ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

قسط12 – اک ستارہ تھی میں – اسما اشرف منہاس

پون اور عائشہ کی باتیں اظفر نے سن لی تھیں۔بعد میں اس نے خود اس بات کا اعتراف کیا اور پون کو ہر طرح کی مدد کا یقین دلایا حتٰی کہ شادی کی پیش کش بھی کی جو پون کے لیے ان حالات میں بہت بڑی امید اور تسلی بن گئی۔یونیورسٹی میں اظفر بہت بدل گیا تھا وہ پون سے باہر ملنا چاہتا تھا جو اسے قبول نہیں تھا۔یونیورسٹی کے دو سال ختم ہونے کے بعد اظفر نے شادی کا کوئی ذکرنہیں کیا تھا،تب پون نے اس کے دفتر جا کر اس سے ملنے کا فیصلہ کیا۔

’’ کہو کیسے آنا ہؤا کوئی خاص کام تھامجھ سے ؟ اُس کے پہلے ہی سوال نے اس کی ہمت توڑ دی تھی۔
’’ نہیں کام تو کوئی نہیں تھا ۔ بس ایسے ہی اس طرف سے گزر رہی تھی سوچا تم سے بھی ملتی چلو ں‘‘ اس نے اپنا بھرم رکھنے کی کوشش کی تھی ۔
’’ سوری میں نے بھی بہت دنوں سے فون نہیں کیا سخت مصروف تھا ‘‘۔
’’ کیا کام کر رہے ہو تم آج کل ؟ ‘‘اس نے برسبیل تذکرہ پوچھاتھا۔
’’ ہر وہ کام جو میرا بینک بیلنس بڑھائے‘‘ وہ مزے سے بولا تھا ’’تم تو جانتی ہو میں نے بہت غربت دیکھی ہے ۔ اب میں اتنی ہی امارت دیکھناچاہتا ہوں ‘‘۔
’’ اپنی تنخواہ میں تو تم امارت دیکھنے سے رہے ‘‘ پون نے یاد دلایا ۔
’’ تنخواہ ؟‘‘
اس پر جیسے ہنسی کا دورہ پڑ گیا ’’ تمہارا خیال ہے لوگ جواس عہدے پر پہنچنے کے لیے جان مارتے ہیں چند ہزار روپے کی تنخواہ کی خاطر ؟ کتنی بے وقوف ہو تم …اُ س نے میز پر رکھی فائلوں کی طرف اشارہ کیا ’’ یہ در اصل کروڑوں روپے ہیں جو دوسرے حاصل کرتے ہیں ۔ مگر ساری محنت ہماری ہوتی ہے ۔ ہمیں اس محنت کی تنخواہ ملتی ہے … تنخواہ ! ہاں اچھا لطیفہ ہے یہ بھی ‘‘ وہ اُس کی بات سن کر بولا تھا ۔’’ ہمارے ایک دستخط سے لوگوں کی تقدیر بدل جاتی ہے ۔ اُس تقدیر میں سے اگر چند لاکھ یا ایک آدھ کروڑ ہم لے لیں تو کیا فرق پڑتا ہے یہ تو ہمارا حق ہے ‘‘۔
پون حیرت سے اُس کی شکل دیکھ رہی تھی پر وہ اظفر تو نہیں تھا جسے وہ جانتی تھی ، کہیں وہ مذاق تو نہیں کر رہا ؟
لیکن نہیں وہ تو پوری طرح سنجیدہ وہ سارے کاروبار جو وہ اے سی کی کرسی پر بیٹھ کر کر رہا تھا بڑے فخر سے وہ ان کی تفصیل بتا رہا تھا ۔
’’ یہاں وسیع و عریض زرعی زمینیں ہیںمقامی با اثر لوگوں کے ساتھ مل کر ہم وہ زمینیں انتہائی کم قیمت پر خرید رہے ہیں پھر ان کی پلاٹنگ کر کے یہاں سو سائٹیاںبنائیں گے اُس میں بڑا منافع ہے … اربوں کا منافع ‘‘۔
’’ تمہیں لگتا ہے تم زرعی زمینوں کی پلاٹنگ کر کے منافع کما رہے ہو ؟‘‘
’’ ہاں اس میں کیا شک ہے ‘‘ پون کے سوال پر اُس نے حیرت سے جواب دیا ۔’’ کمزور لوگوں کی زمین پر اُن کے بد معاش رشتہ دار قبضہ کر لیتے ہیں ،ہم اُن سے وہ زمین خرید لیتے ہیں، اُن کی بھی جان چھوٹ جاتی ہے اور ہمارا بھی فائدہ ہے کیونکہ وہ خود تو قبضہ چھڑا نہیں سکتے یوں انہیں کچھ پیسے مل جاتے ہیں ‘‘ وہ اپنی کار کردگی پر ہر لحاظ سے مطمئن تھا۔
’’ لیکن تمہارے ہوتے کوئی کسی کمزور کی زمین پر قبضہ کیوں کرے؟ کیا تم کو اس ریاست نے شاندار مراعات اور سہولیات دے کر اس کرسی پر اس لیے نہیں بٹھایا کہ تم ظلم اور زیادتی کو روکو ؟ تم اپنا اختیار کیوں استعمال نہیں کرتے ؟‘‘ پون کواس کی ہر بات پر اعتراض تھا ۔
’’ ارے یہ قبضہ چھڑانا اتنا آسان بھی نہیں اور ویسے بھی ہم تو کچھ عرصے کے لیے یہاں آئے ہیں ، جب ہم جائیں گے دوبارہ یہی کچھ ہو گا۔ پھر کیا ضرورت ہے اتنی مشقت کی اور مقامی لوگوں کے ساتھ تعلقات بگاڑنے کی !‘‘
پون نے دیکھا وہ اے سی کی کرسی پر بیٹھ کر چپڑاسی جیسی باتیں کر رہا تھا ۔وہ سوچ رہی تھی مقابلے کے امتحان کی کتابیں انہیں اے سی ڈی سی تو بنا دیتی ہیں مگر انہیں انسان بنانے سے قاصر ہیں ۔ یہ عہدے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو ذمہ دار اور محب وطن بنانے کی بجائے لالچی بے حس اور خود غرض بنا دیتے ہیں ۔
’’ یہ ریاست تم پر لاکھوں روپے خرچ کر رہی ہے مگر تم یہاں آکر ریاست اور عوام کی خدمت کرنے کی بجائے پراپرٹی ڈیلر بن گئے ہو ‘‘۔
پون جانتی تھی ان سب باتوں کا نتیجہ اچھا نہیں ہوگا مگر وہ اُسے آئینہ دکھانے پر مجبور تھی۔
