ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

نبی اکرم ﷺ کے سیاسی اصول – بتول جنوری ۲۰۲۳

نبی اکرم ﷺ کی شخصیت کے کارناموں کا مطالعہ ایک ایسی عظیم الشان شخصیت کا مطالعہ ہے جس کے ہر قول و فعل کو اب بھی دنیا کی چوتھائی آبادی اپنا قانون اور اسوہ حسنہ مانتی اور سمجھتی ہے ۔ ایک ایسا عظیم انسان ہی وطن میں جان کے لالے پڑے ہوں ۔ اور وہ اپنے ایک راز دار رفیق کے ساتھ غاروں میں چھپتا ہؤا، نامانوس راستوں پر چلتا سینکڑوں میل دور جاپہنچا ہو۔ مگر جب وہ اس نامانوس علاقے میں دس سال بعد انتقال کرتا ہے تو دس لاکھ مربع میل علاقہ کا حکمران ہو چکا تھا اور اس کے بعد صرف ۲۷ سال میں ہی دنیا کی دو عظیم الشان شہناہتیں ایک ہی وقت میں لڑ کر ایشیا افریقہ اور یورپ کے تین براعظموں میں مچھل گئیں ۔
آپ ؐ کے شہر مکہ میں جو عرب بستے تھے وہ قریش کے نام سے یاد کیے جاتے تھے ۔ ان کے تجارتی تعلقات کے لیے کاروانوں کا سفر اور بدرقوں کا ایک وسیع اور ترقی یافتہ نظام ضروری تھا ۔ اسی بین الاقوامی تجارت کو فروغ دینے کے لیے عرب میں ایک معاشی وفاق قائم کر دیا تھا قریشی بدرقے اور خفارے ان تجارتی قافلوں کو حفاظت سے ان کی منزل تک پہنچا دیتے تھے ۔ عکاظ عرب کا سب سے بڑا سالانہ میلہ تھا جس میں تمام عرب کے قبائل سامان لاتے تھے ۔
زمانہ جاہلیت میں قریش اپنے حج کے سلسلے میں مکے کے مضافات میں جمع ہوتے تھے بیعت عقبہ کے سلسلے میں اہل مدینہ سے ملنے سے پہلے آنحضرتؐ پندرہ قبائل کے پڑائووں میں تبلیغ کے لیے گئے تھے ۔ ان میں کندہ عرب کے انتہائی جنوب میں رہتے تھے ۔ کلب انتہائی شمال میں دو متہ الجندل میںبستے تھے ۔یہی وجہ تھی کہ ۸ ہجری میں مکہ فتح ہوا تو ۹ہجری میں تاریخ اسلام میں عام الوفود کے نام سے مشہور ہؤا ۔ کیونکہ عرب کے ہر حصے سے مدینے میں سفارتیں ٹوٹ پڑیں اور حضور اکرمؐ کی حکومت اور اسلام کو ماننے کا اعلان کرتی چلی گئیں ۔ یہ سفارتیں بھی عرب کے ہر حصے سے آئی تھیں۔
نبی اکرم ؐ کے سیاست کے چند اہم اصول تھے ۔ جن پر آپ ؐ سختی سے کار فرما رہے۔
(۱) اسلام کی تبلیغ و اشاعت سب سے پہلا اصول تھا ، اس کے لیے آپ ؐ نے ذاتی انتقام اور مالی منعفت کو بھی ہمیشہ نظر انداز کر دیا اسی لیے جب آپ ؐ نے مکہ کو بلا شرط اور بزور فتح کیاتو آپ ؐ کے لیے یہ بہت آسان تھا کہ اس مالدار شہر کو لوٹ لینے اور مہاجرین کی منقولہ جائیدادوں اور دیگر جسمانی اور مالی نقصان کا بدلہ لیتے ۔ ابو سفیان کو گرفتار کر کے چند ہزار کا فدیہ ہی طلب کر لیتے مگر آپ ؐ نے ایسا کچھ نہ کیا بلکہ اپنے ہر عمل سے نا گزیر باہمی اختلافات کو مٹا دیا۔
