ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

منتخب کہانی (۲) – مگر ایک شاخِ نہالِ غم – الطاف فاطمہ

ایک وفا دار ملازم کی انوکھی کہانی جو تقسیمِ ہند کے نشیب و فراز سے ہوتی ہوئی کشمیریوں کی جدوجہد ِ آزادی پر ختم ہو جاتی ہے مگر بہت اہم سوالات اٹھا دیتی ہے ۔

 

کھانا وہ بڑا لذیذ پکاتا تھا ،مگر کبھی کبھی ہنڈیا جلا دیتا ۔ اماں اس پر ناراض ہوتیں کہ آئے دن تم ہانڈی ساڑ دیتے ہو ۔ تو شرمندہ سا ہو کر بڑی حلیمی سے جواب دیتا ،’’ میں کیا کروں ، مجھے بڑے بڑے دیگچوں میں بہت سا پکانے کی عادت ہے ۔ یہاں تین چار بندوں کے لیے پکاتا ہوں ، اسی لیے جل جاتا ہے‘‘۔ خیر رفتہ رفتہ اس نے اپنے آپ کو اس کا بھی عادی بنالیا۔
بہت صاف ستھرا اور پاک صاف ، نماز اور تلاوت کا سختی سے پابند تھا ۔ سرونٹ کوارٹروں میں رہنے والوں کی عادتیں اس سے مختلف تھیں۔ زبان کابھی مسئلہ تھا ، یہ کشمیری اردو اور پنجابی ملا کر بولتا تھا ۔ اور بلتی زبان بولتے تو غل کی آوازیں اس کے پلے نہ پڑتیں ۔ اوپر سب سے بالائی منزل پر ایک چھوٹا سا کمرا خالی پڑا رہتا تھا ، وہ اسے رہنے کے لیے دے دیا گیا ۔ بہت سویرے اٹھ کر غسل کرتا ، نماز اور تلاوت کے بعد نیچے آکر ناشتہ تیارکرتا ۔ میں اور میرے بھائی فضل قدیر رات کو دیر تک پڑھتے رہنے کی وجہ سے صبح دیر تک سوئے رہتے ۔ بڈھا ہمارے سرہانے کھڑے ہو کربالکل سٹیشنوں پر چائے بیچنے والوں کے انداز میں آواز لگاتا ، ’’ ہندو چائے ‘‘۔ ہنستا جاتا ۔ ’’’ ہندو چائے ‘‘۔
ایک دن اماں نے پوچھا ، یہ ہندو چائے کی آوازیں لگانے سے کیا مطلب ہے ؟ تو کہنے لگا ، ’’ تو اور کیا ، یہ تو ہندو ہی ہیں ۔ صبح سوئے پڑے رہتے ہیں ۔ اٹھ کر نماز نہیں پڑھتے ‘‘۔ اگر وہ کہتیں کہ یہ رات کو دیر تک پڑھتے رہتے ہیں، اس لیے دیر سے اٹھتے ہیں تو پھر وہ اپنا لیکچر شروع کر دیتا ، ’’ نماز تو پھر بھی ضروری ہے ۔ بیگم صاحب! آپ تو ان کی عادت خراب کر رہی ہیں ‘‘۔
تقریباً چھے ماہ تک کام کرنے کے بعد ایک صبح وہ اپنا مختصر سا بندھا ہؤا بستر لیے نیچے اترا اور اس نے کہا کہ میں اپنے بال بچوں کی خبر لینے جا رہا ہوں ۔ میں پہلے بھی بہت دن سے گھر نہیں جا سکا تھا اور اب پاکستان بن گیا تو ان کو یہ بھی خبر نہ ہو گی کہ میں ہوں کہاں…شملے میں یا پاکستان میں ؟
اپنی تنخواہ وہ اماں کے پاس ہی جمع ہی کرواتا رہا تھا ۔ چنانچہ انہوں نے اس کو حساب کر کے اس کی تنخواہ دے دی اور دیتے وقت یہ بھی کہا کہ احتیاط سے جانا ، دیکھو راستوں میں بڑی گڑ بڑ اور خطرہ ہے ۔ جانا تو تم کو چاہیے مگر ہوشیاری اور احتیاط سے جانا … اور وہ چونک کر ان کی شکل دیکھنے لگا ۔ کشمیر پر فوجوں کی نقل و حرکت کا آغاز تو اکتوبر 1947ء سے ہو چکا تھا ۔ اب وہ اتنا بے خبر بھی نہ تھا ، مگر یہ بھی ایک بات تھی کہ اس کا گھر پونچھ میں تھا اور اس نے یہ چھے ماہ اسی خیال میں گزارے تھے کہ بال بچوں کے پاس خالی ہاتھ نہ جائے ۔
