ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

وحی الٰہی کا مختصر تعارف- بتول جون ۲۰۲۱

وحی کی اہمیت
انسان اپنی زندگی میں ان سوالات پر بہت زیادہ غور و فکر کرتا ہے۔
میں کیوں پیدا ہؤا؟ میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟اس کائنات کو کس نے اور کیوں بنایا؟ جب سب ختم ہوجائے گا تب کیا ہوگا؟ زندگی کیسے گزارنی چاہیے؟
علم کے ذرائع ان تمام سوالات کے جواب کے لئے علم ضروری ہے اور علم تین ذرائع سے حاصل ہوتا ہے۔
۱۔ حواس خمسہ
۲۔ عقل
۳۔ وحی
مثلاً بندوق کو دیکھ کر حواس خمسہ کے ذریعےاس کا سائز اور رنگ معلوم ہوتا ہے اور عقل کے ذریعے پتہ لگتا ہے کہ اس کو چلانے سے بندہ مرجاتا ہے۔ لیکن اس بندوق کو کہاں چلانا ٹھیک ہے اور کہاں نہیں یہ علم ہمیں نہ حواس سے ملتا ہے اور نہ ہی عقل سے بلکہ اس کے لیے ”وحی“ کی ضرورت ہے اور وحی ایسا علم ہے جو ایسی چیزوں میں رہنمائی کرتا ہے جہاں حواس اور عقل ناکام ہوجاتے ہیں۔
وحی اور سائنسی علم میں فرق
سائنسی علم کی بنیاد تجربے اور مشاہدے پر مبنی ہے یعنی جب تک کسی چیز کا تجربہ نہ کیا جائے یا آنکھوں سے دیکھا نہ جائے تب تک اس کا اقرار کرنا یا اس کا علم ہوجانا ممکن نہیں۔جبکہ وحی کے علم کی بنیاد ایمان بالغیب پر ہے یعنی ایسی چیزیں جو ہم نے کبھی دیکھی نہیں نہ ہمارے تجربے میں آئیں لیکن ان کو تسلیم کرنا پڑتا ہے صرف اس وجہ سے کیونکہ قرآن میں ان کا ذکر ہے مثلاً جنت کا علم سائنسی ذریعہ علم میں نا ممکن ہے جبکہ ہمارے لیے اس پر ایمان ایمان بالغیب کی وجہ سے لازمی ہے۔
دوسرا فرق یہ ہے کہ سائنسی علم میں یقینی پن اور قطعیت نہیں ہوتی اس کے نظریات وقت اور لوگوں کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں لیکن وحی کے علم میں جو بات بھی کہی جائے وہ اٹل اور فیصلہ کن ہوتی ہے۔
وحی کا علم اور اس کے علمبردار
مندرجہ ذیل ادارے اور مناصبِ علم وحی کے دور حاضر میں بہت بڑے علمبردار ہیں:
قرآن:
قاری حضرات /مفسّر
مقامات: مساجد/ مدارس / خانقاہ
حدیث:
محدّثین،شیوخ الحدیث
فقہ:
فقہائے امت،مفتیانِ کرام
حفاظت قرآن
جتنی بھی آسمانی کتابیں اور صحیفے نازل ہوئے ہیں ان تمام میں صرف قرآن کریم کی حفاظت کا وعدہ اللہ نے لیا ہے۔
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلنَاالذِکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْن
ترجمہ :۔ہم نے قرآن کو نازل کیا ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں(الحجر :9)
حفاظتِ قرآن دورِ نبوی ﷺ میں
۱۔ حفاظت بذریعہ حفظ قرآن: حافظے تیز ہونے کے سبب اکثر صحابہ کرام ؓ قرآن کریم حفظ کرتے تھے۔

۲۔ حفاظت بذریعہ کتابت: قرآن کریم کو لکھا جاتا تھا اور لکھنے والے اپنے پاس کچھ نہ کچھ لکھتا تھا۔ کل 40کاتبین وحی تھے اور یہ سب چمڑے، لکڑی، پتھر وغیرہ پر لکھتے تھے۔
حفاظت قرآن دور صدیقی میں
۱۔ جنگ یمامہ میں بہت سے صحابہ کرامؓ جو کہ قرآن پاک کے حفاظ تھے شہید ہوگئے۔ صحابہ کرام ؓ جو کہ حافظ قرآن تھے تو قرآن کریم ضائع ہونے کے خطرے سے حضرت عمرؓ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو اور ان دونوں نے حضرت زید بن ثابتؓ کو قرآن کریم لکھنے کے لیے کہا اور مکمل قرآن ایک جگہ جمع کرکے حکومتی تحویل میں رکھ دیا گیا۔
حفاظتِ قرآن دورِ عثمانی میں
