ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

اللہ کی رحمت – بتول فروری ۲۰۲۲

اللہ رحمن ورحیم ایسی ہستی ہے جس کی رحمت بے پایاں ہے۔اس کی رحمت پوری کائنات میں پھیلی ہے اور کائنات کے ہر ذرّے کو اس کی رحمت کا حصّہ ملتا ہے، اور ہر ایک کو اس کا فیض پہنچتا ہے۔سارے جہاں میں کوئی دوسرا اس ہمہ گیر اور غیر محدود رحمت کا حامل نہیں ہے۔ دنیا میں جس کے پاس بھی صفتِ رحم پائی جاتی ہے اس کی رحمت جزوی اور محدود ہے۔ اور وہ بھی اس کی ذاتی صفت نہیں ہے بلکہ خالق نے اسے کسی مصلحت اور ضرورت کے تحت عطا کی ہے۔جس مخلوق کے اندر بھی اس نے کسی مخلوق کے لیے جذبہء رحم پیدا کیا ہے، اس لیے کیا ہے کہ ایک مخلوق کو وہ دوسری مخلوق کی پرورش اور خوشحالی کا ذریعہ بنانا چاہتا ہے۔ یہ بجائے خود اسی کی رحمتِ بے پایاں کی دلیل ہے۔(تفہیم القرآن، ج۲،ص۴۵۹)
رحمت اللہ تعالیٰ کی خاص صفت ہے ، وہ فرماتا ہے:
’’اللہ جس رحمت کا دروازہ بھی لوگوں کے لیے کھول دے اسے کوئی روکنے والا نہیںاور جسے وہ بند کر دے اسے اللہ کے بعد کوئی دوسرا کھولنے والا نہیں۔ وہ زبردست اور حکیم ہے‘‘۔ (فاطر،۲)
اللہ کی رحمت ،عطا کرنے میں بھی ہے اور روک لینے میں بھی ہے۔اس کی رحمت ان چیزوں میں بھی موجود ہے جو ممنوع ہیں۔ ان میں بھی موجود ہے جن کی اجازت ہے۔ اور جس شخص پر اللہ کی رحمتوں کا دروازہ کھل جاتا ہے، اسے یہ رحمت ہر چیز میں نظر آتی ہے، خواہ وہ کسی حال اور حالات میں ہو، اور اگرچہ وہ ان تمام نعمتوں سے محروم ہو جائے جنہیں لوگ محرومیت سمجھتے ہیں۔ اس رحمت سے اپنے آپ کو محروم ہر وہ شخص پاتا ہے جس پر اللہ اپنی رحمت کا دروازہ بند کر دے۔ ایسا شخص پھر ہر حال اور ہر صورت اور ہر جگہ محروم ہی ہوتا ہے اگرچہ اس کے پاس بظاہر وہ ساز و سامان موجود ہو جس کو لوگ خوشحالی تصور کرتے ہیں مگر جب اس کے ساتھ اللہ کی رحمت نہیں ہوتی تو وہ سازو سامان بھی عذابِ الٰہی بن جاتا ہے۔
ایسی مشکلات جن میں اللہ کی رحمت ہوتی ہے، یہ مشکلات بذاتِ خود رحمت بن جاتی ہیں۔بعض اوقات انسان کانٹوں پر سوتا ہے مگر اللہ کی رحمت سے یہ کانٹے اس کے لیے نرم بچھونا بن جاتے ہیں، اسی طرح بعض اوقات نرم بچھونے اور نرم و نازک بستر انسان کے لیے کانٹے بن جاتے ہیں اور بہت ہی اذیت کا باعث ہوتے ہیں۔پر تعیش زندگی وبالِ جان بن جاتی ہے اور وہ خود کو مصیبت میں گھرا ہوا محسوس کرتا ہے۔
اللہ کی رحمت کے ساتھ کوئی تنگی، تنگی نہیں رہتی۔ اگرچہ وہ جیل کی تاریکیوں میں ہو یا سخت مصائب اور تکلیفوں میں۔اللہ کی رحمت کے سوا تمام کشادگیاں تنگی ہوتی ہیں۔جب انسان اللہ کی رحمت کی وجہ سے قلبی اطمینان پا لیتا ہے تو اس کے اندر نیک بختی، رضا مندی اور اطمینان کے سرچشمے پھوٹنے لگتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن ِ کریم میں کئی اوصاف کا ذکر کیا ہے، ان میں ایک وصف ’’رحمت‘‘ ہے۔بلکہ اس نے قرآنِ کریم کا آغاز ہی اپنی صفاتِ رحمت سے کیا ہے، جو ’’الرحمن‘‘ اور ’’الرحیم ‘‘ ہیں۔جب اسلام کا دستور قرآن کریم ہے تو اس دستور کی اہم صفت رحمت ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کو سترہ (۱۷) مقامات پر رحمت قرارہے ۔