’’سونا اُگلتی زرعی زمینوں پر سوسائٹیاں بنا کر تم اور تمہارے جیسے لوگ اپنی آنے والی نسلوں کے خلاف Plotting( سازش) کر رہے ہو ۔ یہ زمینیں اللہ نے فصلیں اور اناج اُگانے کے لیے بنائی تھیں تاکہ اللہ کی مخلوق کے پیٹ بھر سکیں ، مگر تم یہاں کنکریٹ کا جنگل اُگا کر آنے والی نسلوں کو بھوکا مارنے کا بندو بست کر رہے ہو ‘‘۔
وہ اس کا احتساب کرنے نہیں آئی تھی مگر وہ خود ہی اس کا موقع فراہم کر رہا تھا تو وہ خاموش نہیں رہ سکتی تھی۔ اس وقت خاموشی سے بڑا جرم کوئی نہ ہوتا ۔
’’ اور یہ جو تم جائز کاموں کی قیمت وصول کر رہے ہو … کروڑوں کی رشوت اس ڈھٹائی اور بے خوفی سے وصول کر رہے ہو تو پھر تو تمہیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ پیغمبرؐ نے فرمایا رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں ‘‘۔
’’ ہاں مگر …‘‘
’’کیا مگر …پون نے اُس کی بات کاٹ دی تھی ،کیا تمہیں معلوم نہیں پیغمبر ؐ کی بات کے سامنے اگر مگر لیکن ویکن سب کی سب گستاخیاں ہیں تم شوق سے حرام کھائو مگر پیغمبرؐ کی بات کے سامنے اپنی بات رکھنے کا تمہیں کوئی حق نہیں ‘‘اُس کی اگر مگر پر پون کا سارا دُکھ اور افسوس شدید غصے میںبدل گیا تھا ۔
’’ اچھا ٹھیک ہے میں کچھ نہیں کہوں گا ‘‘ اُس نے ہاتھ کھڑے کیے ’’ تم آرام سے بیٹھو مجھے تم سے کچھ اور بات بھی کرنا تھی اچھا ہؤا تم خود ہی ادھر آگئیں ‘‘۔
وہ اُس کے اصرار پر دوبارہ بیٹھ چکی تھی اگرچہ اب کہنے سننے کو کچھ بھی نہیں رہ گیا تھا پھر بھی کوئی بات وہ کل پر نہیں چھوڑنا چاہتی تھی ۔
’’ پون مجھے اچھی طرح سے یاد ہے میں نے تم سے شادی کا وعدہ کیا تھا تم میرا انتظار بھی کر رہی ہو یہ بھی معلوم ہے مجھے لیکن ایسا لگتا ہے …‘‘ وہ کہتے کہتے رک گیا جیسے جو کہنا چاہ رہا ہو کہہ نہ پا رہاہو ’’ مجھے ایسالگتا ہے میں اپنا وعدہ نبھا نہیں سکوں گا مجھے معاف کر دو ‘‘ وہ دم بخود اس کی باتیں سن رہی تھی جیسے خواب کی حالت میں ہو ۔
’’ تمہارے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے میرے دل میں تمہاری بہت قدر تھی اور ہے بھی مگر اب میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ تمہارا طرز زندگی مجھ سے بہت مختلف ہے ‘‘ اُس نے خاص طور پر اس کی بڑی چادر کی طرف دیکھا تھا ’’ اور میں اتنا اچھا مسلمان نہیں ہوں جتنا اچھا مسلمان تمہیں شوہرکے روپ میں چاہیےبجائے اس کے کہ ہم بعد میںایک دوسرے کے لیے مسئلہ بنیں ہمیں ابھی سے الگ ہو جانا چاہیے ۔ ویسے بھی میری منزل ابھی بہت دور ہے میں اتنا کچھ بنانا اور کمانا چاہتا ہوںکہ میری آنے والی نسلوں میں سے کوئی اُس بھوک اور غربت کی شکل تک نہ دیکھے جو میں نے برسوں برداشت کی ہے ۔تم سوچ بھی نہیں سکتیں کہ یہ بھوک اور محرومی کتنی بری چیز ہے لہٰذا ابھی میں کسی ذمہ داری کا طوق اپنے گلے میں نہیں ڈالنا چاہتا‘‘۔
تو اب وہ اس کے لیے کچھ نہیں تھی سوائے ایک طوق کے جو اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھا !
’’ اور اگر میں تم سے شادی کر بھی لیتا ہوں ‘‘ وہ کہہ رہا تھا ’’توتمہارے مخصوص حالات کی وجہ سے ہمارا اچھا خاصا سکینڈل بن جائے گا تب میں تمہاری حفاظت تو کیا کروں گا میرا اپنا کیرئیر خطرے میں پڑ جائے گا اور یہ تو تم بھی جانتی ہو میں نے یہاں تک پہنچنے کے لیے کتنی محنت کی ہے اب میں اسے اتنی سی بات کے لیے دائو پر نہیں لگا سکتا ‘‘۔
وہ اظفر کے دفتر سے کس طرح اُٹھی تھی اُس نے آنسوئوں کو بہنے اور قدموں کو ڈگمگانے سے کس طرح روکا تھا اُسے یاد نہیں تھا ۔ اظفر نے اس کے ساتھ جو کچھ کیا تھا اُس پر اُسے ساری عمر رونا تھا اور یہ کام وہ بہت تسلی سے کرنا چاہتی تھی اُسے کوئی جلدی نہیں تھی ۔ وہ آہستہ قدموں سے چلتی دفتر سے باہر آگئی تھی اُس نے ڈھلتے سورج کو بڑی حسرت سے دیکھا تھا جو اس کے مستقبل کی ساری اُمنگیں اور امیدیں ساتھ لے کر ڈوب رہا تھا۔
٭
’’پاپامیں نے اسلام قبول کرلیا ہے ‘‘۔
اُس کی بات نے ایک لمحے کے لیے تو اُن کی سانس ہی روک دی تھی ۔ مما بھی اسے یوںدیکھ رہی تھیں جیسے جو سنا ہو اس پر یقین نہ ہو ۔ وہ تو اسے انیل سے شادی کے حوالے سے قائل کرنے آئے تھے اور آج وہ طے کر کے آئے تھے کہ اُسے راضی کر کے ہی اٹھیں گے ۔ وہ یقیناً مذاق کر رہی تھی۔
’’نہیں پاپامیں مذاق نہیں کر رہی ‘‘ اُس نے اُن کی آنکھیں جیسے پڑھ لی تھیں ’’ برسوں پہلے میںنے خوب سوچ سمجھ کر دل کی پوری رضامندی کے ساتھ اسلام قبول کیا تھا ‘‘۔
’’ کس کے لیے ؟ کیا کسی لڑکے کےلیے ؟‘‘ اُن کے لہجے میںگہرا طنز تھا ۔
