ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

فارمی مرغیاں -بتول نومبر ۲۰۲۱

ماموں کے گھر جانا ہوا۔ ان کی بیٹی نے اصلی مرغیاں پال رکھی ہیں۔صبح ہی صبح شور اور آواز یں۔۔۔ کزن سے پوچھا خیر تو ہے ۔ کہنے لگی آج ان کا ڈربہ کھولنے میں دیر ہو گئی۔وہ احتجاج کر رہی تھیں۔
دوپہر میں ایک اور تجربہ ہوا ۔ انھوں نے مرغی ذبح کرنے کا سوچا۔ان میں سے ایک کو پکڑنے کے لیے تین افراد نے کوشش کی۔ وہ کبھی دوڑنے لگتیں کبھی چھلانگ لگا دیتیں۔کبھی درخت پر چڑھ جاتیں۔ بمشکل ایک پکڑی گئی۔پوچھا اتنی متحرک کیسے ہیں۔کراچی کی مرغیاں تو اٹھ بھی مشکل سے پاتی ہیں۔ہنسنے لگیں، باجی یہ فارمی نہیں اصلی مرغیاں ہیں۔
تب مجھے اپنی سہیلی کی بات یاد آئی۔ بچوں کے معا ملے میں سستی برداشت نہ کرتی تھیں۔اکثر کہتیں مجھے ان کو معاشرے کے لیے فارمی چوزے نہیں بناناکہ ذرا تلخی برداشت نہ کر پائیں، اپنے پاؤں پر چلنا بھی دوبھر ہو ۔نہ ہی سہولیات کا عادی بنانا ہے کہ مشینوں کےغلام بن کر رہ جائیں اور کچھ نہ ملنے پر پوری زندگی خود ترسی اور احساس کمتری کی نظر کر دیں۔ انھیں سخت جان اور پر اعتماد بنانا ہے۔احساس ذمہ داری پیدا کرنا ہے ان کے اندر۔
اس کی بات کا اثر تھا کہ میں نے بھی یہی کوشش شروع کر دی ،مجھے بھی اپنے بچوں کو ایسا نہیں بنانا تھا۔مگراپنےبے صبرے پن میں پریشان تھی کہ بچوں پر اثر نہیں ہو رہا۔سہل پسند بھی ہیں غیر ذمہ دار بھی اور سہولیات کے عادی بھی۔ لیکن کچھ علامات نے حوصلہ بندھایا۔
ہوا کچھ یوں کہ بہن بڑے عرصے بعد رکنے آئی۔رات کو بجلی چلی گئی۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ جنریٹر لمحوں میں چل جائے۔اس کی آواز سے آنکھ کھلی۔ باجی جلدی چلاؤ میرے چاروں بچے اٹھ جائیں گے۔ آپ اور آپ کے بچے نہ جانے کیسے ہیں،گرمی میں یوں سوئے پڑے ہیں جیسے اے سی لگا ہو۔
میں نے غور کیا وہ واقعی صحیح کہہ رہی تھی۔رات میں بجلی جانے کا ہمیں پتہ ہی نہ چلتا تھا۔میں کوشش کرتی تھی کہ پنکھا تب چلے جب واقعی گرمی ہو۔اس سے ان کا جسم عادی ہو گیا تھا اوربجلی کا جانا ان کے لیے مسئلہ نہ تھا۔بہن کے بچے اس دورانیے میں رو رو کر گھر سر پر اٹھا چکے تھے۔
کل ہی کی بات ہےبارش ہو رہی تھی۔ کراچی کی گلیاں تو سبھی جانتے ہیں تالاب بن جاتی ہیں۔دیکھا تو بیٹا کہیں جانے کو تیار ہے۔پوچھا کہاں کا ارادہ ہے۔کہنے لگا بچوں کو ٹیوشن پڑھانے جا رہا ہوں۔اس حالت میں جاؤ گے؟میں حیران ہوئی۔
جی مما میں نہیں چاہتا ان کا ایک دن بھی ضائع چلا جائے۔وہ بولا
مجھے خوشی ہوئی۔یہ احساس ذمہ داری کی نشانی تھی۔سوچا کوشش جاری رکھوں گی۔وقت آنے پر اثر ضرور ہوگا کہ اللہ کسی کی محنت کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔
سال پہلے کی بات ہے ۔ایک بچے نے بےحد متاثر کیا ۔ رکشے والے جمعہ بازار جانے کے پچاس روپے مانگتے۔وہ بیس روپےلیتا اور ساٹھ کما لیتا۔یہ اس کا خاص انداز تھا۔دراصل وہ بیس روپےایک سواری سے لیتا اور جمعہ بازار پہنچنے تک راستے سے مزید دو سواریاں اماں خالہ کی صدا پر بیٹھ ہی جاتیں۔اگر کوئی بیس پر راضی نہ ہو تو کہتا اماں بیٹھ جاؤ دس دے دینا۔بازار گھر کے قریب ہی تھا۔ہفتے میں سبزی کےلیے ایک چکر تو ضرور ہی لگتا۔ایک دن اس سے پوچھا کمائی کا یہ ہنر اس عمر میں کہاں سے سیکھا؟ کہنے لگا،باجی مجھے فارغ بیٹھنا پسند نہیں اور نہ ہی رکشہ خالی لے جانا پسند ہے۔جتنی کسی کی گنجائش دیکھتا ہوں بٹھا لیتا ہوں۔
تم پڑھتے کیوں نہیں؟میں نے اس کی دانش مندی سے حیران