ارشادِ الٰہی ہے:
’’ہم ان لوگوں کے پاس ایسی کتاب لے آئے ہیں جس کو ہم نے علم کی بنا پر مفصل بنایا ہے اور جو ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے‘‘۔ (الاعراف،۵۲)
یعنی جو لوگ اس کتاب کو مانتے ہیں وہ ان کی زندگی میں کیسی صحیح

رہنمائی کرتی ہے اور کتنی بڑی رحمت ہے کہ اس کا اثر قبول کرتے ہی ان کی ذہنیت، ان کے اخلاق اور سیرت میں بہترین انقلاب شروع ہو جاتا ہے۔
قرآنِ کریم میں ’’رحمۃ‘‘ کا ذکر ۲۶۸ مقامات پر آیا ہے، اور اکثر مقامات پر یہ لفظ اسم کے طور پر آیا ہے۔ صرف ۱۴ مقامات پر یہ فعل کے صیغے میں وارد ہؤا ہے۔
قرآنِ کریم میں رحمت کا مفہوم
٭ رحمت ، رحمن کی صفت ہے۔اور یہ اس کی جلالت اور عظمت کا اظہار کرتی ہے، ارشاد ہے:
’’میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے‘‘۔ (الاعراف، ۱۵۶)
یعنی اللہ تعالیٰ جس طریقے پر خدائی کر رہا ہے اس میں اصل چیز غضب نہیں ہے، جس میں کبھی کبھی رحم اور فضل کی شان نمودار ہو جاتی ہو، بلکہ اصل چیز رحم ہے جس پر سارا نظامِ عالم قائم ہے، اور اس میں غضب صرف اس وقت نمودار ہوتا ہے جب بندوں کا تمرّد حد سے فزوں ہو جاتا ہے۔(تفہیم القرآن، نفس الآیۃ)
یہ اللہ کی بے قید مشیت کی حکمرانی کا اعلان ہے، جس نے اس کائنات کے لیے اپنے اختیار سے ایک قانون وضع کیا ہے اور اسے اپنی مرضی سے جاری کیا ہے اور اسے اپنے اوپر لازم کیا ہے کہ وہ اسے عدل و انصاف کے ساتھ چلائے گا، کیونکہ عدل اس کی اہم صفت ہے، اور عذاب اسی شخص پر آتا ہے جو اللہ کے نزدیک مستحق ِ عذاب ہو، یہی اس کی مشیت کا تقاضا ہے۔ اس کی رحمت نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور رحمت بھی مستحقِ رحمت کو ملتی ہے۔ (فی ظلال القرآن، تفسیر نفس الآیۃ)
٭ قرآن رحمت ہے، فرمایا:
’’یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں تمھارے رب کی طرف سے، اور ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو اسے قبول کریں‘‘۔ (الاعراف،۲۰۳)
یعنی قرآن میں بصیرت افروز نشانیاں موجود ہیں، اور اس کی نمایاں ترین خوبی یہ ہے کہ جو لوگ اسے مان لیتے ہیں انھیں سیدھا راستہ مل جاتا ہے اور ان کے اخلاقِ حسنہ میں رحمتِ الٰہی کے آثار صاف ہویدا ہونے لگتے ہیں۔ اسی لیے فرمایا:
’’جب قرآن تمھارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو، شاید کہ تم پر بھی رحمت ہو جائے‘‘۔ (الاعراف، ۲۰۴)
اس کی رحمت انہیں لوگوں کے حصّے میں آتی ہے جو توجہ اور خاموشی سے اسے سنتے ہیں۔کیونکہ یہ فضا اللہ کی رحمت کی امیدواری کی فضا ہے۔
فرمایا:
’’ہم اس قرآن کے سلسلہء تنزیل میں وہ کچھ نازل کر رہے ہیں جو ماننے والوں کے لیے تو شفاء اور رحمت ہے، مگر ظالموں کے لیے خسارے کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا‘‘۔ (الاسراء، ۸۲)
