ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ملاقات – بتول فروری ۲۰۲۱

گرمیوں کی چھٹیاں ہونے سے پہلے ہی بچوں نے سیر کا پروگرام بنانا شروع کر دیا تھا ۔ ابونے کہا اس دفعہ دادی کے پاس جائیں گے وہ اداس ہیں ۔ بچے اس پربھی راضی ہو گئے چلیں تو سہی کہیں بھی جائیں ۔ ویسے تو بچے نانی اماں کے گھر جانے کو ہمیشہ تیار رہتے تھے کیونکہ وہاں اور بھی بچے تھے لیکن چھٹیاں ہونے سے پہلے ہی نئی بیماری کو رونا نے دنیا کواپنی لپیٹ میں لے لیا جس کی دوا تھی نہ دارو۔نانی اور دادی کو پتہ چلا کہ اب بچے نہیں آئیں گے تو وہ بھی اداس ہو گئیں۔
دادی نے دو سال سے بچوں کو نہیں دیکھا تھا اور اس دفعہ ان کے آنے کا سنا تھا تو تیاری میں مصروف ہو گئی تھیں لیکن نانی نے تو بیٹی کو رخصت کرتے وقت ہی سوچ لیا تھا کہ یہ کسی اور کی ہے آنا جانا دوسروں کی مرضی اور حالات کے تحت ہی ہو گا ۔ ویسے بھی کورونا نے سب کو ڈرا دیا تھا ۔ لوگ گھروں میں بند ہو گئے تھے ۔ پر دادی نے کچھ نہ دیکھا سب کچھ اللہ پر چھوڑا اور بچوں کے پاس پہنچ گئیں ۔
ان کو دیکھا تو سب کے اُداس چہرے چمک اٹھے ۔ گھر میں رونق آگئی ۔ دادی کی باتیں ، ان کی کہانیاں ، نت نئے کھانے ، ابا اور بچوں کی فرمائشیں … خوب مزہ آئے گا ۔ وہ بھی پرانے دور کی خاتون تھیں ۔ فارغ بیٹھناان کے لیے محال تھا ۔ ماہر فن ، کھانوں کے علاوہ سلائی کڑھائی اور بنائی میں بھی ماہر ۔ بچوں کی چھٹیاں وقت سے پہلے ہی ہو گئی تھیں ۔ بیماری کے ڈر سے بچے بھی خوف زدہ تھے ۔ پھر ٹی وی والے اور بھی ڈرا رہے تھے ۔ ہاتھ یوں دھوئیں ، ماسک کب لگائیں ، ہاتھ کیسے ملائیں ، گاڑی میں دو سے زیادہ لوگ نہ بیٹھیں ۔ ملا زم کو کام سے روکیں ، جوتے باہر اتاریں ، گھر میں بھی سب فاصلے سے بیٹھیں ۔ باہر سے آنے والا فوراً نہائے اور کپڑے بدلے۔
لیکن دادی تو اس سب کے موڈ میں نہیں تھیں ۔ وہ سوچ کر آئی تھیں کہ اتنے دن بعد ملاقات ہوگی بچوں سے خوب باتیں کروں گی ۔ قصے کہانیاں ہوں گی ۔ سب کی فرمائشیں پوری کروں گی ۔ بیٹے کی پسند کے کھانے بنائوں گی ۔ یوں کچھ دن تو سب دادی کے آنے پر خوش رہے ۔ پھر اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے ۔ سب کے الگ الگ کمرے … وہ ہر کمرے میں جھانک جھانک کر دیکھتیں اور حسرت سے سوچتیں کہ اس دفعہ تو ہر بچہ بدلا ہؤا ہے ۔ اب توآئی پیڈ اور آئی فون بچوں کی ضرورت ہے دادی نہیں ۔بیٹے کے کام کی نوعیت ایسی تھی کہ انہیںگھر سے جانا ہی ہوتا تھا، لہٰذا صبح ان کے اٹھنے سے پہلے کام پر چلے جاتے اور رات کو آتے تو سلام دعا کے بعد وہ بھی آئی فون پرمصروف نظر آتے ۔ بس کھانے کی فرمائش ضرور کرتے کیونکہ کام والی بھی چھٹی پر تھی۔
کچھ دن تو یہ سب انہوں نے کیا اور دیکھا ۔ آخر دادی ایک دن تنگ آکر بولیں ۔
’’ میں یہاں صرف کام کرنے نہیں آئی تھی ۔ تم سب کو دیکھنے ، ملنے اورباتیں کرنے آئی تھی لیکن اب تو لگتا ہے تم سب مجھے سے بھی بیزار ہو جیسے کرونا سے ہو ۔ کوئی بات کرنے والا نہیں سب آئی پیڈ اور آئی فون پر مصروف رہتے ہو‘‘۔
بچوں نے دیکھا کہ دادی کا موڈ خراب ہے تو انہوں نے کہا ۔
’’ دادی آپ بھی آئی پیڈ لے لیں نا ‘‘۔
دادی نے بچوں کو گھورا تو وہ ابو سے مخاطب ہوئے ’’ ابو آپ دادی کو آئی پیڈ لا دیں نا ۔ فیس بک اور یو ٹیوب پر دادی کو بہت مزہ آئے گا ۔
ابو نے کہا ’’ ہاں لادوں گا ‘‘۔
نینا نے کہا’’ دادی آپ لیٹ کر بھی ڈرامے دیکھ سکتی ہیں ‘‘۔
