ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

محشر خیال- بتول اپریل ۲۰۲۳

ام ریان ۔ لاہور
مارچ کا بتول اپنے جاذبِ نظر سر ورق کے ساتھ موصول ہؤا۔ نوائے شوق میں ڈاکٹر جاوید اقبال باتش کی غزل اور اسما صدیقہ کی’’ برف رتوں کا المیہ‘‘ پسند آئی ۔ حقیقت و افسانہ میں سب ہی رنگ خوب صورت تھے ۔ جہاں نبیلہ شہزاد کا افسانہ تلخ سماجی حقائق کو عیاں کر رہا تھا ، وہیں قانتہ رابعہ کی سدرہ کا دکھ، دکھی کر گیا ۔ جی چاہا کہ ایک دفعہ تو ضرور وہ اپنے ’’ساسانہ‘‘ اختیارات کا استعمال کر لیتی ۔ ڈاکٹر زاہدہ ثقلین اس خوب صورتی سے میڈیکل سائنس کو کہانی کا لبادہ اڑوھاتی ہیں کہ ذہن سے محو ہی ہو جاتا ہے کہ ان کے نام کے ساتھ ’’ ڈاکٹر‘‘ کا سابقہ لگا ہے ۔ وہ تو آخر میں جب بلی تھیلے سے باہر آتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ بہانے بہانے سے ڈاکٹر صاحبہ کونسلنگ کر رہی ہیں۔
توقیر عائشہ کا افسانہ ہلکے پھلکے انداز میں گہرا فہم لیے ہوئے ہے۔ عروبہ منورنے ’’ اک نئی رت‘‘ میں ایک نیا نکتہ پیش کیا ، مگر یہ ہر گھر کے اپنے حالات پر منحصر ہوتا ہے ۔ ایک ہی فارمولا ہر جگہ نہیںچلتا ۔ رسالے کی خاص تحریر طوبیٰ احسن کی ’’ روٹھے ہو تم‘‘ رہی ۔ دلچسپ پیرایہ میں بڑی گہری بات کہہ گئیں ۔ اسما اشرف منہاس کا ناول بہت اچھا جا رہا ہے ۔ قلم پر گرفت مضبوط ہے ۔ تجسس کا عنصر دلچسپی قائم رکھے ہوئے ہے۔
خفتگانِ خاک میں تین تحریریں ہیںجن کے ذریعے ایسے لوگوں سے ملاقات ہوئی جن کی زندگیاں مشعل راہ ہوتی ہیں ۔ سیف اللہ خان التمش کی دلآویز اوردل گداز تحریر نے اداس کردیا ۔ منزہ طارق نے ’’ آوازِ دوست‘‘ کی تلخیص کی اچھی کوشش کی ۔ امید ہے اس سے قارئین میں پوری کتاب پڑھنے کی خواہش پیدا ہو گی اور ووہ یقیناً اس سے حِظ اٹھائیں گے۔
ڈاکٹر بشریٰ تسنیم نے EQاور قلبِ سلیم کی بڑی عمدہ وضاحت کی۔ عالیہ شمیم نے اسلام کے تصور خاندان کی بڑی خوب صورت تصویر کشی کی ۔ کاش کہ ہم اس میں اتنے ہی خوب صورت رنگ بھی بھر سکیں ۔
٭٭٭
پروفیسر خواجہ مسعود۔راولپنڈی
’’ چمن بتول‘‘ شمارہ مارچ 2023ء سامنے ہے ۔ ہلکے پنک کلر کے پھولوں سے مزین ٹائٹل موسم بہار کا مژدہ سنا رہا ہے ۔ اللہ کرے ہمارے ’’چمن بتول‘‘ کا دامن ہمیشہ رنگ برنگے خوشبو دار پھولوں سے سجا اور بھرا رہے آمین۔
’’ابتدا تیرے نام سے ‘‘ مدیرہ محترمہ ڈاکٹر صائمہ اسما کا فکر انگیز اداریہ! عورتوں کے عالمی دن پر تبصرہ کرتے ہوئے آپ نے یہ زبردست جملے تحریر کیے ہیں ’’ خواتین کا ایک اور عالمی دن اس حال میں آیا ہے کہ سڑکیں تو رنگا رنگ سر گرمیوں سے بھر گئی ہیں مگر ہماری کثیر عورت حقوق کی اس جنگ سے بے خبر بیماری، غربت ، بے روز گاری اور تعلیم سے محرومی کی چومکھی لڑائی لڑ رہی ہے ۔ اپنے اپنے نعروں کی گونج میں عام عورت کے دکھوں کا ازالہ بہت دور کی منزل دکھائی دیتا ہے ‘‘۔