یعنی جو اس قرآن کو اپنے لیے شفاء اور رحمت مان لیں ان کے لیے تو یہ خدا کی رحمت اور ان کے تمام ذہنی، نفسانی، اخلاقی اور تمدّنی امراض کا علاج ہے، اور جو اسے رد کر دیں انھیں یہ اس سے بھی زیادہ خسارے میں ڈال دیتا ہے۔اور جب انسان اللہ کی رحمت اور شفاء سے محروم کر دیا جائے اور اسے سفلی جذبات اور میلانات کے حوالے کر دیا جائے، تو اگر وہ مالدار ہے تو وہ اور زیادہ مغرور متکبر اور سرکش ہو جاتا ہے۔ اور اگر اس پر کوئی مصیبت یا بدحالی آجائے تو وہ اللہ کی رحمت سے مایوس اور قنوطی ہو جاتا ہے اور اس کے سامنے زندگی تاریک ہی تاریک نظر آتی ہے۔
وحی بھی رحمت ہے
صالحؑ نے کہا: ’’اے براداران ِ قوم! تم نے کچھ اس بات پر بھی غور کیاکہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا، اور پھر اس نے اپنی رحمت سے بھی مجھ کو نواز دیا‘‘۔ (ھود، ۶۳)
یعنی اللہ نے مجھے اپنی رحمت (یعنی وحی) سے نوازا اور ان حقائق کا براہِ راست علم مجھے بخش دیا جن پر میرا دل پہلے سے گواہی دے رہا تھا۔اللہ نے مجھے اپنا رسول ہونے کا منصب دیا ہے اور یہ اس کی جانب سے میرے لیے رحمت ہے اور بے شک یہ ایک عظیم رحمت ہے۔
اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں رحمت کا لفظ کم از کم

اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں رحمت کا لفظ کم از کم سولہ(۱۶) مفاہیم میں استعمال کیا ہے:
۱- اسلام:
’’اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت کے لیے چن لیتا ہے‘‘۔ (البقرۃ،۱۰۵)اللہ ہی اس بات کو جانتا ہے کہ اس کی امانت و رسالت کا بہترین مہبط کہاں ہے۔ اور اللہ نے ہی اس کلام کو محمد ﷺ پر اتارا ہے۔
۲ ۔جنت:
’’رہے وہ لوگ جن کے چہرے روشن ہوں گے تو وہ اللہ کی رحمت میں ہوں گے‘‘۔ (آل عمران، ۱۰۷)ایمان اور محبت و الفت اللہ تعالیٰ کے عظیم انعامات ہیں۔جو ان صفات سے متصف ہوتے ہیں انہیں اللہ کی خاص رحمت ملتی ہے۔
۳ ۔کشائش:
’’یہ تمہارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے‘‘۔ (البقرۃ،۱۷۸) یعنی اگر(قاتل اور مقتول کے ورثاء) فریقین کے درمیا ن راضی نامہ ہو جائے اور دل ایک دسرے سے صاف ہو جائیں تو اللہ کی رحمت سے نہ صرف باہم رنجشیں مٹ جائیں گی بلکہ ایک شخص کی زندگی بھی بچ جائے گی۔
۴ ۔مغفرت:
’’تمہارے رب نے رحم و کرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کر لیا ہے‘‘۔(الانعام،۵۴)یعنی اللہ تعالیٰ پلٹ آنے والے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے۔اسی لیے وہ اپنے بندوں کو گناہوں کے بعد بھی معافی کی امید دلاتا ہے، ارشاد ہے: ’’(اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ، یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ تو غفورو رحیم ہے‘‘۔(الزمر،۵۳)
۵۔ بارش:
’’اور وہ اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو اپنی رحمت کے آگے آگے خوش خبری لیے ہوئے بھیجتا ہے‘‘۔(الاعراف،۵۷)یعنی بارش کے آنے سے پہلے ہوائیں اس نعمت کی خوش خبری لاتی ہیں، اور بارش میں وہ روئیدگی ہے جس سے مردہ پڑی ہوئی زمین لہلا اٹھتی ہے اور زندگی کے خزانے ابل پڑتے ہیں۔
