ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے چند درخشاں پہلو – بتول فروری ۲۰۲۲

سیرت نگاروں نے اپنی کتب میں زاد المعاد کے حوالے سے رسول اللہﷺ کی اُم معبدؓ کی مرتب کردہ ایک جامع لفظی تصویر دی ہے ۔
’’ پاکیزہ رُو، کشادہ چہرہ ، پسند یدہ خُو، نہ پیٹ باہر نکلا ہوا ، نہ سر کے بال گرے ہوئے ، زیبا ، صاحبِ جمال ، آنکھیں سیاہ و فراخ ، بال لمبے اور گھنے ، آواز میں بھاری پن ، بلند گردن ، روشن مرد مک، سر مگیں چشم ، باریک و پیوستہ ابرو ، سیاہ گھنگھریالے بال، خاموش وقار کے ساتھ ،گویا دلبستگی لیے ہوئے ، دور سے دیکھنے میں زیبندہ و دلفریب، قریب سے نہایت شریں و کمال حسین ۔ شیریں کلام ، واضح الفاظ ، کلام کمی و بیشی الفاظ سے معرا، تمام گفتگو موتیوں کی لڑی جیسی پروئی ہوئی ، میانہ قد کہ کوتاہی نظر سے حقیر نظر نہیں آتے ۔ نہ طویل کہ آنکھ اس سے نفرت کرتی زیبندہ نہال کی تازہ شاخ ، زیبندہ منظر والا قد ، رفیق ایسے کہ ہر وقت اس کے گرد و پیش رہتے ہیں ۔ جب وہ کچھ کہتا ہے توچپ چاپ سنتے ہیں جب حکم دیتا ہے تو تعمیل کے لیے جھپٹتے ہیں ۔ مخدوم ، مطاع ، نہ کوتاہ سخن نہ فضول گو‘‘۔(زاد المعاد جلد اول ص۳۰۷)
آپؐ کی زندگی ، رہن سہن اوردیگر معمولات کے بارے میں ہم ذیل میں کچھ معلومات اختصار کے ساتھ دے رہے ہیں ۔
لباس و تعلیم
آپؐ کا لباس احکامِ ربانی ( سورہ الاعراف:۲۶ ودیگر) کی ایک جامع تصویر تھی ۔ ان ہدایات ربانی کے تحت لباس ستر ڈھانپنے والا ،زینت دینے والا اور تقوی کامظہر ہونا چاہیے۔ دوسرا پہلو گرمی سے بچانے والا اور جنگ میں حفاظت کے لیے اوربطور زرہ کام دینے والا ہونا چاہیے ۔ حضورؐ کا لباس عرب کے حالات ( جغرافیائی ، تمدنی اورموسمی) کا لحاظ کرتے ہوئے معیاری ذوق کا مظہر ہوتا تھا ۔ انسانی زندگی میںتعلیم اور گفتگو کے بارے میں یہ شعر ایک حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ :
تا مرد سخن نگفتہ باشد
عیب و ہنرش نہفتہ باشد!
’’ جب تک کوئی شخص گفتگو نہ کرے اس کے عیب و ہنر پوشیدہ رہتے ہیں‘‘۔گفتگو ایک انسان زندگی کے مختلف پہلوئوںکو واضح کر دیتی ہے ۔حضورؐ کی زندگی کے ہمہ جہتی پہلوئوں ( بارِ نبوت ، گھریلو زندگی بطور شوہر، باپ، حکمران ، قانون ساز، مصنف ، معلم ، مزکی اور دیگر) پرمشتمل تھی ۔ قریش مکہ کے مہذب خاندان کا یہ ممتاز فرد قبیلہ بنو سعد کی فضائوںمیں عرب کی فصیح ترین زبان سے آراستہ تو تھا ہی ، وحی کی لسانِ مبین نے حسن گفتگو کو اور بھی میقل کر دیا تھا ۔حضورؐ کی امتیازی شان یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے آپؐ کو ’’ جوامع الکلم ‘‘ عطا کیے گئے تھے ۔ جن کی ضرورت ایک داعی حق کے لیے بہت ضروری ہے ۔
ذوقِ مزاح اور تفریحات
