ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ابتدا تیرے نام سے – بتول مارچ ۲۰۲۲

قارئین کرام! سلام مسنون
ایسے میں جبکہ بھارت کی انتہا پسند ہندو حکومت نے مسلمانوںکا جینا حرام کررکھا ہے اور دنیا میں ہر جگہ بھارتی مسلمانوں کے لیے تشویش پائی جاتی ہے، کرناٹکا بھارت کی نوعمر بہادر لڑکی مسکان نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل جیت لیے۔
پاکستان ایک اسلامی آئین رکھتا ہے جو اس کے قیام کے مقاصد سے ہم آہنگ ہے اور یہاں کی چھیانوے فیصد مسلم آبادی کی خواہشات کا ترجمان ہے۔ پاکستان توبنا ہی مسلمانوں کے لیے تھا۔اور اس وجہ سے بنانا پڑا کہ ہندو اکثریت کا تعصب مسلمانوں کو متحدہ ہندوستان میں برابر کا مقا م دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ صرف مسلمان کیا کسی بھی اقلیت کو، یہاں تک کہ اپنے ہی نیچ ذات ہندؤں کو وہ اپنے برابر نہیں سمجھتے۔یہی وجہ ہے کہ انتہا پسند ہندو گروہوں کو جہاں اور جب بھی اختیارواقتدار ملا ہے، اقلیتیں ان کے ہاتھوں محفوظ نہیں رہیں۔ہندو مذہبی جذبات پر مبنی اقتدار کا مطلب بھارت میں رہنے والوں کے لیے تباہی ہے۔ پاکستان کا آئین اگر اسلام کو اپنے قوانین کا سرچشمہ سمجھتا ہے، اس کے باشندوں کو اسلامی طرز زندگی کی ضمانت دیتا ہے اور ایسا ماحول دینے کا وعدہ کرتا ہے جو اسلامی قوانین کی روح کے مطابق ہوتو اس سے اقلیتوں کو کوئی خطرہ نہیں کیونکہ ایک اسلامی ریاست اقلیتوںکے مکمل شہری حقوق اور ان کی جان و مال کی سلامتی کی ضامن ہوتی ہے۔
دوسری طرف اس وقت بھارت کا آئین ان کی غیر ہندو آبادیوں کے لیے حفاظت کی واحد ضمانت ہے۔یہ آئین سیکیولر ازم کی ضمانت دیتا ہے یعنی ریاستی قوانین کسی بھی مذہب کے آئنہ دار نہیں ہوں گے۔ یہ اس تاریخی حقیقت کا اعتراف ہے کہ بھارت کا وجود مختلف قوموں اور مذاہب کا مجموعہ ہے جو صدیوں سے وہاں آباد ہیں اور اس زمین پر برابر کا حق رکھتی ہیں ۔اب اگراس کے قوانین اور عدالتی فیصلوں میں کسی ایک مذہب کی برتری جھلکے گی تویہ ان کے آئین سے متصادم ہوگااور ملک کی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی کیونکہ ہر مذہب یا نسل کے لوگ اپنی آزادیوں کے تحفظ کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ جہاںپاکستان میں مختلف رنگ و نسل،قومیت،تاریخ اور ثقافت کے لوگوں کواکٹھا کرنے والی قوت مذہب ہے ، وہیں بھارت میں مذہب کو پسِ پشت ڈال کربقائے باہمی کا نظریہ انہیں اکٹھا رکھے ہوئے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہؤا کہ جو ہمارے لیے امن اور بقا کی ضمانت ہے، وہ بھارت کے لیے اس کے وجود کے ٹکڑے کردینے کا راستہ ہے۔
مسکان کے واقعے نے ایک بار پھر پوری شدت سے دنیا کے سامنے واضح کیا ہے کہ بھارت کو ہند وانتہا پرستی اور دہشت گردی سے بچایا جائے ورنہ وہاں اقلیتوں پر بہت سخت وقت آنے والا ہے۔
مارچ کا مہینہ آتے ہی ہمارے ہاں عورتوں کے حقوق کے متقابل ایجنڈے زوروشور سے منظر عام پر آنے لگتے ہیں۔مگر اس بارمسکان کے تازہ واقعے نے اس منظر نامے کو ایک نیا رخ دے دیا ہے۔ جہاں مسکان نے کفر کے ماحول میں بطور مسلمان اپنے باپردہ ہونے کا حق پوری جرأت سے جتایا، وہیں پاکستان میں حق حجاب پر دلائل دیے جارہے ہیں۔ بی بی سی اردو نے ایک کالم میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ اگر مسکان کو اپنی مرضی کا لباس پہننے کی آزادی ہے تو پاکستان میں عورت مارچ کے مطالبات پر کیوں ملامت کی جاتی ہے؟بظاہرجائز لگتا ہؤایہ ایک آسان سوال جس کا جواب انہیں نہیں مل رہا،یہ دراصل ہمارے ہاں اسلام پسندوں کے بیانیے میں ایک ایسی گم شدہ کڑی ہے جس کی موجودگی اپنا کیس ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے۔