’’ واپس آنے کا خیال ہے ؟‘‘
’’ دیکھو بیگم صاحب، کیا بنتا ہے ۔ اللہ خیر کرے تو میں وہیں رک جائوں گا ‘‘۔
اس مسافرت اور مہجوریت کے عالم میں بھی وہ ریشماں کے لیے پراندہ اور جوتی لے جانا نہ بھولا تھا ۔ اپنے بھائی علی مردان اور بچیوں کے لیے بھی جو اُسے یاد تھے ۔ اپنے کنبے کے لیے تحائف سے بھرا تھیلا کندھے سے لٹکایا ، دری اور کمبل کا مختصر سا بستر کندھے پر اٹھایا اور ہنس کر ایک فوجی سلیوٹ مارا ۔
’’ بیگم جی تسی سید ہو، میرے بچوں کے لیے دعا کرنا ‘‘۔
پھر وہ پھوپا ابا کے پاس گیا ، سیدھا کھڑا ہؤا اور بھیگی آنکھوں سے اس نے کہا ،’’ بڑے صاحب! برسوں تمہارا نمک کھایا ۔ مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہو تو بخش دینا۔‘‘
انہوں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔ ’’ ارے اللہ کے بندے ! تو توفرشتوں جیسا معصوم ہے ، بالکل دور ویش۔ ہاں بھئی، اگر مجھ سے کوئی تکلیف پہنچی ہو تو تم معاف کر دینا ‘‘۔
اس کی واپسی کی امید اٹھ گئی تھی ۔ سو اس کی جگہ ایک نیا لڑکا ملازم رکھ لیا تھا ۔ اپنی پڑھائی کی مصروفیتوں میں اس کی غیر حاضری کا حساب کون رکھتا ۔
ایک صبح سویرے یوں ہؤاکہ ہماری والدہ بہت صبح سویرے نماز کے بعد چائے پیتی تھیں ۔ ابھی انہوں نے دعا کے لیے اٹھے ہوئے ہاتھ نیچے بھی نہ کیے تھے کہ کسی نے دھیرے سے چائے کی ٹرے قریب سرکا دی ۔ نظر اٹھائی ۔’’ ارے بڈھے ! تم ۔ ارے کب آیا ؟‘‘
حسب عادت وہ کھڑا ہنس رہا تھا ، مگر اس کی آنکھوں میں بھوبل سی بھری محسوس ہوتی تھی ۔ رنگ جھلسا ہؤا، چہرہ اترا ہؤا اور اس کی ہنسی میں بڑی خستگی تھی۔
چائے دے کر وہ اپنا بستر اوپر رکھنے گیا ۔ تو ملازم لڑکا اپنا ٹین کا بکسا اور لپٹا ہؤا بسترلیے ہوئے نیچے آیا ۔’’ بیگم صاحب ! میرا حساب کردیں ۔ میں گھر جا رہا ہوں ‘‘۔
’’ ارے کیا بات ہو گئی ؟ ایک دم ، اچانک ؟ ‘‘
وہ چپ خاموش کھڑا رہا ۔ بڑے اصرار پر اس نے زبان کھولی :’’ بیگم صاحب ! میں کسی کے پیٹ پر لات نہیں مار سکتا ۔ آپ کا پرانا ملازم آگیا ہے ۔ وہ کہتا ہے مجھے ان ہی لوگوں میں رہ کر کام کرنے کی عادت ہے ۔ تیرا کیا ہے تو کہیں بھی جائے گا ، کھپ جائے گا ‘‘۔
پتہ چلا کہ صبح آتے ہی باورچی خانے میں چائے بناتے دیکھ کر اس سے گفتگو ہو گئی تھی کہ ’’ یار میں اناں کولوں رہنا ۔ میرا اور کسی نال گزارا نہیں ہونا ‘‘۔ وغیرہ وغیرہ۔
اب جب بڈھے کو سامنے بٹھا کر پورے گھر نے پریس کانفرنس کے انداز میں سوالوں کی بھر مار کی تو اس نے چند لفظوں میں جو بیان دیا ، وہ بڑا دل خراش تھا ۔ وہ چند الفاظ ہی اس کے اندر کے کرب کے ترجمان تھے۔
’’ یارا….میں وہاں پہنچا تو میرا گھر جل رہا تھا ‘‘۔ یہ کہتے وقت اس کی آنکھ نم نہ تھی بلکہ عجیب گرم گرم بھوبھل اڑتی تھی ۔
