ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

برکت کیا ہے اور کیسےملتی ہے – بتول جنوری ۲۰۲۳

خالق کائنات کی دنیا میں نظم،ترتیب اور باقاعدگی کے عناصر نے جہاں حیات انسانی کے لیے آسانیاں پیدا کی ہیں،وہیں ایک پوشیدہ درس بھی دیا ہے کہ باقاعدگی اور ترتیب ہی زندگی کو خوشگوار بناتی اور آسانی پیدا کرتی ہیں۔
’’وہی اللہ ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند کو پیدا کیا ہے ۔ ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مدار میں تیرتے پھرتے ہیں‘‘ (الانبیاء) ۔
’’لوگ آپ سے چاند کے (گھٹنے، بڑھنے) متعلق سوال کرتے ہیں آپ کہیے یہ لوگوں (کی عبادات) کے اوقات اور حج کے (تعین) کے لیے ہے‘‘(البقرہ)۔
بے قاعدگی ہو یا بے ترتیبی،حیات کو مشکل بنا دیتی ہے۔ باقاعد گی صرف طالب علموں کے لیے ہی ضروری نہیں اور نہ ہی ترتیب، محض اشیاء کو ان کی جگہوں پر رکھنے کا نام ہے۔
ہم دیکھیں گے کہ بے قاعدگی و بے ترتیبی نے کس طرح ہمارے معمولات کو متاثر کیا ہے۔صبح اٹھنے سے لے کر رات سونے تک،خواہ کھانے کی روٹین ہو یا دیگر فرائض کی انجام دہی کی،سبھی کو غیر منظم طریقہ کار کو رواج دے کر ہم مشکل سے مشکل بنا چکے ہیں۔ہمارے کھانے، سونے جاگنے کے معمولات حد درجے بے قاعدہ ہو چکے ہیں،نظام ہضم کے مسائل کھانے کے اوقات میں بے ترتیبی سے پیدا ہوتی ہے۔گویا برکت ہمارے معمولات سے اٹھا لی گئی ہے اور بے برکتی،ہماری روٹین پر چھا چکی ہے جوکبھی بے قاعدگی ، کبھی بے ترتیبی تو کبھی بد نظمی کی صورت میں ہمیں متاثر کرتی ہے۔
فجر کے وقت اٹھ کر نماز کی ادائیگی سے دن کا آغاز کیا جائے اور فجر کی برکتوں سے فیض یاب ہؤا جائے تو باقاعدگی اور ترتیب کو بآسانی اپنی زندگیوں میں داخل کر کے خوشگوار اور آسان زندگی گزاری جا سکتی ہے۔
برکت سے مراد اضافہ یا خوشحالی لیا جائے۔برقرار رہنا،کثرت خیر،دوام غرض جو بھی مراد لی جائے،یہ بہرحال واضح ہے کہ اس کو محسوس کیا جاتا ہے اور اگر یہ ہمارے علم،عقل،دین،مال،اولاد،ازواج میں سے اٹھا لی جائے تو تنگی،اور مشکل،عدم اطمینان،بے سکونی تو کبھی جہالت کی صورت میں بے برکتی کو نمو پانے کا موقع ملتا ہے اور یہی برکت اگر آپ کے علم میں دے دی جائے تو ہدایت کا باعث بنتی ہے،مال میں آپ کو برکت سے نواز دیا جائے تو اسراف اور بخل سے آپ بچ جاتے ہیں،آپ کوحکمت عطا کر دی جاتی ہے اور مال خرچ کرنے میں اعتدال کی روش پر آپ گامزن ہو جاتے ہی،انفاق کرتے ہیں جو آپ کے مال کو پاکیزہ کرنے کے ساتھ ساتھ افزونی عطا کرتا ہے۔تھوڑی چیز بھی آپ کو کافی ہونے لگتی ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ بہت کم زندگی پانے والے بڑے بڑے کارہائے نمایاں سر انجام دے گئے اور بڑی طویل زندگی والے بھی محض ٹھوکریں ہی کھاتے رہ گئے۔