معاشی نا انصافی پر آپ کے یہ جملے ارباب اختیار کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں ’’ اس سے پہلے کہ امیر اورغریب کا تفاوت ہمیں فساد کی طرف لے جائے ہمارے با شعور طبقے کو عملی میدان میں آنا ہوگااور ایک عوامی تحریک کی شکل اختیار کرنی ہوگی‘‘ آپ نے ترکی اور شام میں زلزلے کی تباہ کاریوں پربھی بہت تشویش کا اظہار کیا ہے ۔
’’تفسیر سورۃ الفاتحہ‘‘( مولانا عبد المتین) اس بصیرت افروز مضمون میں سورۃ فاتحہ کی تفسیر تشریح خوبصورت انداز میں کی گئی ہے ۔اس سورہ میں خود شناسی اور خدا شناسی دونوں کا درس دیا گیا ہے ۔ یہ بہترین دعا

بھی ہے ۔علامہ ابن تیمیہ کا یہ قول بھی نقل کیا گیا ہے کہ تمام آسمانی کتابوں کا خلاصہ قرآن مجید اور پورے قرآن مجید کا خلاصہ سورہ فاتحہ ہے ۔
’’ رمضان میںقیام اللیل‘‘ ( مولانا مودودیؒ) مولانا نے واضح کیا ہے کہ رمضان مبارک میں قیام اللیل ( رات کی عبادت) کا ثواب بہت زیادہ ہے اسی خاطر رمضان میں نماز تراویح کا اجر اکیا گیا ہے ۔ رمضان کی راتوں میں عبادت و قرأت کا ثواب بہت زیادہ ہے اور پھر آپ نے شب قدر کا ذکر کیا ہے کہ یہ اس رات کی فضیلت بے شمار ہے اور اس رات کو رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کیا جا سکتا ہے ۔
’’ مسلم خواتین کی علمی سرگرمیاں‘‘( ڈاکٹر محمد آفتاب خاں) اس مفصل مضمون میں ڈاکٹر صاحب نے ایسی صحابیات اور امہات المومنین کا ذکر کیا ہے جن کا علم اعلیٰ پائے کا تھااور انہوں نے اکثر براہ راست رسول پاکؐ سے احادیث روایت کی ہیں ۔ ان جید خواتین سے اکثر صحابہؓ بھی تحصیل علم کے لیے اور مسائل پوچھنے آتے تھے ۔ ان نامور خواتین کی ترویج اسلام میں خدمات قابل قدر ہیں ۔
حبیب الرحمٰن صاحب کی غزل سے دو منتخب اشعار:
چپ ہوں پر آنکھوں کا بادل
دل کا موسم کہہ ڈالے تو
کیوں آنکھوں کا کاجل پھیلا
زلفِ برہم کہہ ڈالے تو
ڈاکٹر جاوید اقبال آتش کی غزل سے منتخب شعر:
کسی کی آنکھ سے آنسو ڈھلکنے والے تھے
سو تھوڑی دیر ہمیں انتظار کرنا تھا
’’ میں حوا کی بیٹی‘‘ نیّر کاشف کی خوبصورت نظم سے چند منتخب مصرعے:
میں آرامِ جاں ہوں
سراپا محبت ، سراپا وفا ہوں
میں حوّا کی بیٹی
اسما صدیقہ کی دو خوبصورت نظمیں بھی شامل ہیں
’’ برف رتوں کا المیہ سے انتخاب:
درونِ دل کے ہرایک درکی دبیز چلمن بکھرگئی ہے
ٹھٹھرتے موسم کو دوش دے کردلوں کی دنیا اجڑگئی ہے
’’گرہستن ‘‘ سے انتخاب:
نہ خواب آنکھوں میں تیری پلتے نہ دیپ راہوں میں تیری جلتے
نہ آرزو سے نظر ملاتی،نہ شب میں کوئی سحر جگاتی
ستم ہزاروں جو ٹوٹ جاتے روا نہیں تھا کہ لب ہلاتی
’’ دل ِ ویراں ‘‘( قانتہ رابعہ صاحبہ ) دل کے ارمان آنسوئوں میںبہہ گئے ۔ حسرت نا تمام ، بے چاری مجبور عورت!