حضورؐ کی زندگی کا یہ ایک ایسا پہلو ہے جو اکثر وبیشتر نوجوان نسل(لڑکے ، لڑکیوں ) کی نظر سے اوجھل رہا ہے ۔ تاہم نسل نو کے لیے اس میں کسی تعجب اور حیرت کا شائبہ نہیں رہنا چاہیے کہ رسول اللہ کی ذاتی اور نجی زندگی اس پہلو سے بھی بہت دلآویز اورخوش کن ہے۔
دنیا میں عظیم کا رنامے سر انجام دینے والی شخصیت کے لیے یہ ایک لازمی وصف ہے کہ وہ فرائض حیات کے بوجھ کو اپنے تبسم سے گوارا بنا دے اور ساتھیوں کے دلوں میں گھر کر لے ۔ آپ ؐ ایسے بے تکلفانہ انداز مزاح سے پیش آتے تھے کہ رفقاء کے دلوں میں آپؐ کی محبت رچ بس گئی تھی ۔ آپ ہنسی ، دل لگی کی باتیں کرتے اور مجلس میں شگفتگی کی فضا پیدا کر دیتے ۔ مگر توازن و اعتدال ہمیشہ ملحوظ رہتا ۔ مزاح کا رنگ آٹے میں نمک کی طرح ہلکا رہتا اور اس میں بھی نہ تو خلافِ حق کبھی کوئی بات شامل ہوتی نہ کسی کی دلآزاری کی جاتی اور نہ ٹھٹھے لگا کر ہنسنا معمول تھا ۔ بات چیت میں غنچوںکا سا تبسم ہوتا ۔
موجودہ دور میں چند لوگوںکو اس قسم کے واقعات سن کرتعجب ہو سکتا ہے کیونکہ مذہبی لوگوں کے ساتھ تقویٰ اور تقشف کا تصور ہمیشہ رہا ہے

کہ وہ خشک طبیعت اور مزاج کے حامل ہوتے ہیںلیکن حضورؐ کا کردار اس بارے میں اس قدر من موہنا تھا کہ جب ابن عمر ؓ سے کسی نے پوچھا کہ ’’ کیا رسول اللہ ؐ کے رفقاء ہنسا بھی کرتے تھے ؟‘‘ تو انہوں نے فرمایا: ہاں ہنستے تھے اور ان کے دلوں میں پہاڑ سے زیادہ بڑاایمان تھا (یعنی ہنسی دل لگی ایمان و تقویٰ کی نفی نہیں کرتی)۔
انسان کی متوازن زندگی کے لیے تفریحات( جائز اور معقول حدود میں ) بھی ایک لازمی جزو کی حیثیت رکھتی ہیں ۔حضورؐ کو شخصی طور پر باغوں کی سیر کا شوق تھا ۔کبھی تنہا اور کبھی رفقاء کے ساتھ باغوں میں چلے جاتے اور وہیں مجلس آرائی بھی ہو جاتی ۔ تیر نے کا مشغلہ بھی تھا ۔ احباب کے ساتھ کبھی کبھار تالاب میں تیرا کرتے ، دو دو ساتھیوں کے ساتھ جوڑ بنائے جاتے اور پھر ہر جوڑ کے ساتھ دور سے تیر کر آتے جب کبھی وقفے کے بعد بارش پڑتی تو تہ بند باندھ کر پھوار میں نہایا بھی کرتے ۔ کبھی تفریحاً کسی کنویں میں پائوں لٹکا کر اس کے کنارے پر بیٹھتے بھی تھے ۔ دوڑوںاورتیراندازی کے مقابلے کراتے اور اکھاڑے میں خود پوری دلچسپی سے شریک رہتے ۔
مسرت کے موقعوں پرپسند تھا کہ دف بجائی جائے ۔ بچیاں گیت گاتیں ۔ چنانچہ عید کے موقع پر حضرت عائشہ ؓ کے پاس دو لڑکیاں گیت گا رہی تھیں ۔ حضورؐ قریب ہی لیٹے تھے ۔ ابو بکر صدیقؓ آئے تو غصے میں ڈانٹا کہ خدا کے رسولؐ کے گھر پر یہ ہنگامہ مچا رکھا ہے ۔ اس پر آپؐ نے فرمایا ’’انہیں گانے دو‘‘ ایک مرتبہ ایسی ایک بزم عروسی میں بچیاں گا رہی تھیں ۔ حضرت عامر بن سعد نے بعض حاضر ین سے بطور اعتراض کہا:’’ اے صحابیانِ رسولؐ ! اے شرکائے بدر ! تمہارے سامنے یہ ہو رہا ہے ؟ جواب ملا جی چاہے تو بیٹھ کر سنوورنہ چلے جائو ۔ ہمیں رسول اللہ نے اس کی اجازت دی ہے !