’’ ہرگز نہیں ، میں نے صرف اللہ کے لیے اور اس کے بعد اپنے لیے یہ دین قبول کیا ۔ میں آپ کو یہ بات شاید ابھی نہ بتاتی کیوں کہ مجھے معلوم ہے میری یہ بات سخت تکلیف دے گی آپ کو مگر آپ انیل سے شادی کے حوالے سے مجھ پر دبائو ڈال رہے تھے تو مجھے مجبوراً بتانا پڑا ، کیونکہ میرے اور انیل کے بیچ کوئی رشتہ نہیں بن سکتا ، وہ مشرک ہے اور میں مسلمان …مشرک اور مسلمان کے بیچ شادی واقع ہی نہیں ہوتی اور میں کوئی ایسا رشتہ نہیں بنانا چاہتی جو اللہ کی نظر میں جائز نہ ہو اور جس کے نتیجے میں میری ساری زندگی خود اپنے آپ پر تھوکتے گزر جائے …‘‘
لیکن اسلام قبول کر لینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں آپ کو چھوڑ دوں گی یا آپ سے الگ ہو جائوں گی جبکہ مجھے جو اعتماد اور تحفظ یہاں حاصل ہے …‘‘
چٹاخ … ایک زور دار تھپڑ سے اس کی بات ادھوری رہ گئی تھی ۔ چہرے کے ساتھ ساتھ اس کا دماغ بھی گھوم گیا ۔ منہ سے بہتا ہؤا خون اس کی گردن اور پھر وہاں سے گریبان میں جذب ہو نے لگا ۔
اس کی حالت دیکھ کر مما کی چیخ نکل گئی تھی جس کے نتیجے میں اس کے بہن بھائی بھی دوڑتے آئے تھے۔
’’ کیا میں تمہارا باپ نہیں تھا ؟کیا میں نے تم سے پیار نہیں کیا ؟ کیا میں نے تمہیں کھانے کو روٹی نہیں دی ؟‘‘وہ اس کے سر پر کھڑے شدید غصے میں چیختے جا رہے تھے ،’’ کیا میں نے تمہیں پہننے کو نہیں دیا؟ کیا میں نے تمہیں سہولتیں اور آسائشیں دینے کے لیے دن رات گدھوں کی طرح کام نہیں کیا ؟پھر تم نے میری پیٹھ میں غداری کا چھرا کیوں گھونپا ؟ پھر تم نےمجھے رسوا کیوں کیا؟‘‘
ایک اور تھپڑ اُس کے چہرے پر لگا تھا اور اس بار اس کا سر دیوار سے ٹکرایا تھا ۔
’’ تم اپنے آپ پر تھوکنا نہیں چاہتیں لیکن اپنے ماں باپ پر بہن بھائی پر اور خاندان پر تھوکتے تمہیں کوئی شرم نہیں آئی ، اس گھر میں برسوں رہنے کھانے اور پلنے کے بعد اچانک تمہیں پتہ چلا کہ تمہارے باپ دادا کا مذہب غلط ہے اور دوسروں کا صحیح لہٰذا تم نے کھایا پیا حرام کرنے میں ذرا دیر نہیں لگائی ۔ ہماری محبت ہماری عزت ہماری قربانیاں کوئی چیز تمہیں اس غداری سے روک نہیں پائی‘‘۔
وہ بولے جا رہے تھے اور ان کی آنکھوں سے جیسے شعلے نکل رہے تھے چہرہ سرخ لال ہو رہا تھا۔ اُن کا بس نہیں چل رہا تھا اس کا گلا دبا دیں اسے ان سے ایسے شدید رد عمل کی توقع نہیں تھی ۔
’’پاپا میں تو پہلے ہی کہتا تھا اس ملک میں نہ ہماری عزت محفوظ ہے نہ مذہب ہمیں یہاں سے چلے جانا چاہیے۔ آپ نے ایک نہیں مانی اور اب وہی ہؤ ا جس کا ڈر تھا‘‘ اس کے بہت محبت کرنے والے بھائی نے بھی جلتی پر تیل ڈالا وہ شدید غصے میں مٹھیاں بھینچ رہا تھا ۔
سب کو اصل معاملے کی خبر ہو چکی تھی کسی کو کچھ بتانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی تھی ۔ اس دوران اس نے جب بھی بولنے یا وضاحت دینے کی کوشش کی تھی ایک زور دار تھپڑ نے اس کا منہ بند کر دیا تھا ۔
’’اگر میں نے دوبارہ یہ بکواس تمہارے منہ سے سنی جو تھوڑی دیر پہلے تم نے کی ہے تو یاد رکھو میں تمہیں گھر کے صحن میں زندہ دفن کر دوں گا‘‘پاپا ایک انگلی تنبیہی انداز میں اس کے سامنے لہراتے ہوئے کہہ رہے تھے اور اسے یقین نہیں آ رہا تھایہ وہی پاپا ہیں جو اس پر جان چھڑکتے تھے ۔
’’اور کان کھول کر سن لو کل تمہاری شادی ہو رہی ہے انیل کے ساتھ اب میں تمہیں ایک لمحے کی چھوٹ نہیں دوں گا ‘‘ وہ اس پر قہر آلود نظر ڈال کر باہر چلے گئے تھے۔
’’ اور اگر پاپا محبت کے ہاتھوں کسی لمحے کمزور پڑ گئے‘‘ اُن کے جانے کے بعد اُس کا بھائی بول رہا تھا’’ تو میں خود ان ہاتھوں سے تمہاری جان لے لوں گا ‘‘ اُس نے اپنے بڑے بڑے ہات اُس کے سامنے کیے۔
’’عزت اس لائق ہے کہ اُس کی خاطر جان دے بھی دی جائے اور لے بھی لی جائے ۔ کاش میں نے پیدا ہوتے ہی تمہارا گلا دبا دیا ہوتا ‘‘ مما نے بھی اپنی باری پر مائوں والا روایتی جملہ بولا تھا ۔
اور پھر ایک ایک کر کے سب باہر چلے گئے تھے ۔تب اُس کی بہنوں نے آکر اُسے فرش پر سے اٹھایا تھا اور اس کے کمرے میں لا کر بستر پر ڈالا تھا ۔ اُس کی بڑی بہن روتے ہوئے روئی سے اُس کا خونم خون چہرہ صاف کر رہی تھی ۔ چھوٹی بھی پاس کھڑی روئے جا رہی تھی ۔ اُس لمحے اُسے اپنی بہنوں پر بہت پیار آیا تھا ۔ کاش وہ انھیں اس آگ سے بچا سکتی جو دلوں تک پہنچ جاتی ہے اور پھر بچنے کی کوئی راہ نہیں ملتی !