’’ یہ دکھ صرف تیرا نہیں ‘‘( نبیلہ شہزاد) ہمارے ملک میں یہ اکثر غریب گھرانوں کا المیہ ہے کہ بیوی ، بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے محنت مزدوری کرتی ہے لیکن خاوند بے کار ، نشے کا عادی ۔ کاش ایسے مرد سدھرجائیں ۔
’’ خوش رنگ سویرا‘‘ ( ڈاکٹر زاہدہ ثقلین) طبی بنیاد پر پیدا ہونے والی نفسیاتی الجھنوں پرمبنی ایک کہانی بعض اوقات گھر میں بیوی چڑ چڑی ہوجاتی ہے اکتاہٹ کا شکار رہتی ہے لیکن اس کے پیچھے کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے ۔ ایسے میں خاوند اس کے ساتھ ہمدردی کا برتائو رکھے اس کہانی میں یہی سبق دیا گیا ہے۔
’’ حساب کتاب‘‘ توقیر عائشہ کی تحریر کردہ ایک سبق آموز کہانی بتاتی ہے کہ مغربی تہذیب اور لباس کی دوڑ میں ہمیں اپنے اسلامی شعائر کو کبھی نہ بھولنا چاہیے۔
’’ روٹھے ہو تم ‘‘ (طوبیٰ احسن) کہانی مختصر لیکن خوب ہے اللہ کی ذات دلوں کو موم کردے تو مسائل حل ہوجائیں۔
’’ اک نئی رُت‘‘( عروبہ منور) یہ کہانی بھی یہی سکھاتی ہے کہ اگر گھر میں بھابیاں ، نندیں مل کر گھر کے کام کاج سنبھال لیں ، ساس رہنمائی کرے نہ کہ صرف ڈانٹ ڈپٹ ، تو گھر کی فضا خوشگوار رہ سکتی ہے۔
’’ اک ستارہ تھی میں ‘‘ ( اسما اشرف منہاس) ابھی تک کہانی میں

سسپنس ہے زرک پون پر سختی کرتا کچھ اگلوانا چاہتاہے یہاں کہانی ذرا جاسوسی ناول کی صورت اختیار کر رہی ہے ۔ اس سیچویشن سے نکل کر ہی کہانی آگے بڑھے گی۔
’’ حیات زریں‘‘ نائب مدیرہ محترمہ آسیہ راشد صاحبہ کا محترمہ اسما مودودی صاحبہ کی شخصیت کے بارے میں ایک معلومات افزا مضمون۔ واقعی اسما مودودی صاحبہ کی شخصیت خواتین کے لیے ایک مشعل راہ ہے ۔ یہ جملے خوبصورت ہیں ’’ وہ خاموش طبع تھیں ، جھجکتے ہوئے بات کرتی تھیں۔ اب ان میں ایک خاص اعتماد آگیا تھا ۔ الفاظ میں شیرینی اور تاثیر آگئی تھی ۔ زبان و بیان کی سادگی اور معاملہ فہمی انہیں وراثت میں ملی تھی ۔ ان کے پاس گویا ایسی روحانیت آگئی تھی کہ ہر کوئی ان کے پاس بیٹھ کر سکون محسوس کرتا اور اپنائیت کا احساس جاگزیں رہتا ۔ آپ اپنی باقیات میں ایمان ، دانش مندی اور پیار محبت کی میراث چھوڑ کر گئی ہیں ‘‘۔
’’ چلے تو غنچوں کی مانند مسکرا کے چلے ‘‘ (حمیرا عبید الرحمان) نےاپنے نیک سیرت اور باکردار والد کے بارے میں ایک اچھا مضمون تحریر کیا ہے ۔یہ جملے خوبصورت ہیں ’’ والدین تو اپنی اولاد کے لیے شجر سایہ دار ہوتے ہیں ۔ جب وہ سایہ رخصت ہوتا ہے تو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے ان کے سر سے سائبان ہٹ گیا ہو۔وہ ایک شجر سایہ دارتھے جس کی چھائوں اپنے پرائے ، چھوٹے بڑے سب کے لیے تھی‘‘۔
’’ ابو چلیے بہت دیر ہو گئی ‘‘ (عشرت زاہد) اللہ کے گھر اور روضہ رسولؐ کی زیارت کے لیے تڑپ میں ڈوبا ہؤا ایک مضمون ۔ اتنی تڑپ کہ مسجد نبوی ؐ میں سر سجدے میں رکھا تو جان اللہ کو پیش کردی ۔ ایسی ہوتی ہے ایمان والوں کی عقیدت اور چاہت !