حضورؐ کی زندگی سے پتہ چلتا ہے کہ آپؐ کو شعر سے بھی دلچسپی تھی۔اچھے اشعار ، کلام کی قدر فرماتے تھے ۔ حضرت حسانؓ اور کعبؓ بن مالک سے دشمنانِ اسلام کے جواب میں شعر کہلاتے اور کبھی کبھی حضرت عثمان ؓؓ کو اپنے منبر پربٹھا کر ان سے پڑھواتے اورکہتے کہ یہ اشعار دشمنوںکے حق میں تیر سے بھی زیادہ سخت ہیںآپؐ نے معاشرے کو ایک نئے ذوق ادب سے آشنا کر دیا۔ مدینہ میں آمد کے موقع پر بنو تجار کی بچیوں کے خیر مقدمی ترانے کا ذکر گزشتہ صفحات میں ہو چکا ہے۔
گھریلو زندگی
ام المومنین حضرت عائشہؓ سے کسی نے دریافت کیا کہ رسول خداؐ اپنے گھر میں کیا کرتے تھے ۔ آپؓ نے جواب دیا : ’’ آپ آدمیوں میں سے ایک آدمی تھے ۔ اپنے کپڑوں کی دیکھ بھال خود ہی کر لیتے ، بکری کا دودھ دوہتے اور اپنی ضرورتیں خود ہی پوری کر لیتے ۔ نیز اپنے کپڑوںکو خود ہی پیوند لگا لیتے یا اپنے جوتوں کی مرمت کر لیتے اور یہ کہ اپنے ڈول کو ٹانکے لگا لیتے ، بوجھ اٹھاتے ، جانوروں کو چارہ ڈالتے، کوئی خادم ہوتا تو اس کے ساتھ مل کر کام کرا دیتے ۔ بازار جانے میں عار نہ تھا ۔ خود ہی سودا سلف لاتے اور ضرورت کی چیزیں ایک کپڑے میں باندھ کر اٹھا لاتے ۔
حضرت عائشہؓ نے نیز فرمایا کہ آپ گھر میں سب سے زیادہ نرم خو، متبسم ، خندہ جبین اور اس صفت کی شان یہ تھی کہ کبھی کسی خادم کو جھڑکا نہیں ۔ حق یہ ہے کہ رسول خدا ؐ سے بڑھ کر کوئی بھی اپنے اہل وعیال کے لیے شفیق نہ تھا ۔(مسلم)
درج بالا چند واقعات کے ذکر سے مقصود یہ ہے کہ آج کا ایک عام امتی ہی نہیں بلکہ حامیانِ دین اور بزرگان اپنی زندگیوںکا جائزہ لے کر دیکھیں کہ ان کی اپنی ذاتی زندگی رسول اللہؐ کی زندگی سے کس قدر مطابقت رکھتی ہے ؟کیا وہ بھی اپنے اہل خانہ بالخصوص بیویوں اور اولاد کے ساتھ اسی شفقت اور محبت کا سلوک روا رکھتے ہیں جو ہمیں رسول اللہؐ کی زندگی میں نظر آتا ہے ؟ کیا ہم نے گھریلو کاموں میںاپنے اہل خانہ کے ساتھ کبھی ہاتھ بٹایا ہے ؟ کیا ہم نے بھی کبھی ان کے ساتھ نرم خو اور متبسم ہو کر ان کی دل جوئی کا سلوک کیا ہے ؟…… اگر نہیں کیا اور امر واقعہ یہ ہے کہ ایسا نہیں تو پھر ہم کس منہ سے آپؐ کی محبت اور اطاعت کا دم بھرتے ہیں ؟
حضورؐ کی ذات صرف اس حد تک ہی محدود نہیں جس کا ذکر درج بالا سطور میں کیا گیا ۔ آپؐ کی زندگی کا اہم ترین پہلو یہ تھا کہ بطور رسول آپ ؐنے امت کی خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے بھی ایک عملی نمونہ پیش کرنا تھا۔چنانچہ تمام ازواج اس گھر میں جمع ہوتیں جہاں آپؐ نے شب گزارنی

حضورؐ کی ذات صرف اس حد تک ہی محدود نہیں جس کا ذکر درج بالا سطور میں کیا گیا ۔ آپؐ کی زندگی کا اہم ترین پہلو یہ تھا کہ بطور رسول آپ ؐنے امت کی خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے بھی ایک عملی نمونہ پیش کرنا تھا۔چنانچہ تمام ازواج اس گھر میں جمع ہوتیں جہاں آپؐ نے شب گزارنی ہوتی تھی ۔ گھریلو امور کے علاوہ دینی مسائل بھی زیر بحث آتے ۔ مختلف خواتین اپنے مسائل لے کر آتیں اور ازواجِ مطہرات کی معرفت دریافت کرتیں ۔ آپ ؐ نے خواتین کے اصرار پران کے لیے ایک علیحدہ دن مقرر کردیا تھا جہاں جا کر آپؐ ان کی تعلیم و تربیت فرماتے ۔ اس تمام ترکے باوجود آپؐ نے کبھی گھر کی فضا کو خشک اور بوجھل نہ بننے دیا ۔ بات چیت ہوتی ، کبھی کبھی قصہ گوئی بھی ہوتی اور دلچسپ لطائف بھی وقوع میں آتے۔
حضرت عائشہؓ نے اپنا ایک واقعہ بیان فرمایا کہ ایک مرتبہ میں نے خزیرہ( گوشت کا قیمہ کر کے پانی میں پکاتے اور پھر اس پر آٹا چھڑک کرمزید پکاتے ) تیار کیا۔ حضرت سودہ ؓ بھی موجود تھیں اور رسول اللہ ؐ دونوںکے درمیان بیٹھے تھے ۔بے تکلفی کی فضا تھی ۔ میں نے سودہؓ سے کہا کہ کھائو۔ انہوں نے انکار کیا ، پھر اصرار سے کہاکہ کھائو انہوں نے انکار کیا۔ پھر اصرار سے کہا کہ تمہیںضرور کھانا ہوگا ، انہوں نے پھر انکار کیا۔ ادھر سے پھر کہا گیا کہ اس میں سے کھائو ورنہ میں اٹھا کر تمہارے منہ پر مل دوں گی ۔ حضرت سودہ ؓ نے بھی ہٹ دکھائی۔ حضرت عائشہ نے خزیرہ میں ہاتھ ڈالا اور واقعی حضرت سودہ ؓ کے چہرے پر لیپ دیا۔ اس بے تکلفی پر حضورؐ خوب ہنسے اور سودہ ؓ سے کہا کہ تم اس کے منہ پر ملو تاکہ حساب برابر ہو جائے چنانچہ سیدہ ؓ نے ایسا ہی کیا اور حضورؐ مکر ر ہنسے !
