ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

پانچویںٹرین – بتول نومبر۲۰۲۰

وہ ریلوے اسٹیشن کے بینچ پر بیٹھی تھی۔سامنے سے ریل گاڑی تیزی سے شور مچاتی گزری گھڑ گھڑ گھڑ دھڑ دھڑ دھڑ … وہ محویت سے ریل گاڑی کو دیکھ رہی تھی ۔ یہ ریل گاڑی اسٹیشن پر رکی نہیں بسذرا سی ہلکی ہوئی ۔ اتنی ہلکی کہ روشانہ کو کھڑکیوں سے جھانکتے لوگ صاف طور پر نظر آئے کسی کھڑکی سے کوئی ماں اور بچے جھانک رہے تھے اور کسی سے مرد … اکثر اسے ہاتھ ہلا رہے تھے۔
نہیں وہ اسے ہاتھ ہلا کر خدا حافظ تھوڑی کہہ رہے تھے ۔ خدا حافظ تو جان پہچان والے ایک دوسرے کو کہتے ہیں ۔ روشانہ نے سوچا ان کی اور میری کون سی جان پہچان ہے ۔ یہ ریل گاڑی کے مسافر ہیں اور میں اس کے لیے ابھی انتظار کر رہی ہوں۔یہ تو ان ہوائوں فضائوں اسٹیشن کے ہر ذی روح کو خدا حافظ کہہ رہے ہیں کہ تم ابھی یہاں ہی رہو ہم آگے روانہ ہو رہے ہیں۔
تیزی سے چلتی ریل گاڑی کا آخری ڈبہ گزر گیا روشانہ نے دور جاتی ریل گاڑی کو دیکھا جو تیزی سے بڑے چھوٹے نکتے میںتبدیل ہوتی جا رہی تھی اور پھر تھوڑی دیر بعد ہی یوں محسوس ہو گا کہ گویا اس کا وجود ہی نہیں تھا۔
روشانہ کے پائوں میں سر سراہٹ سی ہوئی اس نے چونک کر نیچے دیکھا ایک کالے اور سفید بالوں والی بلی اس کے پائوں کے آس پاس اپنی کمر رگڑتی ہوئی گزر رہی تھی۔
روشانہ نے پائوں پیچھے کیے، بلی نے رک کر اسے دیکھا جیسے کہہ رہی ہو تمہارے پاس مجھے دینے کو کچھ نہیں ؟
روشانہ نے ہاتھ جھٹکا۔
بلی کو جیسے اپنا جواب مل گیا۔
وہ دوسرے بینچ پر بیٹھے ہوئے لوگوں کی طرف چل دی۔
اسٹیشن پر آہستہ آہستہ خاموشی چھانے لگی تھی اخبار والا اپنے اخباروں اور رسالوں کے بنڈل کے ساتھ باہر کے گیٹ کی طرف چل دیا اب اس کو سڑک پر کچھ دیر اپنا بزنس کرنا تھا۔
بن کباب اور چھولے چاٹ دہی بڑے کے ٹھیلے پر کھڑا لڑکا بھی سکون سے اپنے اسٹول پر بیٹھ گیا ۔ چائے والے کے اسٹال پر لیکن ابھی بھی چند گاہک موجود تھے روشانہ کو چائے کی طلب ہوئی۔
اس کو یاد آیا کہ اس نے ناشتہ ہی نہیں کیا ہے صبح منہ اندھیرے گھر سے نکلی تھی ۔ ایک چھوٹے ہینڈ بیگ اور ایک پرس کے ساتھ …
اس نے یاد کیا اس دن بھی مہینے کی آٹھ تاریخ تھی پرویز نے اسے منہ اندھیرے اسٹیشن پر پہنچنے اور پانچویں گاڑی میں ملنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس دن گھر سے نکلتے ہوئے اسے امی ابا اور بھائی بہت یاد آئے تھے ۔ کیسی اچانک موت تھی ان کی روڈ ایکسیڈنٹ میں … موقع پر ہی انتقال ہو گیا تھا ۔ اب تو اس حادثے کو گزرے برسوں گزر گئے ۔