پھر سوالوںکی بھر مار ہوئی تو یہ پتا چلا کہ ریشماں اوربال بچوں کو لے کر اس کا چھوٹا بھائی علی مردان چند گھنٹے پہلے نکل گیا تھا ۔ پونچھ میں جلتے گھروں کے چراغاںکو خیر باد کہتا ہوا بڈھا سیدھا مظفر آباد گیا ۔ وہاں سے تحصیل باغ آیا ۔ قادر آباد کے نالے کے پار ڈھل قاضیاں میں اس نے علی مردان اور بال بچوں کو ٹھکانے پر بٹھایا ۔ ریشماں کو طلاق دے کر علی مردان سے اس کا نکاح پڑھوا دیا ۔ پہلی بیوی کی ایک بیٹی اور ریشماں کی دونوں بیٹیوں کوعلی مردان کی سپرداری میں دے دیا ۔ یہ کہہ کر وہ ہنسا ، ’’ہن میں ویلا ہو گیا ، فارغ ‘‘۔
اس وقت تو سننے والے اس کو خبطی ہی کہہ رہے تھے لیکن ہمارے بڑے خاموش رہے ۔ شاید وہ اس کے اندر صدف دل کی تہوں میں اس گوہر تابدار کو لودیتی ہوئی لپک کر دیکھ رہے تھے ، جو آگے چل کر اس کے اندر گوہر شب چراغ بن گیا ۔
’’اچھا تو اب سب کو چھوڑ چھاڑ کیوں آگئے ؟‘‘ سوال ہؤا۔
اور اس نے جواب دیا :’’ پیسہ کمانے ، بال بچوں کے لیے ‘‘۔
’’ ارے اب تو بیوی کو چھوڑ دیا ، اب ویلے ہو ‘‘۔
’’ تو …بال بچے تو میرے ہیں ۔ علی مردان ابھی بچہ ہے ، بیس بائیس سال کا ۔ اتنی ذمے داری کیسے اٹھائے گا ؟‘‘
چنانچہ وہ اس طرح اپنے کام پر کھڑا ہو گیا ہے جیسے کبھی گیا ہی نہ ہو ۔ پکاتے پکاتے رو آجاتی ہے تو باورچی خانے سے اس کے لپک لپک کر گانے گنگنانے کی آوازیں آنے لگتی ہیں ۔ وہ بہت ڈوب کر کوئی کشمیری نغمہ گانے لگتا ہے ۔ کچھ دن کی افسردگی اور کرب کے بعد اب اس کے اندر ایک تازہ ولولہ انگڑائی لے رہا ہے اور لگتا ہے خوشی اور مسرت کی ایک لہر اس کے وجود میں کرنٹ کی طرح دوڑ رہی ہے ۔ اور آج صبح صبح اس نے اپنی تنخواہ پکڑتے ہی ہمیشہ کی طرح اپنا مخصوص رقص ’’ ہٹ کے بدھو ، بچ کے بدھو ‘‘ کیا ہے ۔ اس رقص کی ادائیگی کرتے ہوئے وہ اس شخص سے کتنا مختلف نظر آتا ہے جس نے خود اپنا نام بڈھا تجویز کیا اور اسی نام سے پکارے جانے پر مصر ہؤا تھا۔
ہنستا ہنستا وہ اوپر چلا گیا ۔ آدھ گھنٹہ گزر گیا ہے اور وہ اب نہایا دھویا ، اجلے صاف کپڑے پہنچے ، اپنے کھوئے ہوئے پونچھ کی نشانی وہ سیاہ کمبل اس کے کندھے پر ہے ۔ دری میں لپٹے ہوئے بندق کے مختلف حصے رسی سے باندھ کر کندھے پر رکھے ہوئے کہتا ہے ،’’ یارا ۔ میں محاذ پر جا رہا ہوں‘‘۔
کتنے لوگ اس کی بات پر ہنس پڑے ہیں ۔’’ ارے کشمیری اور محاذ ِجنگ ! کشمیریوںکی بزدلی سے متعلق لطیفے چل پڑے ہیں …خصوصاً وہ لطیفہ …جموں و کشمیر کی اس پہلی یونٹ کی حفاظت کے لیے حفاظتی دستہ ساتھ کیا جائے ۔ سب ہی اس کی اس حماقت پر خیال آرائی کر رہے ہیں کہ یہ محاذ کا رخ کر کے ادھر اُدھر ٹہل کر واپس آجائے گا اور انگلی میں خون لگا کر شہیدوں میں نام لکھوائے گا ۔ ہمارے بہنوئی سید عبد اللہ ابن احمد اس کے برابر آکر کھڑے ہوئے ہیں۔
جی…جی، میں سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں اور اپنے کانوں سے سن رہی ہوں … اور ٹی وی سکرین پر خبر نامے کے بعد کشمیر فائل چل رہی ہے ۔
