ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

سعودی عرب میں رہنے کا تجربہ – بتول نومبر ۲۰۲۱

مسجد النبوی شریف کی زیارت سے بہت اطمینان ہؤا ۔اگرچہ پہلی بار اس قدر سناٹا اور خالی سڑکیں دیکھی تھیں، لیکن پھر بھی بے حد سکون ملا اور مدینہ شریف کی اپنی رونق ہر لحظہ محسوس ہوتی رہی۔ طیبہ شریف ہر حال میں بارونق اور خوبصورت لگتا ہے۔ ہمیں تو ایک بڑی کمینی سی خوشی بھی ہو رہی تھی کہ ہم نے کم لوگوں کی وجہ سے مدینہ شریف کو خوب اچھی طرح سے دیکھ لیا ہے۔
وبا کے مضر اثرات اور اقتصادی خسارے کا اندازہ تب ہؤا جب سب بازار اور ہوٹل بند دیکھے۔ وبا کے پہلے پانچ مہینوں میں سوائے ہسپتال کے کہیں اور جانے کا موقع ہی نہیں ملا۔ یہ ہمارا پہلا سفر تھا۔ تیسرے دن ہم مدینہ شریف سے رخصت ہوئے اور واپسی کے سفر میں قصیم رکے، جہاں میمونہ حمزہ ہمارا انتظار کر رہی تھیں۔ انہوں نے کھانے پر بہت اہتمام کر رکھا تھا، اور اپنی دوستوں کو بھی ہم سے ملنے کی دعوت دے رکھی تھی۔ ہمیں ان سب سے مل کر بہت اچھا لگا۔ وہ سب بالکل ایک خاندان کی طرح رہتے ہیں۔ ان کی کچھ دوستوں سے بھی ملاقات ہوئی۔ اگلے دن ان سب نے ہمارے ساتھ ناشتے کا پروگرام بھی بنا رکھا تھا لیکن ہمیں چھٹی ختم ہونے کی وجہ سے واپس آنا تھا۔رات کے کھانے اور بے حد دلچسپ نشست کے بعد ان سے رخصت لی اور ریاض کا رخ کیا۔ فجر کی نماز گھر آ کر پڑھی۔
عمرہ ادا کرنے کا موقع اللہ تعالیٰ نے 2021 میں فراہم کیا جب عمرہ مقامی افراد کے لیے کھل گیا۔ ہم نے بھی رمضان میں ہسپتال سے تین دن کی چھٹی لی اور عمرہ پرمٹ آن لائن درخواست دے کر حاصل کر لیا۔ اسی طرح ہر نماز کے لیے بھی حرم میں ادائیگی کے لیے اجازت نامے کی ضرورت تھی۔وہ بھی ہم نے اللہ کی توفیق سے جتنے ہمارے مقدر میں حرم میں نمازیں تھیں، اتنے پرمٹ حاصل کر لیے۔ہماری صاحبزادی چونکہ کم عمر تھیں اس لیے انہیں اجازت نامہ نہیں مل سکتا تھا لیکن وہ ہمارے ساتھ شریک سفر تھیں۔ ہوٹل ہم نے حرم سے دور بک کرایا کیونکہ قریب ہونے کی صورت میں ہمیں خدشہ تھا کہ صاحبزادی کے ساتھ ہونے کی صورت میں ہمیں ہوٹل اور حرم تک پہنچنے کی اجازت نہیں ملے گی۔
رات کو بلکہ سحری سے پہلے دو بجے ہم نے کام ختم کیا۔ جی ہاں، رمضان میں ہمارے کام کے اوقات نو بجے سے رات دو بجے تک بھی تھے۔ گھر والوں نے ہمیں ہسپتال سے لیا اور ہم مکہ شریف کی طرف روانہ ہو گئے۔ بہت خوشی اور بہت جوش تھا۔ راستے میں رکتے رکاتے، کافی وغیرہ لیتے ہوئے ہم چلتے رہے۔ سحری گاڑی میں ہی چلتے ہوئے کی۔ فجر کی نماز کے لیے رکے اور پھر چل پڑے۔ ریاض سے مکہ شریف تقریباً نو سو کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ منزل پر پہنچ کر ہوٹل لیا، اور حرم کی طرف چل پڑے۔ ہوٹل سے ہم نے ٹیکسی لی جس نے ہمیں بس تک پہنچا دیا۔ وبا کے دوران قوانین کی وجہ سے ہم براہ راست حرم شریف تک نہیں جا سکتے تھے۔ بس کے اڈے پر ہمارا اجازت نامہ دیکھا گیا، اور ہمیں بس کے دو ٹکٹ دیے گئے۔ اس کے ساتھ دو چھتریاں بھی تحفتاً دی گئیں۔ بس نے تقریباً دس منٹ میں ہمیں حرم تک پہنچا دیا۔ وہاں اتر کر ہم نے باب عبد العزیز کا رخ کیا جہاں سے مسجد الحرام میں داخل ہونا تھا۔ یقین نہیں آ رہا تھا کہ ہم پہنچ گئے ہیں۔