آپؐ جب ہجرت فرما کر مدینہ آئے تو چند مدنی عربی قبائل مسلمان ہو گئے تھے ۔ ان کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں یہودی رہتے تھے جو زراعت تجارت صنعت غرضیکہ جملہ معاش زندگی پر حاوی تھے ان میں بھی آپس میں رقابتیں تھیں اور ان کا اپنا ایک مذہب اور تمدن تھا ۔ ان سب کے ساتھ سینکڑوں مہاجرین تھے جو مکے کے بے شمار قبائل سے تعلق رکھتے تھے ۔ ان تمام عناصر میں ایک وفاقی وحدت پیدا کرنا اور مدینے میں ایک شہری مملکت قائم کر کے اس کا ایک دستور مرتب کرنا بہت ضروری تھا۔
مدینہ کی حفاظت کے علاوہ اس کے اندرونی استحکام کے لیے اس بات کی ضرورت تھی کہ آس پاس کے قبائل سے دوستی کی جائے چنانچہ

ہجرت کے چند ماہ بعد ہی آپ ؐ مدینے کے جنوب مغربی اور ساحل سے متصل علاقے کا بار بار دورہ شروع کر تے اور ینبوع میں رہنے والے قبائل کو تسلی دیتے کہ اگر ان پر کوئی حملہ کرے گا تو مسلمان ان کی مدد کریں گے اور مسلمانوں پر اگر کوئی حملہ آور ہؤا تو یہ قبائل مسلمانوں کی مدد کر یں گے ۔ ایک اصول یہ بھی قرار پایا کہ عرب میں جو شخص یا خاندان یا قبیلہ مسلمان ہو وہ ہجرت کرکے مدینہ یا مضافات میں آبسے ۔ یہ سیاست فتح مکہ تک باقی رہے ۔ اس سے مسلمان فوج کے لیے محفوظ رضا کاروں میں اضافہ ہؤا اور نو مسلموں میں اسلام کی گہرائی پھیلتی گئی۔
(۲) عہد نبوی میں دس سال میں دس لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح ہؤاجس میں لاکھوں کی آبادی تھی اس طرح تقریباً روزانہ ۲۷۴ مربع میل کے اوسط سے دس سال تک فتوحات کا سلسلہ ہجرت سے وفات تک جاری رہا ۔ ان فتوحات میں دشمن کا جاہانہ ایک شخص قتل ہؤا۔ جنگ بدر میں دشمن ۷۰ کی تعداد میں مارے گئے ۔ یہ سب سے بڑی تعداد ہے اور یہ عہد نبوی ؐ کی سب سے پہلی جنگ تھی۔
(۳) دشمن پر قابوپانے اور خونریزی کوکم ترین سطح پر لانے کے لیے ضروری ہے کہ فنون سپہ گری میں مہارت ہو۔ اس کے لیے رسول اکرم ؐ نے ہر اچھی چیز اختیار کی ۔ عربوں میں صف بندی کا رواج نہ تھا، آپؐنے غزوہ بدر سے ہی صف بندی شروع کردی تھی ۔ فتح مکہ کے وقت تو صف آرائی ایک مخصوص افسرکے سپرد کی گئی ۔ ہر فوج کا مہم پر روانگی سے پہلے شہر کے باہر معائنہ ہوتا تھا اور کم عمر رضا کار یا سواری اور اسلحہ نہ رکھنے والے واپس کردیے جاتے تھے ۔ جنگ بدر میںصف آرائی کے بعد جو جامع ہدایات دی گئیں تھی وہ یہ تھیں ’’ جب تک میں حکم نہ دوں کوئی اپنی جگہ سے حرکت نہ کرے۔دشمن دور ہو تو تیر چلا کر بیکار ضائع نہ کرے بلکہ قریب آئے تو پتھر پھینک کر مارے ۔ اس سے اور قریب آئے تو نیزہ اور پھر تلوار چلائے۔
وردی کی غیرموجودگی میں اورشب خون کی ضرورتوں کے لیے اسلامی سپاہیوں کے لیے ’’ شعار‘‘( واچ ورڈ) مقرر کیے گئے تھے اور ہر دو بدو کے مقابلہ کے وقت سپاہی اسے دوہرا تا اور حریف وہ لفظ نہ دہراتا تو اطمینان ہو جاتا کہ وہ رفیق نہیں دشمن ہے۔