آپؐ نے مسجد کے ساتھ ازواج کے لیے حجرات( چھوٹے چھوٹے کمرے) بنوالیے تھے ۔ ان میں گرمی سردی سے بچنے کے اہتمام تھا ، جانوروںکی مداخلت سے بچائو کا انتظام تھا ، پردہ داری (Privacy) کا بندو بست اور حفظانِ صحت کاخیال تھا ۔ بجز صفائی کے اور کس طرح کی آرائش نہ تھی ۔ صفائی میں ذوق نبوت یہاں تک تھاکہ صحابہ کرامؓ کو گھروں کے آنگن صاف رکھنے کی ہدایت فرماتے!
ان حجروں کے علاوہ ایک بالا خانہ بھی تھا ۔ جب آپؐ نے ایلاء کیا تھا اور نیز گھوڑے سے گر کر چوٹ کھائی تھی تو ایک ایک مہینہ اسی پر قیام فرمایا تھا ۔ یہاں ایک چٹائی کا بستر ، چمڑے کا تکیہ جس میں کھجور کی چھال بھری اور ادھر ادھر چند کھالیں لٹکی ہوئی تھیں ۔
یہ حجرہ مبارک آپ ؐ کی وفات کے بعد ازواج مطہراتؓ کے قبضہ میں رہے ۔ ان میں سے جب کسی کا انتقال ہو جاتا تو وہ حجرہ ان کے اعزہ کی ملکیت ہو جاتا جن سے حضرت معاویہ ؓاپنے زمانے میں خرید لیا کرتے تھے ۔یہ تمام حجرے حضرت عمرؓ کے دور خلافت تک اپنے حال پر قائم رہے۔ بعد ازاں۸۸ھ میں جب حضرت عمر بن عبد العزیز مدینہ کے والی بنے تمام حجرے بجز حجرۂ عائشہ کے کہ وہ مدفن نبویؐ ہے ، توڑ کر مسجد نبوی میں شامل کر دیے گئے ۔ جس دن یہ حجرے ٹوٹے تو تمام مدینے میں کہرام مچا ہؤا تھا کہ حضورؐ کی ایک یاد گار مٹ گئی ۔
اس حجرے کے بارے میں عبد الرحمن عبد ( مرحوم ) نے واضح کیا۔
’’ یہ حجرہ عائشہ صدیقہؓ تھا ۔ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ صدیقہ کا حجرہ مطہرہ تھا جس کی عظمت کا خود حضور ؐ نے ذکرفرمایا اور ارشاد کیا کہ عائشہ ؓ کے علاوہ کسی اور زوجہ کے حجرے میںمجھ پر وحی نازل نہیں ہوئی‘‘
سادہ زندگی
اپنی عزیز ترین اولاد اور اعزہ و ارقاب کو سادہ زندگی بسر کرنے پر مجبور کرنا، انسان کے بس میں نہیں تاہم تاریخ میں محمد رسول اللہؐ کو یہ شرف حاصل ہے کہ انہوں نے نہ صرف خود بلکہ اپنی ازواج اور اولاد کو بھی سادہ زندگی بسر کرنے کا نہ صرف سبق دیا بلکہ عملاً ثابت بھی کیا۔ آپؐ کی ازواج، میں بعض بہت ناز و نعمت میں پلی تھیں۔ اکثر معزز گھرانوں سے تعلق رکھتی تھیں اور شادی سے قبل بہت متمول اور خوشحال زندگی بسر کررہی تھیں لیکن آپؐ کی صحبت میں آکر اس تمام تر مال و دولت اور فراخی سے دستکش ہو گئیں۔ فتوحات کی کثرت کی وجہ سے مدینہ میں دولت کی ریل پیل تھی۔ اگرچہ آپؐ کو اپنی تمام ازواج کے ساتھ محبت اور لگائو تھا، اس کے باوجود اپنی ذات کی طرح انہیں بھی زخارف دنیا کا خوگر نہیں بنایا کہ آپؐ کے تمام اہل خانہ کی زندگی آپؐ کے اسوۂ حسنہ کا اعلیٰ ترین مظہر بن گئی۔
حضرت فاطمہؓ کے ساتھ، آپؐ کو جو محبت تھی اس کے باوجود ان کی زندگی بہت تنگی اور ترشی سے گزرتی تھی۔ سیدہؓ چکی پر جو پیس کر آٹا بناتی تھیں۔
ازواج مطہراتؓ کے لیے بنو نضیر کے نخلستان کا حصہ مقرر تھا جو سال بھر کے مصارف کے لیے کافی ہوتا تھا۔ چنانچہ جب انہوں نے کھانے اور کپڑوں کی خواہش ظاہر کی تو آپؐ نے ایلاء کرلیا۔ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کا قول ہے کہ ’’ہم ممانعت تھی ہ پرتکلیف و ریشمی لباس اور سونے کے زیور استعمال کریں۔ آپؐ ان سے فرمایا کرتے تھے کہ اگر تم کو اس کی تمنا ہے کہ یہ چیزیں جنت میں ملیں تو دنیا میں ان کے پہننے سے پرہیز کرو۔ واضح رہے کہ اس تمام تر سادگی اور عسرت کی زندگی کے باوجود وہ سب آسودہ دل اور اطمینانِ قلب کی دولت سے مالا مال تھے۔