انبوہ کثیر ۔ ہجوم ، جنازے، تابوت، درماندہ بلکتی عورتیں ۔ انتہا سے زیادہ پُر عزم اور ڈٹے ہوئے نونو دس برس کے بچے ، اذیت دے کر مسخ کیے جسموں کی نمائش …اور سفید پرچم کے ایک بے قراربوڑھے کی شکل ۔ آزادی ، آزادی … کا خود کار انداز میں نکلتا ہؤا نعرہ۔
مجھے لگ رہا ہے کہ یہ وہی تو ہے ، عین وہی شریف ونجیب شکل کہ جس کے قریب کھڑے ہوئے ہمارے بہنوئی صاحب کہہ رہے ہیں ، ’’ یہ ان لوگوں پر الزام ہے ، بہتان ہے ۔ مجھ سے پوچھو ، ان کشمیریوں کے متعلق لگایا ہؤا ہر اندازہ اور مقولہ بالکل جھوٹ ، محض تعصب اور حقارت پر مبنی باتیں ہیں ۔ مجھ سے پوچھو تو میں احاطے کے کیمپ بن جانے کے بعد جس تجربے سے گزرا ہوں تو مجھے اندازہ یہ ہؤا کہ محنت کش ، یہ باذوق اور صاحب کمال اور ہنر ور لوگ انتہائی جی دار اور دلیر لوگ ہیں ۔ یہ اتنے با وفا اور ایک ضابطہ اخلاق کے پابند لوگ ہیں جو کسی کے دیے اور فرمائش کے بغیر فرائض کو خود قبول کرنے والے ہیں ۔ اس شخص نے خوف و ہراس کے اس ماحول میں کیمپ کی حفاظتی ڈیوٹی اپنی اصل ذمے داری یعنی صبح سے رات گئے تک چولہا جھونکنے کے علاوہ دی ہے او ہر ہر لمحہ میرے دوش بدوش رہا ہے ۔ برستی گولیوںاور بار بار پھٹنے والے بموں کے دھماکوں میں…میں اس کی جرأت اور وفا کو سلام کرتا ہوں ۔ یہی وہ واحد شخص ہے کہ جب وہ مجھے تھانے پر تشدد کرنے اور میری قیمت وصول کرنے لے گئے تو یہ میرے ساتھ ساتھ گیا تھا ‘‘۔
انہوں نے اسے گلے سے لگایا ، اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اورکہا ،’’ میں اس کو اور اس کے ساتھیوں کو سلام کرتا ہوں ‘‘۔ انہوں نے اس کو بڑے احترام سے رخصت کیا ۔
اور اب میں اس وقت اکیسویں صدی کے کنارے پر سکرین پر نظریں جمائے سوچ رہی ہوں ، کیا تھا وہ جو ہم پڑھاتے رہے تھے کہ نہ جنوں رہا نہ پری رہی …جنوں بھی وہی ہے اور پری بھی وہی۔
اور اس کے بعد سے اس کا یہی دستور بن گیا کہ وہ آتا اور جاتا ۔ ہر معرکے اور محاذ پر پہنچتا ۔ راجوری ، اوری ، پونچھ ۔ جب لوٹ کر آتا تو پھر اپنے کسی معرکے یا کارنامے کی بات کرتا نہ کسی محاذ کا کوئی قصہ سناتا ۔ بس ایک صبح صبح آکر گھر میںموجود ملازم سے کچھ دیر گفتگو کرتا ، ’’ یارا ، یہ تیرے بس کا کام نہیں ۔ ایناں نوں میں ای سنبھال سکناں۔ ہن تو چھٹی کر‘‘۔ اور وہ چھٹی کرلیتا۔
اس وقت جب اقوام متحدہ کی قرار داد کا وقت آگیا ، وہ ملول تھا کہ ہم خود ہی آپ اپنا فیصلہ کر سکتے تھے مگر یہ امریکہ ، اقوامِ متحدہ ( اس کے نزدیک امریکہ کا دوسرا نام تھا ) بیچ میںکود پڑا ۔ مگر وہ نا امید نہ تھا۔
اس کی آمد و رفت اور بغیر کسی نوٹس کے اٹھ کر چل دینے پر میں بڑی جزبز ہوتی کہ نئے ملازم کے ملنے تک اور بعد میں بھی میرے سر ڈھیروں کام آ پڑتا ، مگر میری اماں اس کی اس حرکت پر ہنس کر کہا کرتیں، ’’ارےبھئی، آزادی اور حریت کے پروانے ایسے ہی ہوتے ہیں ۔ یہ اپنے وطن کی آزادی کا متوالا ہے ‘‘۔
’’مگر ہمیں تو اپ سیٹ کرتا رہتا ‘‘۔