٭
بیل بجانے پر دروازہ عائشہ نے ہی کھولا تھا اور پھر اُس سے ملنے کی کوشش میں ایک دم ٹھٹھک کر رُک گئی تھی ۔
’ ’ یا اللہ یہ تم نے اپنے چہرے کا کیا حال کیا ہے ؟ اُس نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا تھا ‘‘۔
’’ اندر تو چلو سب بتاتی ہوں ‘‘ وہ بہت کمزور آواز میں بول رہی تھی ۔ عائشہ اُسے اپنے کمرے میں لے آئی ۔
’’ اب بتائو یہ سب کیا ہے ؟ صبح نماز کے لیے اٹھی تو تمہارا میسج دیکھا تمہارے آنے کے متعلق….پھر بہت بار فون کیا مگر نمبر ہی بند تھا ۔ تم اس طرح اکیلی اس حال میں کیوں آئیں کیا ہو گیا ‘‘ اُس نے ایک ہی سانس میں بہت سارے سوال کر ڈالے تھے ۔
’’ گھر والے میری شادی انیل سے کروانا چاہ رہے تھے ۔ تب مجھے حقیقت بتانا پڑی ۔ اس کے بعد جوحال ہؤا وہ تمہارے سامنے ہے ‘‘ اُس نے اپنے چہرے کی طرف اشارہ کیا تھا جو نیلے جامنی اور سرخ رنگوں سے بھرا پڑا تھا ۔ کان کی لَو کٹی ہوئی تھی ہونٹ پھٹے ہوئے تھے ۔
’’ لیکن تم تو کہتی تھیں تمہارے پاپا مذہب کے معاملے میں بہت سیکولر اور کھلے دماغ کے ہیں ‘‘۔
’’ ہاں مذہب پر عمل کے حساب سے وہ سیکولر ہی ہیں ۔ لیکن اپنی پہچان اور اپنی عزت کے حوالے سے وہ ایک عام انسان ہی نکلے ۔ اسلام کا نام میرے منہ سے سنتے ہی اُن کی ساری روشن خیالی بھاپ بن کر اڑ گئی ۔اسی وجہ سے آج کے دن انہوں نے میری نام نہاد شادی بھی طے کردی تھی ۔ میری بہنوں نے بتایا وہ چچاکے گھرآدھی رات تک بیٹھے رہے تھے اسی سلسلے میں ….یہی وجہ ہے کہ میرے لیے گھر چھوڑنے کے سوا اور کوئی راستہ ہی نہیں بچا تھا ور نہ میں نے تو فیصلہ کیا تھا یہ چاہے مجھے روز بھی ماریں میں کبھی گھر نہیں چھوڑوں گی کیونکہ کسی لڑکی کا اپنا گھر چھوڑنے کا مطلب میں اچھی طرح جانتی ہوں ، اس کی وجہ کچھ بھی ہو مگر اُس پر ہمیشہ کے لیے گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی کا لیبل لگ جاتا ہے اور پھر اکیلی لڑکی کا گھر سے نکلنے کا مطلب خودکو بھیڑیوں کے جنگل میں پھینک دینا ہے ۔
میں جب گھر سے نکلی تو بہت خوفزدہ تھی مگر ایک یقین بھی تھا کہ اللہ میری حفاظت کرے گا وہ مجھے ضائع نہیں ہونے دے گا ۔ تمہارے لاہور شفٹ ہونے کا بھی مجھے فائدہ ہؤا۔ میں یہاں آکر چھپ گئی ۔ تمہارا پتہ میرے سوا کسی کے پاس نہیں ہے ورنہ تو میں جلد ہی ڈھونڈ لی جاتی ، گھر سے نکلتے ہوئے میں نے اپنی سِم بھی توڑ کر پھینک دی تھی اور موبائل گھر ہی چھوڑ دیا اسی لیے تم رابطہ نہیں کر پائیں ‘‘۔
اُس نے تفصیل سے اپنی روداد سنا دی تھی ۔
’’ اور اظفر ؟ کیا تم نے اُس سے رابطہ کیا ؟‘‘ عائشہ کو اچانک ہی اُس کا خیال آیا تھا ۔
’’ وہ میرے اور تمہارے رابطوں کی پہنچ سے باہر ہو چکا ہے ‘‘۔
’’کیا مطلب؟‘‘ عائشہ بُری طرح سے چونکی تھی ۔’’ مطلب یہ کہ وہ ایسے بدل چکا ہے کہ میں اور تم تو کیا اُسے پیدا کرنے والی ماں بھی نہیں پہچان سکتی ‘‘۔
اور پھر اُس نے عائشہ کو اظفر سے ملاقات کی ساری تفصیل بتا دی تھی۔
’’ چلو چھوڑو اُسے …. وہ تمہارے لیے ٹھیک تھا ہی نہیں اس لیے اللہ نے اسے تم سے دور کر دیا ‘‘ عائشہ نےاُسے تسلی دی ’’ میں تمہارے چہرے پر کوئی مرہم لگاتی ہوں پھر تم تھوڑی دیر کو سو جائو ‘‘۔
وہ جاکر مرہم لے آئی تھی ۔ مگر سونے کے لیے پون کو نیند کی گولی کھانی پڑی تھی۔
دوبارہ اُس کی آنکھ شام کوہی کھلی تھی ، تب عائشہ کی امی سے بھی اس کی ملاقات ہوئی تھی جب وہ آئی تھی تب وہ سو رہی تھیں ۔ عائشہ نے شاید انہیں سب بتا دیا تھا اس لیے انہوں نے کچھ نہیں پوچھا تھا مگر پون نے ان کی آنکھوں میں تشویش دیکھ لی تھی ۔ وہ اُس کے اپنے گھر آنے کی وجہ سے فکر مند تھیں اور شاید خوفزدہ بھی ۔
’’ پون میں تمہارے سونے کے دوران ہر پہلو سے سوچاہے ‘‘ وہ واپس کمرے میں آئیں تو عائشہ بولی ’’ اور میں تمہارے لیے بہت فکر مند ہوں ‘‘۔
’’ ہاں فکر تو مجھے بھی ہے ۔ میرے گھر والوں کو تمہاراپتہ جلد یا بدیر مل ہی جائے گا میں یہاں زیادہ دیر محفوظ نہیں ہوں ‘‘ اُس نے عائشہ کی بات کی تائید کی ’’ میں تمہارے لیے بھی کوئی مشکل نہیں کھڑی کرنا چاہتی جبکہ تمہارے بھائی بھی گھر پر نہیں ‘‘۔
عائشہ نے بتایا تھا اُس کے بھائی کسی کورس کے سلسلے میں ملک سے باہر گئے ہوئے تھے ایک مہینے کے لیے ۔
’’ اسی وجہ سے میں نے تم سے پوچھے بغیر تمہارے لیے ایک بندو بست کیا ہے ۔ مجھے یقین ہے تم کوئی اعتراض نہیں کرو گی ‘‘۔