حضرت سعدؓ بن عباد، حضرت سعد بن معاذ، حضرت عمارہ بن حزم اور حضرت ایوبؓ آپؐ کی خدمت میں دودھ بھیج دیا کرتے تھے اور اسی پر آپؐ بسر فرماتے تھے۔ حضرت سعدؓ بن عبادہ نے التزام کرلیا تھا کہ رات کے کھانے پر ہمیشہ اپنے ہاں ایک سے بڑا باد یہ بھیجا کرتے تھے جس میں کبھی سالن، کبھی دودھ، کبھی گھی ہوتا تھا۔ حضرت ام انسؓ نے اپنی جائیداد حضورؐ کی خدمت میں پیش کی۔ آپؐ نے قبول فرما کر اپنی دایہ حضرت ایمنؓ کو دے دی اور خود فقر و فاقہ اختیار فرمایا‘‘۔
حضور اکرمؐ کے بارے میں سیرت کی کتب میں بہت تفصیل کے ساتھ آپؐ کے کھانے پینے کے نفیس ذوق کے بارے میں بہت تفصیل کے ساتھ معلومات پائی جاتی ہیں جن کا ایک تقابلی مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ آپؐ نے امت کے لیے کھانے پینے کے بارے میں کوئی قید نہیں لگائی سوائے حرام اشیاء کی ممانعت کے۔ امہات المؤمنینؓ کے لیے نان و نفقہ کا علیحدہ علیحدہ بندوبست کیا ہؤا تھا لیکن اس حقیقت کے علی الرغم کو بیشتر کا تعلق نہایت خوشحال اور دولت مند خاندانوں سے تھا، یہ امر بھی تاریخ سے واضح ہوتا ہے اکثر و بیشتر گزارہ بکری کے دودھ، کھجور یا جوکے آٹے پر ہوتا تھا اور عرصے تک چولہے پر کھانا پکانے کے لیے آگ تک نہ جلائی جاتی تھی۔ جہاں ایک طرف فقر و سادگی کی وہ شان تھی وہاں دوسری طرف آپؐ کو رہبانیت کا سدباب بھی کرنا تھا۔
کھانے پینے کے ضمن میں رسول اللہؐ کی ایک نہایت اہم ہدایت یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ اپنی ذات کے ساتھ ساتھ ہمسایوں اور دیگر عزیز و اقارب کا خیال بھی رکھا جائے۔ گھر میں شوربا پکتا تو کہتے کہ ہمسائے کے لیے ذرا زیادہ بنایا جائے۔ گھر میں جب کبھی بکری ذبح ہوتی تو آپ ؐ بالخصوص اس کا گوشت حضرت خدیجہؓ کی سہیلیوں، ملنے جلنے والوں اور عزیزوں کے ہاں بھی بھجواتے تھے۔
موجودہ دور میں مرد و زن، مسابقت کی حالت میں مبتلا ہیں۔ ہر شخص مال و دولت، اولاد اور دیگر دنیاوی امور میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کے جنون میں مبتلا دکھائی دیتا ہے۔ ذاتی تعلقات کو اس جذبہ مسابقت نے اس حد تک متاثر کیا ہے کہ ملنے جلنے اور ایک دوسرے کو تحائف وغیرہ دینے کے لیے جب تک بہت بڑی رقم نہ ہو، اس کارخیر کو موخر بلکہ معطل کردیا گیا ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے انسانی زندگی کو سہل اور آسان بنانے کے لیے طبقہ اناث کو کیا خوبصورت نصیحت فرمائی کہ:
’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، کہتے ہیں رسول اللہؐ نے مسلمان عورتوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کے لیے کبھی چیز (لینے دینے) کو حقیر نہ جانے اگرچہ بکری کا کھر ہی ہو۔‘‘
ذاتی طور عمر بھر یہ معمول رہا کہ رات کے نصف حصے کے اوائل میں بیدار ہوکر مسواک اور وضو کے بعد تہجد ادا فرماتے۔ قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے ہوئے بعض اوقات اتنا لمبا قیام فرماتے کہ قدم مبارک متورم ہو جاتے۔ صحابہ کرامؓ جب اس مشقت پر توجہ دلائے تو آپؐ فرمایا کرتے کہ کیا میں خدا کا احسان شناس اور شکرگزار بندہ نہ بنوں؟