خندق کے ذریعے محصور شہر کی مدافعت اسی اصول کی ایک اہم مثال ہے ۔ جس میں شہر مدینہ کو دشمن سے محفوظ کیا گیا ۔
خیبر کی لڑائی میں منجنیق سے دشمن کے محصورقلعہ میں پتھربرسائے گئے تھے ۔ طائف کے محاصرے میں مزید برآں دبا بے استعمال کیے گئے جو ایک پہیے والی گاڑی ہوتی جس کے اوپربنل یا کوئی اور موٹا چمڑہ منڈھ دیا جاتا تاکہ پتھروں سے اندر رہنے والے آدمیوں کو نقصان نہ پہنچے فصیلوں کو کھودنے اور اسی قسم کے کام کرنے کے لیے دبابے کو کام میں لایا جاتا ۔ طائف میں منجنیق کے علاوہ عرا وہ بھی استعمال میں لایا گیا۔
فوجوں کی مشقیں ، گھوڑوں ،اونٹوں ، گدھوں کی دوڑ کرائی جاتی تیر اندازی کے مقابلے کرائے جاتے ،غاروں کے ذریعے صف بندی ، روزے کے ذریعے ہر موسم میں سپاہیوںکو بھوک پیاس کی مشق حج کے ذریعے عرفات وغیرہ کے بے آب و گیاہ علاقوں میں کوچ اور قیام کی عادت ڈالی جاتی۔
(۴) نبی کریم ؐ کے زمانے میں خبر رسانی اور ناکہ بندی کا منظم اور مکمل نظام تھا ، جس سے آپ ؐ دشمن کی ہر نقل و حرکت سے پوری طرح با خبر رہتے اور اپنی نقل و حرکت سے آخر وقت تک دشمن کو بے خبررکھتے۔
مکہ میں بھی آپؐ کے خبر رساں موجود تھے ۔ خندق کے معرکے میں قریش نے مدینہ کے شمال کے قبائل عطفان وغیرہ کے دس ہزارکے حجم غفیر کے ساتھ حملہ کیا تھا اتنا بڑا لشکر عرب میں غیر معمولی بات تھی۔ اتفاق سے اسی زمانے میں آپؐ عرب کے شمال میں دومۃ الجندل کی طرف گئے ہوئے تھے ۔ آپ ؐ کا آدھے راستے سے واپس آجانا اور محاصرہ کنندہ کے پہنچنے سے پہلے دو ہفتے کی مہلت پا کر مدینہ میں خندق کی کھدائی مکمل کرنا خبر رسانی کے عمدہ انتظام پر دلالت کرتا ہے ۔اسی طرح فتح مکہ کی تیاری ایک شخص نے مدینہ سے قریش کو لکھ کر بھیجی تو پیغام رساں راستے میں پکڑا گیا ۔ اپنی خبروں کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ناکہ بندی سختی سے کی گئی ۔ یہاں تک کہ دس ہزار کا لشکر مدینہ سے مکہ کی طرف چلتا ہے اورمضافات مکہ میں پڑائو ڈالنے سے پہلے دشمن کو خبر نہیں ہوتی ۔ اس کا ایک اورطریقہ

غلط سمت میں جانے کی خبر مشہور کرنا تھا ۔ صرف غزوہ تبوک کی مہم میں سفر کی طوالت اور موسم کی خرابی کے باعث سپاہیوں سے پہلے سے کہہ دیا تھا کہ کہاں جانا ہے ورنہ ہمیشہ ’’ تورنہ‘‘( دکھاوا ) کیا جاتا تھا۔
(۵) قریش کاروز گار زیادہ تر تجارت سے حاصل ہوتا تھا ۔ تبادلہ اشیاء کے ذریعے وہ نفع کمایا کرتے تھے ۔ اس غرض سے وہ سردیوں میں جنوب یعنی یمن اور گرمیوں میں شمال یعنی شام فلسطین مصر اور عراق جاتے تھے ۔ شمالی راستہ اس علاقے سے گزرتا تھا جومدینہ اورینبوع کے مابین ہے ہجرت کے چند ماہ بعد ہی قریشی قافلوں کوحق غنیم کے تحت لوٹ لیا جانے لگا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ قریش نے ساحلی راستہ مجبوراً ترک کردیا اور صحرا سے ہو کر عراق جانے لگے لیکن جلد ہی آپؐ کا اثر نجد تک پھیل گیا تو وہ راستہ بھی ہاتھ سے نکل گیا ۔ قریش کو بحرین اوریمامہ سے بھی غلہ ملتا تھا ان علاقوں پر اسلامی اثرات پھیلنے سے غلہ کی برآمد روک دی گئی اور قریش کو اس معاشی مقاطعہ سے کافی دبائو پڑا ۔