۶۔ قرآن:
’’اے نبیؐ ! کہو کہ یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے‘‘۔ (یونس،۵۸)یعنی بندوں کے لیے خوشی کی چیز قرآن اور اللہ کا فضل و کرم ہی ہے، اس کے علاوہ دنیا کی کوئی راحت اور نعمت موجبِ فرح نہیں۔مجاہدؒ اور قتادہؒ کہتے ہیں کہ اللہ کا فضل ایمان ہے اور اللہ کی رحمت یہ ہے کہ اللہ نے ہم کو اہلِ قرآن بنایا۔
۷۔ ایمان:
’’اس نے کہا: اے برادرانِ قوم! ذرا سوچو تو سہی کہ میں اپنے رب کی طرف سے ایک کھلی شہادت پرقائم تھا اور پھر اس نے مجھ کو اپنی خاص رحمت سے بھی نواز دیا‘‘۔ (ھود،۲۸)حضرت نوحؑ بڑی نرم کلامی سے اپنی قوم کو بتا رہے ہیں کہ عقیدے کا معاملہ خالص کسی شخص کی سمجھ پر موقوف ہے۔ اس باب میں کسی پر کوئی زبردستی نہیں کی جا سکتی اور نہ کسی پر کوئی عقیدہ ٹھونسا جا سکتا ہے، خواہ کوئی کسی پر کتنا ہی جبر اور تشدد کر لے، وہ اس کا عقیدہ نہیں بدل سکتا۔
۸۔ عصمت:
’’نفس تو بدی پر اکساتا ہی ہے، الا یہ کہ کسی پر میرے رب کی رحمت ہو ، بے شک میرا رب غفور اور رحیم ہے‘‘۔ (یوسف،۵۳) یعنی جسے اس کا رب بچا لے وہی برائی سے بچ پاتا ہے۔
۹۔ رزق:
’’اے پروردگار! ہم کو اپنی رحمتِ خاص سے نواز‘‘۔ (الکھف،۱۰) یہاںرحمتِ خاص سے مراد نعمت اور رزق ہے۔مزید فرمایا: ’’اے نبیؐ ان سے کہہ دو: اگر کہیں میرے رب کی رحمت کے خزانے تمہارے قبضے میں ہوتے تو تم خرچ ہو جانے کے اندیشے سے ضرور ان کو روک رکھتے‘‘۔(بنی اسرائیل،۱۰۰)بیضاویؒ کہتے ہیں: رزق کے خزانے اور اس کی ساری نعمتیں مراد ہیں۔

۱۰۔ نعمت:
’’وہاں انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایاجسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا‘‘۔ (الکھف،۶۵)
۱۱- احسان:
’’مگر یہ تمہارے رب کی رحمت ہے (کہ تم کو یہ معلومات دی جا رہی ہیں)‘‘۔ (القصص، ۴۶)
۱۲ ۔مدد:
’’اور اس کی رحمت کو کون روک سکتا ہے اگر وہ تم پر مہربانی کرنا چاہے؟‘‘۔ (الاحزاب،۱۷)قرطبیؒ کہتے ہیں: اس سے مراد خیر،نصرت اور عافیت ہے۔
۱۳ ۔عافیت:
’’یا اللہ مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو کیا یہ (دیویاں) اس کی رحمت کو روک سکیں گی؟‘‘۔ (الزمر،۳۸)
۱۴ ۔نبوت:
’’کیا تیرے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں؟‘‘۔ (الزخرف، ۳۲)
۱۵۔ مودّت:
’’وہ کفّار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں‘‘۔ (الفتح، ۲۹)بغوی ؒ کہتے ہیں: یہ ایسی مودت اور مہربانی ہے جیسے باپ اور بیٹے کے درمیان ہوتی ہے۔
۱۶ ۔رقیق القلبی:
’’ان کے دلوں میں ہم نے ترس اور رحم ڈال دیا‘‘۔ (الحدید،۲۷)یعنی ان میں ایسی مہربانی پیدا کر دی کہ وہ باہم درشتی اور قساوت سے پیش نہیں آتے بلکہ رحم دلی برتتے ہیں۔
اس سے مراد وہ رحم اور رقیق القلبی ہیں۔ رافت وہ جذبہ ہے جو کسی کو تکلیف اور مصیبت میں دیکھ کر ایک شخص کے دل میں پیدا ہو۔اور رحمت سے مراد وہ جذبہ ہے جس کے تحت وہ آگے بڑھ کر کسی کی مدد کی کوشش کرے۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت کے رنگ