ہاں بھئی حادثے ہوتے ہیں اور گزر جاتے ہیں اور پھر حادثے کے بعد کوئی اور حادثہ ہو جاتا ہے ۔ اس حادثے کے وقت روشانہ چھوٹی تھی ۔ اسکول میں پڑھتی تھی ۔ بھائی اس سے بارہ سال بڑا تھا جس کی شادی کی خوشیاں بھی ماند نہ پڑی تھیں کہ یہ حادثہ ہو گیا ۔ اس کو سنبھلنے میں بہت وقت لگا ۔ دور کے چند خاندان والے آئے اور چلے گئے ۔ کسی نے زیادہ پوچھ گچھ نہ کی کہ ذمہ داری گلے ہی نہ پڑ جائے۔
قریب کا کوئی تھا نہیں …
بھابھی اب گھر کی بڑی تھی ۔ چند سال بعد بھابھی کے ماں باپ نے بھابھی کی دوسری شادی کر دی لیکن بھابھی کی رخصتی کے بجائے گھر میں ایک اجنبی کا اضافہ ہو گیا بھابھی نے روشانہ کو اسکول سے اٹھوا لیا اور کسی فیکٹری میں کام پر لگا دیا ۔ تبدیلی بڑی جلدی جلدی آئی تھی … روشانہ کو تو کچھ سوچنے کا موقع ہی نہ ملا اور نہ ہی بھابھی نے موقع دیا۔
وہ گھر جہاں وہ ماں باپ اور بھائی کی چہیتی تھی اب وہاں وہ صرف ایک نند تھی ۔ نند بھی ایسی کہ جس کا کوئی والی وارث ہی نہیں تھا ۔ فیکٹری سے تو چار بجے چھٹی مل جاتی لیکن گھر سے نہ ملتی … بھابھی کے دو بچے اور گھر کے وہ کام جو وہ اس کے لیے بچا کر رکھتی تھی ۔ کئی سال گزر گئے … روشانہ نے ایک جھر جھری لی اور تلخ یادوں کو جھٹکنے کی کوشش کی۔
اس نے سر اٹھا کر دائیں بائیں دیکھااکا دکا لوگ پلیٹ فارم پر ٹہل رہے تھے۔
ایک چھوٹی بچی دوڑتی ہوئی اس کے سامنے سے گزری اس کا باپ لپک کر آیا اور اسے بازوئوں میں بھر لیا۔ کیوں بھاگ رہی ہو گڑیا … یہ کھیلنے کی جگہ نہیں گر جائو گی۔
اس نے بچی کے گال کو چومتے ہوئے کہا ۔ پیار سے اسے دونوں بازوئوں میں جھلاتا وہ بینچ پر واپس بیٹھ گیا اور بیوی سے کچھ کہا۔ شاید بچی کا خیال نہ رکھنے پر ڈانٹ رہا ہو۔
روشانہ نے غور سے دیکھ کر سوچا … باپ ایسے ہی ہوتے ہیں … یادیں پھر دوڑی چلی آ رہی تھیں روشانہ کے گال بھیگنے لگے اس نے نظریں ہٹا کر ریلوے ٹریک کو دیکھا ۔ کتنا صابر ہے یہ بھاری بھاری ٹرینیں پیستی کوٹتی چلی آتی ہیں لیکن یہ سمٹا سمٹا یا سا اپنے مقام پر جامد پڑا رہتا ہے جو اگر بغاوت کر دے تو کیسی قیامت ڈھائے ؟
روشانہ کا دل خوف سے لرز گیا … حادثہ … خدا نہ کرے۔
اس نے دور درختوں کی اوٹ سے نکلتے سورج کو دیکھا ۔ سنہری زردی آہستہ آہستہ آسمان پر چھانے لگی تھی۔
بس اب پانچویں ٹرین آنے والی ہے اس نے دیکھا پلیٹ فارم پر مسافروں کی آمد شروع ہو گئی تھی ۔ کوئی مرد سوٹ کیس اٹھائے کوئی عورت بچوں کو تھامے کوئی اپنے بزرگ ماں باپ کو حفاظت اور احتیاط سے لے کر آ رہا تھا … کوئی تنہا لڑکی نہیں تھی …
روشانہ نے اطمینان کی سانس لی پھر یادوں نے گھیرا…اس دن وہ پرویز کے وعدے پر یقین کر کے گھر سے نکلی تھی نئی دنیا بسانے نئے شہر کی طرف ۔ ہاں وہ پیچھے مڑ کر دیکھنا نہیں چاہتی تھی ۔ وہ گھر اب اس کا تو نہ تھا ۔ وہاں تو ایک اجنبی خاندان رہتا تھا جن کے لیے وہ آیا تھی یاکام والی…
