ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

درد آشنا – طلعت نفیس

آج معیز کے انتقال کو چار ماہ دس دن گزر چکے تھے۔اچھا خاصاجواں سال معیز اسنیچنگ کا شکار ہو گیا۔
راحمہ کے میکے میں دور دراز کے رشتے داروں کے سوانہ والدین نہ بہن بھائی ….شادی کےوقت صرف اس کی امی تھیں وہ بھی شدید بیمار۔ راحمہ کی ساس اور امی اسکول کے دَور کی سہلیاں تھیں۔راحمہ کی شادی کےایک سال بعد اس کی امی بھی ساتھ چھوڑ گئیں۔یوں راحمہ کی مکمل دنیا اب اس کی سسرال تھی۔
معیز نہایت پیار کرنے والا اور خیال رکھنے والا شوہر تھا ۔راحمہ کی تو دنیا ہی اجڑ گئی تھی۔تین سالہ معوذ، راحمہ اور بوڑھے ماں باپ….بس اللہ ہی بہتر جانتاتھا ۔ یقناًاس نے کچھ اچھاہی سوچا ہوگا۔
” دیکھو بیٹا اب تمھاری عدت کی مدت پوری ہو گئی ہے تم شادی کرلو “راحمہ کی ساس آمنہ بیگم نے اپنی جواں سال بیوہ بہو کے برابر میں بیٹھتے ہوئے کہا۔
” نہیں امی میں اپنے بیٹے کے بنا نہیں رہ سکتی۔ میرے لیے بس آپ لوگ ہیں نا‘‘۔
’’آپ بابا اور معوذ“اس نے گود میں لیٹے معوذ کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
’’پھر معیز کی یادیں میرے کافی ہیں‘‘اس کی آنکھیں چھلک پڑیں’’مجھے اور کچھ نہیں چاہیے‘‘اس نے قطعیت سے جواب دیا۔
’’اور اگر کوئی معوذ کے ساتھ تمھیں قبول کرلے تو تم انکار نہیں کروگی‘‘آمنہ بیگم اس کے سامنے ہاتھ بڑھاتےہوئے مضبوط لہجے میں بول رہی تھیں۔حالانکہ ان کا جگر چھلنی ہورہا تھا۔
آمنہ بیگم ٹھنڈا سانس کھینچ کر کھڑی ہو گئیں۔
بس یہ آگہی کا درد بھی بہت سنگین ہوتا ہے !کاش وہ بھی ایک روایتی دین سے نا بلد ساس ہوتیں تو بیوہ بہو کی جوانی ان کے لیے کوئی معنی نہ رکھتی۔مگر وہ ایسا نہیں کرسکتی تھیں۔
راحمہ کےگزراوقات کے لیے اس کے سسر اور شوہر کی پینشن کافی تھی ۔ان کاگزاراآرام سے ہورہاتھا۔مگرآمنہ بیگم کیا کرتیں کہ ان کا دل گوارا نہ کرتا تھاکہ وہ جوان بہو پر ظلم کرتیں۔رات میں کسی پہر اگروہ باہر آتیں تو راحمہ کے کمرے سے باہر آتی روشنی ان کو بے کلی میں مبتلا کر دیتی۔صبح راحمہ کی متورم آنکھیں رات کے احوال کی غمازی کرتیں ۔
”اماں بابا ناشتہ کرلیں“ اس کی آواز بھی خاصی بھاری ہورہی تھی۔
’’معوذ اٹھ گیا ؟‘‘ آمنہ بیگم نے سوال کیا۔
’’نہیں‘‘۔راحمہ نے ساس سےآنکھیں چراتے ہوئے مختصر جواب دیا۔
’’السلام علیکم“۔
راحمہ نے بابا کو سلام کیاتوانہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے جواب دیا ۔پھر بولے۔
’’ہمارا شیر کہاں ہے ؟‘‘
’’سورہا ہے ‘‘راحمہ بولی۔
’’بیٹا تم نے حساب میں ماسٹرز کیا ہے نا‘‘ بابا چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے بولے۔
’’جی بابا ‘‘وہ ہولے سے مسکرائی۔
’’ایسا کرو اپنی سی وی اس پتے پر بھیجو ‘‘۔انہوں نے اخبار آگے کیا’’بہت بڑا اسکول ہے ۔انہیں اس مضمون کی ٹیچر چاہیے‘‘۔
’’اچھا ٹھیک ہے ۔‘‘
وہ ناشتے سے فارغ ہوئی تھی کہ معوذروتا ہؤا باہر آگیا۔دادا نے بڑھ کر اسے گود میں اٹھا لیا۔
آمنہ بیگم نےراحمہ کو مصروف کرنے کے لیے یہ قدم اٹھایا تھا۔سی وی بھیجنے کی دیرتھی کہ وہاں سے کال آگئی۔
اورآج اس کا اسکول میں پہلا دن تھا۔
اسٹاف روم میں قدم رکھا توجو جماعت اس کے حصے میں آئی اس کی کلاس ہی موضوعِ گفتگو تھی ۔
” مس راحمہ آپ کی کلاس میں دانین نامی بچی ٹیچرز کے لیے امتحان ہے امتحان….لڑائی جھگڑا بچوں کا لنچ کھالینا….میں نے تو میڈم کی خوشامد کر کے جان چھڑائی‘‘۔