امام شافعی،مسلم،ابن تیمیہ اور بے شمار اہل علم اسلاف میں ایسے ہو گزرے ہیں جن کی زندگی میں بے شمار برکات ان کے ذخیرہ علم کی صورت میں نظر آتی ہیں۔ابوجہل،ابولہب اور بڑے بڑے فرعون و سردار بے بہا مال اور اولاد رکھنے کے باوجود برکت سے محروم رکھے گئے اور آج کوئی ان کا نام لیوا نہیں ملتا۔صحت میں برکت کے نتیجے میں آپ کی توانائیاں اللہ کے کاموںیں صرف ہونے لگتی ہیں،آپ کو خرافات میں مبتلاہونے سے بچا لیا جاتا ہے۔آپ کی جوانی میں برکت سے مراد یہ ہے کہ شباب بے داغ اور پاکیزہ بنا دیا جائے اور جوانی کی عبادتیں آپ کا مقدر بنا دی جائیں۔ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ آپ کے پاس

مال ودولت کی زیادتی اور فراوانی ہے تو یہ برکت کی نشانی ہے بلکہ برکت کی وجہ سے افزونی ہؤا کرتی ہے۔یہ ایسی ایسی جگہوں سے آپ کی زندگی میں داخل ہوتی ہے کہ آپ اسے محسوس تو کر سکتے ہیں مگر ضروری نہیں کہ برکت کا مآخذ بھی جان لیں۔بعض اوقات چیز ایک کثیر مقدار میں ہوتی ہے مگر بے برکتی کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے اس کے برعکس علن، عمل، اولاد،رزق تھوڑی مقدار میں بھی ہو تو خیر کا باعث بنتا ہے اور برکات سے مستفید ہؤا جا سکتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ؐ نے فرمایا: ’’بارش کا نہ ہونا قحط سالی نہیں بلکہ قحط سالی یہ ہے کہ بارشیں تو ہوتی رہیں لیکن ان میں برکت نہ ہو‘‘۔(مسلم)
برکت ہر ایسی جگہ محسوس نہیں کی جا سکتی جہاں حق سے انحراف کیا جا رہا ہو،بغاوت کی جا رہی ہو،حق تلفی کی جا رہی ہو،اللہ کا خوف رکھ کر معاملات نہ کیے جا رہے ہوں،مخلوق کو تنگ کیا جا رہا ہو۔اگر علم میں برکت نہ ہو تو بے پناہ علم بھی آپ کو بھٹکا سکتا ہے۔آپ کثیر العیال بھی ہوں تو برکت کو محسوس نہیں کر سکتے اور اولاد کم بھی ہو مگر آنکھوں کا نور اور ٹھنڈک ہو اور آپ کے لیے بہترین صدقہ جاریہ ہو تو برکات سے دامن سمیٹ سکتے ہیں۔آپ کے پاس دولت کے انبار بھی ہوں تو ضروری نہیں کہ آپ کو استغنا حاصل ہو جائے مگر قلیل معیشت بھی آپ کو کافی ہو سکتی ہے اور آپ کو فراخدلی اور سخاوت کرنے والا بنا سکتی ہے اگر بابرکت ہو۔
امام بخاریؒ ادب المفرد میں روایت کرتے ہیں:’’دو محبت کرنے والوں میں جدائی بھی اس گناہ کی وجہ سے ہوتی ہے جو ان دونوں میں سے کسی سے سرزد ہؤا ہے‘‘۔غورکرو! میاں بیوی کے باہمی تعلقات کو سورہ طلاق میں بیان کرتے وقت اللہ نے تقویٰ کا بار بار ذکر کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی فرمایا، اور بہت سی بستیوں (کے رہنے والوں) نے اپنے پروردگار اور اس کے پیغمبروں کے احکام سے سرکشی کی تو ہم نے ان کو سخت حساب میں پکڑ لیا اور ان پر (ایسا) عذاب نازل کیا جو نہ دیکھا تھا نہ سنا۔سو انہوں نے اپنے کاموں کی سزا کا مزہ چکھ لیا اور ان کا انجام نقصان ہی تو تھا۔اللہ نے ان کے لیے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔ تو اے ارباب دانش! جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو ‘‘ (طلاق)۔