۱۔ حضرت عثمان ؓ کے زمانے تک چونکہ اسلام کافی پھیل گیا تھا اور عجمیوں کو قرآن کریم کی قرأت سمجھنے میں مشکل ہورہی تھی تو اس مشکل اور اختلاف کو دور کرنے کیلئے انہوں نے صدیق اکبرؓ کے زمانے میں تیار شدہ نسخے کی بہت سی کاپیاں تیار کیں اور مختلف علاقوں میں ان کو پہنچایا۔
نزولی اور مصحفی ترتیب
۱۔ مصحفی ترتیب وہ ہے جس طرح قرآن کریم لوح محفوظ میں نازل ہونے سے پہلے محفوظ تھا اور آج ہمارے پاس جس طرح محفوظ ہے۔
۲۔ نزولی ترتیب وہ ہے جس طرح قرآن نازل ہؤا ہے یعنی جب جب جتنی جیسے حالات میں ضرورت ہوتی تھی مصحفی ترتیب سے اتنا ہی قرآن نازل ہوتا گیا جیسے سورۃ علق کا سب سے پہلے نازل ہونا یہ اس لیے تھا تاکہ قرآن پر عمل کرنا، یاد کرنا آسان ہوجائے۔
نوٹ: لوح محفوظ سے آسمانی دنیا تک قرآن ایک ہی بار میں نازل ہؤا ہے جبکہ آسمانی دنیا سے ہماری دنیا تک 23سالوں میں۔
مکی اور مدنی سورتیں
مکی سورتیں یعنی وہ سورتیں جو ہجرت سے پہلے نازل ہوئیں اورمدنی سورتیں وہ جو ہجرت کے بعد نازل ہوئیں۔
علم تفسیر
علم تفسیر کا مطلب قرآن کی آیتوں کو کھول کھول کر وضاحت کے ساتھ بیان کرنا۔
تفسیر قرآن کے مدارج:
یہ چار مدارج ہیں:
۱۔ تفسیر القرآن بالقرآن ۲۔ تفسیر القرآن بالحدیث
۳۔ تفسیر القرآن باقوال الصحابہؓ ۴۔ تفسیر القرآن باقوال التابعینؒ
تفسیر قرآن کے ان مدارج کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے قرآن کا سہارا لیا جائے گا اس طرح کہ قرآن نے خود اپنی اس آیت کی تفسیر کہیں بیان کی ہو۔ جیسے
”صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنعَمتَ عَلَیْھِم(فاتحہ 6)
میں انعام یافتہ لوگوں کا تذکرہ ہے اور انعام یافتہ کون ہیں یہ قرآن نے خود ایک دوسرے مقام میں بیان کردیا ہے مثلاً ۧ:
وَمَنْ یُّطِعِ اللہ والرَّسُولَ فاؤلِٰک الذِینَ اَنعَم اللہُ عَلَیھم مِنَ النَّبِیّیْنَ والصِّدِّیْقِینَ والشُّہَدَءِ والصَّالِحِیْنَ(نساؑ69)ہیں۔
اس کے بعد دوسرا درجہ حدیث کا ہے مثلاً قرآن میں اقیموالصلوٰۃ کا حکم ہے اور اقامتِ صلوٰۃ کی کل تفصیلات احادیث میں موجود ہیں۔
اس کے بعد تیسرا درجہ اقوال صحابہ کا ہے یعنی یہ دیکھا جائے گا کہ آیت کی تفسیر میں صحابہ ؓ کا کوئی قول ہو تو قرآن وحدیث کے بعد اس کو ترجیح حاصل ہوگی۔ کیونکہ صحابہ کرام ؓ وحی کے براہ راست مخاطب اور صحبت نبویؐ سے بھرپور استفادہ کرنے والے ہیں۔
چوتھا درجہ: اقوال تابعین کا ہے یعنی کسی آیت کی تفسیر جب قرآن، حدیث اور صحابہ کے اقوال کی روشنی میں نہ ہو تو تابعین ؒ کے اقوال سے تفسیر کو سمجھا جائے گا۔ کیونکہ تابعینؒ صحابہ سے اوّلین استفادہ کرنے والی جماعت ہے۔
علم تفسیر کی نزاکت اور گمراہی کے اسباب
علم تفسیر بہت نازک فن ہے لہٰذا جب تک اس کی شرائط کو پورا نہ کیا جائے شدید گمراہی کا خطرہ ہے۔
۱۔ علم تفسیر کے حوالے سے گمراہ ہونے کے اسباب میں سب سے اہم سبب”نا اہلی“ ہے یعنی قرآن کریم کی تفسیر اور ترجمہ کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کے باوجود یہ کام کرنا ۔

اہم سبب”نا اہلی“ ہے یعنی قرآن کریم کی تفسیر اور ترجمہ کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کے باوجود یہ کام کرنا ۔