’’ ارے بھئی، یہ اس کے جہاد میں ہمارا حصہ ہے جو وہ ہم سے ڈلواتا ہے زبردستی ۔ اچھا تو یہ دیکھو کہ کتنے باضابطہ انداز میں یہ اپنا فرض ادا کرتا ہے ۔ ہر محاذ پر جانے سے پہلے اپنے گھر والوں کو اتنا پیسہ دے جاتا ہے کہ وہ اس کی غیر حاضری محسوس نہ کریں ۔ اور ہاں دیکھو ، یہ بھی اس کا حسن انتظام ہی تو ہے کہ محاذ میں شرکت کا ارادہ کرتے ہی اس نے ریشماں کو طلاق دے کر اس کا نکاح بھائی سے کردیا کہ ان کی ذمے داری اب اس پر ہے ‘‘۔
تھیلمانے کئی بار تقاضا کیا تھا کہ مجھے ایک ملازم دلوا دو ۔ تھیلماآثارِ قدیمہ کی کھدائی کے سلسلے میں تحقیق کا کام کرنے آئی ہوئی تھیں ، بڑی گرہستن ٹائپ اور رکھ رکھائو والی ۔ ہمارے ساتھ ٹھہری ہوئی تھیں ۔ تاہم وہ ضروری خیال کرتی تھیں کہ ان کا کوئی ذاتی ملازم بھی ہو جو ان کے چھوٹے موٹے ذاتی کام انجام دے ، خصوصاً ان کا کمرا ٹھیک ٹھاک رکھا کرے۔ میں ہر باران کو تسلی دلادیا کرتی تھی ، ’’ اچھا کوئی بھروسے کا آدمی مل گیا تو دلوادوں گی ‘‘۔
بڈھا حسب معمول کئی ماہ سے غائب تھا ۔ ان دنوں میرے پاس کوئی ملازم نہ تھا ۔ مجھے ضرورت بھی نہ تھی ۔ اس لیے کہ بھائی تو 1966ء کے آخر میں کراچی جا چکے تھے ، اپنے بچوں کے ساتھ ۔ اور جھاڑو صفائی کرنے والی ہی کافی تھی ۔ آج بھی صبح صبح تھیلما نے بہت زور دار تقاضا کیا۔ میںنے کہا بھی کہ تھیلما ! ذاتی ملازم کی کیا ضرورت ہے ؟ تم زیادہ تر تو ڈِ گ( کھدائی) پر رہتی ہو۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ ان کو ذاتی ملازم کی سہولت کا بڑا شوق و اشتیاق تھا۔
ابھی میں برآمدے میںجا کرکھڑی ہوئی ہی تھی کہ کیا دیکھتی ہوں کندھے پر وہی کھڈی پر بنا ہؤا سیاہ کمبل، دوسرے شانے پر دری میں لپٹا ہؤا مختصر سا بستر ، چلے آرہے ہیں بڈھے صاحب۔اسی پرانی شان سے ہنستے ہوئے ، مگر اب عرصے سے اس کی ہنسی میں وہ بشاشت نہ ہوتی تھی ۔ حادثے اور پھر شملہ معاہدے نے اس کوبجھا کررکھ دیا تھا اور یہ تو 1977ء تھا اور اب تو رفتہ رفتہ کشمیر کے مسئلہ کے سلسلے میں ’’ مردہ گھوڑے ‘‘ جیسے جملے بھی سننے میں آنے لگتے تھے ۔ اور بات یہ ہے کہ کسی گھوڑے کے مردہ یا زندہ ہونے اور اس کی ترک تازی کا فیصلہ وہی کر سکتا ہے جو اس پر سوار ہونہ کہ اس بارے میں میز پر بیٹھ کر کاغذ پر چند لفظی گھوڑے دوڑانے والے ۔ گھوڑا اوراس گھوڑے پر سوار تو وہی تھا جس نے اپنی تمام کشتیاں جلانے کے بعد اس پر سواری کی تھی اور وہ اس کی پشت پر جم کر بیٹھا تھا ۔
’’ ارے زندہ باد…یارا بڈھے ، تم بالکل بر وقت پہنچے ہو ‘‘۔ میں نے حسب عادت اس کا استقبال کیا۔
’’ اچھا تو کوئی نوکر نہیںہے ؟‘‘ اس کی باچھیںکھل گئیں۔
’’ ارے بات تو سن ۔ میں نے تیرے لیے وڈی چنگی نوکری لبھی اے‘‘۔
’’ کیہڑی نوکری ؟ اچھا تو ، تو مینوں نہیں رکھنا ‘‘۔
’’ رکھنا کیوں نہیں ؟ تجھے نہیں رکھوں گی تو اور کسے رکھوں گی ۔ یہ تو میں تیرے فائدے کے لیے دو تین مہینے کے لیے کام دلوا رہی ہوں۔ مجھ سے زیادہ تنخواہ ملے گی ۔ یہ ایک میم صاحب ہے ، ابھی نیچے آئے گی تو تجھ سے ملوا دوں گی‘‘۔
