ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

مسئلہ فلسطین تاریخی تناظرمیں – سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ

فلسطینی مسلم آبادی پر اسرائیل کے بہیمانہ ظلم اوردہشت گردی کا پس منظرکیا ہے،مسئلہ فلسطین دراصل کیوں پیدا ہؤا ، اقوام عالم میں کس نے کیا کردار ادا کیا ، اس میں کون کون سے نمایاں تاریخی موڑ آئے ، یہ تحریرجومسجد اقصیٰ میں ہونے والی آتش زدگی کے بعد 1970 میں شائع ہوئی ان سوالوں کے جواب دیتی ہے ۔

 

یہودی عزائم کی تاریخ
بیت المقدس اورفلسطین کے متعلق آپ کویہ معلوم ہونا چاہیے کہ تقریباًتیرہ سوبرس قبل مسیح میں بنی اسرائیل اس علاقے میں داخل ہوئے تھے اوردو صدیوں کی مسلسل کشمکش کے بعد بالآخراس پرقابض ہوگئے تھے۔ وہ اس سر زمین کے اصل باشندے نہیں تھے ۔ قدیم باشندے دوسرے لوگ تھے جن کے قبائل اور اقوام کے نام خود بائبل میںتفصیل کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں ، اور بائبل ہی کی تصریحات سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل نے ان قوموں کا قتلِ عام کر کے اس سر زمین پر اسی طرح قبضہ کیا تھا جس طرح فرنیگوں نے سرخ ہندیوں (Red Indians)کو فنا کرکے امریکہ پر قبضہ کیا ۔ ان کا دعویٰ یہ تھا کہ خدا نے یہ ملک ان کی میراث میں دے دیا ہے ، اس لیے انھیں حق پہنچتاہے کہ اس کے اصل باشندوں کو بے دخل کر کے ، بلکہ ان کی نسل کو مٹا کر اس پر قابض ہو جائیں۔
اس کے بعد آٹھویں صدی قبل مسیح میں ،اسیریا نے شمالی فلسطین پر قبضہ کر کے اسرائیلیوں کا بالکل قلع قمع کر دیا اور ان کی جگہ دوسری قوموں کو لا بسایا جو زیادہ تر عربی النسل تھیں ۔ پھر چھٹی صدی قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے جنوبی فلسطین پر قبضہ کر کے تمام یہودیوں کو جلا وطن کر دیا ۔ بیت المقدس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ، اور ہیکل سلیمانی(Temple of Solomon) کو جسے دسویں صدی قبل مسیح میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کرایا تھا ، اس طرح پیوند خاک کر دیا کہ اس کی ایک دیوار بھی اپنی جگہ قائم نہ رہی۔ ایک طویل مدت کی جلا وطنی کے بعد ایرانیوں کے دورِ حکومت میں یہودیوںکو پھر سے جنوبی فلسطین میں آکر آباد ہونے کا موقع ملا اور انہوں نے بیت المقدس میں دوبارہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی۔ لیکن یہ دوسرا وقفہ بھی تین چار سو برس سے زیادہ دراز نہ ہؤا۔۷۰ء میں یہودیوں نے رومی سلطنت کے خلاف بغاوت کی جس کی پاداش میں بیت المقدس کے شہر اور ہیکل سلیمانی کو بالکل مسمار کردیا گیا ، اور پھر ایک دوسری بغاوت کو کچل کر ۱۳۵ء میں رومیوں نے پورے فلسطین سے یہودیوںکو نکال باہر کیا ۔ اس دوسرے اخراج کے بعد جنوبی فلسطین میں بھی اسی طرح عربی النسل قبائل آباد ہوگئے جس طرح شمالی فلسطین میں وہ آٹھ سو برس پہلے آباد ہوئے تھے ۔ اسلام کی آمد سے پہلے یہ پورا علاقہ عربی قوموں سے آباد تھا ۔ بیت المقدس میں یہودیوں کا داخلہ تک رومیوں نے قانوناً ممنوع کر رکھا تھا اورفلسطین میں بھی یہودی آبادی قریب قریب نا پید تھی۔
اس تاریخ سے یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ :
(۱) یہودی ابتداً نسل کشی(Genocide)کے مرتکب ہوکر فلسطین پرزبردستی قابل ہوئے تھے۔
(۲) شمالی فلسطین میں صرف چار پانچ سو برس تک وہ آباد رہے ۔
(۳) جنوبی فلسطین میں ان کے قیام کی مدت زیادہ سے زیادہ آٹھ نو سو برس رہی۔
(۴) اور عرب شمالی فلسطین میں ڈھائی ہزار سال اور جنوبی فلسطین میں تقریباً دو ہزار سال آباد چلے آ رہے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود یہودیوں کا آج بھی یہ دعویٰ ہے کہ فلسطین ان کے باپ دادا کی میراث ہے جو خدا نے انھیں عطا فرمائی ہے ۔ اور انھیں حق پہنچتا ہے کہ اس میراث کو بزور حاصل کر کے اس علاقے کے قدیم باشندوں کو اسی طرح نکال باہر کردیں اور خود اُن کی جگہ بس جائیں جس طرح تیرہ سو برس قبل مسیح میں انہوںنے کیا تھا ۔
دو ہزار برس سے دنیا بھر کے یہودی ہفتے میں چار مرتبہ یہ دعائیں مانگتے رہے ہیں بیت المقدس پھر ہمارے ہاتھ آئے اور ہم ہیکل سلیمانی کو پھر تعمیر کریں ۔ ہر یہودی گھر میں مذہبی تقریبات کے موقع پر اس تاریخ کا پورا ڈراما کھیلا جاتا رہا ہے کہ ہم مصر سے کس طرح نکلے اورفلسطین میں کس طرح آباد ہوئے اور کیسے بابل والے ہم کو لے گئے اور ہم کس طرح سے فلسطین سے نکالے گئے اور تتر بتر ہوئے ۔ اس طرح یہودیوں کے بچے بچے کے دماغ میں یہ بات ۲۰ صدیوں سے بٹھائی جا رہی ہے کہ فلسطین تمہارا ہے اور تمہیں واپس ملنا ہے اور تمہارا مقصدِ زندگی یہ ہے کہ تم بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی کو پھر تعمیر کرو۔ بارہویں صدی عیسوی کے مشہور یہودی فلسفی موسیٰ بن میمون (Maimon IBES) نے اپنی کتاب شریعت یہود(The Code of je wishlaw) میں صاف صاف لکھا ہے کہ ہر یہودی نسل کا یہ فرض ہے کہ وہ بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی کو از سر نو تعمیر کرے ۔ مشہور فری میسن تحریک (Freemason movement)بھی جس کے متعلق ہمارے ملک کے اخبارات میں قریب قریب سارے ہی حقائق اب شائع ہوچکے ہیں ، اصلاً ایک یہودی تحریک ہے ، اوراس میں بھی ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو کو مقصود قرار دیا گیا ہے۔ بلکہ پوری فری میسن تحریک کا مرکزی تصور یہی ہے ، اور تمام فری میسن لا جوں میں اس کا باقاعدہ ڈراما ہوتا ہے کہ کس طرح سے ہیکل سلیمانی کودوبار ہ تعمیر کرنا ہے ۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ مسجدِ اقصیٰ میں آگ لگنا کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے ۔ صدیوں سے یہودی قوم کی زندگی کا نصب العین یہی رہا ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی کو تعمیر کرے ، اور اب بیت المقدس پر ان کا قبضہ ہو جانے کے بعد یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے اس نصب العین کو پورا کرنے سے باز رہ جائیں۔
یہودیوں کی احسان فراموشی
آگے بڑھنے سے پہلے میں ایک بات کی اور وضاحت کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہیکل سلیمانی کے متعلق یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ اسے ۷۰ء میں بالکل مسما ر کر دیا گیا تھا اور حضرت عمر ؓ کے زمانے میں جب بیت المقدس فتح ہؤا اور اس وقت یہودیوں کا کوئی معبد نہ تھا ، بلکہ کھنڈر پڑے ہوئے تھے ۔ اس لیے مسجدِ اقصیٰ اور قبہ صخرہ کی تعمیر کے بارے میں کوئی یہودی یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ ان کے کسی معبد کو توڑ کر مسلمانوں نے یہ مساجد بنائی تھیں ۔ یہ بات بھی تاریخ سے ثابت ہے کہ رومیوں کے زمانے میںفلسطین یہودیوں سے خالی کرالیا گیا تھا اوربیت المقدس میں تو ان کاداخلہ بھی ممنوع تھا ۔ یہ مسلمانوں کی شرافت تھی کہ انہوں نے پھر انہیں وہاں رہنے اور بسنے کی اجازت دی ۔ تاریخ اس بات پر بھی شاہد ہے کہ پچھلی تیرہ چودہ صدیوں میں یہودیوں کو اگر کہیں امن نصیب ہؤا ہے تو وہ صرف مسلمان ملک تھے ۔ ورنہ دنیا کے ہر حصے میں جہاں بھی عیسائیوں کی حکومت رہی وہاں وہ ظلم و ستم کا نشانہ ہی بنتے رہے ۔ یہودیوں کے اپنے مورخین اعتراف کرتے ہیںکہ ان کی تاریخ کا سب سے زیادہ شاندار دور وہ تھا جب وہ اندلس میں مسلمانوں کی رعایا کی حیثیت سے آباد تھے ۔ یہ بھی مسلمانوں ہی کی عنایت تے انہیں ملی تھی ۔ ممبئی سے اسرائیل حکومت کا ایک سرکاری بلیٹن’’ News from Israel‘‘شائع ہوتا ہے ۔ اس کی یکم جولائی ۱۹۶۷ء کی اشاعت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ دیوارِ گریہ پہلے ملبے اور کوڑے کرکٹ میں دبی ہوئی تھی اوراس کا کوئی نشان تک لوگوں کو معلوم نہ تھا ۔ سولہویں صدی عیسوی میں سلطان سلیم عثمانی کو اتفاقاً اس کے وجود کا علم ہؤا اور اس نے اس جگہ کو صاف کرا کے یہودیوں کو اس کی زیارت کی اجازت عطا کی ۔ لیکن یہودی ایک ایسی احسان فراموش قوم ہے کہ وہ مسلمانوں کی شرافت اور فیاضی اور حسن سلوک کا بدلہ آج اس شکل میں ان کو دے رہی ہے ۔
یہودیوں کی منصوبہ بندی
اب میں مختصر طور پر آپ کو بتائوں گا کہ ان ظالموں نے کس طرح باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے فلسطین اور بیت المقدس پر قبضہ کرنے کے لیے کام کیا ہے ۔ سب سے پہلے ان کے ہاں ایک تحریک شروع ہوئی کہ مختلف علاقوں سے یہودی ہجرت کر کے فلسطین میں جا کر آباد ہوں اور وہاں زمینیں خریدنی شروع کریں ۔ چنانچہ ۱۸۸۰ء سے اس مہاجرت کا سلسلہ شروع ہؤا، اور زیادہ تر مشرقی یورپ سے یہودی خاندان وہاںمنتقل ہونے لگے ۔ اس کے بعد مشہور یہودی لیڈر تھیوڈور ہرتزل(Herzl) نے ۱۸۹۷ء میں صیہونی تحریک (Zionist movement)کا باقاعدہ آغاز کیا اور اس میں اس بات کو مقصود قرار دیا گیا کہ فلسطین پردوبارہ قبضہ حاصل کیا جائے اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی جائے ۔ یہودی سرمایہ داروں نے اس غرض کے لیے بڑے پیمانے پرمالی امداد فراہم کی کہ فلسطین منتقل ہونے والے یہودی خاندان وہاں زمینیں خریدیں اور منظم طریقے سے اپنی بستیاں بسائیں ۔ پھر ۱۹۰۱ء میں ہر تزل نے سلطان عبد الحمید خاں (سلطانِ ترکی) کو باقاعدہ یہ پیغام بھجوایا کہ یہودی ترکی کے تمام قرضے ادا کرنے کو تیار ہیں ، آپ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کی اجازت دے دیں ۔ مگر سلطان عبد الحمید خاں نے اس پیغام پر تھوک دیا اور صاف کہہ دیا کہ ’’ جب تک میں زندہ ہوں اور جب تک ترکی سلطنت موجود ہے اس وقت تک اس کا کوئی امکان نہیںہے کہ فلسطین یہودیوں کے حوالے کیا جائے ، تمہاری ساری دولت پر میں تھوکتا ہوں ‘‘۔ جس شخص کے ہاتھ یہ پیغام بھیجا گیا تھا اس کا نام تھا ، حاخام قرہ صو آفندی ۔ یہ سالونیکا کا یہودی باشندہ تھا اور ان یہودی خاندانوں میں سے تھا جو سپین سے نکالے جانے کے بعد ترکی میں آباد ہوئے تھے ۔ ترکی رعایا ہونے کے باوجود اس نے یہ جرأت کی کہ سلطان ترکی کے دربار میں پہنچ کر فلسطین کو یہودیوں کے حوالے کرنے کا مطالبہ پیش کرے ۔ اسی پر بس نہیں ، بلکہ سلطان عبد الحمید خاں کا جواب سن کر ہر تزل کی طرف سے ان کو صاف صاف یہ دھمکی دے دی گئی کہ تم اس کا برا نتیجہ دیکھو گے ۔ چنانچہ اس کے بعد فوراً ہی سلطان عبد الحمید کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازشیں شروع ہو گئیں جن میں فری میسن ،دونمہ ؎۱ اور وہ مسلمان نوجوان شریک تھے جو مغربی تعلیم کے زیر اثر آکر ترکی قوم پر ستی کے علمبر دار بن گئے تھے۔ ان لوگوں نے ترکی فوج میں اپنے اثرات پھیلائے اور سات سال کے بعد اندر ان کی سازشیں پختہ ہو کر اس منزل پر پہنچ گئیں کہ سلطان عبد الحمید کو معزول کردیں ۔ اس موقع پر جو انتہائی عبرتناک واقعہ پیش آیا وہ یہ تھا کہ ۱۹۰۸ء میں جو تین آدمی سلطان کی معزولی کا پروانہ لے کر ان کے پاس گئے تھے ان میں دو ترک تھے اور تیسراوہی حاخام قرہ صوآفندی تھا جس کے ہاتھ ہرتزل نے فلسطین کو یہودیوں کے حوالہ کرنے کا مطالبہ سلطان کے پاس بھیجا تھا ۔ مسلمانوں کی بے غیرتی کا اس سے اندازہ کیجیے کہ اپنے سلطان کی معزولی کاپروانہ بھیجتے بھی ہیں تو ایک ایسے یہودی کے ہاتھ جو سات ہی برس پہلے اسی سلطان کے پاس فلسطین کی حوالگی کا مطالبہ لے کر گیا تھا ۔ اور اس سے سخت جواب سن کر آیا تھا ۔ ذرا تصور کیجیے کہ سلطان کے دل پر کیا گزری ہو گی جب وہی یہودی ان کی معزولی کا پروانہ لیے ہوئے ان کے سامنے کھڑا تھا۔
ترکی اور عربی قوم پرستی کا تصادم
اسی زمانے میں ایک دوسری سازش بھی زور شور سے چل رہی تھی جس کا مقصد ترکی سلطنت کے ٹکڑے اڑانا تھا اور اس سازش میں بھی مغربی سیاست کاروں کے ساتھ ساتھ یہودی دماغ ابتدا سے کار فرما رہا ۔ ایک طرف ترکوں میں یہ تحریک اٹھائی گئی کہ وہ سلطنت کی بنا اسلامی اخوات کے بجائے ترکی قوم پرستی پر رکھیں ۔ حالانکہ ترکی سلطنت میں صرف ترک ہی آباد نہیں تھے بلکہ عرب اور کرد اور دوسری نسلوں کے مسلمان بھی تھے ۔ ایسی سلطنت کو صرف ترکی قوم کی سلطنت قرار دینے کے صاف معنی یہ تھے کہ تمام غیر ترک مسلمانوں کی ہمدردیاں اس کے ساتھ ختم ہو جائیں ۔ دوسری طرف عربوں کو عربی قومیت کا سبق پڑھایا گیا اور ان کے دماغ میں یہ بات بٹھائی گئی کہ وہ ترکوں کو غلامی سے آزاد ہونے کی جدوجہد کریں ۔ عربوں میں اس عرب قوم پرستی کا فتنہ اٹھانے والے عیسائی عرب تھے ۔بیروت اس کا مرکز تھا اور بیروت کی امریکن یونیورسٹی اس کو فروغ دینے کا ذریعہ بنی ہوئی تھی اس طرح ترکوں اور عربوں میں بیک وقت دو متضاد قسم کی قوم پرستیاںابھاری گئیں اور ان کویہاں تک بڑھاکایا گیا کہ ۱۹۱۴ء میں جب پہلی جنگ عظیم برپا ہوئی توترک اور عرب ایک دوسرے کے رفیق ہونے کے بجائے دشمن اورخون کے پیاسے بن کر آمنے سامنے کھڑے ہو گئے ۔
جنگ عظیم اوّل اور اعلان بالفور
پہلی جنگ عظیم میں ابتداً یہودیوںنے حکومت جرمنی سے معاملہ کرنا چاہا تھا ، کیونکہ جرمنی میں اس وقت یہودیوں کااتنا ہیزور تھا جتنا آج امریکہ میں پایا جاتا ہے ۔ انہوںنے قیصر ولیم سے یہ وعدہ لینے کی کوشش کی کہ وہ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنوا دے گا ۔ لیکن جس وجہ سے یہودی اس پر یہ اعتماد نہیں کر سکتے تھے کہ وہ ایسا کرے گا وہ یہ تھی کہ ترکی حکومت اس وقت جنگ میں جرمنی کی حلیف تھی۔ یہودیوں کو یقین نہیں آتا تھا کہ قیصر ولیم ہم سے یہ وعدہ پورا کر سکے گا ۔ اس موقع پر ڈاکٹر وائز مین (Dr. Weizman)آگے بڑھا اور اس نے انگلستان کی حکومت کو یہ یقین دلایا کہ جنگ میں تمام دنیا کے یہودیوں کا سرمایہ اور تمام دنیا کے یہودیوں کادماغ اور ان کی ساری قوت و قابلیت انگلستان اور فرانس کےساتھ آ سکتی ہے اگر آپ ہم کو یہ یقین دلا دیں کہ آپ فتحیاب ہو کر فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنا دیں گے ۔ ڈاکٹر وائز مین ہی اس وقت یہودیوں کے قومی وطن کی تحریک کا علمبردار تھا۔ آخر کار اس نے ۱۹۱۷ء میں انگریزی حکومت سے وہ مشہور پر وانہ حاصل کر لیا جو اعلان بالفور کے نام سے مشہور ہے ۔ یہ انگریزوں کی بد دیانتی کاشاہکار ہے کہ ایک طرف وہ عربوں کو یقین دلا رہے تھے کہ ہم عربوں کی ایک خود مختار ریاست بنائیں گے اور اس غرض کے لیے انہوں نے شریف حسین کو تحریر وعدہ دے دیا تھا اور اسی وعدے کی بنیاد پر عربوں نے ترکوں سے بغاوت کر کے فلسطین اور عراق اور شام پر انگلستان کا قبضہ کرادیا تھا ۔ دوسری طرف وہی انگریز یہودیوں کو باقاعدہ یہ تحریر دے رہے تھے کہ ہم فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنائیںگے۔ یہ اتنی بڑی بے ایمانی تھی کہ جب تک انگریزی قوم دنیا میں موجود ہے وہ اپنی تاریخ پر سے اس کلنک کے ٹیکے کو نہ مٹا سکے گی ۔
پھر ذرا غور کیجیے کہ فلسطین کو یہود کا قومی وطن بنانے کے آخر معنی کیا تھے ؟ کیا فلسطین کوئی خالی پڑی ہوئی زمین تھی جس پر کسی قوم کو آباد کر دینے کا وعدہ کیا جا رہا تھا؟ وہاں دو ڈھائی ہزار برس سے ایک قوم آباد چلی آ رہی تھی ۔اعلان بالفورکے وقت وہاں یہودیوں کی آبادی پوری پانچ فیصدی بھی نہ تھی۔ ایسے ملک کے متعلق سلطنت برطانیہ کا وزیر خارجہ یہ تحریری وعدہ دے رہا تھا کہ ایک قوم کے وطن میں ایک دوسری قوم کا وطن بنایا جائے گا جو دنیا میں 19 سو برس سے بکھری ہوئی تھی۔ اس کا صاف مطلب گویا یہ وعدہ کرنا تھا کہ ہم تمہیں موقع دیں گے کہ عربوں کے جس وطن پر ہم نے خود عربوں کی مدد سے قبضہ کیا ہے اس سے تم انہی عربوں کو نکال باہر کرو اور ان کی جگہ دنیا کے گوشے گوشے سے اپنے افراد لا کر بسا دو۔ یہ ایک ایسا ظلم تھا جس کی نظیر پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس زخم پر نمک پاشی یہ ہ ےکہ لارڈ بالفورنے اپنے اس خط کے متعلق اپنی ڈائری میں یہ الفاظ لکھے تھے :