۲۔ دوسراعربی زبان اور علم تفسیر ہے یعنی فقط عربی زبان جان کر یا لغت کی مدد سے قرآن کریم کی تفسیر کرنا۔ حالانکہ دنیا کا کوئی بھی فن صرف زبان سیکھ کر سمجھنا ممکن نہیں مثلاً کوئی شخص انگریزی زبان سیکھ کر قانون یا فلسفہ میں مہارت حاصل نہیں کر پاتا جب تک کہ قانون اور فلسفے کے فن کو باقاعدہ کسی استاذ کی نگرانی میں نہ پڑھ لے۔جب دنیاوی فنون کا یہ حال ہے تو قرآن جیسی عظیم الشان کتاب کو صرف زبان کے دانی کے سہارے کیسے سمجھا جاسکتا ہے؟
۳۔ تیسری بات یہ کہ تفسیر کرنے کے شرائط ہیں۔ قرآن کریم کی تفسیر کوئی شخص اس وقت تک نہیں کرسکتا جب تک ان علوم میں مہارت حاصل نہ کرے۔
۱۔ علم قرأت ۲۔ علم النحو ۳۔ علم الصرف ۴۔ عربی ادب ۵۔ اصول تفسیر ۶۔ اصولِ حدیث ۷۔ حدیث ۸۔ بلاغت ۹۔ فقہ ۱۰ ۔ اصول فقہ ۱۱۔ تقویٰ وللہیت
رسول اللہ ؐ کا فرمان ہے
”من قال فی القرآن بغیر علم ٍ فلیَتبوَّأُ مَقْعَدَہُ من النار (جس نے قرآن سے متعلق اپنی طرف سے کچھ بھی کہا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم سمجھ لے)۔(علوم القرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
ایک مغالطہ
قرآن کریم کی آیت: وَلَقَدْ یَسَّرْنَا القُرْآنَ لِلذِّکْرِاور ہم نے آسان کردیا قرآن کو نصیحت کے لیے(قمر :17)
اس آیت کا سہارا لے کر یہ بات کہی جاتی ہے کہ جب قرآن خود کہہ رہا ہے کہ میں آسان ہوں تو آپ اتنی شرائط کیوں لگارہے ہیں؟
اس معصوم اعتراض کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم میں دو طرح کے مضامین ہیں۔
۱۔ تذکیری
۲۔ تحقیقی
۱۔ تذکیری: یعنی جنت،جہنم،انبیاء و سابقین کے حالات، اللہ تعالیٰ کی نشانیاں وغیرہ۔ لہٰذا ان مضامین کو پڑھنا بالکل آسان ہے ان کا کوئی مستند ترجمہ پڑھنا یا تفسیر پڑھنا یا پھر کسی عالم کے پاس جاکر ان کو سمجھنا ایک عام شخص کے لیے بھی آسان ہے مفید ہے۔
۲۔ تحقیقی: لیکن قرآن کے کچھ مقامات ہیں جن میں تحقیق لازمی ہے مثلاً عقیدہ، احکام وغیرہ تو ان کی تفسیر کے لیے یا ان کو سمجھنے کے لیے شرائط کا لحاظ ضروری ہے۔
نوٹ:- ایک عام اور مصروف شخص کے لیے قرآن سمجھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ علماء کے مشورے سے کسی ترجمہ یا تفسیر کا مطالعہ کرے جہاں سمجھ نہ آئے پوچھ لے یا علماء کے درس قرآن میں شریک ہو یا ان کے پاس جاکر قرآن کا ترجمہ وتفسیر پڑھ لے۔
قرآن کا موضوع
قرآن کا موضوع ایک ہی ہے جو کہ قرآن نے خود بیان کردیا ہے ”ھُدًی لِّلْمُتَّقِینہٖ کتاب متقیوں کے لیے سراپا ہدایت ہے(بقرہ 2)
یعنی جس شخص کو اپنی منزل یا راستے کا پتہ نہیں قرآن کریم ان کی رہنمائی کرتا ہے کہ تمہیں فلاں راستے سے جانا ہے اور فلاں منزل تک پہنچنا ہے۔موجودہ دور میں بہت لوگ اس حوالے سے غلطی کا شکار ہیں کہ وہ قرآن کریم کا موضوع سمجھے بغیر جب اسے پڑھتے ہیں تو اپنے ذہن سے نجانے کیا کچھ قرآن سے ثابت کرنے لگ جاتے ہیں مثلاً ٹیکنالوجی وغیرہ۔
قرآن سے ہدایت لینے کا طریقہ
اسی طریقے سے قرآن سے ہدایت لینے کے لیے لازمی ہے کہ خالی الذہن ہو کر قرآن کو پڑھا جائے اور قرآن میں اللہ کی منشاء کو ڈھونڈا جائے، اگر ذہن میں پہلے سے مخصوص نظریات رکھ کر یا موجود افکار ورواج سے مرعوبیت کا بوجھ لے کر قرآن کو پڑھیں گے تو قرآن ہدایت نہیں گمراہی کا ذریعہ بن جائے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ”یُضِلُّ بِہٖ کثیراًویھدی بہٖ کثیراً (اس قرآن کے ذریعے بہت سے لوگ ہدایت پا جاتے ہیں اور بہت سے گمراہ ہوجاتے ہیں)۔
اللہ ہمیں قرآن کی سمجھ عطا فرمائےآمین۔
٭ ٭ ٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x