باب عبدالعزیز سے حرم میں داخل ہوئے۔ باہر کچھ خاص ہجوم نہیں تھا۔ الحمدللّٰہ مطاف میں پہنچے۔ عمرہ زائرین بے حد منظم انداز میں دائرے بنائے، سماجی فاصلہ برقرار رکھے طواف کر رہے تھے۔ ان دائروں کے درمیان انتظامیہ کے افراد معمور تھے۔ جہاں کہیں دائرہ یا فاصلہ برقرار رکھنے میں دقّت محسوس ہوتی تھی، وہ فورا ًمدد کے لیے پہنچ جاتے تھے۔ سب ماسک لگائے اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش میں

مصروف تھے۔ حطیم میں داخلہ ممنوع تھا اور اس کی وجہ بھی سمجھ آ رہی تھی، وہاں دخول و خروج اور فاصلہ رکھنا تقریباً ناممکن ہے۔
الحمدللّٰہ ہم نے بڑے اطمینان کے ساتھ طواف مکمل کیا اور سعی کی طرف روانہ ہو گئے۔ ہماری عمرے کی بکنگ ظہر سے عصر کے درمیان تھی جب گرمی میں کافی شدت ہوتی ہے۔ ہمیں فکر تھی کہ روزے کے ساتھ مشکل ہو گی، لیکن الحمدللّٰہ خیریت رہی۔ سعی میں ہمیں طواف کی نسبت زیادہ افراد ملے۔ اس کی وجہ بھی سمجھ آ گئی۔ طواف میں وقت کم لگتا ہے اور انتظام ایسا تھا کہ ایک بار جب آپ طواف کر لیں تو واپس مطاف میں داخل نہیں ہو سکتے۔ سعی میں ایک تو وقت بھی زیادہ لگتا ہے اور دوسرے وقت کی بھی پابندی نسبتاً کم تھی۔ اس کا اندازہ ہمیں اس طرح بھی ہؤا کہ سعی کے دوران ہم ایک بار غسل خانے تک گئے اور وہاں سے واپس آ کر دوبارہ سعی میں شامل ہو گئے۔ بہرحال صفا اور مروہ پر آ کر اندازہ ہؤا کہ عمرہ زائرین کی تعداد ماشااللّہ کافی ہے۔
سعی مکمل کر کے ہم مروہ سے باہر آ گئے کیونکہ اس کے علاوہ باقی سب راستے بند تھے۔ سعی مکمل کر کے صرف مروہ سے باہر آ سکتے تھے۔ یہ انتظام بھی وبا کے احتیاطی انتظامات میں سے ایک تھا۔ باہر آ کر ہم سائے میں بیٹھ گئے اور حرم کی خوبصورتیوں اور فضاؤں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ کئی بار ایسا انتظار بھی باعث خیر ہوتا ہے جس میں آپ اپنے آپ سے ہم کلام ہوتے ہیں اور اپنے خالق سے تعلق کو مضبوط ہوتا محسوس کرتے ہیں۔ ایسی یادیں زندگی کے سرمائے میں سب سے قیمتی متاع میں شامل ہو جاتی ہیں۔ واہ میرے رب! کچھ نہ کرنے کو بھی تو اتنا قیمتی بنا دیتا ہے! بات شاید یہی ہے کہ مالک سے جو بھی وابستہ ہو وہی بیش بہا ہے، وہ تعلق کو دیکھتا ہے کم زیادہ کو نہیں۔