’’ تم ٹھیک کہہ رہی ہو ‘‘ اُس نے عائشہ کی بات پر مسکرانے کی کوشش کی تھی اور اس ذرا سی کوشش میں اُس کا سارا چہرہ جیسے تڑخ گیا تھا اور وہ ایک لمبی سی آہ کر کے رہ گئی تھی۔
٭
پون جب ہاسٹل پہنچی تو شام ہونے ہی والی تھی اور وہ حیرت سے سامنے موجود عمارت کو دیکھ رہی تھی جوخاص اسی مقصد کے تحت بنائی گئی تھی۔ اس کا خیال تھا ہاسٹل کسی چھوٹی موٹی کوٹھی میں ہوگا مگر یہ تو تین منزلوں پرمشتمل بہت بڑی عمارت تھی۔ اس ہاسٹل کو عائشہ کی آنٹی چلا رہی تھیں جو در اصل ان کی ایک سہیلی کا تھا مگر اس کے تمام معاملات کی ذمہ داری صالحہ آنٹی پر تھی ۔ وہ بیوہ خاتون تھیں ، اپنی بیٹی کے ساتھ یہیں رہتی تھیں ۔عائشہ کے خیال میں یہ جگہ اُس کے لیے محفوظ تھی کیونکہ دوسرے شہر میں تھی اور پھر یہاں اس کی رہائش بلکہ نوکری کا بھی بندو بست ہو گیا تھا۔صالحہ آنٹی کوایک مدد گار کی ویسے بھی ضرورت تھی عائشہ نے پون کے حوالے سے پہلے ہی اُن سے بات کرلی تھی۔
اگلی صبح صالحہ آنٹی اُسے سارا ہاسٹل دکھا رہی تھیں ۔ہاسٹل ہر طرح سے جدید اور پر آسائش تھا ۔ ہر کمرے میں ایک کچن اور باتھ روم موجود تھا ۔ فرنیچر قالین ، ہیٹر ہر ایک چیز میسر تھی ۔وہاں رہنے والی خواتین نے اپنے طور پر اے سی فون انٹر نیٹ وغیرہ کی سہولت حاصل کررکھی تھی ۔ ہاسٹل میں مقیم تمام خواتین اعلیٰ عہدوں پر فائز تھیں کیونکہ یہ ورکنگ ویمن ہاسٹل تھا ۔ وہاں سکولوں کالجوں کی پرنسپلز بھی تھیں ، سرکاری اور غیر سرکاری این جی اوز میں کام کرنے والی خواتین بھی تھیں ، ائیر ہوسٹسز بھی حتیٰ کہ پولیس آفیسر بھی ۔ اُسے ان خواتین کی زندگی پر رشک آ رہا تھا ۔ خود مختاری آزادی اور جیب روپے سے بھری ہوئی ….سب اپنی ایک کمرے کی جنت میں مزیدار زندگی گزار رہی تھیں ۔ کوئی روک ٹوک نہیں کوئی پابندی نہیں کوئی شوہروں بچوں کی چخ چخ نہیں۔
’’یہ لڑکی جو سامنے سے آ رہی ہے یہ ایک این جی او کی اعلیٰ عہدیدار ہے ‘‘۔
اُس دن وہ صالحہ آنٹی کے ساتھ ٹیرس پر بیٹھی چائے پی رہی تھی جب انہوں نے سیڑھیوں سے اُتر تی لڑکی کی طرف اشارہ کیا ۔ پون تو اس کا حسن دیکھ کر دنگ رہ گئی تھی بہت خوبصورت گلابی رنگت سنہری بال …. وہ بالکل کسی گڑیا کی طرح تھی۔ اس پر سرخ سوئٹر اور سرخ ہی لپ اسٹک اور دوپٹہ ندارد ۔
’’ یہ اسی حلیے میں باہر جائے گی ؟‘‘ اسے سوچ کر ہی جھر جھری آگئی ۔
’’ ہاں بھئی اسے کیا فکر …. بڑے بڑے لوگوں سے تعلقات ہیں اس کے …. میں غلط معنوں میں نہیں کہہ رہی ‘ ‘ صالحہ آنٹی نے خود ہی اپنی بات کی وضاحت کی تھی ۔
جب مصیبت آتی ہے تو سارے تعلقات دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ، اُس نے دل ہی دل میں سوچا۔ اُسے لگتا تھا اظفر کے ساتھ اس کا تعلق بہت مضبوط ہے اوراُس کا عہدہ بھی بڑا تھا ۔ اُسے پورا بھروسہ تھا وہ مصیبت میں اُس کے کام آئے گا مگر وقت پڑنے پر ایسا کچھ بھی نہیں ہؤا تھا ۔ وہ اُس کے کسی کام نہ آیا تھا ۔ وہ دونوں اس کے اس طرح سے بدل جانے پر روئی تھی مگر اب اُسے لگتا تھا یہ یوں ہی ہونا تھا ۔ شاید اس نے گوشت پوست کے ایک انسان پر کچھ زیادہ ہی انحصار کر لیا تھا اور اللہ اُسے بتانا چاہتا تھا کہ سب سے مضبوط سہارا تو صرف اللہ کا ہی ہے اور وہی اس لائق ہے کہ اُس پر بھروسہ کیا جائے۔
’’ زیادہ تر تو یہ غیر ملکی دوروں پر ہی رہتی ہے ہاسٹل میں تو کم کم ہی نظر آتی ہے ‘‘۔
صالحہ آنٹی ابھی تک اسی لڑکی کے بارے میں بات کر رہی تھیں اور ان کی نظر یں بھی اسی پرجمی ہوئی تھی ہاں وہ تھی ہی اس قدر خوبصورت کہ جب سامنے ہوتی تو اس کے سوا کچھ اور دیکھنے کوجی نہیں چاہتا تھا ۔
’’ اس کا نام کیا ہے ؟‘‘اُس نے بھی گفتگو میں حصہ ڈالا ۔
’’ اس کا اصل نام تو کچھ اور ہے مگر یہاں سب اسے نین تارا کہتے ہیں ‘‘۔
’’ بڑا فلمی سا نام رکھا ہے ‘‘۔
’’ ہاں اس کا کام بھی فلمی ہی ہے …. ہر طرف سے گلیمر اور چکا چوندمیں گھرا ہؤا …. اس کی این جی او کی سر براہ توکوئی اور ہے مگر اُس عورت کی شکل اور شخصیت ایسی ہے کہ لوگ اسے باقاعدہ نا پسند کرتے ہیں، اس سے دور بھاگتے ہیں ۔ اسی لیے اسے نین تارا کا سہارا لینا پڑا ‘‘۔