مومن اللہ سے رحمت کا طالب ہوتا ہے، اور وہ اس کے سامنے دست دعا دراز کرتا ہے، اور اللہ کے سوا اور کون ہے جو پکارنے والے کو جواب دے اور اس کی طلب عطا فرما دے۔ صرف کافر ہی اللہ کی رحمت سے مایوس ہوتے ہیں۔ورنہ اللہ کی رحمت تو کسی جگہ ناپید نہیں ہے۔
٭ حضرت ابراہیمؑ نے اسے آگ میں پایا، جب اس نے اسے ٹھنڈی اور سلامتی والی بنا دیا۔
٭ یونس ؑ نے اسے مچھلی کے پیٹ کے اندھیروں میں پایا، عاجزی کے ساتھ پکارا: ’’نہیں ہے کوئی خدا مگر تو، پاک ہے تیری ذات، بے شک میں نے قصور کیا‘‘۔ (الانبیاء،۸۷)اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ان کی دعا قبول کی اور انہیں نجات عطا فرمائی۔
٭ موسیٰ ؑنے اسے سمندر کی لہروں میں پایا جبکہ وہ طفلِ ناتواں تھے۔ پھر انہوں نے اسے فرعون کے محل میں پایا جبکہ وہ ان کا دشمن ہو گیا تھا اور سمندر کی موجوں میں پایا جب ان کی آنکھوں کے سامنے ان کا دشمن غرقاب ہو رہا تھا۔
٭ اصحابِ کہف نے اسے غار میں پایا جب کہ محلات اور شہروں میں وہ اس سے محروم رہے تھے اور اس نے فیصلہ کیا: ’’ غار میں پناہ لے لو، تمھارا رب تمھارے لیے اپنی رحمت کی چادر بچھا دے گا‘‘ اور پھران کے رب نے انہیں تین سو برس تک تھپک کر سلا دیا تھا۔
٭ رسول اللہؐ اور ان کے رفیق نے اسے غار میں پایا جبکہ کفار ان کا تعاقب کر رہے تھے، اور ان کے قدموں کے نشانات کو تلاش کرتے غار کے دہانے تک پہنچ چکے تھے۔ جب حضرت ابوبکر ؓکے چہرے پر خوف کے آثار نمایاں ہوئے اور آپؐ نے بڑھ کر تسلی دی: ’’لا تحزن ان اللہ معنا‘‘۔ (غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے)
اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سینکڑوں ہزارں اور لاکھوں رنگ ہیں۔ یہ رحمت ہر اس شخص کو ملتی ہے جو تمام دوسرے ذرائع سے مایوس ہو جائے اور اسے بالکل یہ امید نہ رہے کہ اللہ کے سوا کوئی اور قوت بھی بچانے والی ہے۔ اور اسے یقین ہو جائے کہ اب اللہ کی رحمت ہی بچانے والی ہے تو اللہ اس کے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اور جس دروازے کو اللہ کھول دے اسے بند کرنے والا کوئی دوسرا نہیں۔

رحمت ہی رحمت
اللہ تعالیٰ کی رحمت صرف دینے اور عطا کرنے تک ہی محدود نہیں، بلکہ کسی چیز کو روک دینا یا اسے حرام بنا دینا بھی اس کی رحمت ہے۔ کبھی وہ اپنے بندوں پر رحمت کی بنا پر رزق روک دیتا ہے۔موٹے تازہ اور پلے پلائے جانوروں میں سے بعض کا گوشت کھانا اس پر حرام کر دیتا ہے، بعض مشروبات کو حرام قرار دیتا ہے، کسب کے بعض ذرائع سے منع کر دیتا ہے۔ قربت کے کسی انداز کو نکاح قرار دیتا ہے اور اسے حلال کر دیتا ہے جبکہ سفاح اور زنا کو مطلق حرام قرار دیتا ہے۔اور یہ سب بھی بندوں پر اس کی رحمت ہی ہے۔کیونکہ اس کی بتائی ہو حرمتوں کو حرام سمجھنا ان تمام تکلیفوں اور پریشانیوں سے بچا دیتا ہے، جن کی بنا پر اللہ نے ان چیزوں کو حرام کیا ہے۔ وہ معاشرے جن میں حرام کھانا عام ہے، اور اللہ کی حرمتوں کو توڑ کر سفاح اور زنا جیسے برے افعال عام ہیں وہ معاشرے اخلاقی اعتبار سے بھی گراوٹ کا شکار ہیں اور ان میں امراضِ خبیثہ کی بھی کثرت پائی جاتی ہے۔ پس اللہ کی حرمتیں انسانوں کے لیے بہت بڑی رحمت ہیں۔