اس کو میم کی کیا پروا تھی ، انگریز سے اسے یہ شکایت تھی ، ’’سارے فیصلے کر دیے اور کشمیر میں لکڑ ڈال گیا … کیا لگتا تھا جو ساڈا بھی صاف ستھرا فیصلہ کر دیتا ‘‘۔
’’ ارے صاف ستھرا فیصلہ کیا ہی کب …؟ میں تو یہ کہہ رہی ہوں کہ دو تین مہینے کا کام کر لو ۔ گھر پیسے بھیج دینا… بچے کی کتابیں ہی آجائیں گی ‘‘۔
’’ ٹھیک ہے ‘‘۔ وہ واقعی پیسے سے تنگ تھا ۔ اتنے دن کہاں رہا… کمزوراور ویران ویران سا نظر آتا تھا ۔ اب تواس کی داڑھی میں ایک بھی کالا بال باقی نہ رہا تھا ۔ بالکل چٹی بگی ہو رہی تھی ۔ میں نے اسے یقین دلایا ، یہ انگریز نہیں ۔
دو ہفتے گزرے تھے کہ تھیلما نے اس میں کیڑے ڈالنے شروع کردیے ۔ سر کش ہے ، عاجزی نہیں ہے ، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے ۔ اس کی آنکھوں سے چنگاریاں نکلتی ہیں ۔ نماز کا وقت آجائے تو کام پورا کیے بغیر چھوڑ کر کھڑا ہوجاتا ہے ۔ کہتا ہے ، میں تیرے لیے نماز تو قضا نہیں کر سکتا ۔ذرا بھی دب کر بات نہیں کرتا۔
’’ دب کے بات تو وہ کر نہیں سکتا ‘‘۔ میںنے سمجھایا۔
’’ کیوں ؟ کس لیے ؟‘‘
’’ اس لیے کہ وہ مغل ہے ، بالکل خالص اور کھرا‘‘۔
’’ مغل ؟ تمہارا مطلب ہے شاہی خاندان سے ہے مغل اعظم ؟‘‘
’’ اب یہ تو مجھے نہیں معلوم کہ شاہی خاندان ہے یا نہیں مگر نسلاً مغل ہے ۔ میرے بھائی نے اس کو قراقلی ٹوپی پہنا کر اس کی بے شمار تصویریں کھینچی ہیں ۔ وہ کہتے ہیں ، دیکھو کوئی فرق ہے ظہیر الدین بابر کی اور اس کی شکل میں ؟‘‘
’’ ہاں واقعی‘‘۔ وہ غور سے اسے دیکھتی ہوئی بولی ، ’’ ہاں وہی اکہرا ، ستا ہؤا جسم ، وہی ناک ، ویسی آنکھیں ، ویسا ہی چہرہ مگر خیر پھر بھی He should behave‘‘۔
’’ٹھیک ہے ، میں سمجھا دوں گی ‘‘۔
میں خاک سمجھاتی ، وہ تو الٹا ہر وقت مجھے الاہنے دیتا تھا ۔ ’’ یارا مجھے کیا خبر تھی ، یہ بڈھی امریکن ہے ۔ مجھے مالوم ہو جاتا تو میں کدی اس کے کام پر نہ کھڑا ہوتا … اناں امریکناں نے تو پھڈا ڈال کر ساڈا بیڑا غرق کیتا۔ یارا میں پھنس گیا ‘‘۔اس کا کہنا تھا کہ اس میم کے پیسے لینے کو اس کی روح نہیں کرتی۔’’ تو نے میرے نال دھوکا کیتا ‘‘۔
وہ مہینہ پورا کر لیا تو اس کی وحشت اور بڑھ گئی ۔ میں نے اسے کتنا سمجھایا تھا کہ بس دو مہینے اور صبر کر لو ۔ میں اس کو زبان دے چکی ہوں ۔ اب میں اس کا کام چھڑا کر کیسے تمہیں رکھ لوں !وہ چپ ہو گیا ۔ اوپر چڑھ گیا ۔ پھر وہی پرانا مقام تھا ، پھر وہی وہ تھا کہ اس طرح ٹکٹکی لگائے کھڑا کھورتا تھا ۔ اب اس کی آنکھوں میں امید نہ تھی ۔ کوئی دیپ ، کوئی چراغ نہ جلتا تھا ۔ اب اس میں اتھاہ دکھ تھا، شکایت تھی اور رنج تھا۔
اگلی صبح پتہ چلا بڈھا اپنا کمبل اوربستر اٹھا کر چپکے سے نکل گیا ۔اس مہینے جتنے دن کام کیا ، وہ پیسے بھی چھوڑ گیا ۔ کیوں ؟ کس واسطے ؟ اب تواس کی تھیلما سے کوئی دھر پٹخ بھی نہ ہوئی تھی ۔جب اسے پتا چلا تھا کہ وہ مغل ہے ، وہ اس سے لحاظ سے بات کرتی تھی ۔ اسے اس کی پاکیزگی ، صفائی اور باضابطہ زندگی پسند تھی ۔