’’ ہمیں فلسطین کے متعلق کوئی فیصلہ کرتے ہوئے وہاں کے موجودہ باشندوں سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ صیہونیت ہمارے لیے اُن سات لاکھ عربوں کی خواہشات اور تعصبات سے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے جو اُس قدیم سر زمین میں اس وقت آباد ہیں ‘‘۔
بالفور کی ڈائری کے یہ الفاظ آج بھی برطانوی پالیسی کی دستاویزات (Documents of british policy.)کی جلد دوم میںثبت ہیں۔
مجلسِ اقوام کی کار گزاری
فلسطین پر انگریزوں کے قبضے اور لارڈ بالفورکے اعلان سے یہودیوں کے طویل المیعاد منصوبے کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گیا ۱۸۸۰ء سے شروع ہو کر ۱۹۱۷ء تک اس مرحلے کی تکمیل میں ۳۷ سال صرف ہوئے۔ اس کے بعد اس منصوبے کا دوسرا دور شروع ہؤا جس میںمجلس اقوام (League of nations.)اور اس کی اصل کار فرما دو بڑی طاقتوں، برطانیہ اور فرانس نے بالکل اس طرح کام کیا گو یا وہ آزاد سلطنتیں نہیں ہیں بلکہ محض صیہونی تحریک کی ایجنٹ ہیں ۔۱۹۲۲ء میں مجلس اقوام نے فیصلہ کیا کہ فلسطین کو انگریزوں کے انتداب؎۱(mandate)میں دے دیا جائے ۔ اس موقع پر فلسطین میں جو مردم شماری کرائی گئی تھی اس میں مسلمان عرب 6,60641، عیسائی عرب71,446اور یہودی 82,790 تھے۔ اور یہودیوں کی اتنی آبادی بھی اس وجہ سے تھی کہ وہ دھڑا دھڑ وہاں جاکر آباد ہو رہے تھے؎۱ اس پر بھی مجلس اقوام نے برطانیہ کو انتداب کا پروانہ دیتے ہوئے پوری بے شرمی کے ساتھ یہ ہدایت کی کہ اس کی یہ ذمہ داری ہو گی کہ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کے لیے ہر طرح کی آسانیاں فراہم کرے ۔ صیہونی تنظیم کو سرکاری طور پر باقاعدہ تسلیم کر کے اسے نظم و نسق میں شریک کرے اور اس کے مشورے اور تعاون سے یہودی قومی وطن کی تجویز کو عملی جامہ پہنائے ۔ اس کے ساتھ وہاں کے قدیم اوراصل باشندوں کے لیے صرف اتنی ہدایت پر اکتفا کیا گیا کہ ان کے مذہبی اور مدنی (Civil)حقوق کا تحفظ کیا جائے ۔ سیاسی حقوق کا اس میں سر ے سے کوئی ذکر نہ تھا ۔ یہ تھا اس مجلس اقوام کا انصاف جسے دنیا میں امن قائم کرنے کا نام لے کر وجود میں لایا گیا تھا ۔ اس نے یہودیوں کو باہر سے لا کر بسانے والوں کو تو سیاسی اقتدار میںشریک کردیا اور ملک کے اصل باشندوں کواس کا مستحق بھی نہ سمجھا کہ ان کے سیاسی حقوق کو برائے نام بھی تذکرہ کر دیا جاتا ۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیںکہ اس وقت دنیا کی بڑی بڑی حکومتوں اور مجلس اقوام میں یہودیوں نے کتنے اثرات پیدا کر لیے تھے جن کی بدولت فلسطین کوانگریزوں کے انتداب میں دیتے ہوئے یہ ہدایت جاری کی گئی تھیں ۔
انگریزی انتداب کا کارنامہ
یہ انتداب حاصل کرنے کے لیے بعد یہودیوں کو فلسطین میں لا کر بسانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ۔ فلسطین کا پہلا برطانوی ہائی کمشنر سر بربرٹ سیمویل خود ایک یہودی تھا ۔ صیہونی تنظیم کو عملاً حکومت کے نظم و نسق میں شریک کیاگیا اور اس کے سپرد نہ صرف تعلیم اور زراعت کے محکمے کیے گئے بلکہ بیرونی ممالک سے لوگوں کے داخلے ، سفر اور قومیت کے معاملات بھی اس کے حوالے کر دیے گئے۔ ایسے قوانین بنائے گئے جن کے ذریعہ سے باہر کے یہودیوں کو فلسطین میں آکرزمینیں حاصل کرنے کی پوری سہولتیں دی گئیں ۔ مزید برآں ان کو زمینیں کاشت کرنے کے لیے قرضوں اور تقاوی اور دوسری سہولتوں سے بھی نوازا گیا ۔ عربوں پر بھاری ٹیکس لگائے گئے اور ٹیکسوں کے بقایا پر ہر بہانے عدالتوں نے زمینیں ضبط کرنے کی ڈگریاںدینی شروع کردیں ۔ ضبط شدہ زمینیں یہودیوں کے ہاتھ فروخت کی گئیں اور سر کاری زمینوں کے بھی بڑے بڑے رقبے یہودی نو آباد کاروں کو کہیں مفت اور کہیں برائے نام پٹے پر دے دیے گئے ۔ بعض مقامات پر کسی نہ کسی بہانے پورے پورے گائوں صاف کر دیے گئے اور وہاں یہودی بستیاں بسائی گئیں ۔ ایک علاقے میں تو آٹھ ہزار عرب کاشتکاروںاور زراعتی کارکنوں کو پچاس ہزار ایکڑ زمین سے حکماً بے دخل کر دیا گیا ۔ اور ان کو فی کس تین پونڈ دس شلنگ دے کر چلتا کیا گیا۔ ان تدبیروں سے سترہ سال کے اندر یہودی آبادی میں غیرمعمولی اضافہ ہؤا ۔۱۹۲۲ء میں وہ ۸۲ بیاسی ہزار سے کچھ زائد تھے ،۱۹۳۹ء میں ان کی تعداد ساڑھے چار لاکھ تک پہنچ گئی ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ انگریز فلسطین میں صرف صیہونیت کی خدمت انجام دیتے رہے اور ان کے ضمیر نے ایک دن بھی ان کو یہ احساس نہ دلایا کہ کسی ملک کی حکومت پر اس کے اصل باشندوںکے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں جن کی نگہداشت کرنا اس کی اخلاقی ذمہ داری ہے ۔