رحمت کا احساس بھی رحمت
اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر آن اہل ِ دنیا پر برستی ہیں، لیکن کتنے دل ایسے ہیں جو اس کی رحمت کو محسوس کرتے ہیں؟ جب آپ اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس پر توکل کرتے ہیں تو یہ احساس بھی اللہ کی رحمت ہی کی بنا پر ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل کرنا چاہتا ہے اسے اللہ کا تقویٰ اختیار کرنا چاہیے۔اور اس کا اظہار درج ذیل چیزوں میں ہونا چاہیے:
۱ ۔اللہ تعالیٰ کی اطاعت
۲ ۔گناہوں سے اجتناب
۳ ۔اپنے مال میں حقوق کو ادا کرنا
۴ ۔اللہ تعالیٰ کے پیغامات (قرآن وسنت) پر بلا تردد ایمان لانا اور اسے قبول کرنا۔
رحمت مانگنا سنت ہے
اللہ تعالیٰ نہایت رحیم و کریم رب ہے اس نے سکھایا کہ اس سے کس طرح رحمت و مغفرت مانگی جائے، تاکہ جذبات کسی نامناسب رخ پر نہ بہنے پائیںاور بلند اور پاکیزہ جذبات سے اللہ سے مانگا جائے۔
اس دنیا کے امتحان میںکامیاب ہونے کی واحد گارنٹی اللہ کی رضامندی کا حصول ہے۔ اور بندے کے اعمال میں کوئی کمی رہ جائے تو اللہ کا فضل اور عفو ودرگزر اور اس کی رحمت ہی ہوگی جو اس کو پار لگائے گی۔اسی لیے بندہ اللہ کے مضبوط سہارے کو تھامتا ہے اور اللہ سے مغفرت اور رحمت کا سوال کرتا ہے جیسا کہ اس کے رب نے اسے سکھایا ہے:
’’اے ہمارے رب ، ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے درگزر فرما، ہم پر رحم فرما، تو ہمارا مولا ہے۔ کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر‘‘۔ (البقرۃ،۲۸۶)
اصحابِ کہف نے بھی انتہائی مشکل حالات میں اللہ سے رحمت مانگی۔اور اللہ نے اپنی رحمت کا دامن ان پر وسیع کر دیا۔ خضرؑ کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت اور علم سے نوازا تھا۔ جن یتیم بچوں کے مدفون خزانے کی حفاظت کی خاطر دیوار تعمیر کروائی گئی وہ بھی اللہ کی رحمت ہی کی شان تھی۔اور ذو القرنین کے ہاتھوں ظلم کو روک کر حق داروں کی حمایت اور مدد بھی اللہ کی توفیق اور اس کی رحمت سے تھی۔
اللہ ہی سے رحمت اور مغفرت طلب کرنا رسول اللہ ؐ کی سنت ہے۔مسنون دعاؤں میں اللہ سے مغفرت اور رحمت مانگنا اور اللہ کی صفت غفور ورحیم کا تذکرہ کثرت سے ملتا ہے۔
مسجد میں داخل ہوتے وقت اسی رب سے بندے دعا مانگتے ہیں: ’’اللھم افتح لی ابواب رحمتک‘‘۔ (اے اللہ میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔)گویا ہر روز کم ازکم پانچ مرتبہ مسلمان اس سے رحمت مانگتے ہیں۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ، سلامتی کی مسنون دعا ہے جو ہر مسلمان کا

السلام علیکم ورحمۃ اللہ، سلامتی کی مسنون دعا ہے جو ہر مسلمان کا ملاقات کے موقع پر کہنا اسلامی شعار ہے۔
اللہ کی رحمت کی پھوار
٭ اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں کے قریب ہے۔ (الاعراف،۵۶)