اب میں کیا بتاتی کہ اس کے برتن دھونے سے اسے کراہت آتی تھی ۔’’ یارا یہ ضرور خنزیر کھاتی ہوگی‘‘ ۔ وہ چلا گیا تو مجھے بڑا قلق ہؤا ۔ میںنے یقیناً اسے مایوس کیا تھا ۔ کاش! میںاس کو یہ تھوڑا سا فائدہ دلوانے کی کوشش نہ کرتی اور اس کو پیسے کی پروا ہی کب تھی ۔ اس نے کسی سے بجز اپنے معاوضے کے کبھی کوئی امداد طلب نہ کی تھی ۔ عید ،بقر عید جب اماں اس کے کپڑے سلوا تیں تو وہ کتنا کچا ہوتا ، خفا ہونے لگتا ۔’’ میں محتاج نہیں ۔ میں تو محنت کر سکتا ہوں ‘‘۔
پھر اماں اسے سمجھاتیں ، ’’ دیکھ میں اپنے بچوں کے کپڑے بنواتی ہوں کہ نہیں ۔ قدیر تو مجھ سے نہیں لڑتا کہ میرے کپڑے کیوں بنائے ۔ پھر تو کیوں ناراض ہوتا ہے ؟‘‘ وہ ہنسنے لگتا ۔ پھر جب نہا دھو کر تیار ہو کراترتا تو ہنستا ہؤا ، ’’ بچ کے بدھو ، ہٹ کے بدھو … کرتا ۔ بڑا معصوم تھا ۔ کئی لوگوں نے کہا کہ غریب مہاجر وظیفے لگوا رہے ہیں تو وہ بگڑ گیا ، ’’ ہم نے پاکستان کو کیا دے دیا جو وظیفے لیتے پھریں ۔ پاکستان نے ہم بے وطنوں کو پناہ دی یہ کم ہے ‘‘۔
ایک مرتبہ وہ آیا تو اس کا ایک ہاتھ ٹوٹا ہؤا تھا اور غلط طور پر جوڑے جانے کے باعث کہنی کے پاس سے ٹیڑھا ہو گیا تھا ۔ اماںنے کہا ، ’’ اب کیسے کام کرو گے ؟ ایسا کرو ، کوئی چھوٹا موٹا کھوکھا کر لو ۔ ہم پیسے دیتے ہیں ، بعد میں ادا کر دینا ‘‘۔
وہ خفا ہوگیا ۔ ’’ کھوکھا لے کر بیٹھا تو محاذ پر کیسے جائوں گا ‘‘۔
’’ اچھا پھر ایسا کرتے ہیں ، تمہاری مدد کے لیے کوئی لڑکا رکھ لیتے ہیں ‘‘۔
’’ لو اور ہوئی یا تو تم پر جرمانہ ڈالوں یا تم میرے پیسے کم کر کے منڈارکھو ۔ بیگم جی … میں اپنا کام آپ کر لوں گا ۔ تم کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ‘‘۔
شروع شروع میںاماں مجھ سے کہتیں ، جائو اس کی مدد کر دو ۔ مگر وہ مجھے باورچی خانے سے نکال دیتا۔’’ جاتو اپنا پڑھ جا کر ۔ میں جانا میرا کم (کام)جانے ‘‘۔ لو بھئی وہ تو مسالا پیسنا ، برتن دھونا ، آٹا گوندھنا ، سب ایک سیدھے ہاتھ سے فٹا فٹ کرتا اور حدیہ ہے کہ چپاتی ڈال لیتا ۔ چپاتی زیادہ گول نہ ہوتی توپہلے ہی بڑے رعب سے کہہ دیتا ،’’ کیا پیٹ میں پوری گول روٹی رکھنا ہے ۔ جیسی بنتی ہے ، ویسی چپ چاپ کھائے جائو‘‘۔
یہ قلق میرے ساتھ تا حیات رہے گا کہ میں نے اس کو انڈر ایسٹیمیٹ کر کے اس کے فائدے کا خیال کر کے اس کا دل توڑ دیا ؎
توڑا جو تو نے آئینہ تمثال دار تھا
اپنے احساس جرم کو کم کرنے کی خاطر میں اسے گاہ گاہ اس کے ایک عزیز کےہاتھ کوئی خط اور کچھ رقم بھجوا دیا کرتی ۔ اس کا عزیز لاہور میں کہیں ڈرائیور تھا ۔ ایک بار جب میں پیسے لے کر اس کے پاس گئی تو وہ کہنے لگا ، ’’ بی بی ! اب اس کی ضرورت نہیں رہی ۔ میں سوچتا ہی رہا کہ آپ کو بتائوںکہ وہ کچھ ہی دن بعد چلا گیا تھا اور پھر واپس نہ آیا ‘‘۔
’’ کب سے لاپتہ ہے ؟‘‘