اُس نے دیکھا وہ اپنی نہایت شاندار گاڑی میں بیٹھ چکی تھی ۔ گاڑی اب آہستہ آہستہ دروازے سے باہر جا رہی تھی ۔ پون بھی اُٹھ کر اپنے کسی کام سے لگ گئی تھی ۔ پھر اس کے بعد نین تارا یا اس کی این جی او پر کوئی بات نہیں ہوئی تھی نہ ہی وہ دوبارہ اسے نظر آئی تھی ۔شاید پھر کسی دورے پر چلی گئی ہو گی ۔اُس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کی جلد ہی نین تارا سے دوبارہ ملاقات ہو گی بلکہ وہ خود اسے شرفِ ملاقات بخشنے لگی۔
اُس دن وہ لائونج میں بیٹھی ہاسٹل کے حساب کتاب کے ساتھ سر کھپا رہی تھی جب وہ اس کے پاس آ بیٹھی تھی ۔ ’’ آپ میڈم صالحہ کی اسسٹنٹ ہیں ؟‘‘
’’ جی بالکل!‘‘ وہ ا س کی طرف دیکھتے ہوئے بولی تھی ۔
’’ آپ کافی محنت سے کام کرتی ہیں ہر وقت مصروف دکھائی دیتی ہیں ‘‘۔
پون اپنی تعریف سن کر شرمندہ ہو گئی تھی ۔ وہ اسے کیا بتاتی کہ یہ مصروفیت اس کی مجبوری تھی ، ور نہ سوچیں اس کوپاگل کردیتیں ۔ اور ویسے بھی فارغ رہ کر وہ کرتی بھی کیا ، یہاں کسی کے ساتھ اس کی کوئی خاص جان پہچان بھی نہیں تھی کہ کچھ وقت ملنے ملانے میں ہی گزر جاتا ۔ ’’ میں گھما پھرا کے بات نہیں کرنا چاہتی کیونکہ میرے پاس وقت بہت کم ہے ، اس لیے سیدھی بات کروں گی ۔ مجھے ایک قابل سیکرٹری کی ضرورت ہے اور میرا مشورہ ہے کہ تم یہ ہاسٹل کاحساب کتاب چھوڑو اور میرے پاس نوکری کر لو فائدے میں رہو گی ‘‘۔
پون اُس کی بات پر حیران رہ گئی تھی ۔ نین تارا کواس میں ایسی کیا قابلیت نظر آئی تھی کہ اُسے فوراً نوکری کی پیشکش کردی تھی جبکہ وہ نہ صرف یہاں نئی تھی بلکہ اُسے تو کام کرتے بھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے تھے ، کوئی خاص تجربہ بھی نہیں تھا ۔
’’ مجھے ایک محنتی اور سمجھدار سیکرٹری چاہیے ‘‘ وہ پون کی ہاں یا ناں سے بے نیاز اپنی ہی کہے جا رہی تھی ’’ جو بیرونی دوروںمیں بھی میرے ساتھ رہے ۔ تمہاری انگریزی تو یقیناً اچھی ہو گی یونیورسٹی گریجویٹ ہو ناں۔ میری بالکل بھی اچھی نہیںہے ‘‘ وہ اُس کے جواب کے انتظار کے بغیر بولی تھی ’’ بڑے عرصے سے سیکھنے کی کوشش کر رہی ہوںمگر یہ کمبخت ہے کہ آکے نہیں دے رہی لہٰذا مجھے ایک مترجم کی بھی ضرورت رہتی ہے …. تم تنخواہ کی فکر نہ کرو جو چاہو گی وہی ملے گی …. لاکھ ڈیڑھ لاکھ میرے لیے کوئی مسئلہ نہیں ….
جو بھی تمہارا ارادہ ہے جلدی بتانا تاکہ ویزے اور پاسپورٹ کے مسائل سے نمٹا جاسکے ….میرا کمرہ تمہیں معلوم ہی ہوگا وہیں آجانا کسی وقت باقی معاملات طے کر لیں گے ‘‘۔
نین تارا اپنی کہہ کرچلی بھی گئی تھی اور وہ اُسے دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی تھی ۔ اُسے ابھی تک سمجھ نہیں آئی تھی کہ اُس نے اسے نوکری کی پیشکش کی تھی ، حکم دیا تھا یا پھر اپنا فیصلہ سنایا تھا ۔ اگلے دو تین دن وہ اسی شش و پنج میں مبتلا رہی تھی کہ کس سے مشورہ کرے ، کس کو اپنی الجھن بتائے ۔ پھر اس نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ وہ صالحہ آنٹی سے یہ بات کرے گی، وہ نین تارا کو زیادہ بہتر طریقے سے جانتی تھی ، وہی بتا سکتی تھیں کہ اس با اثرعورت کوکیا جواب دینا چاہیے۔
رات آٹھ بجے اس کے کمرے کا دروازہ بجا تھا ۔ سعدیہ تھی جوساتھ کے ایک کمرے میں رہتی تھی اورکالج میں پڑھاتی تھی ۔
’’ نین تارا سب کو ریستوران لے کرجا رہی ہے ‘‘ وہ دروازے میں سے سر اندردیے اُسے بتا رہی تھی ’’ تمہیں بھی بلایا ہے ساتھ چلنے کے لیے ‘‘ ۔
’’ کیا ؟‘‘ تھوڑی دیر کووہ سمجھی نہیں تھی کہ وہ کیا کہہ رہی ہے ’’ارے نہیں بھئی میں بہت تھکی ہوئی ہوں اب اس وقت کہیں جانے کی ہمت نہیں ‘‘ اُس نے صاف انکار کیا تھا ۔
’’’ جانا تو پڑے گا ۔ اُس نے خاص طور پر تمہیں بلایا ہے کھانے کی ایسی زبر دست دعوت ٹھکرانا بے وقوفی ہے آجائو ‘‘۔
’’ ارے چلی جائو کیا ہرج ہے ‘‘ اتنی دیر میں صالحہ آنٹی بھی کمرے میں آچکی تھیں اور سعدیہ کی ہاں میںہاں ملا رہی تھیں ۔
’’ نا چار اُسے اٹھنا پڑا ، حالانکہ اُسے کھانے کا یہ احسان لینا اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔ مگر پھر سب کے ساتھ جانا پڑا ۔ سب اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر جا رہی تھیں ۔ وہ اور سعدیہ نین تارا کی گاڑی میں تھیں جس کا حسن رات کے اندھیرے میں بھی قیامت ڈھا رہا تھا ۔ بے باک اورپر اعتماد ۔ اُسے خود پر بڑا بھروسہ تھا وہ کسی سے خوف زدہ نہیں تھی ۔