یہ ہی سب تو وہ اس وقت سو چ رہی تھی جب اس نے پرویز کے ساتھ پانچویں ٹرین کے پائیدان پر قدم رکھنے کے لیے پلیٹ فارم چھوڑا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو صرف پرویز کو جو اسے سہارا دے کر چڑھنے میں مدد دے رہا تھا۔
روشانہ سے ہینڈ بیگ لے کر اس نے روشانہ کو سیٹ پر بٹھا یا اور خود برابر میں بیٹھ گیا ۔ دونوں نے جیسے سکھ کا سانس لیا ۔ پرویز نے بھی پائوں پھیلائے اور ساتھ گزرتے لڑکے کو بالٹی سے ٹھنڈی بوتل دینے کا اشارہ کیا۔
روشانہ کو فانٹا پسند تھی اسے پتہ تھا ۔ اسے کوک پسند تھی روشانہ کو پتہ تھا ۔ دونوں دھیرے دھیرے ٹھنڈی بوتل کے مزے لینے لگے۔
اگلے کئی گھنٹے دونوں نے دھیرے دھیرے باتوں میں گزار دیے ۔ روشانہ کو نیند کے جھونکے آ رہے تھے ۔ پرویز نے اسے ہر فکر اور پریشانی کو پرے پھینک کر مزے سے سونے کااشارہ کیا۔
بس اب کوئی فکرنہ کرو میں ہوں…سچ مچ روشانہ کی آنکھ لگ گئی ۔ کتنی دیر لگی اسے اندازہ نہ ہؤا جب آنکھ کھولی تو اس نے دیکھا برابر میں پرویز نہیں ہے ۔ ذرا سا اٹھ کر ادھر اُدھر دیکھا کہیں نظر نہ آیا ۔
پتہ نہیں کہاں گیا ؟ شاید کچھ کھانے کے لیے لینے گیا ہو اسے بھوک بھی لگ رہی تھی۔
کچھ دیر اور گزری تو اس نے سامنے والے بابا جی سے پوچھا … یہ نیلی قمیص والے میرے ساتھ تھے یہاں بیٹھے تھے کہاں گئے ہیں؟
انہوں نے کہا وہ تو پچھلے اسٹیشن پر اتر گئے تھے ایک گھنٹے پہلے …
روشانہ کے دل کی دھڑکن جیسے رک سی گئی وہ سیٹ پر گر گئی ۔ اس نے بابا جی کی طرف ایک اچٹتی نظر ڈالی وہ حیرانی سے اسے دیکھ رہے تھے ۔ اس نے منہ کھڑکی کی طرف موڑ لیا … اوسان تو خطا تھے … لیکن ابھی تک وہ معاملے کی سنگینی کو نہ سمجھ پائی تھی۔
پرویز ضرور ناشتہ لینے اترا ہو گا ۔ ابھی آجائے گا اس کے نادان دل نے جھوٹی تسلی دی … شاید یہ سچ ہو اس کے دماغ نے کہا … لیکن نہیں … ابھی ایک مسئلہ اور تھا … روشانہ کا ہینڈ بیگ بھی غائب تھا ۔ جسے آخری دفعہ اس نے پرویز کی گود میں دیکھا تھا ۔ چھوٹا پرس اس کے کندھے سے اٹکا اور پہلو میں دبا تھا ۔
روشانہ نے پرس کو تھپتھپایا … اس نے موبائل نکال کر پرویز کو کال کی … کئی گھنٹیوں کے بعد جسے کاٹ دیا گیا … ایک دفعہ اور کال کرنے پر پاور آف کی ٹیون بچنے لگی۔
اوہ خدایا … یہ کیا ہؤا؟ پرویز فراڈ تھا …وہ میرا ہینڈ بیگ لے کر نکل گیا۔
اس قدر ہولناک صورت حال میں روشانہ کی ہنسی نکل گئی ۔وہ سمجھ رہا تھا اتنے برسوں میں میں نے خوب مال بنا یا ہے اور میرے پاس زیور وغیرہ ہوں گے …