’’ لاپتہ کیا ہونا تھا جی ۔ جو اس کے ساتھ گئے تھے ،وہ بہت دنوں بعد واپس آئے توانہوں نے بتایا کہ وہ شہید ہو گیا‘‘۔
1987ء کی وہ شام بڑی اداس ہو گئی تھی۔
’’ شہید ہو گیا ۔ اچھا ! شہید ہو گیا ‘‘۔ میرے منہ سے دھیرے دھیرے نکلتا رہا ۔
تو پھر … پھر وہ بالائی منزل کی چھت پر کھڑا ٹکٹکی باندھے… بالکل اسی جگہ اور اسی سمت کو تکتا نظر آتا… اور اب اس وقت جب کشمیر فائل کے منظر سکرین پر آہستہ آہستہ معدوم ہو رہے ہیں … تو اس وقت یہاں میں ہی اس بات کی گواہی دے سکوں گی کہ یہ تصویریں ، یہ نظارے اور یہ بیانات ، فرضی اور من گھڑت تو نہیں ۔ ارے یہ تو وہی شاخ نہال غم ہے جو ہری رہی ؎
ویران ہے میکدہ ، خم و ساغر اداس ہیں
مسجدشہداء کے پاس کھڑی میں ایک ذرا اُس طرف کو نظر اٹھائوں تو سینٹ انتھونی کی پہلو میں کھڑا وہ سارا میکدہ وہ 12 نمبر ویران نظر آئے گا ۔ اسی خوف سے مسجد شہدا کے پاس راستہ کاٹ کر نکلتی ہوں ۔ ایک بساطِ روز و شب تھی کہ اس پر سیاہ و سفید مہرے ایک خانے سے دوسرے میں سرکتے تھے کہ بساط ہی لپیٹی گئی … نہ وہ جنوں رہا نہ وہ پری … کچھ بھی تو نہ تھا ۔ محض ایک سیمیا کے بنتے بگڑتے ہیولے اور نقش ابھرتے ہیں اور معدوم ہوتے ہیں ۔ ہاں مگر اک نقش کہ جس کو ہے ثبات و دوام …
اور اب تو وہ چھتنار املی کا پیڑ بھی کٹ چکا ہے جس کے تلے ، شملے میں احاطہ مولوی صاحب اور پرم روز کاٹیج اور سنجولی اور مشوبرہ اور کلو میں کام کرنے والوں کے غول کے ساتھ وہ آکر بیٹھا ۔ رفتہ رفتہ ہر شے اوجھل ہوئی ۔ منظر سے غائب ہوئی … مگر وہ اک شاخِ نہال غم …
اب میرے اندر کوئی سوال کرتا ہے کہ یہ جو بی بی سی ، سی این این ، پینٹا گون اور زی ٹی وی کے شعبہ خبر سے بار بار اصطلاحیں سننے میں آتی ہیں ۔ مسلم ملی ٹینٹ،Islamic Militant،اگر وادی … ٹیررسٹ اور فناٹک (Fanatic)… کیا ان میں سے ایک لفظ بھی اس پر صادق آتا ہے ؟
اس نے جو اپنی ہری بھری وادی اور بھرے پرے گھر سے نکلا اور رزق کی تلاش میںمنزلیں طے کرتا شملے پہنچا اور پرم روز کے اس بڑے نیم تاریک اور نم باورچی خانے میں چولہوں کے آگے صبح سے رات گئے کام کرتے برسوں بتا دیے تھے ، جسے کسی کے مذہب سے سرو کار تھا نہ رنگ و نسل سے … اور اس کا حشر یہ ہو&ٔا کہ ؎
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
کن کن کٹھنائیوں سے وہ لاہور پہنچا ۔ اور پھر کتنے مہینے بڑے صبر سے کام کر کے جب اپنے گھر پہنچا تو جس گھر پر بجلی گری ، وہ اس کا ہی آشیاں تو تھا ۔ اپنے اور اپنے جیسے بہت سوں کے گھر جلیں گے ، ان کی مائوں ، بہنوںاور بیٹیوں کو بے آبرو کرو گے تو وہ ملی ٹینٹ اور اگر وادی نہیں تو اور کیا بنیں گے ؎
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
یہ لکھتے ہوئے میں اس لیے حق بجانب ہوں کہ اس نے میری ماں کے بعد ماں ہی کی طرح میرا خیال رکھا ۔ کہا کرتا تھا ، ’’ یارا یہ یتیم بچی ہے ‘‘۔
٭٭٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x