طے شدہ بات ہے کہ اللہ کی جتنی فرمانبرداری کی جائے گی اتنی ہی برکات آپ کو عطا کی جائیں گی۔اللہ اپنے بندوں سے اتنی محبت کرتا ہے اور برکتوں سے نوازنا چاہتا ہے کہ ہر نماز میں درود ابرہیمی کو لازم ٹھہرا دیا جس میں برکت کی ہی دعا ہے۔ہم نکاح کے موقع پر زوجین کو برکت کی دعا دیتے ہیں مگر زوجین اگر حدود اللہ کی پاسداری نہیں کرتے یا قرابت داروں کے حقوق ادا کرنے میں غفلت یا سنگدلی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور پھر بے برکتی کی شکایت کرتے ہیں تو بلاشبہ خود اپنی اداؤں کو سنوارنے کی ضرورت ہے،کیونکہ اللہ کے پاس کسی شے کی کمی نہیں۔
حدیث قدسی ہے:جب میری اطاعت کی جائے تو میں خوش ہوتا ہوں، جب میں خوش ہوتا ہوں تو برکتیں عطا کرتا ہوں اور میری برکتوں کی کوئی انتہانہیں۔(مسند احمد)
ہم دیکھتے ہیں کہ غزوات میں انتہائی قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود مسلمان غلبہ پا لیا کرتے،یقیناً یہ دکھائی نہ دینے والی مگر محسوس کی جانے والی برکت ہی کا نتیجہ تھا۔ہم دیکھتے ہیں کہ قوم سبا کا اپنی خوشحالی اور امارت کے باوجود نام ونشان مٹ گیا کیونکہ ان کی باغیانہ روش کے باعث برکت اٹھا لی گئی۔اور ان کے مال نے انہیں کچھ فائدہ نہ پہنچایا۔عذاب رسیدہ بستیوں کی تباہی کی وجہ بیان کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے:
’’اگر بستی والے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے، لیکن انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے انہیں ان کی کارستانیوں کی وجہ سے پکڑ لیا‘‘۔(الاعراف)
اگر آپ برکت حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہنے سے یہ آپ کو نہیں ملے گی بلکہ اس کے لیے آپ کو دعا،صلہ رحمی ،توکل،تجارت میں دیانتداری سے کام لینا پڑے گا۔ عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ ایک بار نبی ؐ قضائے حاجت کے لیے گئے تو میں نے آپ کے وضو کا پانی رکھ دیا، آپ ؐ واپس آئے تو پوچھا: (یہ وضو کی کےلیے پانی کس نے رکھا ہے؟) تو آپ کو میرا بتلا دیا گیا، اس پر نبی ؐ نے دعا فرمائی:

اَللَّهُمَّ فَقِّهْهُ فِي الدِّيْنِ
یا اللہ! اسے دین کا فقیہ بنا دے۔(بخاری)
گویا اللہ کی فرمانبرداری،اخلاص،نیک اعمال،گناہوں سے بچنا اور تقویٰ قول و عمل میں ایسی تاثیر پیدا کر دیتے ہیں کہ کی گئی دعائیں برکت ہی برکت لاتی ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس ؓ جیسا فقیہہ کوئی نہ تھا۔اگر ہم حقیقتاً برکتوں کے نزول کے خواہشمند ہیں تو ہمیں اپنے عمل میں اخلاص اور قول میں سچائی پیدا کرنا ہو گی۔