ریستوران پہنچ کر پون کا خوف بڑھ گیا تھا ، سب عورتوں کے اس جتھے کوبڑی دلچسپی سے دیکھ رہے تھے جس کی سربراہ نین تارا تھی۔ اسے لگتا تھا یہ تو بچ جائے گی مگراس کی جگہ کسی کمزور کی شامت آجائے گی ۔ اُس نے ریستوران آکر غلطی کی تھی ۔ اُسے سخت پچھتاوا ہو رہا تھا۔ مرد بار بار اُن کی میز کے پاس سے ہو کر گزر رہے تھے اور نہایت بے شرمی سے سب کو اورخاص طور پر نین تارا کو گھور رہے تھے ۔ آج کچھ ہو کر رہے گا ، نجانے کیوں اسے طرح طرح کے وہم آ رہے تھے ، پریشانی میں اُس سے کچھ کھایا بھی نہیں جا رہا تھا ۔ باقی سب مگن تھیں ۔ اپنی بندھنوں سے آزاد زندگی کا لطف اٹھا رہی تھیں ۔
واپسی پر وہ اور سعدیہ کسی اور کی گاڑی میں بیٹھی تھیں کیونکہ نین تارا کہیں اور جا رہی تھی ۔ ہاسٹل کا دروازہ رات گیارہ بجے بند ہو جاتا تھا مگر ظاہر ہے یہ قانون اُس پر لاگو نہیں ہوتاتھا ۔ واپس آکر اس نے سکھ کا سانس لیا تھا اورطے کیا تھا کہ آئندہ وہ رات کوکبھی باہرنہیں نکلے گی۔
صبح اس نے دیکھا نین تارا لائونج میں بیٹھ کر سب کوبڑے فخر سے رات کے واقعات سنا رہی تھی ، دو دوگاڑیوں نے میرا پیچھا کیا مگر میں نے ایسا چکمہ دیا کہ بس ۔ پون نے شکر ادا کیا کہ وہ اس کی گاڑی میں نہیں تھی ۔ اللہ نے بال بال بچا لیا ورنہ اگر یہی آوارہ مرد اس کے پیچھے لگ گئے ہوتے تو وہ کس سے مدد مانگتی کہاں پنا لیتی ؟
(جاری ہے )
٭٭٭
اُس پر آج کل کام کا بہت بوجھ تھا صالحہ آنٹی اپنے کسی عزیز کی وفات کی وجہ سے دوسرے شہر گئی ہوئی تھیں لہٰذا اب ساری ذمہ داری اُسی پر تھی ۔ سارا دن کیسے گزرتا پتہ بھی نہ چلتا ۔ نین تارا کی پیشکش کے بارے میں سوچنے کا وقت ملا تھا نہ ہی وہ صالحہ آنٹی سے کوئی بات کر پائی تھی ۔ اُن سے واپس آتے ہی وہ بات کرے گی اُس نے سوچ رکھا تھا ۔
اور پھر اس نے یہی کیا تھا ۔ اُس کی بات سن کر وہ بے حد پریشان ہو گئی تھیں جس کی اسے توقع نہیں تھی۔
’’ آپ اتنا پریشان کیوں ہو رہی ہیں ؟ اگر آپ کومیرے لیے یہ نوکری مناسب نہیں لگتی تو میں انکار کردوں گی ۔ مجھے ویسے بھی یہی کرنا تھا ‘‘ اُس نے اپنی طرف سے ان کی تسلی کرا دی تھی۔
’’نہیں بیٹا یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے جتنا تم سمجھ رہی ہو ۔ نین تارا اور اس کی این جی او ایک اندھا کنواں ہے ، جو اس میں ایک دفعہ گر گیا اس کے لیے باہر نکلنانا ممکن ہے ۔ یہ بہت خطر ناک عورت ہے اور اس کی جوباس ہے وہ اس سے بھی زیادہ بے رحم ہے ‘‘۔
’’ اگر یہ اتنی ہی خطر ناک ہے تو آپ اسے یہاں سے نکال دیں ‘‘ پون نے آسان حل پیش کیا تھا ۔
’’ کوشش کی تھی مگر اس کے بعد کہاں کہاں سے فون آئے تم سوچ بھی نہیں سکتیں ۔ کسی نے دھمکی دی توکسی نے لالچ….اور کسی نے اس عظیم شخصیت کے یہاں رہنے کے فوائد گنوائے ۔ غرض یہ کہ خود اپنے ہاتھوں سے جا کرہاسٹل خالی کرنے کا نوٹس واپس لینا پڑا ‘‘۔
’’ اس کے پاس روپے پیسے کی تو کوئی کمی نہیں یہ توکسی بھی شاندار گھر میں رہ سکتی ہے ۔ پھر یہاں کیوں رہ رہی ہے ؟‘‘ پون کونیا خیال آیا ۔
’’ ارے روپیہ پیسہ تو بہت معمولی چیز ہے ۔ ان کا اس سے کیا واسطہ …. ان کی جیبیں تو ڈالروں سے بھری ہوتی ہیں ہر وقت ۔ یہاں اس لیے رہ رہی ہے کیونکہ یہ عورتوں کا ہاسٹل ہے اور اس میں اعلیٰ عہدوں پر فائز با اختیار اور با وسائل عورتیں رہتی ہیں جنھیں یہ اپنے مفاد کے لیے استعمال کر سکتی ہے ‘‘۔
’’ تو ان عورتوں سے دوستی کرنے کے لیے اس کا ان کے بیچ میں رہنا ضروری ہے ‘‘ وہ صالحہ آنٹی کی بات سن کر بولی تھی ۔
’’ ہاں بالکل ‘‘ انہوں نے اس کی تائید کی ’’ یہاں شہرکے سب سے بڑے گرلز کالج کی پرنسپل رہتی ہے ۔ وہ اس کے انگوٹھے کے نیچے ہے۔ جب کبھی اس کی این جی او نے کوئی مظاہرہ کرنا ہوتا ہے یا جلوس نکالنا ہوتا ہے تواسے کالج کی لڑکیاں نہایت آسانی سے دستیاب ہوتی ہیں۔ ماں باپ کالج کی انتظامیہ پر بھروسہ کرتےہیں ۔ ان کو کیا معلوم ان کی بیٹیاں کیسے کیسے کتبے اٹھائے سڑکوں پر کھڑی ہیں اور وہ حقوق مانگ رہی ہیں جو عورتوں کے تو کیا انسانوں کے بھی نہیں ہیں ۔ وجہ صرف یہ ہے کہ کچھ گمراہ اور بھٹکی ہوئی عورتیں پورے معاشرے کو اپنی انگلیوں پرنچانا چاہتی ہیں …. کیونکہ یہ اپنی نا تمام خواہشوں کا انتقام پوری انسانیت سے لینا چاہتی ہیں ۔ان کی اپنی زندگیاں برباد ہیں ۔ بدلے میں یہ کسی ایک انسان کو آباد نہیں دیکھ سکتیں ۔ یہ خدا کی ، اس کی قانون کی ، انسانی معاشروں کی دشمن ہیں ۔ ایسے عناصر ہر جگہ ہوتے ہیں جو اس بات پر بضد ہیں کہ چونکہ روٹی منہ میں ڈالنے کا طریقہ خدا نے سکھایا ہے لہٰذا یہ غلط ہے۔ درست طریقہ یہ ہے کہ روٹی منہ کے بجائے ناک میں ڈالی جائے اوراسے باقاعدہ قانون کادرجہ دیا جائے اورپھر ایک دن ساری انسانیت کے لیے یہ طریقہ لازم قرار دیا جائے ‘‘۔