سیدہ عائشہ ؓفرماتی ہیں کہ نبیؐ کے پاس ایک خاتون آئی۔ آپؐ نے اس سے فرمایا:’’آپ کون ہیں؟‘‘ تو اس نے کہا:’’میں جثامہ مزنیہ ہوں۔‘‘ تو آپؐ نے فرمایا:’’ آپ کا نام حسانہ ہے، تمہارا کیا حال ہے؟ ہمارے بعد تمہارے ساتھ کیا گزری؟‘‘ تو اس نے کہا:’’میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہو جائیں، بہت اچھی گزری اور ہم خیر و عافیت سے ہیں۔‘‘ جب وہ چلی گئی تو آپؐ سے سیدہ عائشہؓ نے پوچھا یا رسول اللہ! آپ نے اس بڑھیا پر اتنی توجہ مرکوز کی (یہ کون تھی؟) تو آپؐ نے فرمایا:’’ یہ عورت خدیجہؓ کی زندگی میں آیا کرتی تھی۔ دوستی کا لحاظ و پاس کرنا ایمان کی علامت ہے۔‘‘ (حاکم نے اسے صحیح کہا اور ذہبی نے حاکم کی موافقت کی)

ہجرت حبشہ کرنے والوں میں ایک صحابیہ اسماءؓ بنت عمیس تھیں۔ جب وہ مدینہ واپس آئیں تو حضرت حفصہؓ سے ملنے گئیں تو وہاں حضرت عمرؓ بھی موجود تھے۔ معلوم کرنے پر جب پتہ چلا تو حضرت عمرؓ نے کہا ’’ہاں وہ حبش والی، سمندر والی۔‘‘ حضرت اسماءؓ نے کہا ’’ہاں وہی‘‘ حضرت عمرؓ نے کہا کہ ہم نے ہجرت پہلے کی اس لیے ہمارا حق رسول اللہؐ پر فائق ہے۔‘‘ حضرت اسماء ؓ کو سخت غصہ آیا۔ بولیں ہرگز نہیں، تم لوگ تو رسول اکرمؐ کے ساتھ رہتے تھے۔ وہ بھوکوں کو کھلاتے تھے۔ ہمارا حال یہ تھا کہ گھر سے دور بیگانے حبشیوں میں رہتے تھے۔‘‘ یہ باتیں ہورہی تھیں کہ حضورؐ تشریف لے آئے۔ حضرت اسماءؓ نے کہا یا رسول اللہؐ عمرؓ یہ کہتے ہیں آپؐ نے پوچھا تم نے کیا جواب دیا۔ انہوں نے ماجرا سنایا۔ آپؐ نے فرمایاا عمرؓ کا حق مجھ پر تم سے زیادہ نہیں۔ عمرؓ اور اس کے ساتھیوں نے صرف ایک ہجرت کی اور تم لوگوں نے دو ہجرتیں کیں۔‘‘ اس واقعہ کا جب چرچا پھیلا تو مہاجرین حبش جوق در جوق اسماءؓ کے پاس آتے اور آنحضرتؐ کے الفاظ ان سے بار بار دہرا کر سنتے۔ ان کا بیان ہے کہ مہاجرین حبش کے لیے دنیا میں کوئی چیز آنحضرتؐ کے ان الفاظ سے زیادہ مسرت انگیز نہ تھی۔
حضرت انس بن مالک کی خالہ کا نام ام حرام تھا (جو رضاعت کے رشتے سے آپؐ کی بھی خالہ تھیں) وہ آپ کو اکثر کھانا پیش کرتیں۔ آپؐسو جاتے تو بالوں میں سے جوئیں نکالتیں۔
حضرت انسؓ کی والدہ کے ہاں اکثر تشریف لے جاتے۔ وہ بچھونا بچھا دیتیں، آپؐ آرام فرماتے۔ آپؐ کا پسینہ ایک شیشی میں جمع کرلیتیں۔ وصیت کی کہ مرتے وقت کفن میں حنوط ملایا جائے تو عرق مبارک کے ساتھ ملایا جائے۔
ایک دفعہ حضرت انس کی والدہ نے آپؐ کی دعوت کی۔ کھانے کے بعد آپؐ نے حضرت انسؓ، ان کی دادی اور یتیم غلام کو دو رکعت نماز پڑھائی۔
حضرت اسماء (ابوبکرؓ کی بیٹی اور حضرت عائشہؓ کی بہن) کی شادی حضرت زبیرؓ سے ہوئی تھی۔ ان کا صرف ایک گھوڑا تھا۔ حضرت اسماء خود جنگل سے گھاس لاتیں اور کھانا پکاتیں۔ حضرت زبیرؓ کی زمین مدینہ سے دو میل دورتھی جو حضورؐ نے انہیں عطا کی تھی ۔ حضرت اسماؓ وہاں سے کھجور کی گٹھلیاں سر پر لاد کر لاتیں۔ ایک دن حضورؐ اس طرف سے اونٹ پر سوار آرہے تھے۔ اونٹ کو بٹھا دیا کہ سیدہ اسماءؓ پیچھے بیٹھ جائیں لیکن وہ شرم و حیا کی وجہ سے نہ بیٹھیں۔ آپؐ آگے بڑھ گئے۔ جب حضرت ابوبکرؓ کو معلوم ہوا تو انہوں نے حضرت اسماءؓ کو ایک خادم دے دیا جو گھوڑے کی خدمت کرتا تھا۔
ایک دن قرابت کی خواتین بیٹھی تھیں اور حضورؐ سے باتیں کررہی تھیں۔ حضرت عمرؓ کے آنے پر سب اٹھ کر چلی گئیں۔ اس پر حضورؐ ہنس پڑے۔ حضرت عمرؓ نے استفسار کیا تو فرمایا کہ تعجب ہؤا کہ وہ تمہاری آواز سنتے ہی آڑ میں چھپ گئیں۔ حضرت عمرؓ نے انہیں مخاطب کرکے کہا’’اے اپنی جان کی دشمنو! مجھ سے ڈرتی ہو، حضورؐ سے نہیں ڈرتیں۔ وہ سب بولیں ’’تم رسول اللہؐ کی نسبت سخت مزاج ہو‘‘۔
خواتین نہایت دلیری کے ساتھ آپؐ سے بے محابہ مسائل دریافت کرتیں، صحابہ کرام کو ان کی اس جرأت پر حیرت ہوتی تھی لیکن آپؐ کسی قسم کی پریشانی یا غصے کا اظہار نہیں کرتے تھے۔