ہم انتظار کر رہے تھے عصر کی اذان کا کیونکہ ہم حرم سے باہر نکل آتے تو دوبارہ داخل نہیں ہو سکتے تھے۔ ظہر کی نماز ہم نے مناسک عمرہ کے درمیان ادا کی تھی۔ مناسک عمرہ مکمل ہونے کے بعد عصر کی اذان میں تقریباً آدھا گھنٹہ رہ گیا تھا۔ اذان ہوئی تو ہم مروہ سے اندر داخل ہو گئے اور سعی کی جگہ پر ہی ایک طرف نماز ادا کی۔ ادائیگی نماز کے بعد ہم باہر نکل آئے اور ہوٹل آ گئے۔ نماز کے لیے بھی ہمارے پاس اجازت نامہ تھا جو پانچ نمازوں کا تھا۔ اس معاملے میں ہم سے کچھ ناسمجھی ہو گئی۔ آپ کے پاس اگر ظہر کی نماز کا اجازت نامہ موجود ہو تو عشا تک آپ حرم میں ٹھہر سکتے تھے۔ ہم اس بارے میں لا علم تھے۔ اس لیے ہم نے تمام نمازوں کے اجازت نامے ایک ہی دن کے لیے حاصل کر لیے۔ جب ہم نے اگلے دن کے لیے اجازت نامہ حاصل کرنے کی کوشش کی تو وہ ہمیں نہیں ملی کیونکہ ہمارا کوٹہ پورا ہو چکا تھا۔
نمازوں کی ادائیگی کے لیے مسجد عبداللہ میں اہتمام کیا گیا تھا۔ مسجد عبداللہ حرم کی جدید توسیع کا حصہ ہے اور حالیہ برسوں میں تعمیر کی گئی ہے۔ یہ بے حد وسیع اور خوب صورت ہے۔ افطار ہم نے ہوٹل میں کیا اور بڑے اہتمام سے کیا جو ہمیں ہمارے کمرے میں پہنچایا گیا۔ وبا کی وجہ سے عموماً کمرہ طعام بند رکھے گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ مشکل کے ساتھ آسانی ضرور دیتے ہیں ۔ یہ کھانا زندگی کے ان چند خاص کھانوں میں سے تھا جو ہمیں بستر میں فراہم کیے گئے۔ ربنا لک الحمد۔ ہم نے مغرب ہوٹل میں اور میاں صاحب نے قریبی مسجد میں ادا کی جہاں ماشاءللہ وطن عزیز کی طرح کندھے سے کندھا ملا کر نماز کی ادائیگی کی گئی، بغیر سماجی فاصلے کے۔
عشا اور تراویح کے لیے میاں صاحب حرم چلے گئے۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے ہمیں فون کیا کہ حالات اچھے ہیں، تم بھی آ جاؤ۔ ہمارا دل جو پہلے ہی اوپر نیچے ہو رہا تھا، فورا ًمچل گیا، ہم نے ٹیکسی لی اور بر وقت حرم شریف پہنچ گئے۔ باہر صحن میں جگہ ملی۔ تراویح پوری پڑھائی گئی۔ اگلے دن ہمیں نمازوں کی ادائیگی کے اجازت نامے نہیں مل سکے۔ دن میں ہم کوشش کرتے رہے، جب مسئلہ حل نہ ہؤا تو ہم نے شام کو گھر واپسی کی ٹھانی۔ مکہ شریف میں حرم جائے بغیر قیام کرنا بہت مشکل ہے۔ افطار اور نماز کے بعد ہم نے اپنا سفر شروع کیا۔ راستے میں سحری کی اور فجر کی نماز گھر آ کر ادا کی۔ واپس آ کر ہم سب کو خوب زوردار فلُو ہؤا، لیکن وہ کورونا اس لیے نہیں تھا کہ نہ تو بخار ہؤا اور نہ ہی ذائقے یا سونگھنے کی حس میں کوئی تبدیلی آئی۔
اب تو اللہ کا شکر ہے کہ عمرے میں سماجی فاصلہ بھی سترہ اکتوبر کو ختم

کر دیا گیا ہے اور اب ان شا اللہ زائرین کی تعداد پر سے پابندی بھی ہٹا دی گئی ہے۔ البتہ بکنگ ہو گی اور ویکسین کی دو خوراکیں لگوانا ضروری ہے۔ یہ وقت بھی گزر جائے گا اور سب کچھ نارمل زندگی کی طرف پلٹ آئے گا ان شا اللہ۔ سعودی عرب میں کورونا کے کیس اب روزانہ تیس کی تعداد میں رپورٹ ہو رہے ہیں۔
اب ہم آتے ہیں ان اسفار کی طرف جو ہم نے سعودی عرب میں قیام کے دوران کیے ہیں۔ بات ہو رہی تھی ملیشیا کے ویزے اور سفر کی۔ ہمارا ویزہ بھی چار سے پانچ دن کے اندر وصول ہو گیا اور میاں صاحب کا ویزہ تو چند گھنٹوں ہی میں آ گیا۔ ہم نے سفر کی باقی ماندہ تیاری مکمل کی۔ چھ دن کی ہماری تعلیمی چھٹی تھی اور مزید کچھ دن ہم نے اپنی سالانہ چھٹی میں سے لیے تاکہ کچھ سیر بھی کر سکیں۔ ہماری ایک سہیلی اور ان کے میاں بھی جا رہے تھے لیکن ہماری روانگی پہلے تھی اور واپسی ان کے ساتھ تھی۔ ہم نے اتحاد ائیر لائن کی پرواز سے ٹکٹ لیا تھا، اس لیے دمام سے اڑ کر پہلے ہم ابوظہبی گئے، اور وہاں سے کوالالمپور جو تقریباً سات گھنٹے کی پرواز تھی۔
