہت مقابلے پر آرہی تھی مجھے تو شک بھی نہیں ہؤا یہ انگریزی کے لفظ کیوں بولنے لگی ہے….کیوں یہ اتنا بن بن کر بولتی ہے…. تو یہ ڈرامہ تھا ٹیچروں نے بنایا….میں نے بھی پہلی سیڑھی سے دھکا دیا لڑھکتی ہوئی نیچے گری۔سر سے خون نکل رہا تھااور ہونٹ بھی پھٹے ہیں شاید بدتمیز کے….آپ ٹھیک کہتی تھیں اب وہ مسیں جنہوں نے اسے سر پر چڑھایا تھا خود ہی ہسپتال لے کرجائیں ….ہیلو….ہیلو….‘‘
فون پر سگنل نہیں آرہے تھےاس نے کال کاٹ دی ۔دو چار منٹ میں گاڑی رک گئی۔چاروں طرف سے ایمبولینس کی آواز سنائی دی۔ ڈرائیور نیچے اترا ان کی سڑک پر شاید کوئی حادثہ ہؤا تھا یا شاید قریب ہی آگ لگنے کی وجہ سے سامنے کی سڑک بلاک تھی۔ گھر کا ایک دروازہ ساتھ ہی گلی میں بھی تھا ۔گاڑی تو دو گھنٹے ٹریفک میں پھنسی رہنا تھی ڈرائیور کے منع کرنے کے باوجود ملکہ عجلت میں گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلی۔تیز رفتاری سے آتی ہوئی مسافر وین اس کی ٹانگ کو چھو کر تیزی سے گزر گئی ۔
بس ایک دلدوز چیخ کی آواز ڈرائیور کو سنائی دی ۔
چھوٹی بی بی ملکہ ،دادی کی جان، سڑک پر اوندھے منہ پڑی تھی۔
دو جگہ پر سر میں شدید زخم آئے تھے ۔لال لال خون سڑک پر بہہ رہا تھا ۔ڈرائیور نے اٹھا کر قریب کھڑے رکشے میں ڈالا ،گاڑی ریورس کرنے کےحالات نہیں تھے ۔رکشے میں سے ہی اس نے دادی کو حادثے کی اطلاع دی کی ۔
آنکھ جیسے ابل کر باہر آچکی تھی ،آنکھ میں اس کی عینک کے شیشے چبھ گئے تھے اور دو دانت ٹوٹ کر ہونٹ کے اندر پیوست نظر آرہے تھے۔ قریبی ہسپتال میں اسے بازوؤں میں اٹھائے ڈرائیور اندر داخل ہؤا تواتفاق کی بات ہے اسی ہاسپٹل میں میم فرزین شہزادی کو لے کر پہنچ چکی تھیں۔ایمرجنسی میں اس وقت وہی ڈاکٹر تھاجو شہزادی کے معائنے میں مصروف تھا۔ اب ایک اور بستر پر ملکہ بھی اس کی توجہ کی منتظر پڑی تھی۔
میم فرزین نے ساتھ ساتھ پڑی دونوں لڑکیوں کو دیکھا، انہیں کچھ بھی فرق نہ لگا ۔بس یہی سوچتی رہیں کہ چند لمحوں میں کیا کچھ ہوسکتا ہے!
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x