جنگ عظیم دوم کے زمانے میں معاملہ اس سے بہت آگے بڑھ گیا۔ ہٹلر کے مظالم سے بھاگنے والے یہودی ہر قانونی اور غیر قانونی طریقے سے بے تحاشا فلسطین میں داخل ہونے لگے ۔ صیہونی ایجنسی نے ان کو ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں فلسطین میں گھُسانا شروع کیا اور مسلح تنظیمیں قائم کیں جنہوں نے ہر طرف مار دھاڑ کر کے عربوں کو بھگانے اور یہودیوں کو ان کی جگہ بسانے میں سفا کی کی حد کردی ۔ انگریزی انتداب کی ناک کے نیچے یہودیوںکو ہر طرح کے ہتھیار پہنچ رہے تھے اور وہ عربوں پر چھاپے مار رہے تھے ۔ مگر قانون صرف عربوں کے لیے تھا جو انہیں ہتھیار رکھنے اور ظلم کے جواب میں مدافعت کرنے سے روک رہا تھا۔ البتہ برطانوی حکومت جان بچا کر بھاگنے والے عربوں کو نقل مکان کی سہولتیں فراہم کرنے میں بڑی فراخد ل تھی ۔ اس طرح ۱۹۱۷ء سے ۱۹۴۷ء تک ۳۰ سال کے اندر یہودی منصوبے کا دوسرا مرحلہ مکمل ہؤا جس میں وہ اس قابل ہوگئے کہ فلسطین کو یہودیوں کا ’’ قومی وطن ‘‘ بنانے کے بجائے فلسطین میں ان کی ’’ قومی ریاست ‘‘ قائم کردیں ۔
قومی وطن سے قومی ریاست تک
۱۹۴۷ء میں برطانوی حکومت نے فلسطین کا مسئلہ اقوام متحدہ میںپیش کردیا ۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مجلس اقوام ( لیگ آف نیشنز) نے صیہونیت کی جوخدمت ہمارے سپرد کی تھی وہ ہم انجام دے چکے ہیں ۔ اب آگے کا کام اس آنجہانی مجلس کی نئی جانشین اقوام متحدہ انجام دے ۔ اب ملاحظہ کیجیے کہ یہ دوسری مجلس جودنیا میں امن و انصاف کے قیام کی علمبرداربن کر اٹھی تھی اس نے فلسطین میں کیا انصاف قائم کیا ۔
نومبر ۱۹۴۷ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو یہودیوں اورعربوں کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ صادر کردیا ۔یہ فیصلہ ہوا کس طرح ؟ اس کے حق میں ۲۳ ووٹ اوراس کے خلاف ۱۳ ووٹ تھے ۔ دس ملکوں نے کوئی ووٹ نہیں دیا ۔یہ کم سے کم اکثریت تھی جس نے جنرل اسمبلی میں کوئی ریزولیوشن پاس ہو سکتا تھا ۔ چند روز پہلے تک اس تجویز کے حق میں اتنی اکثریت بھی نہ تھی ۔صرف تیس ملک اس کے حق میں تھے ۔ آخرکار امریکہ نے غیر معمولی دبائوڈال کرہائیٹی ، فلپائن اورلائبیریا کو مجبورکر کے اس کی تائید کرائی ۔یہ بات خود امریکن کانگریس کے ریکارڈ پرموجود ہے کہ یہ تین ووٹ زبردستی حاصل کیے گئے تھے ، اور جیمز فوریسٹال(Forestal)اپنی ڈائری میں لکھتا ہے کہ:
’’ اس معاملہ میں دوسری قوموں پردبائو ڈالنے اور ان کوووٹ دینے پرمجبورکرنے کے لیے جو طریقے استعمال کیے گئے وہ شرمناک کارروائی (Scandal)کی حد تک پہنچے ہوئے تھے ‘‘۔
تقسیم کی جوتجویزان ہتھکنڈوں سے پاس کرائی گئی اس کی روسے فلسطین کا ۵۵ فیصدی رقبہ ۳۳ فیصدی یہودی آبادی کو ، اور ۴۵ فیصدی رقبہ ۶۷ فیصدی عرب آبادی کو دیا گیا ۔ حالانکہ اس وقت تک فلسطین کی زمین کا صرف ۲ فیصدی حصہ یہودیوں کے قبضے میں آیا تھا ۔یہ تھا اقوام متحدہ کا انصاف !
لیکن یہودی اس بندر بانٹ سے بھی راضی نہ ہوئے اورانہوں نے ماردھاڑ کر کے عربوں کونکالنا اورملک کے زیادہ سے زیادہ حصہ پر قبضہ کرنا شروع کردیا ۔اس سلسلے میں جو مظالم عربوں پرکیے گئے ، آرنلڈ ٹائن بی ان کے متعلق اپنی کتاب (A studay of history)میں کہتا ہے کہ وہ کسی طرح بھی اُن مظالم سے کم نہ تھے جو نا زیوں نے خود یہودیوں پرکیے تھے ۔ دیر یاسین میں ۹ اپریل ۴۸ ء کے قتل عام کا خاص طورپر اس نے ذکر کیا ہے جس میں عرب عورتوں ، بچوں اورمردوں کو بےدریغ موت کے گھاٹ اتارا گیا ، عرب عورتوں اورلڑکیوں کا برہنہ جلوس سڑکوں پر نکالا گیا اوریہودی موٹروں پرلائوڈ اسپیکر لگا کر جگہ جگہ یہ اعلان کرتے پھرے کہ ’’ ہم نے دیر یاسین کی عرب آبادی کے ساتھ یہ اور یہ کیا ہے ، اگر تم نہیں چاہتے کہ تمہارے ساتھ بھی یہی کچھ ہو تو یہاں سے نکل جائو….‘‘ ہر شخص سوچ سکتا ہے کہ کیا یہ کسی ایسی قوم کا کارنامہ ہو سکتا ہےجس میں رمق برابربھی شرافت و انسانیت موجود ہو؟
ان حالات کے دوران میں ۱۴ مئی ۴۸ء کو عین اس وقت جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی فلسطین کے مسئلے پر پھر بحث کر رہی تھی یہودی ایجنسی نے رات کے دس بجے اسرائیلی ریاست کے قیام کا باقاعدہ اعلان کردیا اور سب سے پہلے امریکہ اور روس نے آگے بڑھ کر اس کو تسلیم کیا ، حالانکہ اس وقت تک اقوام متحدہ نے یہودیوں کوفلسطین میں اپنی قومی ریاست قائم کرنے کا مجاز نہ کیا تھا ۔ اس اعلان کے وقت ۶ لاکھ سے زیادہ عرب گھر سے بے گھر کیے جا چکے تھے ، اور اقوام متحدہ کی تجویز کے بالکل خلاف یروشلم ( بیت القدس) کے آدھے سے زیادہ حصے پر اسرائیل قبضہ کرچکا تھا ۔
ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان ہونے کے بعد گردو پیش کی عرب ریاستوں نے بے سہارا عرب آبادی کو ماردھاڑ اور لوٹ مار سے بچانے کے لیے مداخلت کی اوران کی فوجیں فلسطین میں داخل ہوگئیں لیکن یہودی اس وقت تک اتنے طاقت ور ہو چکے تھے کہ یہ سب ریاستیں مل کر بھی ان کا کچھ نہ بگاڑ سکیں ۔ بلکہ جب نومبر ۴۸ء میںاقوام متحدہ نے جنگ بندی کا فیصلہ کیا اس وقت فلسطین کے رقبہ کا ۷۷ فیصدی سے بھی کچھ زیادہ حصہ یہودیوں کے قبضہ میں جا چکا تھا ۔ سوال یہ ہےکہ یہودیوں کو اتنی جنگی طاقت کس نے فراہم کر کے دی تھی کہ پانچ عرب ریاستوں کی متحدہ طاقت بھی ان کا مقابلہ نہ کرسکی ؟ اس طاقت کے فراہم کرنے میں سرمایہ داری نظام اوراشتراکی نظام دونوں شریک تھے ، اور سب سے زیادہ ہتھیار اس جنگ کے لیے چیکوسلوواکیہ سے آئے تھے جو آج خود ظلم و ستم کا شکار ہے۔اقوام متحدہ میں بھی جوبحثیں اس زمانے میں ہوئیں ، ان کاریکارڈ شاہد ہے کہ یہودیوں کی حمایت اور عربوں کی مخالفت میں مغربی سرمایہ دار نہ نظام اوراشتراکی نظام دونوں کے علمبردار ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کر رہے تھے ، اور یہ کہنا مشکل تھا کہ ان میں سےکون یہودیوں کا زیادہ حامی ہے ۔
یہودی منصوبے کا تیسرا مرحلہ
اس کے بعد یہودی منصوبے کا تیسرا مرحلہ شروع ہؤا جو۱۹ سال کے اندر جون ۶۷ء کی جنگ میں بیت المقدس اورپورے باقی ماندہ فلسطین اور پورے جزیرہ نمائے سینا اورسرحد شام کی بالائی پہاڑیوں پراسرائیل کے قبضے سے تکمیل کو پہنچا۔ نومبر ۴۸ میں اسرائیلی ریاست کا رقبہ۷۹۹۳مربع میل تھا ۔ جو ن ۶۷ء کی جنگ میں اس کے اندر ۲۷ ہزارمربع میل کا اضافہ ہوگیا اور چودہ پندرہ لاکھ عرب یہودیوں کے غلام بن گئے ۔ اس مرحلے اسرائیل کے منصوبے کی کامیابی کی اصل وجہ یہ ہےکہ سب سے بڑھ کرامریکہ اس کا حامی و مدد گار اورپشت پناہ بنا رہا ۔ برطانیہ اورفرانس اوردوسرے مغربی ممالک بھی اپنی اپنی حد تک اس کی تائید و حمایت کا پورا حق ادا کرتے رہے۔ روس اور اس کا پورا مشرقی بلاک بھی کم از کم ۵۵ء تک علانیہ اس کا حامی رہا اور بعد میں اس نے اگر اپنی پالیسی بدلی بھی تو وہ عرب ملکوں کے لیے مفید ہونے کے بجائے اسرائیل ہی کے لیے مفید ثابت ہوئی ۔۵۵ء میں جب عرب ممالک اس بات سے بالکل مایوس ہوگئے کہ امریکہ اوردوسرے مغربی ملکوں سے ان کو اسرائیل کے مقابلے میں اپنی حفاظت کے لیے ہتھیار مل سکیں گے تو انہیں مجبوراً اشتراکی بلاک کی طرف رجوع کرنا پڑا اور اس بلاک کے ملکوں نے اس لالچ میں ان کو ہتھیار دینے شروع کیے کہ اس طرح انہیں عرب ممالک میں اشتراکیت پھیلانے اور ان کو اپنے دائرہ اثر میں لانے کا موقع مل جائے گا ۔ اس کے نتیجے میں یہ تونہ ہو سکا کہ عرب ممالک اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوجاتے ، البتہ یہ ضرورہؤا کہ روس کومصر و شام سے یمن تک اورعراق سے الجزائرتک اپنے اثرات پھیلانے کا موقع حاصل ہو گیا اورعرب ملکوں میں رجعت پسندی اور ترقی پسندی کی کشمکش اتنی بڑھی کہ اسرائیل سے نمٹنے کے بجائے وہ آپس ہی میں ایک دوسرے سے الجھ کررہ گئے ۔
۱۹ برس کی اس مدت میں امریکہ نے اسرائیل کو ایک ارب ساٹھ کروڑ ڈالر کی مالی امداد دی ۔مغربی جرمنی سے اس کو ۸۲ کروڑ ۲۰ لاکھ ڈالر کا تاوان دلوایا گیا ، اور دنیا بھر کے یہودیوں نے دو ارب ڈالر سے زیادہ چندے دے کر اس کی مالی پوزیشن مضبوط کی ۔جنگی حیثیت سے اس کو زِ فرق تا بقدم اس قدر مسلح کردیا گیا کہ جون ۶۷ء کی جنگ سے پہلے ہی امریکی ماہرین کا یہ اندازہ تھاکہ وہ صرف چار پانچ دن کے اندر اپنے گردو پیش کی تمام عرب ریاستوں کو پیٹ لے گا ۔ سیاسی حیثیت سے ہرموقع پر امریکہ اور اس کے ساتھ اس کی پشت پناہی کرتےرہے اورانہی کی حمایت کی وجہ سے اقوام متحدہ اس کی پے درپے زیادتیوں کا کوئی تدارک نہ کرسکی ۔ نومبر ۴۷ء سے ۵۷ ء تک اقوام متحدہ کے ۲۸ ریزولیوشن ووہ اس کے منہ پر مار چکا تھا ۔ ستمبر ۴۸ء سے نومبر ۶۶ ء تک سات مرتبہ اقوام متحدہ نے اس کے خلاف مذمت کی قرار دادیں پاس کیں، مگراس کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اس کی بے باکی کا اندازہ آپ اس سے کر سکتے ہیں کہ جون ۶۷ء کی جنگ کے بعد جب جنرل اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے والا تھا اس وقت اسرائیل کے وزیراعظم لیوی اشکول نے علی الاعلان یہ کہا کہ ’’ اگر اقوام متحدہ کے ۱۲۲ ممبروں میں سے ۱۲۱ بھی فیصلہ دیں اور تنہا اسرائیل کا اپنا ووٹ ہی ہمارے حق میں رہ جائے ، تب بھی ہم اپنے مفتوحہ علاقوں سے نہ نکلیں گے ‘‘۔ یہ سب کچھ اسی وجہ سے ہے کہ امریکہ اور اس کے ساتھیوں کی حمایت کے بل پر اسرائیل تمام دنیا کی رائے کو ٹھوکر مارتا ہے ۔ اوراقوام متحدہ اس کے مقابلے میں قطعی بے بس ہے ۔
امریکہ کی دلچسپی اسرائیل کے ساتھ کتنی بڑھی ہوئی ہے ، اس کو جاننے کے لیے آپ ذرا اُس رویے پرایک نگاہ ڈالیں جوجون ۶۷ء کی جنگ کے موقع پر اس نے اختیار کیا تھا ۔ جنگ سے ایک ہفتہ پہلے امریکی فوج کے جائنٹ چیفس آف سٹاف کے صدر جنرل وہیلر نے صدر جانسن کو اطمینان دلایا تھا کہ اگر اسرائیل بڑھ کر پہلے ایک کامیاب ہوائی حملہ کردے توپھر زیادہ سے زیادہ تین چار دن کے اندروہ عربوں کو مار لے گا۔ لیکن اس رپورٹ پربھی جانسن صاحب پوری طرح مطمئن نہ ہو سکے اورانہوں نے سی آئی اے کے چیف رچرڈ ہیلمس(Helms)سے رپورٹ طلب کی ۔ جب اس نے بھی وہیلر کے اندازوں کی توثیق کردی توجانسن صاحب نے روس سے رجوع کرکے یہ اطمینان حاصل کیا کہ وہ عربوں کی مدد کے لیے عملاً کوئی مداخلت نہ کرے گا ۔ اس کے بعد کہیں جا کر اسرائیل پر ’’ وحی ‘‘ نازل ؎۱ ہوئی کہ اب عرب ملکوں پرحملہ کردینے کا مناسب موقع آگیا ہے ۔ اس پربھی امریکہ کا چھٹا بحری بیڑہ مصر واسرائیل کے سواحل کے قریب اپنی پوری طاقت کے ساتھ مستعد کھڑا تھا تاکہ بوقت ضرورت کام آ سکے ۔