آج خود غرضی کا چلن جب کہ عام ہو چکا ہے،پیسہ ہی تعلق بناتا ہے اور پیسے ہی کی بنیاد پر تعلق کاٹ دیے جاتے ہیں۔رشتہ داروں کے حقوق کی پامالی کی جاتی ہے۔اسراف کرنے میں تو عیب نہیں سمجھا جاتا مگر محروم رشتہ دار پر خرچ کرنے سے جان جاتی ہے۔اگر آپ پیسے والے ہیں اور آپ کے اقارب محروم،تو آپ کے مال میں ان کا حصہ ہے۔احسان جتانے کی بجائے خوشدلی سے اقارب پر خرچ آپ کے مال میں برکت کا باعث بنتا ہے۔اگر آپ علم اور شعور کی نعمت سے نوازے گئے ہیں تو اس میں برکت کی علامت یہ ہے کہ اس علم وشعور سے آپ اپنے اقارب کو کیسے مستفید ہونے کا موقع دیتے ہیں۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: جس شخص کو اچھا لگتا ہے کہ اس کے رزق میں اضافہ کر دیا جائے اور اس کی زندگی لمبی کر دی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے(بخاری،مسلم)
اکثر تجارت پیشہ افراد مال کا نقص بیان کیے بغیر پوری قیمت پر اسے بیچ دیتے ہیں،نا جائز منافع خوری کرتے ہیں،جھوٹ بولتے ہیں مگر اس کے باوجود مال میں برکت کو محسوس نہیں کرتے،وہ سکون اطمینان محسوس نہیں کرتے جس سے ایک مزدور بھی فیضیاب ہوتا ہے،کاروباری شریک بھی جب آپس میں جھوٹ بولتے ہیں تو ان کی کمائی سے برکت ختم کر دے جاتی ہے اور سچائی ان کی بیع میں برکت کا موجب بنتی ہے ۔اسی لیے خدیجہ ؓ کے مال ودولت میں برکت ہی برکت ڈال دی گئی۔حکیم بن حزام رضی الله عنہ نبی صلی الله علیہ وسلم سےروایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبی ؐ نے فرمایا: خریدنے اور بیچنے والا جب تک ایک دوسرے سے الگ نہ ہو جائیں انہیں اختیار باقی رہتا ہے۔ اب اگر دونوں نے سچائی اختیار کی اور ہر بات صاف صاف بیان اور واضح کر دی تو ان کی خریدوفروخت میں برکت ہوتی ہے.لیکن اگر انہوں نے کوئی بات چھپائی یا جھوٹ بولا تو ان کی خرید و فروخت میں سے برکت ختم کر دی جاتی ہے.(بخاری)
ایک دوسری حدیث میں آتا ہے:دو خرید و فروخت کرنے والے جب تک جدا نہ ہوں اس وقت تک با اختیار ہیں -یا آپ ؐ نے فرمایا: یہاں تک کہ وہ جدا ہو جائیں- چنانچہ اگر وہ سچ بولیں اور [عیوب] واضح کر دیں تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ڈال دی جاتی ہے، اور اگر جھوٹ بولیں اور (عیوب)چھپائیں تو ان کی بیع سے برکت مٹا دی جاتی ہے۔(بخاری،مسلم)
ہو سکتا ہے کہ ایک تاجر مال کا نقص چھپا کر ناجائز منافع حاصل کر لے مگر مال کہ اس ظاہری زیادتی سے برکت اٹھا لی جاتی ہے۔یہ سوچ ذہن میں آ سکتی ہے کہ اگر بے ایمان تاجر کے مال سے برکت اٹھا لی جاتی ہے تو ان کی اور ان کے خاندان اتنی پر آسائش بلکہ تعیشات سے بھرپور زندگی کیسے برقرار رہتی ہے۔آپ کو معلوم ہو گا کہ ایمان کی برکت نے خباب،عمار،صہیب کی زندگیوں کو عزم استقامت کا نمونہ بنا دیا جبکہ غلط اور مشرکانہ عقائد کی بے برکتی کے باعث بڑے بڑے سرداروں کا نام لیوا کوئی نہیں۔