٭ جب بھی انسانوں نے اللہ تعالیٰ کے پیغام کو بھلا دیا ، اللہ تعالیٰ نے خبردار کرنے والا پیغمبر بھیج دیااور اس کا مقصد یہ بیان کیا:
’’تاکہ تم غلط روی سے بچ جاؤ اور تم پر رحم کیا جائے‘‘۔ (الاعراف،،۶۳)
٭ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خزانے بے بہا ہیں، وہ خود فرماتا ہے:
’’میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ جس طریقے پر خدائی کر رہا ہے اس میں اصل چیز غضب نہیں ہے جس میں کبھی کبھی رحم اور فضل کی شان نمودار ہوتی ہو بلکہ اصل چیز رحم ہے جس پر سارا نظام ِ عالم قائم ہے، اور اس میں غضب صرف اس وقت نمودار ہوتا ہے جب بندوں کا تمرّد حد سے فزوں ہو جاتا ہے۔ (تفہیم القرآن،ج۲،ص۸۴)
٭ سچے مومن ہی رحمت کے مستحق ہیں۔
’’مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہو کر رہے گی‘‘۔ (التوبۃ،۷۱)
٭ بڑھاپے میں اولاد ملنا اللہ کی رحمت ہے۔حضرت سارہؑ کو فرشتوں کی خوش خبری پر حیرت ہوئی تو فرشتوں نے ان سے کہا:
’’اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہو؟ ابراہیمؑ کے گھر والو! تم لوگوں پر تو اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں‘‘۔ (ھود،۷۳)
یعنی اللہ کی قدرت سے کچھ بھی بعید نہیں ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ عذاب کا فیصلہ صادر کرتے ہوئے اپنے انبیاؑ اور مومنین پر رحمت فرماتے ہیں، ارشاد ہے:
’’آخر کار جب ہمارے فیصلے کا وقت آگیا تو ہم نے اپنی رحمت سے شعیبؑ اور اس کے ساتھی مومنوں کو بچا لیا اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا انہیں ایک دھماکے نے آپکڑا‘‘۔ (ھود، ۹۴)
قیامت کے روز رحمت
اہل ِ ایمان جب جنت کی جانب جا رہے ہوں گے تو روشنی ان کے آگے اور دائیں جانب ہو گی،’’ منافق پکار کر کہیں گے کہ ذرا ٹھہرو تاکہ ہمیں بھی اس کا کچھ حصّہ مل جائے، تو ان کے مابین ایک دیوار حائل کر دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہو گا، اس دروازے کے اندر رحمت ہوگی اور باہر عذاب‘‘۔ (الحدید، ۱۳)یہ ایک ایسی دیوار ہو گی جس کے اس پار نظر تو نہ آئے گا مگر آواز سنائی دے گی۔
پس اللہ کی رحمت کی کنجی تمام دروازوں کے لیے کلیدی چابی ہے۔ اس سے تمام دروازے کھل جاتے ہیں، اور اس سے تمام چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں بند ہو جاتی ہیں اور تمام غلط راہیں مسدود ہو جاتی ہیں، اور انسان بے فکر ہو جاتا ہے۔اللہ کی رحمت کا دروازہ کھل جائے تو وسعت، کشادگی اور آرام و سکون حاصل ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا دروازہ ہے جوبند ہو جائے تو انسان تنگی کرب ، سختی ، بے چینی اور داماندگی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
اگر بندے کو اللہ کا فیض ڈھانپ لے تو پھر بظاہر تنگ زندگی بھی تنگی کا باعث نہیں ہوتی کہ یہ فیض رحمت ہی دائمی راحت اور سعادت ہے۔
٭٭٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
2 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x