اس امر میں کسی ایماندار شخص کو کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ عورت، حضرت حواؑ کی ذات سے لے کر ام المومنین حضرت عائشہؓ تک کس طرح بہتان طرازی کا نشانہ بنتی رہی ہیں۔ رہا آج کا ’’متمدن اور روشن دور‘‘ تو بات مشرق کے ان پڑھ دیہاتی کی نہیں جو عورت کو ’’پیر کی جوتی‘‘ سمجھ کر جب چاہے اسے بدلنے (طلاق دینے) کی بات کرتا ہے۔ مغرب کے ’’روشن دماغ اور مہذب مرد’‘‘ کی ہے جو آج بھی عورت کو عریاںف فلموں میں ایسے ایسے ایکٹ کرنے پر مجبور کرتا ہے جو وہ خود اپنی ماں، بہن، بیٹی، بیوی کے لیے پسند نہیں کرتا۔ آخر یہ دو رنگی اور منافقت کیا ہے؟ اپنی بہن، بیٹی، بیوی کے لیے جو امر روا نہیں وہ بالآخر دوسروں کی بہن بیٹی کے لئے کس منطق، قانون اور اخلاقی ضابطے کی رو سے جائز اور روا رکھے جاتے ہیں؟ یہ ہے وہ سوال جو پوچھا جانا چاہیے۔ اس کے مقابلے میں ایک وہ تہذیب (اسلام) ہے جو عورت ذات کے ساتھ بحیثیت ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے ہی نہیں بلکہ طبقہ اناث کی ہر عورت اور ہر فرد کے ساتھ محبت و احترام کے جذبات رکھنے اور ان پر عمل کرنے کا داعی ہے؟ عورت ذات، عرب جاہلیت میں نشانہ ستم تھی اور آج کے اس

روشن مہذب دور میں بھی حالات بہت زیادہ مختلف نہیں بلکہ شاید اس سے ایک قدم آگے ہی ہیں اور قرآن کا سوال آج بھی۔
اللہ کے رسولؐ نے طبقہ اناث کے لیے جو اسوۂ حسنہ پیش فرمایا ہے اس کی ایک ہلکی سی جھلک ہم نے درج ذیل چند احادیث میں دکھانے کی کوشش کی ہے۔اللہ کے رسولؐ نے مسلمان مردوں کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ اپنی بیویوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں۔
’’تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لیے بہتر ہے اور میں اپنے اہل کے حق میں تم سب سے زیادہ بہتر ہوں۔‘‘ ابن ماجہ
’’حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ عورت جب پنج وقتہ نماز پڑھے اور رمضان کے روزے رکھے اور پاک دامن رہے اور اپنے شوہر کی فرمانبرداری کرے تو جنت کے جس درواز ے سے چاہے جنت میں داخل ہو جائے۔‘‘
درج ذیل حدیث میں آپؐ نے ایک ایسی عورت کو جنت کی خوشخبری عنایت فرمائی جس کا شوہر، اس کی موت کے وقت اس سے راضی اور خوش تھا۔
’’حضرت ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ حضرت رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ جو عورت اس حال میں وفات پا گئی کہ اس کا شوہر اس سے راضی تھا تو وہ جنت میں داخل ہوگی۔‘‘ ترمذی۔
ہماری پڑھی لکھی خواتین جو مستشرقین کے پھیلائے ہوئے پروپیگنڈے کا شکار ہو جاتی ہیں، ان کو اکثر اوقات اس امر کا علم نہیں کہ رسول اللہؐ نے، طبقہ اناث کے بارے میں کس قدر محبت و شفقت کے رویہ کا اظہار فرمایا ہے۔ آپؐ نے کسی عورت کو اپنے ہاتھ سے کبھی کوئی ایذا نہیں پہنچائی۔ نیز عورتوں کے ہر اچھے عمل پر بہت زیادہ خوش خبری اور اجر و ثواب ملنے کا اظہار فرماتے رہے۔ محمدؐ وہ پہلے اوردر حقیقت آخری شخص ہیںجنہوں نے عورت کے بارے میں ایک نہایت ہی صحیح اور متوازن ریہ کی ہدایت فرمائی جس کی بنیاد جذبات پر نہیں بلکہ خالص عقل اور علم پر تھی۔ پھر آپؐ نے ان کی باطنی اصلاح پر ہی اکتفا نہیں فرمایا بلکہ قانون کے ذریعے عورتوں کے حقوق کی حفاظت کا بندوبست بھی فرمایا۔ ذرا آپؐ کی شان رحمت و شفقت ملاحظہ فرمائیں کہ آپؐ نے طبقہ اناث کے ساتھ حسن سلوک کا کیسا حکیمانہ انداز اختیار فرمایا۔