غریب لوگ جب آپ ؐ پر ایمان لائے تو مکہ کے رؤسا نے استہزاکا نشانہ بنایا مگر ایمان کی برکت نے غربت کے باوجود انہیں سر بلند کیا جبکہ رؤسائے مکہ کی دولت کی کثرت کے باوجود ان کا کوئی نام لیوا نہیں۔کیا یہ برکت نہیں؟کیا وہ بندہ جو حرام مال سے صدقہ یا حج کرتا ہے اس کا حج ،حج مبرور ہو سکتا ہے؟کیا بددیانت تاجر پرتعیش زندگی گزارنے کے باوجود وہ سکون پا سکتا ہے جو حلال مگر کم کمانے والا تاجر پاتا ہے؟حلال کمائی سے کیے جانے والے نیک اعمال وصدقات قبول کیے جاتے ہیں جبکہ حرام مال سے کیے گئے صالح عمل بھی خیر کا باعث نہیں بنتے۔کیا یہ حدیث برکت کا مفہوم سمجھنے کے لیے کافی نہیں جس میں آنحضرت ؐنے اس شخص کا ذکر کیا جس نے لمبا سفر اختیار کیا اور جس کے

ہو سکتا ہے کہ ایک تاجر مال کا نقص چھپا کر ناجائز منافع حاصل کر لے مگر مال کہ اس ظاہری زیادتی سے برکت اٹھا لی جاتی ہے۔یہ سوچ ذہن میں آ سکتی ہے کہ اگر بے ایمان تاجر کے مال سے برکت اٹھا لی جاتی ہے تو ان کی اور ان کے خاندان اتنی پر آسائش بلکہ تعیشات سے بھرپور زندگی کیسے برقرار رہتی ہے۔آپ کو معلوم ہو گا کہ ایمان کی برکت نے خباب،عمار،صہیب کی زندگیوں کو عزم استقامت کا نمونہ بنا دیا جبکہ غلط اور مشرکانہ عقائد کی بے برکتی کے باعث بڑے بڑے سرداروں کا نام لیوا کوئی نہیں۔غریب لوگ جب آپ ؐ پر ایمان لائے تو مکہ کے رؤسا نے استہزاکا نشانہ بنایا مگر ایمان کی برکت نے غربت کے باوجود انہیں سر بلند کیا جبکہ رؤسائے مکہ کی دولت کی کثرت کے باوجود ان کا کوئی نام لیوا نہیں۔کیا یہ برکت نہیں؟کیا وہ بندہ جو حرام مال سے صدقہ یا حج کرتا ہے اس کا حج ،حج مبرور ہو سکتا ہے؟کیا بددیانت تاجر پرتعیش زندگی گزارنے کے باوجود وہ سکون پا سکتا ہے جو حلال مگر کم کمانے والا تاجر پاتا ہے؟حلال کمائی سے کیے جانے والے نیک اعمال وصدقات قبول کیے جاتے ہیں جبکہ حرام مال سے کیے گئے صالح عمل بھی خیر کا باعث نہیں بنتے۔کیا یہ حدیث برکت کا مفہوم سمجھنے کے لیے کافی نہیں جس میں آنحضرت ؐنے اس شخص کا ذکر کیا جس نے لمبا سفر اختیار کیا اور جس کے بال پریشاں و گرد آلود ہورہے ہیں اور وہ دونوں ہاتھ اٹھا کر کہہ رہا ہے: اے پروردگار، اے پروردگار (یعنی دعا مانگ رہا ہے) لیکن( حالت یہ ہے کہ) اس کا کھانا بھی حرام، پینا بھی حرام ہے، لباس بھی حرام ہے اور غذا بھی حرام۔ پھر کیوں کر اس کی دعا قبول ہوسکتی ہے ۔(مسلم)
برکت سے مستفید ہونے کے لیے ضروری ہے کہ کفایت پر مبنی رویہ اختیار کیا جائے اور شکر کو لازم پکڑ لیا جائے۔دیکھا جاتا ہے کہ حلال کمانے والے بھی شش و پنج کا شکار ہو جاتے ہیں،مادیت پرستی کیونکہ اپنا سایہ سمجھدار لوگوں پر بھی ڈال چکی ہے لہٰذا وہ حسرت سے ان نعمتوں کی طرف دیکھتے ہیں جو ان کے پاس صرف اس لیے نہیں کہ انہوں نے حلال کی برکت حاصل کرنا چاہی ہے لیکن سر دست برکت کا مفہوم یہ ہے ہی نہیں کہ آپ کے پاس دنیا کی ہر نعمت آ جائے گی،برکت غنا پیدا کرتی ہے،آپ کو راضی برضا رکھتی ہے،عمل صالح کی توفیق ملتی ہے آپ کو۔حلال پر قانع رہتے ہوئے برکت کا مشاہدہ کرنے کے لیے بھی ہمیں طریقہ کار بتایا گیا ہے کہ