’’ برفیلے چنار ‘‘ ( سیف اللہ خاں التمش) اس مضمون میں مقبوضہ کشمیر کی خوبصورت وادی سے گہری محبت ٹپکتی ہے ۔ کاش یہ وادی جنت نظیر آزادی کی نعمت سے سر فراز ہو۔
’’ نشان خیر مینار پاکستان‘‘ (منزہ طارق ) دنیا کے مشہورمیناروں کے بارے میں ایک معلومات افزا مضمون ۔ واقعی مینار عظمت کا نشان ہوتے ہیں جیسے ہمارا مینار پاکستان ۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو بھی اس مینار جیسی رفعت و عظمت عطا کرے (آمین)۔
’’ تبصرہ کتب‘‘( قانتہ رابعہ کا تبصرہ) ’’ چند یادیں چند باتیں ‘‘ بیاد احمد عمر مرغوب شگفتہ عمر صاحبہ کے جواں سال ہونہار بیٹے احمد عمر کی یاد میں لکھی گئی ایک یاد گار کتاب۔ یہ جملے خوبصورت ہیں ’’ان سب سے جو شخصیت سامنے آتی ہے وہ سادگی کاپیکر ،دنیا داری سے بے نیاز اپنے مشن سے Devotedملنسار ‘‘ تبصرہ سے پتہ چلتا ہے کہ کتاب بھی خوب ہو گی۔
’’ یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا ؟‘‘ ( عالیہ شمیم) ایک مثالی خاندان کا بڑا اچھا تصور پیش کیا گیا ہے ۔ گھر خاوند اور بیوی کی مشترکہ کوششوں سے بنتا ہے ۔
’’ گوشہِ تسنیم ’’ جذباتی ذہانت‘‘ محترمہ ڈاکٹر بشریٰ تسنیم صاحبہ کا زبردست کالم ۔ زندگی میں کامیابی تبھی ممکن ہے جب ہم اپنے جذبات کے اظہار کے لیے مثبت اور تعمیری طریقے سیکھ لیں ۔ ذہنی ذہانت کے ساتھ ساتھ جذباتی ذہانت بھی بے حد ضروری ہے ۔ قلبِ سلیم ہی جذباتی ذہانت کا حامل ہوتا ہے اور ذریعہ نجات بھی !
قارئین کی خدمت میں سعادت ِرمضان مبارک اور عید کی پیشگی مبارک۔
٭٭٭
ڈاکٹر شگفتہ خواجہ۔ لاہور
بتول ایک معیاری رسالہ ہے ۔ میں مدت سے اس کی خریدار ہوں ۔ سب سے پہلے میں ابتدا تیرے نام سے پڑھتی ہوں ۔ اس سے مجھے اپنے ملک کے چیدہ حالات سے آگاہی ہو جاتی ہے ۔ صائمہ کا تبصرہ بغیر تعصب کےحق پر مبنی ہوتا ہے ۔ فروری کےرسالے میں دو تین کہانیاں مجھے اچھی لگیں ، کہانی بھی اچھی اور اخلاقیات کا سبق بھی مثلاً جوڑی فٹ ہے ، برف ہوا اور بھوک ، ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔
میرے خیال میں مذہبی لیکچر’’ گنا ہگاروں کی سزا ‘‘اور دعوت دین اتنے لمبے نہیں ہونے چاہئیں ۔ ابتدا تیرے نام میں نیچے جو شعر ہیں ان میں آخری والا ’’ زہرپی کے دیکھتے ہیں ‘‘ مایوسی والا لگا ۔
٭٭٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x