’’اللہ اس شخص پر رحم فرمائے جو رات کو (تہجد یا صبح کی نماز کے لیے) کھڑا ہوتا ہے اوراپنی بیگم کو بھی بیدار کرتا ہے اگر وہ انکار کردے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے ڈالے اور اللہ تعالیٰ اس عورت پر بھی رحم کرے جو رات کو کھڑی ہوتی ہے اور اپنے خاوند کو بھی بیدار کرتی ہے، اگر وہ انکار کرے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے۔‘‘ ابودائود۔
درج ذیل دو احادیث بھی خواتین کی جسمانی کمزوری، نزاکت، نیز ان کے گھریلو امور کی سرانجام دہی میں محنت و مشقت اور مصروفیات کا خیال کرتے ہوئے ایک ایسی ہدایت ہے جس سے طبقہ اناث کے بارے میں اللہ کے رسولؐ کی بے پایاں محبت و شفقت کا اظہار ہوتا ہے۔
رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مسافر کے لیے نماز کا ایک حصہ معاف فرما دیا ہے اور رمضان کے روزے نہ رکھنے کی بھی مسافر کو اجازت دی ہے اور اسی طرح دودھ پلانے والی عورت اور حمل والی عورت کو اجازت ہے کہ روزہ نہ رکھے اور بعد میں قضا کرلے۔ النسائی۔ سنن ابودائود (۲۳۱۸) میں بھی اس مفہوم کی حدیث روایت کی گئی ہے۔
اسی طرح ذیل میں جہاد جیسے اہم رکن اسلام سے عورتوں کو بری الذمہ قرار دیا کہ ان کا جسم اس بارِ گراں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
’’حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ سے جہاد میں شریک ہونے کی اجازت چاہی تو آپؐ نے فرمایا تمہارا یعنی عورتوں کا جہاد حج ہے‘‘۔ (بخاری)
بالعموم یہ دیکھا گیا ہے کہ خواتین خرچ اخراجات کے بارے میں بہت حد تک محتاط ہوتی ہیں۔ اللہ کے رسولؐ نے عورتوں میں جذبہ انفاق فی سبیل اللہ کو پروان چڑھانے نیز صدقہ و خیرات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی تلقین فرمائی جو درج ذیل حدیث سے واضح ہے:
’’حضرت اسماء روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرمؐ نے مجھے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ خرچ کرتی رہو (اللہ کی راہ میں) اور گن گن کر مت رکھنا ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تجھے گن گن کر دیں گے اور مال کو بند کرکے نہ رکھنا ورنہ اللہ تعالیٰ بھی اپنی بخشش روک دیں گے جہاں تک ہوسکے تھوڑا

’’حضرت اسماء روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرمؐ نے مجھے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ خرچ کرتی رہو (اللہ کی راہ میں) اور گن گن کر مت رکھنا ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تجھے گن گن کر دیں گے اور مال کو بند کرکے نہ رکھنا ورنہ اللہ تعالیٰ بھی اپنی بخشش روک دیں گے جہاں تک ہوسکے تھوڑا بہت (حاجت مندوں پر) خرچ کرتی رہو۔‘‘
’’حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ جب عورت اپنے (شوہر کے) کھانے میں سے خرچ کرے اور فساد کا طریقہ اختیار کرنے والی نہ ہو تو اس کو خرچ کرنے کی وجہ سے ثواب ملے گا اور شوہر کو کمانے کی وجہ سے ثواب ملے گا اور جو خزانچی ہے اس کو بھی اس طرح ثواب ملتا ہے اور ایک کی وجہ سے دوسرے کے ثواب میںکمی نہ ہوگی (یعنی ایک مال سے تین اشخاص کو ثواب ملا۔ کمانے والا، اس کی بیوی، جس نے صدقہ کیا اور اس کا خزانچی)۔(مسلم)٭

٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
5 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x