ہوکر سوال کیا۔
میں آٹھویں میں پڑھتا ہوں ۔اسکول سے آکر آدھا گھنٹہ آرام کرتا ہوں پھر رکشہ چلاتا ہوں۔ بے چارہ ہرگز نہیں محنت سے رزق حلال کماتا ہوں۔
شرمندگی کے باجود میرا اگلا سوال تھا۔پھر ہوم ورک کب کرتے ہو؟
فجر میں کرتا ہوں ۔اس کا مختصر جواب تھا ۔ساتھ ہی بیٹھو خالہ بیٹھو کی صدا لگا کر مزید دوسواریاں بٹھا چکا تھا ۔
رکشہ کرائے کا ہے؟میرےسوال جاری تھےکہ بازار سامنے تھا اور میرا تجسس انتہا پر۔
نہیں میرا اپنا ہے۔پہلے ابا کا چلاتا تھا۔دو ماہ پہلے ہی اپنے کمائے پیسوں کا لیا ہے۔اس کے چہرے پر مرعوب کر دینے والا اعتماد تھا۔
وہ میرے بیٹے کا ہم عمر ہی تو تھا۔ کئی دن تک اس کا معصوم بارعب سراپا نگاہوں میں رہا۔ زندگی کی تلخیوں سےاس نے بروقت باعزت راہ کا انتخاب کر لیا تھا۔یقینا ایک روشن مستقبل اس کا منتظر تھا کہ اردگرد موجود بچے جس عمر میں پڑھنا بھی احسان عظیم سمجھتے ہیں،وہ عملی زندگی کے داؤ پیچ سیکھ رہا رھاتھا۔ معاشرے کے بھی اپنے خودساختہ پیمانے ہیں کہ بعض جگہ ناک کٹنے کا خدشہ ہی قدم بڑھانے نہیں دیتا۔وہ بچہ اپنی الگ راہ کشید کر کے فجر کی برکتوں کو سمیٹنے کا بھی ہنر سیکھ گیا تھا۔ کاش کوئی ادارہ ہوتا جو ٹین ایج کے نوجوانوں کو تعلیم کے ساتھ عملی میدان کا ہنر بھی سکھاتااور زندگی برتنے کا سلیقہ بھی سکھاتا۔
گزشتہ دنوں ایک کزن کےہاں بچے کی پیدائش پر اسکے سسرال جانے کا اتفاق ہوا۔ دیکھا تو گھر صاف ستھرا گویا چمک رہا تھا۔تینوں بچے مدرسے جانے کو تھے۔میں نے کہا بہنا کوئی ماسی رکھی ہے کیا؟ کہنے لگی نہیں نہیں ظفر کے پاپا نے سب کچھ خود مینیج کر رکھا ہے۔میری حیرانی پربولی ۔ان کو بچپن سے گھر مینیج کرنے کی تربیت میری ساس نے دی ہے۔ذمہ داریوں کا احساس انھیں بیٹھنے نہیں دیتا۔اپنے کام باوجود منع کر نے کے خود کر لیتے ہیں۔بلکہ دو ماہ سے بچوں کے کاموں اور گھر تک کو مینیج کرتے رہے ہیں۔میں پریشان ہوں تو کہتے ہیں ،تم زندگی بھر کی ساتھی ہو،مشکل وقت میں میرا فرض ہے تمھارا بوجھ اٹھاؤں کہ گھر ہی اصل اور مرکز ہے،اگر یہاں کمی رہی تو اصل خسارہ یہی ہے۔
بس اب دو تین دنوں میں میں کھڑی ہو جاؤں تووہ بھی ہلکے ہوں۔ڈیوٹی اور گھر دونوں نے بوجھل کر ڈالا ہے انھیں ۔اس کے انداز میں شوہر سے احسان مندی کا تاثر تھا۔
کاش اس کی ساس کا کوئی اسکول اورکالج سسٹم ہوتااور جس کی ڈگری کا رعب بھی ہوتا ، تو میری قوم کا طاقتور ترین حصہ یوں بےکار میں ضائع ہو کر فارمی مرغے نہ بن چکا ہوتا!
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x