پہلی بات یہ کہ عورت مارچ کے ضمن میں مسئلہ صرف مرضی کا لباس پہننے کا نہیں ہے بلکہ ان کو فکری غذا کہاں سے فراہم ہورہی ہے اس بات کو سب دیکھنے اور سننے والے محسوس کررہے ہیں ۔ان کے تمام سلوگنزوہی ہیں جوپون صدی پہلے مغرب میں آزادیِ نسواں کی تحریک میں استعمال کیے گئے تھے اور جس تحریک کا مقصد شادی کے بندھن سے آزادی، ناجائز تعلقات کی آزادی اوراسقاطِ حمل کی آزادی تھا۔ان کا نعرہ مائے باڈی مائے چوئس انہی مطالبات کا علمبردار تھا جس کو بعینہٖ اردو میں ڈھال کر ہمارے ہاں استعمال کیاگیا۔ جس طرح اچانک اور آناً فاناً اس محدود سی سرگرمی کو میڈیا کے زور پہ سڑکوں کی زینت بنایا گیا،اوباش فقرے اور تصاویر لگائی گئیں، کسی ٹھوس مطالبے کے بغیر مردوں کے خلاف نفرت پر مبنی نعرے لکھے گئے، اس پہ عوام کے وسیع حلقوں میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ یہ پاکستانی معاشرے کو انتشار کا شکار کرنے کا بیرونی ایجنڈاہے، اس کا عورتوں کے حقوق سے کوئی تعلق نہیں۔جب ہر طرف سے ان پر یہی اعتراضات ہوئے تو اس بار انہوںنے عورت کی تولیدی صحت کو اپنے مطالبات میں نمایاں کیا، اگرچہ ان کی بنیادی انسپی ریشن کو دیکھتے ہوئے یہ تحفظات اپنی جگہ موجود ہیں کہ تولیدی صحت کے معاملے کو وہ آزادیوں کے ضمن میں کیا رخ دیتی ہیں۔
دوسری بات یہ کہ جیسا کہ اوپر ہم نے آئین کی بات کی، بھارت کا آئین ہر کسی کو اپنے مذہب کے مطابق عمل کی آزادی دیتا ہے۔ پاکستان کا آئین بھی یہ آزادی دیتا ہے مگر اسلام کو ریاستی مذہب قرار دیتے ہوئے اعلان کرتا ہے کہ قرآن و سنت بالاتر قوانین ہوں گے۔ اس اعتبار سے نازیبا جملوں اور تصویروں کی نمائش کے ذریعے سڑکوں پر ناچتا گاتااحتجاج، ایل جی بی ٹی ایجنڈے کا اظہار، شادی اور مرد کے لیے نفرت، ذومعنی فحش جملے، یہ سب ہمارے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتے ۔کشور ناہید جو خودمعاشرے سے بغاوت پر مبنی نظمیں لکھ چکی ہیں، اس انداز کی حمایت نہ کرسکیں جو عورت مارچ نے اپنایا ہے۔حقوق کا مطالبہ کرنے کے لیے ایسے رنگ ڈھنگ اختیار کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ بلکہ یہ کہناغلط نہ ہو گا کہ اس سے انہوں نے اپنے موقف کو کمزور کیا ہے۔اورخواتین حقوق کے ضمن میں ان کا موقف ہے کیا، یہ بھی ان کے انداز سے واضح نہیں ہے۔ اگر مردوں کے رویے کی شکایت ہے تو وہ اس طرح کیسے درست ہوگا؟ یہ بھی سمجھ میں آنے والا نکتہ نہیں ہے۔
عوامی جذبات کی پذیرائی کرتے ہوئے وزیر مذہبی امور نے حکومت کو خط لکھ کر اس سرگرمی پر تشویش کا اظہار کیا۔البتہ انہیں اس بات پر بھی توجہ دینی چاہیے کہ ّآئین کے مطابق ریاست اپنے شہریوں کی زندگی کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کے لیے عملی اقدامات کرنے کی پابند ہے۔اگرخواتین معاشرے میں امتیازی سلوک کا شکار ہیں یاوہ غلط معاشرتی رویوں کا سامنا کرتی ہیں، دفتروں ، گھروں، بازاروں، گلی کوچوں میں ان کو عورت ہونے کی بنا پر مشکلات کا سامنا ہے تو یقیناً یہ اسلام کے مطابق نہیں ہے،ضروری ہے کہ اس کے لیے حکومتی سطح پر پالیسی وضع کی جائے اور عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔اس موقع پر دائیں بازو کے حلقوں کا محض حیا اور حجاب پر زور دینا بھی عورتوں کی معاشرے میں حق تلفیوں اور غلط معاشرتی رویوں کے سدباب کا ضامن نہیں ہے۔پاکستانی عورت کے مسائل کا گہرا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
گویا اس بار مارچ کا مہینہ جو قرارداد پاکستان کا مہینہ بھی ہے اور عالمی یوم خواتین کا بھی، دونوں قسم کے موضوعات کو اس طرح باہم مربوط کررہا ہے کہ ایک کی تفہیم دوسرے پر بات کرنے کے لیے لازم ٹھہری ہے!
معروف مصنفہ، کالم نگار اور سیاستدان بشریٰ رحمان انتقال کرگئیں۔ اللہ ان کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے آمین ۔
اگلے ماہ تک اجازت بشرطِ زندگی!
دعاگو،طالبہ دعا
صائمہ اسما

اگلے ماہ تک کے لیے اجازت بشرطِ زندگی ، دعاگو
صائمہ اسما

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x