’’افف….اس کو ہینڈل کرنا مشکل ہو جاتا ہے‘‘۔
مس رخشی نے بتایاتوراحمہ گھبراگئی۔پھرپہلادن تو واقعی ا س کے لیے آزمائش تھا۔
شروع شروع اس نے دانین سےدوستی کرنے کی کوشش کی مگر زیادہ کامیابی نہ حاصل کرسکی ۔عجیب بے تأثر سی تھی ۔ کبھی بالکل کچھ نہ کھاتی اور جب کھانے پر آتی تو بچوں کے لنچ تک کھا جاتی ۔ عجیب بے حسی سی اس کے چہرے پر طاری رہتی۔ راحمہ نے اس سے دوستی کرنے کی بہت کوشش کی مگر کوئی خاص کامیابی نہ ہوسکی ۔اس کی وجہ سے کلاس میں ابتری پھیلی رہتی اور بار بار انتظامیہ راحمہ کو تنبیہ کرتی۔
آج جب راحمہ انتظامیہ کی تازہ تازہ جھاڑ سن کر آئی تو بہت بیزار تھی۔ اس نے کلاس میں داخل ہوتے ہی دانین کو دیوار کی طرف منہ کرکے کھڑا کردیا۔ اب آدھا دن وہ دانین کوکھڑا رکھتی اورآدھادن وہ ڈیسک پر منہ اوندھا کیے سوتی رہتی۔
٭ ٭ ٭
”راحمہ میری ایک دوست تمھارے لیے رشتہ لائی ہے۔“ کھانا کھاتی راحمہ نے سوالیہ نظروں سےآمنہ بیگم کودیکھا۔
”معوذ….؟‘‘اس نے صرف اتناکہا۔
”ہاں وہ نہ صرف معوذ کوباپ کا پیار دے گا بلکہ ہمیں اپنے ساس سسر کی جگہ بھی دےگا‘‘آمنہ بیگم نے اس کی تمام فکرات دور کرتےہوئے کہا۔
’’مگر میرا دل نہیں مان رہا کہ میں آپ سے آپ کے بیٹے کی نشانی چھین لوں‘‘ وہ منہ ہی منہ میں منمنائی۔
’’بس اب یہ تمھارا میکہ ہوگا….اور تم اسی طرح آئو گی جیسے بیٹیاں میکے آتی ہیں۔ رب نے بیٹا لے کر بیٹی دے دی ‘‘۔
”باقی؟“
”اس کی چار سالہ بیٹی ہے ۔بیوی سے بنی نہیں تو وہ طلاق لے کر چلی گئی ۔آج ابراہیم اور اس کی بھابھی آئیں گی ‘‘۔
وہ نم ناک آنکھیں لیے کمرے سے نکل گئیں۔
شام کو وہ ملگجےسے حلیے میں ان لوگوں کےسامنے آئی ۔ خالی الذہنی کے ساتھ گود میں ہاتھ رکھے بیٹھی تھی۔
” بیٹا بچی کو بھی لےآتیں…. “آمنہ بیگم نے کہا ۔
”وہ بہت ضدی ہوگئی ہے ماں کے جانے کے بعد سے“ ابراہیم شائستگی سے بولا۔
٭ ٭ ٭
اور جہاں اس نے اسکول چھوڑنے پر اللہ کا شکر اداکیا وہیں آج معیز کی یادوں اور اس گھر کو چھوڑنے کا دکھ اس کو کچوکے لگا رہا تھا۔
سادگی سے نکاح ہؤا۔ وہاں سے پانچ لوگ آئے تھے۔رخصتی کے وہ ماں اور بابا کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رورہی تھی۔
’’بیٹا آج معوذ کو یہاں چھوڑ دو ۔کل لے جانا‘‘بابا نے ابراہیم کی گود میں چڑھے معوذ کو دیکھ کر کہا ۔
’’بس اب یہ میری ذمہ داری ہے‘‘ ابراہیم نے پیار سے معوذ کو دیکھتےہوئے کہا’’اب دونوں بہن بھائی ساتھ رہیں گے ‘‘وہ بولا۔
’’بچی کو بھی لے آتے‘‘ آمنہ بیگم نے کہا۔
’’وہ اپنی چچی کے پاس ہے ‘‘ابراہیم نے کہا’’اور اب راحمہ بیٹی کو سنبھا لیں گی اور میں بیٹے کو‘‘ ۔
اس کے لہجے کا خلوص راحمہ کے دل میں اطمینان بن کر اتر گیا۔
٭ ٭ ٭
جب وہ تینوں گھر میں داخل ہوئے تو بچی بھاگتی ہوئی آکر ابراہیم سے لپٹ گئی۔
’’چلو بھئی اب تم اپنی ذمہ داری سنبھالو….ہم تو اس آفت کی پرکالا سے تنگ آگئے ہیں‘‘ابراہیم کی بھابھی نے کہا تو مسکراتے ہوئےمگر لہجے کی بیزاری نہ چھپا سکی تھیں ۔
پہلے تو ابراہیم کے ساتھ کھڑی راحمہ دانین کو دیکھ کر گھبرا گئی تھی۔
اف….!!
اس کے ساتھ تو اسکول کے چند گھنٹے گزارنے دشوار لگتے تھے۔مگر پھر راحمہ نے ابراہیم کے خلوص اور چچی کے رویے کو محسو س کرکے دانین کو اپنی بانہوں میں سمیٹتے ہوئےسوچ لیا تھا کہ ماں تو ماں ہوتی ہے، سگی یا سوتیلی نہیں۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x