وہ دوبار ہ مسکرائی اس کے پاس تھوڑے بہت جو پیسے تھے وہ تو اس کے پرس میں تھے ۔ اس نے پر س کو مضبوطی سے اپنے ہاتھوں میں جکڑا … بس اب یہ ہی تو پونجی ہے ۔ فکر پریشانی میں کتنے گھنٹے گزرے اسے کچھ پتہ نہ چلا ۔ ٹرین ذرا سی ہلکی ہوئی پلیٹ فارم سے پہلے بوڈ پر لکھا نام دیکھ کر وہ سیدھی بیٹھ گئی ۔ انہیں یہیں تو اترنا تھا اور وہ یہیں اترے گی اس نے دل میں پکا ارادہ کیا ۔ اسٹیشن پر اتر کر وہ بینچ پر بیٹھ گئی۔
مسافر اترے او رچڑھے … پھر اترے اور چڑھے … وہ بیٹھی دیکھتی رہی۔
اسٹال پر سامنے ایک دبلا پتلا لڑکانما مرد کھڑا تھا … اخبارات اور رسالوں کے بنڈل کو باندھ رہا تھا ۔
اچھی عمر ہوگی شاید بتیس پینتیس اس نے اندازہ لگایا۔
روشانہ سوچ رہی تھی اشارے سے بلائے یا پاس جائے آخر فیصلہ کرکے پاس جانے کا سوچا۔
بینچ سے اٹھ کر اس کے پاس گئی … اور بولی تمہاری ماں ہے گھر پر … مجھے اس سے ملنا ہے لڑکے نے ایک نظر اس کو دیکھا ، تسلی سے بنڈل میں مضبوط گرہ لگائی اور سر ہاں میں ہلا دیا۔ بنڈل اٹھا کر وہ آگے آگے اور روشانہ اس کے پیچھے ۔گھر میں ماں بستر پر تھی سینے تک چادر اوڑھے …
آپ یہاں بیٹھیں میں چائے بناتا ہوں۔
وہ ابھیتک اسے اپنی ماں کی کوئی جاننے والی سمجھ رہا تھا۔
روشانہ ذرا اعتماد سے صوفے پر بیٹھ گئی۔
چھوٹا سا کمرہ دوسرے صوفے پر کپڑوں کا ڈھیر چھوٹی تپائی پر دوائوں کے ساتھ گلاس جگ اور ایک پلیٹ میں کچھ ڈھکا ہؤا رکھا تھا۔
کھڑکیوں پر پردے بستر کی چادر تکیہ پائنتی میں پڑا تو لیہ سب چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ گھر کسی عورت کو ترس رہا ہے۔
بس وہ عورت میں ہوں … پھر سچ میں روشانہ وہ عورت بن گئی ۔ ماں کو فالج تھا اور گھر بد سلیقہ … ماں کی ابرو کے اشارے کو اجازت مان کر وہ لڑکا روشانہ کو اپنانے کو تیار تھا روشانہ نے پورا قصہ سچائی سے سنا دیا تھا۔
سچائی اپنی گواہی خود دیتی ہے … اور اس نے گواہی دی … کوئی زخم نہ دیا ۔ روشانہ خوش تھی اسے ایک ٹھکانہ مل گیا تھا اور ماں بیٹا کو گھر کا سکھ…
اس نے کبھی پلٹ کر کچھ یاد نہ کیا … بس ہر ماہ کی آٹھ تاریخ کو وہ اسٹیشن ضرور جاتی اور پانچویں ٹرین کا انتظار کرتی … کسی روشانہ کے انتظار میں بینچ پر بیٹھتی … کبھی کبھی اس کا انتظار بار آور بھی ہوتا … کئی روشانوں کو اس نے سہارا دیا … راستہ دکھایا … سمجھایا…
چلو روشی…
وہ سڑک پر اپنا بزنس لپیٹ کر اُسے لینے آگیا تھا ۔ اخبارات کا بنڈل ہلکا تھا لہٰذا بغل میں دبا تھا … اس نے دوسرا ہاتھ روشانہ کی طرف بڑھایا … ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے وہ اسٹیشن کے گیٹ سے باہر نکل گئے ۔

٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x