کوالالمپور کے ہوائی اڈے پر ہمارے میزبان ہمارا استقبال کرنے کے لیے موجود تھے۔ وہ ہمارے شوہر کے دوست تھے اور ملیشیا میں جامعہ سے پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔ انہوں نے ہمارے لیے ایک کار کرائے پر لے لی تھی اور اسی پر وہ ہمیں لینے کے لیے آئے۔ ہمارا قیام کوالالمپور کے مضافاتی شہر سرمبان میں تھا جو دارالحکومت سے ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ہمارے میزبان جناب عبدالشکور صدر الخدمت پا کستا ن اور ہماری پیاری نگہت عبدالشکور کے داماد اور صاحبزادی تھے۔ نگہت عبدالشکور کے ساتھ جو تعلق ہے وہ تو اپنی جگہ لیکن اس سے بھی زیادہ ایک اور تعلق جو ان سے ہے، وہ یہ کہ ہم نے حج بھی ان کے ساتھ کیا تھا۔ ان کے بچوں کا خوبصورت گھر اس مضافاتی شہر میں ہمارا استقبال کرنے کو تیار تھا۔
ان کے دو پیارے پیارے چھوٹے چھوٹے بچے تھے، ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔ گھر کے باہر پام کے خوبصورت درختوں کے ساتھ ساتھ کیلے کے بھی کئی درخت تھے۔ ملیشیا پورا ہی سر سبز و شاداب ہے۔ ہم جب ہوائی اڈے سے نکلے تو سبزے نے ہمارا استقبال کیا۔ خاتون خانہ ہماری ہم پیشہ نکلیں یعنی ڈاکٹر۔ یہ خوبصورت اور خوب سیرت خاندان اس سے پہلے جاپان میں مقیم رہا۔ اب بھی ان کی گفتگو میں جاپان کا ذکر غالب تھا، وہاں کی خوبصورتی، وہاں کی صفائی ، وہاں کا نظم و ضبط اور تکنیکی مہارت کی جدیدیت۔ ان سے گفتگو کر کے اندازہ ہؤا کہ جاپان باقی دنیا سے ان معاملات میں بہت آگے ہے۔ انہوں نے ہمیں جو تحائف دیے ان میں ایک خوبصورت جاپانی رومال بھی تھا۔ وہ رومال اب بھی ہمارے مہمان خانے کی زینت ہے۔ انہوں نے ہماری خوب میزبانی کی اور اس کا حق ادا کر دیا۔ اللہ اس پورے گھرانے کو شاد و آباد رکھے۔
ہم کچھ آرام کرنے کے بعد کوالالمپور کی طرف روانہ ہوئے تاکہ جنہوں نے ہمیں ہماری منزل تک پہنچایا تھا، انہیں بھی ان کے ہوسٹل تک واپس پہنچائیں اور شہر کی کچھ سیر بھی کر لیں۔ ہمارا حال تو یہ تھا کہ خاتون خانہ سے مل کر اور تعارف حاصل کر کے ہم لاؤنج میں صوفے پر لیٹے اور نیند کی آغوش میں پہنچ گئے۔ انہوں نے ہمیں چائے اور ناشتہ بھی جگا کر دیا۔ ہم چائے پی کر پھر سو گئے۔ ہم نے جمعرات کو سفر کا آغاز کیا تھا۔ جمعرات کی شام کو ہم تقریباً پانچ بجے کام سے فارغ ہوئے، گھر آ کر سامان کو آخری اور حتمی شکل دی اور ائیر پورٹ کے لیے روانہ ہو گئے۔ ساری رات اور اگلا آدھا دن بھی سفر میں گزر گیا تھا، اس لیے جو حال ہمارا تھا، وہ ہم ہی جانتے تھے۔
(جاری ہے)
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x