(۶) آپ ؐ نے مختلف وسائل سے قریش کے دوستوں کو توڑنے اور مسلمانوں سے جوڑنے پر آمادہ کیا ۔ دستور مملکت میں مدینہ کے یہودیوں کو اسی شرط پر کسی حملہ آور کے خلاف مدد دینا منظورکیا گیا تھا کہ وہ قریش کو کبھی مددنہ دیں گے ۔ نہ ان کے جان و مال کوکوئی پناہ دیں گے ۔ اس دستور میں مدینے کے غیر مسلم عربوں کی حفاظت اس شرط سے منظور کی گئی تھی کہ وہ قریش کو نہ خود کوئی مدد دیں اور ان کی جان و مال پر مسلمان حملہ کریں توآڑے آئیں ۔ اس سلسلے میں سب سے اہم کارنامہ صلح حدیبیہ ہے ۔ صلح حدیبیہ میں قریش کو اس بات پر آمادہ کردینا کہ وہ مسلمانوں کی جنگ میں غیر جانبدار رہیں گے ایک زبردست سیاسی فتح تھی جو مسلمانوں نے حاصل کی۔
(۷) نبی کریم ؐ کا ابتدا سے یہ اصول تھا کہ اپنی بات کا پاس رہے اور حلیفوں کی مدد سے کبھی غفلت نہ کی جائے اس کے ساتھ اسلامی فوجوں کی جنگی برتری فتوحات کی دھاک معاشی وسائل پر زبردست اقتدار ان تمام امور سے اطراف کے قبائل کو آپؐ کامطیع کر دیا تھا۔
(۸) دشمنوں میں پھوٹ ڈالنا بھی ایک خفیہ اصول کے طور پر اکثر عہد نبوی ؐ میں برتا گیا ۔ غزوہ خندق میں کئی مثالیں سامنے آئیں ۔
(۹) قریش کے غلہ کی منڈی جو یمامہ میں تھی بند کرا دی گئی جس سے مکہ میں قحط نمودار ہؤا ۔ اس دبائو کا جب قریش کو اندازہ ہو گیا تو یہ بندش اٹھالی گئی جس سے وہ بہت ممنون ہوئے ۔ اسی زمانے میں پانچ سو اشرفی ابو سفیان کو بھیجی کہ مکہ کے فقرا ء میں تقسیم کردے ۔ ان کارروائیوں سے مکہ میں ہزاروں خیر خواہ پیدا ہو گئے۔
(۱۰) حدیث میں ہے کہ ’’ غیر مسلم معزز اسلام لانے پر بھی معزز رہیں گے ۔ اگر وہ اسلامی قوانین سے بھی واقف ہو جائیں ‘‘۔ یہی وجہ تھی کہ عمرو بن العاصؓکے اسلام لانے پر انہیں سابقین اولین کا سردار بنا کر فوجی مہمات پر بھیجا گیا ۔ ابو سفیان نے اسلام قبول کیا تونہ صرف انہیں انعام و اکرام دیا گیا بلکہ ان کا گھر امن گاہ قراردیا گیا ۔ انہیں لشکروں کی سرداری اور صوبوں کی گورنری بھی فوراً دی جانے لگی ۔ خالد بن ولید کو (باوجود غزوہ احد میں مسلمانوںکی شکست کا واحد سبب ہونے کے) اسلام لاتے ہی سیف اللہ کے قابل رشک خطاب سے سر فراز کیا گیا ۔
انہی سیاسی اصولوں کی بنا پر آپؐ نے مدینہ میں فلاحی مملکت کی بنیاد رکھی۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x