وہ مان گئی کہ صالحہ آنٹی اچھی خاصی نفسیات دان تھیں ۔ آخر کئی سال سے عورتوں کا یہ ہاسٹل چلا رہی تھیں عورتوں کوسمجھے بغیر یہ کام ممکن ہی نہیں تھا ۔ مگر اس کا مسئلہ جوں کا توں تھا ۔وہ نین تارا کو اب انکار کیسے کرے گی ؟ و ہ جس قسم کے حالات کا شکار تھی اس میں وہ ایسی با اثر عورت کواپنا دشمن نہیں بنانا چاہتی تھی ۔ کوئی ایسا حل نکالنا تھا جس سے وہ آسانی سے اس مشکل سے نکل آئے ۔
مگر اس کی نوبت ہی نہیں آئی تھی ۔
نین تارا حسب معمول کسی دورے پر تھی ۔ پھر یہ دورہ لمبا ہوتا گیا۔مہینہ ، دومہینے ، تین مہینے …. وہ واپس نہیں آئی ۔ پھر طرح طرح کی افواہیں اڑنا شروع ہو گئیں ۔کہیں سے خبر آئی کہ وہ این جی او کے کروڑوں کے فنڈز لے کر غائب ہو گئی ہے ۔ کسی نے کہا اُس کی اپنی باس کے ساتھ ان بن ہوگئی تھی ۔ یہ لڑائی کرسی کے لیے تھی یا روپوں کےلیے ، نتیجہ یہ نکلا تھا کہ وہ لاپتہ کردی گئی تھی (بقول صالحہ آنٹی کے اُس کے باس ایک بے رحم عورت تھی )۔
واقعہ کچھ بھی ہؤا ہو کسی کو اس بات سے دلچسپی نہیں تھی کہ ایک جیتی جاگتی خوبصورت جوان عورت غائب ہے کوئی اس کا پتہ کرے ۔ نین تارا کے تو بہت تعلقات تھے ۔ مگر افسوس یہ سارے ہوس کے رشتے اور تعلقات مصیبت کے وقت اس کے کسی کام نہیں آئے تھے ۔ البتہ پون کے سر سے ایک بہت بڑابوجھ ٹل گیا تھا ۔ اسے اب کسی کوجواب نہیں دینا تھا ۔مگر پھر بھی اسے کبھی کبھی نین تارا کا خیال آتا ۔ وہ افسوس محسوس کرتی تھی اُس کے لیے اللہ نے اسے کس قدر خوب صورت اور با صلاحیت بنایا تھا مگر اس نے خود کوشیطان کے راستے میں ضائع کردیا ۔ ماں باپ نے اس کی شادی کی تھی مگر اس کا خیال تھا کہ وہ اس قدر حسین اور ذہین تھی کہ اس کا حسن اورذہانت اس لیے نہیں تھے کہ وہ ہانڈیاں بھوننے بچے پیدا کرنے اور شوہر کی غلامی میں انہیں ضائع کردے ۔ اُس نے جلد ہی طلاق لے لی تھی اور ایک سہیلی کے پاس شہر آئی تھی ۔ پھر اس نے مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا تھا یہاں تک کہ ایک دن ہمیشہ کے لیے لا پتہ ہو گئی۔
٭
صبح ہوتے ہی ہاسٹل میں کام والی ماسیوں کی آمد شروع ہو جاتی ایک کار پٹڈ کمرے کی صفائی کے لیے بھی سب خواتین نے ماسیاں رکھی ہوئی تھیں ۔ کچھ کپڑے بھی دھلواتیں اور کچھ لانڈری بھیج دیتیں اور کچھ تو کھانا بھی پکواتیں ۔ ہاسٹل کے دائیں بائیں دو بہت لمبے چوڑے ڈرائیو وے تھے جو شام ہوتے ہی چھوٹی بڑی لش پش گاڑیوں سے بھرنا شروع ہو جاتے ۔ ہر ایک نے اپنی پسند اورحیثیت کے مطابق گاڑی رکھی ہوئی تھی ۔
اُسے ہاسٹل آئے ایک ہفتہ ہؤا تھا جب عائشہ نے صالحہ آنٹی کے نمبر پر اسے فون کیا تھا ۔ و ہ اس کی طرف سے بہت فکر مند تھی ۔ اس نے پون کو بتایا تھا ۔
’’ ہمارے گھر سے تمہارے جانے کے دوتین بعد ہی تمہارے ابوبھائی اورساتھ تمہارا چچازاد بھائی آیا تھا تمہارا بھائی توبہت ہی غصے میں تھا ۔ اُسے ہم پر پورا پورا شک تھا ۔ جاتے ہوئے دھمکیاں دے رہا تھا کہ تھانے میں ہمارے خلاف رپورٹ درج کرائے گا کہ ہم نے ایک غیر مسلم لڑکی کو اغوا کر کے اسے زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا ہے اور یہ کہ پولیس تمہیں ڈھونڈ نکالے گی ۔ تمہارا چچا زاد بھی بہت غصے میں تھا اگر تم انہیں مل جاتیں تووہ تمہیں مار ہی دیتے ۔ وہ کہیں سے پڑھے لکھے تو لگ ہی نہیں رہے تھے ‘‘۔
’’ انہیں کچھ نہ کہو‘‘ عائشہ کی بات سن کر وہ روتے ہوئے بولی تھی ’’ ان کی عزت گئی ہے اور جن کی عزت چلی جائے وہ یونہی ہوش و حواس کھو دیتے ہیں ‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ بری طرح سے رو رہی تھی۔
(باقی آئندہ)
٭٭٭
اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کے پیارے ماں باپ کی عزت یوں اس کے ہاتھوں برباد ہو گی کاش وہ اسے اپنی مرضی کے دین پر جینے کا حق دیتے اس کی شادی کی بات نہ کرتے تووہ کبھی گھر نہ چھوڑتی وہ بے بسی کے عالم میں دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی ، آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے آج اسے سب بہت یاد آرہے تھے مگر یہ جدائیاں تو اب ساری زندگی کا روگ

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x