’’نعمتوں کے لحاظ سے اس کی طرف دیکھو جو تم سے کم تر ہے اور اس کی طرف نہ دیکھو جو تم سے برتر ہے کیوں کہ یہ زیادہ امکان ہے کہ اس سے تم اپنے اوپر الله کی نعمت کو حقیر نہیں جانو گے‘‘۔(صحیح مسلم)
خرچ کرنا،مال کا تزکیہ کرتا ہے۔قرآن میں ان لوگوں کی مثال پیش کی گئی ہے جو خرچ کرنے میں بخل سے کام لیتے تھے اور ساری فصل پر اپنا حق جتاتے تھے مگر اللہ نے ان کے رویے کے سبب ان کے مال و رزق سے برکت اٹھا لی اور وہ ششدر رہ گئے۔آپؐ نے فرمایا:
’’کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جب بندے صبح کو اٹھتے ہیں تو دو فرشتے آسمان سے نہ اترتے ہوں ایک فرشتہ تو یہ کہتا ہے کہ اے اللہ خرچ کرنے واے کو اس کا بدلہ دے اور دوسرا کہتا ہے کہ اے اللہ روکنے والے(بخیل) کے مال کو تلف و برباد کر دے‘‘۔( بخاری)
برکت کا حصول کے خواہشمند ہیں تو رزق کو ضائع کرنا اور اس کی بے قدری کرنا چھوڑ دیجیے خواہ وہ کھانے کی صورت ہو،علم،مال،یا دولت کی شکل میں۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیؐ جب کھانا کھا لیتے توتین مرتبہ اپنی انگلیاں چاٹتے اور فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے اسے چاہیے کہ اس کو صاف کرکے کھا لے اور اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑے اور ہمیں حکم دیا گیا کہ اپنا پیالہ(برتن) چاٹیں اور فرمایا کہ بیشک تم نہیں جانتے کہ کھانے کےکس حصہ میں برکت ہے۔(مسلم)
صبح وقت پر اٹھنا بھی برکت کا موجب ہے،روزمرہ کے امور جلد نمٹ جاتے ہیں،انتظامی صلاحیتوں میں مستعدی آ جاتی ہے،عبادت اور خیر کی ترویج کے لیے وقت بونس میں مل جاتا ہے جبکہ صبح تاخیر سے اٹھنے والوں کا سارا دن پژمردہ گزرتا ہے۔آپؐ نے فرمایا:
’’اے الله ،میری امت کے لیے اس کے صبح کے وقت میں برکت عطا کر‘‘۔(مسند احمد)
برکت کے حصول کا ایک اہم ذریعہ توکل بھی ہے،یاد رہے توکل کا مفہوم یہ نہیں کہ بغیر جدوجہد اور بغیر تکلیف اٹھائے آپ آسودہ زندگی گزار سکتے ہیں بلکہ مقدور بھر تدبیر اور جدوجہد کے بعد نتائج سے بے نیاز ہو جانا اور اللہ کو مختار کل سمجھ لیناتوکل ہے۔آپؐ نے فرمایا:’’اگر تم حسن وخوبی کے ساتھ اللہ پر توکل کرو، تو تمہیں اس طرح رزق دیا جائے گا جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے ، وہ صبح کے وقت خالی پیٹ جاتے ہیں اور شام کے وقت آسودہ ہو کر لوٹتے ہیں‘‘۔(مسنداحمد)

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x