انگریزوں کی اسرائیل نوازی کا حال یہ تھا کہ ان کا ایک طیارہ بردار بحری جہاز مالٹا میں اور دوسرا عدن میں ایک منٹ کے نوٹس پراسرائیل کی مدد پرحرکت کرنے کے لیے تیارکھڑا تھا ۔ جنگ کے بعد لنڈن سنڈے ٹائمز نے ایک کتاب شائع کی جس کا نام تھا (The holy war, june67.) اس کا جوباب بیت المقدس پر یہودی قبضے کے بیان میں ہے اس کاعنوان رکھا گیا ہے (Back after 896 years) یعنی’’۸۹۶ برس کے بعد واپسی ‘‘ ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ ۸۹۶ سال پہلے بیت المقدس پر سے صلیبی عیسائیوں کا قبضہ اٹھا تھا نہ کہ یہودیوں کا ۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ انگریزوں کی ہمدردی میں صلیبی جذبہ کام کر رہا تھا اور اس لڑائی کو وہ صلیبی جنگوں ہی کا ایک حصہ سمجھتے تھے ۔
روس کی عرب دوستی کا حال بھی یہ تھا کہ جس صبح کو مصر کے ہوائی اڈوں پراسرائیل کا حملہ ہونے والا تھا اسی کی رات کو روس نے صدر ناصر کو اطمینان دلایا تھا کہ کوئی حملہ ہونے والا نہیں ہے ۔عربوں کے ساتھ روس کے رویہ پریوگو سلاویہ کے ایک ڈپلومیٹ کا یہ تبصرہ بڑا سبق آموز ہے کہ : ’’ایک بڑی طاقت جب تمہارا ساتھ چھوڑتی ہے تو وہ تم کو پیرا شوٹ کے بغیر ہوائی جہاز سے گرا دیتی ہے ‘‘۔
یہ ہیں وہ اسباب جن کی وجہ سے یہودیوں کا تیسرا منصوبہ بھی کامیاب ہو گیا اور بیت المقدس سمیت پورا فلسطین جزیرہ نمائے سینا ان کے ہاتھ آگیا۔
یہودیوں کا چوتھا منصوبہ
اب در اصل جس چیز سے دنیائے اسلام کو سابقہ درپیش ہے ، وہ یہودیوں کا چوتھا اور آخری منصوبہ ہے جس کے لیے وہ دوہزار سال سے بے تاب تھے اور جس کی خاطر وہ ۹۰ سال سے باقاعدہ ایک سکیم کے مطابق کام کرتے رہے ہیں۔
اس منصوبے کے اہم ترین اجزا دو ہیں ۔ایک یہ کہ مسجد اقصیٰ اورقبۂ صخرہ کو ڈھا کرہیکل سلیمانی پھر سے تعمیر کیا جائےکیونکہ اس کی تعمیران دونوں مقامات ِ مقدسہ کو ڈھائے بغیر نہیں ہو سکتی ۔دوسرا یہ کہ اس پورے علاقے پرقبضہ کیا جائے جسے اسرائیل اپنی میراث سمجھتا ہے ۔میں چاہتا ہوں کہ اس منصوبے کے ان دونوں اجزا کوہرمسلما ن اچھی طرح سمجھ لے ۔
جہاں تک پہلے جزو کا تعلق ہے ، اسرائیل اسے عملی جامہ پہنانے پراسی وقت قادر ہوچکا تھا جب بیت المقدس پراس کا قبضہ ہؤا تھا ۔ لیکن دو وجوہ سےوہ اب تک اس کام میں تامل کرتا رہا ہے ۔ایک وجہ یہ ہے کہ اسے اور اس کے سر پرست امریکہ کودنیا ئے اسلام کے شدید رد عمل کا اندیشہ ہے ۔دوسرے یہ کہ خود یہودیوں کے اندرمذہبی بنیاد پر اس مسئلے میں اختلاف برپا ہے ۔ان کے ایک گروہ کا عقیدہ یہ ہے کہ ہیکل کی تعمیرنومسیح ہی آکر کرے گا ، جب تک وہ نہ آجائے ہمیں انتظارکرنا چاہیے؎۱۔ یہ ان کے قدامت پسند گروہ کا خیال ہے ۔دوسرا گروہ جوجدت پسند ہے اورجس کے ہاتھ میں در اصل اس وقت اسرائیل کے اقتدارکی باگیں ہیں کہتا ہے کہ قدیم بیت المقدس اور دیوارِ گریہ پرقبضہ ہوجانے کے بعد ہم دورِ مسیحائی (Messianic era)میں داخل ہو چکے ہیں ۔یہی بات یہودی فوج کے چیف ربی ؎۱نے توراۃ ہاتھ میں لے کر اس روز کہہ دی تھی جب بیت المقدس کی فتح کے بعد وہ دیوار گریہ کے پاس سامنے کھڑا تھا ۔ اس کے الفاظ یہ تھے کہ ’’ آج ہم ملت یہود کے لیے دور مسیحائی میں داخل ہو رہے ہیں ‘‘۔ انہی دو وجوہ سے مسجد اقصیٰ کو یک لخت ڈھا دینے کے بجائے تمہید کے طورپراس کو آگ لگائی گئی ہے تاکہ ایک طرف دنیائے اسلام کا رد عمل دیکھ لیا جائے اوردوسری طرف یہودی قوم کو آخری کارروائی کے لیے بتدریج تیارکیا جائے ۔
دوسرا اجزا اس منصوبے کا یہ ہے کہ ’’ میراث کے ملک ‘‘ پر قبضہ کیا جائے ۔یہ میراث کا ملک کیا ہے ؟ اسرائیل کی پارلیمنٹ کی پیشانی پر یہ الفاظ کندہ ہیں :
’’ اے اسرائیل تیری سرحدیں نیل سے فرات تک ہیں ‘‘۔
دنیا میں صرف ایک اسرائیل ہی ایسا ملک ہے جس نے کھل کھلا دوسری قوموں کے ملک پر قبضہ کرنے کا ارادہ عین اپنی پارلیمنٹ کی عمارت پر ثبت کررکھا ہے۔کسی دوسرے ملک نے اس طرح اعلانیہ اپنی جارحیت کے ارادوں کا اظہار نہیں کیا ہے ۔اس منصوبے کی تفصیل صیہونی تحریک کے شائع کردہ نقشے میں دی گئی ہےاس کی رو سے اسرائیل جن علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے ان میں دریائے نیل تک مصر ، پورا اردن ، پورا شام ، پورا لبنان ، عراق کا بڑا حصہ ، ٹرکی کا جنوبی علاقہ اورجگرتھام کرسنیے کہ مدینہ منورہ تک حجاز کا پورا بالائی علاقہ شامل ہے ۔ اگر دنیائے عرب اسی طرح کمزور رہی جیسی آج ہے ، اورخدا نہ خواستہ دنیائے اسلام کا رد عمل بھی مسجد اقصیٰ کی آتشزدگی پرکچھ زیادہ موثر ثابت نہ ہو سکا ، توپھر خام بد ہن ایک دن ہمیں وہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ جب یہ دشمنان اسلام اپنے نا پاک ارادوں کو پورا کرنے کے لیے پیش قدمی کربیٹھیں گے ۔
پس چہ باید کرد
حضرات! اتنی تفصیل میں نے اس لیے بیان کی ہے کہ پیش نظر مسئلے کی پوری نوعیت ، نزاکت اوراہمیت اچھی طرح سمجھ لی جائے ۔ جو کچھ میں نے عرض کیا ہے اس سے چند باتیں بخوبی واضح ہوجاتی ہیں :