بچوں کی سادگی اور معصومیت پر دادی مسکرائیں اور بولیں ۔
’’ مجھے تو گھنٹوں فون پر بھی باتیں کرنا محال لگتا ہے تم آئی پیڈ پر ڈراموں کی بات کر رہی ہو اور فیس بک تو زہر لگتی ہے ہر ایک کے اندر کا حال بھی بتادے ۔ کیا زمانہ آگیا ہے اللہ ان لغویات سے ہم سب کو بچا ۔ ایک ٹی وی ہی کیا کم تھا کہ دنیا کی ہر طرح کی ہر خبر ہر چینل پر گھنٹوں آتی رہتی ہے ۔ اب یہ بھی وبا ہی ہے کہ ہر ایک کے ہاتھ میں آئی پیڈ اور آئی فون ہے ۔ میں تو کہتی ہوں یہ کورونا سے زیادہ خطر ناک بیماری ہے ۔ جس نے ماں باپ بہن بھائیوں اور رشتے داروں میں دوریاں پیدا کردی ہیں۔کرونا کی دوا تو کبھی نہ کبھی نکل آئے گی لیکن آئی فون کا کوئی علاج ہے نہ دوا ۔ یہ بڑھتی ہی رہے گی جو انسانوں کو انسان سے دور کر رہی ہے ۔ ہمارے درمیان تعلق ، تہذیبی رسم و رواج د م توڑ رہے ہیں ۔ چچا اور ماموں ، خالہ کے بچے بھی ایک دوسرے کو نہیں پہچانیں گے ۔ ان حالات میں ہم بوڑھوں کا کیا بنے گا کیونکہ کسی کے پاس کسی کے لیے وقت ہی نہیں ہے۔ایک ہمارا زمانہ تھا …‘‘
یہ کہہ کر وہ کہیں کھو گئیں ۔ شاید ماضی نے ان کے اندر جھانکا تھا۔
بچوں نے جب دادی کو اتنا اداس اور ناراض دیکھا تو انہیں دادی پر تر س آیا ۔ پنکی نے بڑے پیار سے دادی سے چمٹ کر کہا ۔
’’ دادی کیا سوچ رہی ہیں ۔ چلیں اپنے بچپن کا کوئی قصہ سنا دیں‘‘۔
’’کیا سنائوں! اب تو میں صرف تمہارے آئی پیڈ کے بارے میں سوچ رہی ہوں جس نے تم سب کو مجھ سے جدا کر دیا ہے میں تو تمہاری محبت میں آئی تھی ۔ سوچا تھا بچوں سے خوب باتیں کروں گی ، کہانیاں سنائوں گی ، تمہاری فرمائش کے کھانے بنائوں گی ،بہن بھائی آپس میں مل جل کرباتیں کرو، اپنے دوستوں کا بتائو ‘‘، رانی نے یہ کہہ کر دادی کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ دادی آئی پیڈ پر بھی سب کچھ ہو جاتا ہے ۔
’’ہاں ہو جاتا ہے لیکن اس کی روشنی اور شعاعیں اتنی خطر ناک ہیں کہ انسان کا دماغ بے کار کر دیتی ہیں ۔ کان سے زیاد ہ لگا رہے تو کانوں کو نقصان ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر بھی ان چیزوں کے زیادہ استعمال سے منع کرتے ہیں ۔ آنکھوں پر اثر پڑتا ہے ‘‘۔
نینا بولی ، ’’ ہاں یہ تو ہے دادی ۔ آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں ‘‘۔
’’ تو پھر تم نے اس سے کوئی سبق نہیں لیا ، میں تو تمہاری محبت میں کورونا کے باوجود گھر سے نکل آئی کیونکہ دو سال سے تم سب کو نہیں دیکھا تھا۔ دل چاہ رہا تھا تمہیں دیکھنے کو، خوب باتیں کرنے کو۔ سوچا تھا بچے بھی سب گھر میں ہوں گے اور بھی مزہ آئے گا لیکن اب تو اس گھر کی دنیا ہی بدلی ہوئی ہے ۔ سب اتنے مصروف ہو کہ کسی کے پاس میرے لیے وقت ہی نہیں ہے ‘‘۔
رانی نے دادی کی باتیں بہت غور سے سنیں ۔ پھر ان کی محبت پر ترس بھی آیا ۔ لیکن آئی فون اور آئی پیڈ کا نشہ دل و دماغ پر چھایا ہؤا تھا ۔ سوچ رہی تھی کہ ہم اپنی محبت کا یقین انہیں کیسے دلائیں پھر بولی۔
’’ دادی یہ جو کرونا ہے نا اس نے سب کو دور کر دیا ہے ۔ الگ الگ رہنے کی تاکید کی جاتی ہے ۔ بوڑھے اور بچوں کو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے ۔ آپ کو بھی گھر میں رہنا چاہیے تھا لیکن آپ بیمار نہ ہو جائیں‘‘۔
دادی ہکا بکا رہ گئیں ’’ ارے مجھے سبق دے رہی ہے ۔ یہ میری محبت ہے یا آئی پیڈ کی ؟‘‘وہ بڑ بڑائیں ۔

صبیحہ نبوت

٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x