اول یہ کہ یہودی آج تک اپنے منصوبوں میں اس بنا پر کامیاب ہوتے رہےہیں کہ دنیا کی بڑی طاقتیں ان کی حامی و مدد گار بنی رہی ہیں اور ان کی اس روش میں آئندہ بھی کسی تغیر کے امکانات نظر نہیں آتے ۔ خصوصاً امریکہ کی پشت پناہی جب تک اسے حاصل ہے ، وہ کسی بڑے سے بڑے جرم کے ارتکاب سے بھی باز نہیں رہ سکتا ۔
دوم یہ کہ اشتراکی بلاک سے کوئی امید وابستہ کرنا بالکل غلط ہے وہ اسرائیل کا ہاتھ پکڑنے کے لیے قطعاً کوئی خطرہ مول نہ لے گا ۔ زیادہ سے زیادہ آپ اس سے ہتھیارلے سکتے ہیں اوروہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ اشتراکیت کا قلا وہ اپنی گردن میں ڈالیں اوراسلام کودیس نکالا دےدیں۔
سوم یہ کہ اقوام متحدہ ریزو لیوشن پاس کرنے سے بڑھ کر کچھ نہیں کر سکتی۔ اس میں یہ دم خم نہیں ہے کہ اسرائیل کو کسی مجرمانہ اقدام سے روک سکے ۔
چہارم یہ کہ عرب ممالک کی طاقت اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیے قطعی نا کافی ہے ۔ پچھلے بائیس سال کے تجربات نے یہ بات پوری طرح ثابت کردی ہے ۔
ان حقائق کے سامنے آجانے کے بعد نہ صرف مسجد اقصیٰ بلکہ مدینہ منورہ کو بھی آنے والے خطرات سے بچانے کی صرف ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے اوروہ یہ ہے کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کی طاقت اس یہودی خطرے کا مقابلہ کرنے اور اسلام کے مقامات مقدسہ کومستقل طور پر محفوظ کردینے کے لیے مجتمع کی جائے ۔ اب تک یہ غلطی کی گئی ہے کہ فلسطین کے مسئلے کو ایک عرب مسئلہ بنا ئے رکھا گیا ۔ دنیا کے مسلمان ایک مدت سے کہتے رہے کہ یہ اسلام اورمسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ مگربعض عرب لیڈروں کو اس پر اصراررہا کہ نہیں یہ محض ایک عرب مسئلہ ہے۔ خدا کا شکرہے کہ اب مسجد اقصیٰ کے سانحہ سے ان کی آنکھیں بھی کھل گئی ہیں اور ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہے کہ صیہونیت کی عظیم بین الاقوامی سازش کا مقابلہ جب کہ دنیا کی بڑی طاقتوں کی پوری تائید و حمایت بھی اس کو حاصل ہے ، تنہا عربوں کے بس کا روگ نہیں ہے دنیا میں اگر ایک کروڑ ساٹھ لاکھ یہودی ایک طاقت ہیں تو ۷۰،۷۵ کروڑ مسلمان بھی ایک طاقت ہیں اوران کی ۳۰،۳۲ حکومتیں اس وقت انڈو نیشیا سے مراکواورمغربی افریقہ تک موجود ہیں ۔ ان سب کے سربراہ اگرسرجوڑ کربیٹھیں ،اورروئے زمین کے ہر گوشے میں بسنے والے مسلمان ان کی پشت پر جان و مال کی بازی لگا دینے کے لیے تیار ہوجائیں تواس مسئلے کو حل کر لینا ، انشاء اللہ کچھ زیادہ مشکل نہ ہو گا ۔
اس سلسلے میں جو عالمی کانفرنس بھی ہو اس کویہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اصل مسئلہ محض مسجد اقصیٰ کی حفاظت کا نہیں ہے مسجد اقصیٰ محفوظ نہیں ہو سکتی جب تک بیت المقدس یہودیوں کے قبضے میں ہے اورخود بیت المقدس بھی محفوظ نہیں ہو سکتا جب تک فلسطین پر یہودی قابض ہیں۔ اس لیے اصل مسئلہ فلسطین کویہودیوں کے غاصبانہ تسلط سے آزاد کرانے کا ہے ۔ اوراس کا سیدھا اورصاف حل یہ ہے کہ اعلان بالفور سے پہلے جویہودی فلسطین میں آباد تھے صرف وہی وہاں رہنے کا حق رکھتے ہیں ۔ باقی جتنے یہودی ۱۹۱۷ء کے بعد سے اب تک وہاں باہر سے آئے ، اورلائے گئے ہیں انہیں واپس جانا چاہیے۔ ان لوگوں نے سازش اورجبر وظلم کے ذریعہ سے ایک دوسری قوم کے وطن کو زبردستی اپنا قومی وطن بننایا پھراسے قومی ریاست میں تبدیل کیا ، اوراس کے بعد توسیع کے جارحانہ منصوبے بنا کرآس پاس کے علاقوں پر قبضہ کرنے کا نہ صرف عملاً ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا ، بلکہ اپنی پارلیمنٹ کی پیشانی پر علانیہ یہ لکھ دیا کہ کس کس ملک کووہ اپنی جارحیت کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں ۔ ایسی ایک کھلی جارح ریاست کا وجود بجائے خود ایک جرم اوربین الاقوامی امن کے لیے خطرہ ہے اورعالم اسلامی کے لیے اس سے بھی بڑھ کروہ اس بنا پر خطرہ ہے کہ اس کے ان جارحانہ ارادوں کا ہدف مسلمانوں کے مقامات مقدسہ ہیں ۔ اب اس ریاست کا وجود برداشت نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کو ختم ہونا چاہیے۔ فلسطین کے اصل باشندوں کی ایک جمہوری ریاست بننی چاہیے جس میں ملک کے پرانے یہودی باشندوں کوبھی عرب مسلمانوں اورعیسائیوں کی طرح شہری حقوق حاصل ہوں اور باہر سے آئے ہوئے ان غاصبوں کونکل جانا چاہیے جو زبردستی اس ملک کو قومی وطن اورپھر قومی ریاست بنانے کے مرتکب ہوئے ہیں۔
اس کے سوا فلسطین کے مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے ۔رہا امریکہ،جواپنا ضمیریہودیوں کے ہاتھ رہن رکھ کراورتمام اخلاقی اصولوں کوبالائے طاق رکھ کر ان غاصبوں کی حمایت کر رہا ہے ، تو اب وقت آگیا ہے کہ تمام دنیا کے مسلمان اس کو صاف صاف خبردارکردیں کہ اس کی یہ روش اگراسی طرح جاری رہی تو روئے زمین پر ایک مسلمان بھی وہ ایسا نہ پائے گا جس کے دل میں اس کے لیے کوئی ادنیٰ درجہ کا بھی جذبۂ خیر سگالی باقی رہ جائے ۔اب وہ خود فیصلہ کر لے کہ اسے یہودیوں کی حمایت میں کہاں تک جانا ہے ۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x